Non Stop Infotainment By Cyber City Online!
چیف جسٹس ہاؤس سے نئے نئے کرائے کے گھر میں شفٹ ہونے والے جسٹس افتخار چوہدری سے ملکر نکلا تو گھڑی رات کا ایک بجا رہی تھی۔تین گھنٹے ایسے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا ۔جسٹس چوہدری سے ان گنت ملاقاتیں اور ہر موضوع پر باتیں ہوچکیں ۔مگر آج کی نشست نہ صرف مکمل آف دی ریکارڈ نکلی بلکہ بہت ہی اداس کر دینے والی ثابت بھی ہوئی ۔شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ آج میرے ایک پسندیدہ افتخار چوہدری میری دوسری پسندیدہ شخصیت عمران خان کے بارے میں کھل کر بولے اور دلائل کے ساتھ بولے ۔میٹرو پروجیکٹ کے زخموں سے چور چور اسلام آباد کی سنسان سٹرک پر گاڑی چلاتے ہوئے مجھے بار بار ارشادِ باری تعالیٰ یاد آرہا تھا کہ ’’یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور’’ ہم لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں ‘‘۔پھر سوچ کا رخ اُس عمران خان کی طرف مڑا جو اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود مجھے اس لیئے پسند ہے کہ وہ بہادر ہے ،فائٹر ہے ۔ محب وطن ہے اور وہ اس ملک اور قوم کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہے ۔مگر آج افتخار چوہدری پر تنقید کرتے ہوئے نجانے عمران کیوں بھول رہا ہے کہ وہ تبدیلی جو آرہی ہے یا آچکی ہے اس کی بنیاد جسٹس چوہدری کی ایک ’’ناں ‘‘ نے رکھی تھی۔آج جس شعور کو عمران خان نے گھر گھر پہنچا دیا ہے اس کاآغاز جسٹس چوہدری کا وہ کارواں بنا کہ جس میں ’’ریاست ہوگی ماں جیسی ‘‘ ترانے گونجا کرتے تھے۔اور اگر افتخار چوہدری پر لگنے والے سارے الزامات کو سچ مان بھی لیا جائے ،تب بھی ان کے بہت سارے فیصلے اور ڈھیر سارا کام پھر بھی ایسا باقی بچ جا تاہے کہ جو نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی ،مگر ان باتوں سے ہمیں کیا واسطہ ،ہم ایسی باتوں پر بھلا کب توجہ دیتے ہیں ۔ہم نے گزشتہ 67برسوں میں کس کو تعظیم کے قابل چھوڑا۔کون ہے کہ جس کی پگڑی نہیں اچھالی اور کس کو اس طرح رہنے دیا کہ وہ سر اٹھا کر چل سکے ۔ہم مزاجاً سورج مکھی ہوچکے ،ہمارے دل حسین ؑ کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہماری تلواریں یزید کی حمایت میں نکلتی ہیں ۔ہمارے ہاں عزت کروانے کیلئے مرنا ضروری ہے ۔جیتے جی جن کو ہم نے ہمیشہ ٹھوکروں کی زدمیں رکھا ،مرنے کے بعد انہی کی قبریں مزار بنادیں ۔زندگی میں جن کو کبھی ہم منہ لگانا پسند نہیں کرتے ،مرنے کے بعد ان کی طرف پیٹھ کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ایک ہندو سکالر (نام ذہن میں نہیں آرہا )نے کیا خوب کہا کہ ’’اب ہندؤں اور مسلمانوں میں بس اتنا سافرق رہ گیا ہے کہ ہندو کھڑے اور بیٹھے بھگوانوں کو پوجتے ہیں جبکہ مسلمان لیٹے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے ہیں‘‘ ۔ جسٹس افتخار سے میری ملاقاتوں کا نوے فیصد آف دی ریکارڈ ہے ۔وہ ابھی ان باتوں کو عیاں نہیں کرنا چاہتے ۔اُنہوں نے کتاب لکھنا شروع کر دی ہے ۔