11ستمبر 1948۔ زیارت سے کوئٹہ اور پھر کراچی۔ قائداعظم کے وائی کنگ طیارے نے جب سہ پہر سوا چار بجے ماڑی پور ائیر بیس پر لینڈ کیا تو ملٹری سیکرٹری کرنل نولز ایمبولینس لیئے انتظار میں کھڑے تھے ۔ بیمار جناح کو ایمبولینس میں شفٹ کیا گیا ۔محترمہ فاطمہ جناح بتاتی ہیں کہ ’’ابھی ہم نے چار پانچ میل کا فاصلہ ہی طے کیاتھا کہ اچانک ایک جھٹکا لگا اور ایمبولینس رک گئی ۔ مجھے بتایا گیا کہ پٹرول ختم ہو گیا ہے جبکہ میں نے دیکھا کہ ڈرائیور انجن ٹھیک کرنے میں لگا ہوا تھا ۔ گرمی ایسی تھی کہ سانس لینا مشکل ہو رہا تھا،قریب ہی گندے پانی سے بدبو آرہی تھی جبکہ چاروں طرف مکھیوں کی بھرمار تھی اور پھر پل بھر میں سینکڑوں مکھیاں قائد کے جسم پر منڈلانے لگیں مگر ان میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ خود سے ان کو اڑا سکیں ۔قائد کے معالج کرنل الہی بخش لکھتے ہیں کہ ’’ میں اپنی کار سے نکل کر آیا تو مجھے کہا گیا کہ انجن میں خرابی کے باعث ایمبولینس کا بریک ڈاؤن ہوگیا ہے ۔سسٹر ڈنہم کہتی ہیں کہ ’’ گندے گتے کے ایک ٹکڑے سے جناح صاحب کے جسم سے مکھیاں اڑاتے ہوئے میرا اور مِس جناح کا دوسری ایمبولینس کے انتظار میں ایک ایک منٹ اذیت میں گذر رہا تھا ۔قائد کو کار میں بھی منتقل نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ کوئی کار اتنی بڑی نہیں تھی کہ اس میں اسٹریچر آجاتا ‘‘۔ ائیر مارشل اصغر خان نے اپنی کتاب میں لکھا ’’ ماڑی پور سے شہر کی طرف آتے ہوئے میں نے مہاجرین کی جھونپڑیوں کے نزدیک گندے پانی کے جوہڑوں کے پاس ایک فوجی ایمبولینس اور دو تین چھوٹی گاڑیاں کھڑی دیکھیں تو میں نے گاڑی روکی تاکہ پتا کر سکوں کہ یہ کون لوگ ہیں اور ان کو میری مدد کی ضرورت تو نہیں مگر مجھے حکم مِلا کہ آپ اپنا سفر جاری رکھیں اور میں وہاں سے چلا گیا‘‘ ۔قائد کو کوئٹہ سے کراچی آنے میں دو گھنٹے لگے جبکہ ماڑی پور ائیر بیس سے چار پانچ میل کے بعد رکے ہوئے اب تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ ہو گیا تھا ۔فوجی بار برداری کیلئے استعمال ہونے والی اس ایمبولینس میں بالآخر قائد کا وقتِ آخر آن پہنچا، جناح صاحب نے سر کے اشارے سے محترمہ فاطمہ جناح کو پاس بلایا۔مِس جناح قریب آئیں تو قائد سرگوشی کے انداز میں بولے ’’فاطمہ ۔۔۔۔خدا ۔۔۔۔حافظ اور جب ان کی آنکھیں بندہونے لگیں تو فاطمہ جناح چلاتی ہوئی ڈاکٹر کی طرف بھاگیں ’’ڈاکٹر میرا بھائی رخصت ہو رہا ہے ‘‘مگر کرنل الہی بخش کے طبعی معائنے تک وہ خالقِ حقیقی سے جاملے ۔کاش قائد اعظم چند سال اور زندہ رہ جاتے ! قائد ملت لیاقت علی خان 16اکتوبر 1951ء کی صبح ماڑی پور ائیر بیس سے راولپنڈی روانہ ہوئے اور اپنی دیگر مصروفیات کے بعد سہ پہر 3بجکر 45منٹ پر جلسہ گاہ آئے ۔تقریباً 40ہزار کے مجمعے میں لیگی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان نے مائیک پر آکر ابھی ’’برادران ملت‘‘ کے الفاظ ہی ادا کیئے تھے کہ پستول کے دوفائر سنائی دیئے ۔ پہلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر کی پہلی گولی وزیراعظم لیاقت علی خان کے سینے او ردوسری پیٹ میں لگی،انہیں شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لایا گیا تو وزیر برائے امورِ کشمیر نواب مشتاق گورمانی جو اسی وقت جلسہ گاہ میں داخل ہو رہے تھے ، اُنہی کی گاڑی میں لیاقت علی خان کو ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا ۔جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کر گئے ۔کاش لیاقت علی خان قتل نہ ہوتے ۔ جنرل موسیٰ ریٹائر ہوئے تو کمانڈر انچیف کیلئے فیلڈ مارشل ایوب کے ذہن میں میجر جنرل یحییٰ ، میجر جنرل عبدالحمید اور میجر جنرل محمد سرفرازکے نام تھے ۔خاموش طبع جنرل عبدالحمید کو سٹاف ورک اور کمان میں دوسروں پر فوقیت تھی ۔ جنرل یحییٰ خان جو دوسری جنگِ عظیم میں گرفتار بھی ہوئے ۔ انہیں منصوبہ بندی میں مہارت حاصل تھی ۔ ایوب خان کہا کرتے یحییٰ خود سے تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے البتہ انہیں جو ذمہ داری دی جائے اسے وہ بہت اچھی طرح نبھا سکتے ہیں ۔میجر جنرل سرفراز خالصتاً فوجی ذہن کے انسان تھے ۔لیکن حیرت انگیز طور پر قرعہ فال جنرل یحییٰ کے نام نکلا اور وہ کمانڈر انچیف بن گئے ۔کاش یحییٰ خان کو کمانڈر انچیف نہ بنایا جاتا ! جنرل نصیر اللہ بابرنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ بھٹو نے 6سینئر جنرنیلوں کو نظر انداز کر کے ضیاء الحق کو اس لیئے آرمی چیف بنایا کیونکہ جنرل مجید ملک انٹرنیشنل ہوٹل سکینڈل کی وجہ سے رہ گئے ، جنرل شریف کا ذہن سیاسی تھا اور وہ جنرل ایوب کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے ۔آئی ایس آئی چیف جنرل جیلانی کوفوجی کمانڈکا کوئی تجربہ نہ تھا ۔جنرل اکبر خان 1971ء میں جب جی او سی 12ڈویژن تھے تو ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں تھی جبکہ وزیراعظم بھٹو کے خیال میں ضیاء الحق کی جنرل آفتاب اور جنرل اے بی اعوان سے فوجی سروس بہت بہتر تھی ۔لہذا جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنا دیا گیا ۔کاش جنرل ضیاء آرمی چیف نہ بن پاتے ! جب بھٹونے نیشنلا ئزیشن کی تو میاں برادران کے والد میاں شریف کا خاندانی لوہے کا کاروبار بھی اس کی زد میں آگیا اور ان سے اکلوتی فیکٹری اتفاق فونڈری چھن گئی ،یہی وہ لمحے تھے کہ جب جہاندیدہ میاں شریف مرحوم نے کاروبار کے تحفظ کیلئے طاقت کے حصول کا سوچا اور پھر میاں نوا ز شریف کی کورکمانڈر لاہور جنرل اقبال سے دوستی کام آئی، بریگیڈئیر قیوم پل بنے اور میاں صاحب کی ضیاء الحق کے دست راست گورنر پنجاب جنرل (ر)غلام جیلانی سے علیک سلیک ہوگئی ۔ جنرل جیلانی کو ان دنوں سیاست میں نئے چہروں کی تلاش تھی جبکہ میاں فیملی کوایک چانس چاہیے تھا ۔ لہذا جب 35سال کی عمر میں نواز شریف پنجاب کے وزیر مالیات بنے توطاقت کا یہ سفر شروع ہو گیا ا ور جب میاں صاحب ضیاء الحق کی نظروں میںآئے تو پھراُنہوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور آخر کار وہ وزارتِ اعلیٰ سے وزراتِ عظمیٰ تک جاپہنچے ۔ کاش میاں نوازشریف سیاست میں نہ آتے ! صدر پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’’میں کور کمانڈر منگلہ تھا اور میری سروس کے آخری چند ہفتے رہ گئے تھے ۔