وہ تھنک ٹینک بنانے اور اپنی لیگل فرم قائم کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔وہ برملا کہتے ہیں کہ عدلیہ کو پبلک انٹرسٹ میں مزید ایکٹو ہونے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے فیصلوں پر آج بھی خوشی اور اطمینان محسوس کرتے ہیں ۔ اُنہیں اپنے ناقدین سے کوئی گلہ نہیں ، وہ اپنے بیٹے ارسلان کو بے گناہ سمجھتے ہیں ۔مشکل وقت میں اپنے ساتھیوں ،وکلاء اور سول سوسائٹی کے ساتھ پر آج بھی وہ ان سب کے شکر گزار ہیں ۔انہیں مکمل یقین ہے کہ اسلام آباد کی ایف ایٹ کچری میں ہونے والا خود کش دھماکہ انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے کیا گیا تھا ۔جس میں وہ نماز مغرب گھر میں پڑھنے کی وجہ سے بچ گئے ۔وہ نظر بندی کے دوران اپنے بیمار چھوٹے بیٹے کو دوائیاں نہ پہنچا سکنے کا سوچ کر آج بھی غمزدہ ہو جاتے ہیں اور وہ آج بھی مشکل لمحوں میں اپنی اہلیہ کے حوصلے کی داد دیتے نہیں تھکتے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہفتہ بھر پہلے ایک شام جب سورج مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے تقریباً چھپ چکا ہے میں نے موڈ اچھا دیکھ کر جسٹس چوہدری کو ان کی صدر مشرف سے اُس آخری مشہور ومعروف ملاقات کے حوالے سے کریدا ’’سپریم کورٹ سے آرمی ہاؤس جاتے ہوئے آپ کو معلوم تھا کہ آج کی میٹنگ میں کچھ خاص ہونے والا ہے یا کچھ مختلف ہو سکتا ہے ،نہیں بالکل نہیں ۔خلاف توقع اس موضوع پر جس جسٹس چوہدری نے بولنا شروع کر دیا۔مجھے بالکل علم نہیں تھا میں بحیثیت ِ چیف جسٹس چند سرکاری معاملات کیلئے صدر مملکت کے پاس جار ہا تھا ۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے یا کیا ہونے والا ہے پھر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آج کچھ گڑ بڑ ہے ۔میں نے دوسرا سوال کیا ۔میں جب بھی صدر مشرف سے ملنے جاتا میری ٹائمنگ ایسی ہوتی تھی کہ جو نہی میں وہاں پہنچتا ،مجھے صدر صاحب کا سٹاف ریسو کرتا اور پھر سیدھا ان کے دفتر لے جایا جاتا جہاں وہ پہلے سے ہی میرا انتظار کر رہے ہوتے ۔مگر اس روز مجھے پہلی حیرانگی اس وقت ہوئی جب مجھے ریسو کر کے مہمان خانہ میں لے جا کر کہا گیا آپ تشریف رکھیں۔صدر صاحب ابھی مصروف ہیں ۔فارغ ہو کر ملیں گے ۔ اور پھر تقریباً 10منٹ بعد میں دوسری مرتبہ اس وقت حیران رہ گیا جب صدر مشرف پاؤں کی ٹھوکر سے مہمان خانہ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے ۔سنا ہے کہ وہاں پر موجود جنر ل کیانی کے اشارے کے بعد آپ نے مستعفی ہونے سے انکار کیا اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میجر جنرل ندیم اعجاز نے آپ سے بدتمیزی یا بدکلامی بھی کی تھی ۔میرے اس سوال پر ایک کڑکدار قہقہہ مار کر افتخار چوہدری بولے ،جنرل کیانی پوری میٹنگ میں خاموش رہے ،اُنہوں نے مجھے کوئی اشارہ نہیں کیا تھا ۔اور نہ ہی ندیم اعجاز نے مجھ سے کوئی بدتمیزی یا بدکلامی کی ۔بلکہ یہ ندیم اعجاز ہی تھے جو مجھے الوادع کہنے کارپورچ تک آئے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ’’ سوری سر مجھے علم ہے کہ یہ کوئی اچھا وقت نہیں ہے ‘‘۔جسٹس چوہدری اور صدر مشرف کی میٹنگ میں کیا کچھ ہوا ،صدر مشرف نے کیا کہا ۔میٹنگ کے بعد کئی گھنٹوں سے اکیلے مہمان خانے میں بیٹھے افتخار چوہدری جب بھی وہاں سے جا نے کی کوشش کرتے تو کیا ہو تا تھا، ا ن کی گا ڑ ی کا جھنڈا کب ا تارا گیا ، ا ن کے سٹا ف آفیسر سے موبائل کس نے لے لیا ۔ ا ن کے ڈ ر ا ئیو ر کی آنکھو ں میں آ نسو کیو ں آ ئے اُ نہیں کس طر ح ز بر د ستی سپریم کو ر ٹ کی بجا ئے گھر بھجو ا د یا گیا ا ور پھر اس کے بعد کیا کیا ہو تا ر ہا ۔ یہ کہا نی جلد ہی آنے وا لی ہے ۔ مگر آج میں گھر و ا پس آتے ہو ئے سو چ ر ہا تھا کہ کل تک وہی ا فتخا ر چو ہد ر ی جن پر ا یک خلقت و ا ر ی و ا ر ی جا ر ہی تھی، د نیا کو جن کی ا یک ’’نا ں‘‘ سے جمہو ر یت کے چشمے پھو ٹتے نظر آ تے تھے ، و ہی ا فتخا ر چو ہد ر ی کہ جن کیلئے ایک جہان نعر ہ زن تھا کہ ’’ چیف تیر ے جا نثا ر۔ بے شما ربے شما ر ‘‘ جن کی آ وا ز غر یب ا ور محر و م طبقے کی طا قت بن چکی تھی، جن کے فیصلے بو لا کر تے تھے ، جن کے سو مو ٹوعو ا می ا منگو ں کا ر و پ دھا رچکے تھے ، ا و ر جو اُ س طبقے کے لیے خو ف کی علا مت بنے کہ جو ہر قا نو ن سے با لا ترتھا ۔ آج اُسی ا فتخا ر چوہدر ی پر امین فہیم ا و ر چوہدری شجا عت جیسے بھی تنقید کر ر ہے ہیں۔ وقت و قت کی با ت ہے ۔ میر ے ذہن میں ا ر شا دِ با ر ی تعا لیٰ پھر سے گو نج ا ٹھا ’’ یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے ‘‘اور’’ ہم لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں‘‘ ۔
چیف جسٹس ہاؤس سے نئے نئے کرائے کے گھر میں شفٹ ہونے والے جسٹس افتخار چوہدری سے ملکر نکلا تو گھڑی رات کا ایک بجا رہی تھی۔تین گھنٹے ایسے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا ۔جسٹس چوہدری سے ان گنت ملاقاتیں اور ہر موضوع پر باتیں ہوچکیں ۔مگر آج کی نشست نہ صرف مکمل آف دی ریکارڈ نکلی بلکہ بہت ہی اداس کر دینے والی ثابت بھی ہوئی ۔شائد اس کی وجہ یہ تھی کہ آج میرے ایک پسندیدہ افتخار چوہدری میری دوسری پسندیدہ شخصیت عمران خان کے بارے میں کھل کر بولے اور دلائل کے ساتھ بولے ۔میٹرو پروجیکٹ کے زخموں سے چور چور اسلام آباد کی سنسان سٹرک پر گاڑی چلاتے ہوئے مجھے بار بار ارشادِ باری تعالیٰ یاد آرہا تھا کہ ’’یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور’’ ہم لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں ‘‘۔پھر سوچ کا رخ اُس عمران خان کی طرف مڑا جو اپنی تمام تر بشری کمزوریوں کے باوجود مجھے اس لیئے پسند ہے کہ وہ بہادر ہے ،فائٹر ہے ۔ محب وطن ہے اور وہ اس ملک اور قوم کیلئے کچھ کرنا چاہتا ہے ۔مگر آج افتخار چوہدری پر تنقید کرتے ہوئے نجانے عمران کیوں بھول رہا ہے کہ وہ تبدیلی جو آرہی ہے یا آچکی ہے اس کی بنیاد جسٹس چوہدری کی ایک ’’ناں ‘‘ نے رکھی تھی۔آج جس شعور کو عمران خان نے گھر گھر پہنچا دیا ہے اس کاآغاز جسٹس چوہدری کا وہ کارواں بنا کہ جس میں ’’ریاست ہوگی ماں جیسی ‘‘ ترانے گونجا کرتے تھے۔