سامان کی پیکنگ کرتے ہوئے میں نے دل ہی دل میں اس بات کو قبول کر لیا تھا کہ میں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے سے ہی ریٹائرہو جاؤں گا ۔ایک روز میں نے صہبا (بیگم) سے بھی کہہ دیا تھا کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے اس مقام پر پہنچایا ‘‘ مگر ایکدن جنرل کرامت کے ایک اخباری بیان کی وجہ سے میاں صاحب اپنے آرمی چیف سے ناراض ہوئے، جنرل جہانگیر کرامت نے استعفیٰ دیاتو اُسی شام وزیراعظم ہاؤس سے پرویز مشرف کو ٹیلی فون کال آئی۔وہ وزیراعظم ہاؤس پہنچے اوروزیراعظم نواز شریف نے سنیئر جنرل علی قلی خان کی بجائے انہیں آرمی چیف بنادیا۔کاش وزیراعظم نواز شریف جنرل جہانگیر کرامت کا استعفیٰ منظور نہ کرتے ! بینظیر بھٹو لیاقت باغ جلسے کے بعد واپس روانہ ہوئیں تو سینکڑوں لوگوں نے ان کی گاڑی کو گھیرے میں لے لیا۔ اپنی بلٹ پروف گاڑی کی چھت سے نمودار ہو کر نعرہ زن لوگوں کا ہاتھ ہلا ہلا کر جواب دینے میں مصروف بی بی ایک نامعلوم گولی کا نشانہ بن کر 54سال 6ماہ 6دن کی عمرمیں 27دسمبر 2007ء کو جمعرات کی شام 5بجکر 10منٹ پر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔4سال 9ماہ حکومت کرنے والی بینظیر بھٹو کے والد کو 4اپریل 1979ء کو راولپنڈی میں ہی پھانسی دی گئی اور 28سال بعد بی بی بھی راولپنڈی میں ہی جاں بحق ہوئیں۔کاش بی بی بچ جاتیں ! قارئین کرام !قائداعظم چند سال اور زندہ رہ جاتے تو مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ ناانصافی نہ ہوتی ، دونوں طرف نفرت کی بنیاد نہ پڑتی اور یقیناًمقبوضہ کشمیر کی صورتحال بھی کچھ اور ہوتی ، لیاقت علی خان کو چند سال اور مِل جاتے تو ملک مفلوج گورنر جنرل غلام محمد سے صدر سکندر مرزا تک سازشوں اور مفاداتی گھمن گھیریوں سے محفوظ ہوجا تا ۔یحییٰ خان پروموٹ نہ ہوتے تو 71ء کی جنگ کا نتیجہ مختلف ہوتا اور شائد مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا ،ضیا ء الحق کی لاٹری نہ نکلتی تو بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی اور قوم ضیائی تحائف سے بھی محفوظ رہتی ،نواز شریف سیاست میں نہ آتے تو سیاست میں پیسے ، سیاسی انتقامی کاروائیوں اور باریوں کا اقتداری کھیل نہ کھیلا جاتا اور مشرف کا مارشل لاء بھی نہ لگتا اور اگر بی بی بچ جاتیں تو ہم زرداری صاحب سے بچ جاتے ۔یہ میرے وہ دکھ ،وہ حسرتیں اور وہ 6کاش ہیں جو کاش نہ ہوتے ، کچھ کاش یقیناًآپ کے بھی ہوں گے ۔مگر اب یہ سب کچھ تو ہو چکا ، اب بات آگے سوچنے کی ہے اور اب یہ ہم پر ہے کہ ہم نے اندھے ،بہرے اور گونگے خوشامدی بن کر زندگی گذارنی ہے یا خوف کی سب زنجیر یں توڑ کر حقیقی تبدیلی لانی ہے اور یقین کریں یہ صرف ہم ہی کر سکتے ہیں کیونکہ میرے نبی ؐ نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے فرماد یا کہ ’’جیسے اعمال ویسے عمال‘‘مطلب ’’جیسی قوم ویسے حکمران ‘‘ یعنی ’’جیسی روحیں ویسے فرشتے ‘‘ اور آسان لفظوں میں ’’جیسا مونہہ ویسی چپیڑ‘‘ لہذا اگر کچھ بدلنا ہے تو پہلے خود کو بدلیں کیونکہ جب ہم بدلیں گے تو سب کچھ بدل جائے گا ۔