اور اگر افتخار چوہدری پر لگنے والے سارے الزامات کو سچ مان بھی لیا جائے ،تب بھی ان کے بہت سارے فیصلے اور ڈھیر سارا کام پھر بھی ایسا باقی بچ جا تاہے کہ جو نہ صرف قابلِ تعریف ہے بلکہ قابلِ تقلید بھی ،مگر ان باتوں سے ہمیں کیا واسطہ ،ہم ایسی باتوں پر بھلا کب توجہ دیتے ہیں ۔ہم نے گزشتہ 67برسوں میں کس کو تعظیم کے قابل چھوڑا۔کون ہے کہ جس کی پگڑی نہیں اچھالی اور کس کو اس طرح رہنے دیا کہ وہ سر اٹھا کر چل سکے ۔ہم مزاجاً سورج مکھی ہوچکے ،ہمارے دل حسین ؑ کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور ہماری تلواریں یزید کی حمایت میں نکلتی ہیں ۔ہمارے ہاں عزت کروانے کیلئے مرنا ضروری ہے ۔جیتے جی جن کو ہم نے ہمیشہ ٹھوکروں کی زدمیں رکھا ،مرنے کے بعد انہی کی قبریں مزار بنادیں ۔زندگی میں جن کو کبھی ہم منہ لگانا پسند نہیں کرتے ،مرنے کے بعد ان کی طرف پیٹھ کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ایک ہندو سکالر (نام ذہن میں نہیں آرہا )نے کیا خوب کہا کہ ’’اب ہندؤں اور مسلمانوں میں بس اتنا سافرق رہ گیا ہے کہ ہندو کھڑے اور بیٹھے بھگوانوں کو پوجتے ہیں جبکہ مسلمان لیٹے ہوئے بتوں کی عبادت کرتے ہیں‘‘ ۔ جسٹس افتخار سے میری ملاقاتوں کا نوے فیصد آف دی ریکارڈ ہے ۔وہ ابھی ان باتوں کو عیاں نہیں کرنا چاہتے ۔اُنہوں نے کتاب لکھنا شروع کر دی ہے ۔وہ تھنک ٹینک بنانے اور اپنی لیگل فرم قائم کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔وہ برملا کہتے ہیں کہ عدلیہ کو پبلک انٹرسٹ میں مزید ایکٹو ہونے کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے فیصلوں پر آج بھی خوشی اور اطمینان محسوس کرتے ہیں ۔ اُنہیں اپنے ناقدین سے کوئی گلہ نہیں ، وہ اپنے بیٹے ارسلان کو بے گناہ سمجھتے ہیں ۔مشکل وقت میں اپنے ساتھیوں ،وکلاء اور سول سوسائٹی کے ساتھ پر آج بھی وہ ان سب کے شکر گزار ہیں ۔انہیں مکمل یقین ہے کہ اسلام آباد کی ایف ایٹ کچری میں ہونے والا خود کش دھماکہ انہیں راستے سے ہٹانے کیلئے کیا گیا تھا ۔جس میں وہ نماز مغرب گھر میں پڑھنے کی وجہ سے بچ گئے ۔وہ نظر بندی کے دوران اپنے بیمار چھوٹے بیٹے کو دوائیاں نہ پہنچا سکنے کا سوچ کر آج بھی غمزدہ ہو جاتے ہیں اور وہ آج بھی مشکل لمحوں میں اپنی اہلیہ کے حوصلے کی داد دیتے نہیں تھکتے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہفتہ بھر پہلے ایک شام جب سورج مارگلہ کی پہاڑیوں کے پیچھے تقریباً چھپ چکا ہے میں نے موڈ اچھا دیکھ کر جسٹس چوہدری کو ان کی صدر مشرف سے اُس آخری مشہور ومعروف ملاقات کے حوالے سے کریدا ’’سپریم کورٹ سے آرمی ہاؤس جاتے ہوئے آپ کو معلوم تھا کہ آج کی میٹنگ میں کچھ خاص ہونے والا ہے یا کچھ مختلف ہو سکتا ہے ،نہیں بالکل نہیں ۔خلاف توقع اس موضوع پر جس جسٹس چوہدری نے بولنا شروع کر دیا۔مجھے بالکل علم نہیں تھا میں بحیثیت ِ چیف جسٹس چند سرکاری معاملات کیلئے صدر مملکت کے پاس جار ہا تھا ۔مجھے نہیں پتہ تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے یا کیا ہونے والا ہے پھر آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آج کچھ گڑ بڑ ہے ۔میں نے دوسرا سوال کیا ۔میں جب بھی صدر مشرف سے ملنے جاتا میری ٹائمنگ ایسی ہوتی تھی کہ جو نہی میں وہاں پہنچتا ،مجھے صدر صاحب کا سٹاف ریسو کرتا اور پھر سیدھا ان کے دفتر لے جایا جاتا جہاں وہ پہلے سے ہی میرا انتظار کر رہے ہوتے ۔مگر اس روز مجھے پہلی حیرانگی اس وقت ہوئی جب مجھے ریسو کر کے مہمان خانہ میں لے جا کر کہا گیا آپ تشریف رکھیں۔صدر صاحب ابھی مصروف ہیں ۔فارغ ہو کر ملیں گے ۔ اور پھر تقریباً 10منٹ بعد میں دوسری مرتبہ اس وقت حیران رہ گیا جب صدر مشرف پاؤں کی ٹھوکر سے مہمان خانہ کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے ۔سنا ہے کہ وہاں پر موجود جنر ل کیانی کے اشارے کے بعد آپ نے مستعفی ہونے سے انکار کیا اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ میجر جنرل ندیم اعجاز نے آپ سے بدتمیزی یا بدکلامی بھی کی تھی ۔میرے اس سوال پر ایک کڑکدار قہقہہ مار کر افتخار چوہدری بولے ،جنرل کیانی پوری میٹنگ میں خاموش رہے ،اُنہوں نے مجھے کوئی اشارہ نہیں کیا تھا ۔اور نہ ہی ندیم اعجاز نے مجھ سے کوئی بدتمیزی یا بدکلامی کی ۔بلکہ یہ ندیم اعجاز ہی تھے جو مجھے الوادع کہنے کارپورچ تک آئے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ’’ سوری سر مجھے علم ہے کہ یہ کوئی اچھا وقت نہیں ہے ‘‘۔جسٹس چوہدری اور صدر مشرف کی میٹنگ میں کیا کچھ ہوا ،صدر مشرف نے کیا کہا ۔میٹنگ کے بعد کئی گھنٹوں سے اکیلے مہمان خانے میں بیٹھے افتخار چوہدری جب بھی وہاں سے جا نے کی کوشش کرتے تو کیا ہو تا تھا، ا ن کی گا ڑ ی کا جھنڈا کب ا تارا گیا ، ا ن کے سٹا ف آفیسر سے موبائل کس نے لے لیا ۔ ا ن کے ڈ ر ا ئیو ر کی آنکھو ں میں آ نسو کیو ں آ ئے اُ نہیں کس طر ح ز بر د ستی سپریم کو ر ٹ کی بجا ئے گھر بھجو ا د یا گیا ا ور پھر اس کے بعد کیا کیا ہو تا ر ہا ۔ یہ کہا نی جلد ہی آنے وا لی ہے ۔ مگر آج میں گھر و ا پس آتے ہو ئے سو چ ر ہا تھا کہ کل تک وہی ا فتخا ر چو ہد ر ی جن پر ا یک خلقت و ا ر ی و ا ر ی جا ر ہی تھی، د نیا کو جن کی ا یک ’’نا ں‘‘ سے جمہو ر یت کے چشمے پھو ٹتے نظر آ تے تھے ، و ہی ا فتخا ر چو ہد ر ی کہ جن کیلئے ایک جہان نعر ہ زن تھا کہ ’’ چیف تیر ے جا نثا ر۔ بے شما ربے شما ر ‘‘ جن کی آ وا ز غر یب ا ور محر و م طبقے کی طا قت بن چکی تھی، جن کے فیصلے بو لا کر تے تھے ، جن کے سو مو ٹوعو ا می ا منگو ں کا ر و پ دھا رچکے تھے ، ا و ر جو اُ س طبقے کے لیے خو ف کی علا مت بنے کہ جو ہر قا نو ن سے با لا ترتھا ۔ آج اُسی ا فتخا ر چوہدر ی پر امین فہیم ا و ر چوہدری شجا عت جیسے بھی تنقید کر ر ہے ہیں۔ وقت و قت کی با ت ہے ۔ میر ے ذہن میں ا ر شا دِ با ر ی تعا لیٰ پھر سے گو نج ا ٹھا ’’ یہ دنیا دھوکے کا گھر ہے ‘‘اور’’ ہم لوگوں کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں‘‘ ۔