’’بڑا پرندہ پنجرے میں ہے ۔دوسرے اپنے گھونسلوں میں موجود نہیں ۔اوور‘‘جونہی 25مارچ 1971ء کو رات دو بجے جنرل ٹکا خان کے ہیڈ کوارٹر میں کھڑی جیپ کے وائر لیس سیٹ پر 57بریگیڈ کے میجر جعفر کی آواز گونجی تو ’’آپریشن سرچ لائٹ ‘‘کرنے والے کمانڈوز آزاد بنگلہ دیش کا اعلان کرچکے ،شیخ مجیب الرحمن کو ان کے بیڈ روم سے حراست میں لے کر فوجی چھاؤنی کی طرف روانہ ہو چکے تھے ۔ مگرا ب دیر ہو چکی تھی ۔کیونکہ مغربی پاکستان کا مجرم مجیب الرحمن اب مشرقی پاکستان کا ہیروتھا ۔دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ قائدِاعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اُس وقت جب ایکدوسرے سے ہزار میل دور مشرقی اور مغربی پاکستان میں مضبوط اور سب کو قابلِ قبول حکمران کی ضرورت تھی، اُس وقت پورا ملک مفلوج اور معذور گورنر جنرل غلام محمد کے رحم وکرم پرتھا ۔اور ان کی حالت یہ تھی کہ بقول قدرت اللہ شہاب’’ پاگل پن کے قریب پہنچے غلام محمد صبح سویرے سوٹ پہن کر وہیل چیئر پر کینٹ روم میں آجاتے۔اپنے سٹاف کو جمع کرتے ۔ان کو وزارتیں دیتے ،ان سے حلف اٹھواتے ،ان میں پورٹ فولیوز تقسیم کرتے ، اور پھر گھنٹوں اس کابینہ کے اجلاس سے خطاب فرماتے مگر فالج زدہ زبان کی وجہ سے کسی کے پلے کچھ نہ پڑتا‘‘۔ دیر اس لیئے بھی ہوچکی تھی کہ جب سیاسی استحکام کی ضرورت تھی، اُس وقت 10سالوں میں 7وزراء اعظم اور 3گورنر جنرلز اور صدور بھگتانے کے بعد ملک ایوب خان کے مارشل لاء کی نذر ہوگیااور وہ ایوب خان جو سرِعام بنگالیوں کو ناقابل اعتبار مخلوق کہتے اور جن کی 10سالہ دورِ ترقی میں ڈھاکہ کو کچھ نہ ملااوروہ ایکدن سب کچھ یحییٰ خان کو سونپ کر چلتے بنے ۔دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ ملکی قیادت کی باہمی لڑائیوں، سازشوں اور ایکدوسرے پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ بقول شہاب صاحب ’’ایکدن صدر سکندر مرزا نے مجھے قرآن پاک کا ایک نسخہ دیا۔ جس کے سرورق کی پشت والے خالی صفحے پر تمام بڑے سیاستدانوں نے اللہ کو حاضر ناظر جان اور قرآن پاک کو گواہ بنا کر آپس میں تعاون کرنے کا عہد نامہ کرکے دستخط کیئے ہوئے تھے۔مگر3ماہ بعد ہی یہ عہد نا مہ ٹوٹ گیا اور سب پھر سے سازشوں میں لگ گئے‘‘ ۔آئین پاکستان کی کیا حیثیت رہ گئی تھی شہاب صاحب ہی بتاتے ہیں کہ ایک روز صدر سکندر مرز آئے۔ اُنہوں نے میرے دفتر میں داخل ہوتے ہی ہاتھ میں پکڑے دستورِ پاکستان کے کتابچے کو ہوا میں لہراکر بلند آواز میں کہا ’’شہاب صاحب یہ کیا Trash (بے کار،ردی) ہے‘‘۔ دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ ہمارے سیاسی تدبر کا یہ حال ہو چکا تھا کہ جس رات سینکڑوں بنگالی قتل اور بنگلہ دیش کی تمام قیادت گرفتار ہوتی ہے ۔ اُس سے اگلے دن کراچی میں بھٹو بیان دیتے ہیں کہ ’’شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے ‘‘۔ دوسری طرف مجیب الرحمن بولے ’’بھٹو قاتل ہے‘‘۔ جواباً بھٹونے کہا ۔’’ مجیب غدار ہے اسے سزا ملنی چاہیے‘‘۔ پھر کہا ’’جو ڈھاکہ جائے گا اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور میں گندے انڈوں کیساتھ نہیں بیٹھوں گا‘‘، اور پھر کہہ دیا ’’اِدھر ہم اُدھر تم ‘‘۔ دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ زمینی حقائق یہ تھے کہ ایک طرف ڈھاکہ ائیر پورٹ پر جب میجر صدیق سالک (وہی صدیق سالک جو بعد میں بریگیڈئیربنے اور ضیا ء الحق کے ساتھ جہاز میں جہاں بحق ہوئے ) نے سامان اٹھانے والے بنگالی لڑکے کو ٹپ دینا چاہی تو پاس کھڑا حوالدار غصے سے بولا ’’سر ان حرام زادوں کی عادت نہ بگاڑیئے‘‘۔ جبکہ دوسری طرف پورے بنگلہ دیش میں صرف اور صرف فوجی یونٹوں پر ہی پاکستانی جھنڈا لہرا رہا تھااور دیر اس لیے بھی ہو چکی تھی کہ بھارتی کمانڈر انچیف مانک شاہ کہتے ہیں کہ’’ اندراگاندھی نے سقوطِ ڈھاکہ سے دو سال پہلے ہی ہمیں کہہ دیا تھا کہ اپنی تیاری مکمل کر لیں‘‘ جبکہ دوسری طرف جنرل ٹکا خان ایکدن ائیر مارشل اے رحیم خاں کو ٹیلی فون پر شدید غصے اور بیزاری میں بتاتے ہیں کہ ’’جی ایچ کیو سے آرڈر آتا ہے ٹینک ٹرین میں لوڈکر و‘‘،جب لوڈ کرتے ہیں تو آرڈر آجاتا ہے’’ اتار لو ،ابھی موو نہیں کرنا ،ہمارے ساتھ تو روزانہ یہی ہو رہا ہے‘‘ ۔ دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ جب پاک فوج مشرقی پاکستان میں ایک مشکل ترین لڑائی لڑ رہی تھی،جب بھارت دنیا بھر میں پاکستانی قیادت اور فوج کوبدنام کرنے میں لگا ہوا تھا۔جب بھارتی انٹیلی ایجنسیاں 24گھنٹے کام کررہی تھیں ،اُس وقت اپنے فوجی کمانڈروں کی درخواستوں اوراپنے مشرقی پاکستان کے گورنر کے پیغاموں کے باوجود یحییٰ خان ڈھاکہ آنے کو تیار ہی نہیں تھے اور پھر یحییٰ خان نے جب اپنی سیاسی و فوجی قیادت کو فیصلے کا اختیار دیا تو اُس وقت کچھ بھی ان کے دائرہ اختیارمیں نہیں تھا ۔ یہ اسی دیر کا نتیجہ تھا کہ ایک ماہ بعد ہی مجیب رہا ہوگیا ،پورا مشرقی پاکستان باہر نکلا ،ایک ایک کر کے ہم ہر محاذ پر ہارتے گئے اور پھر وہ وقت آیا کہ دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس اور 1965ء کی جنگ میں ہلال جرأت لینے والے ٹائیگر کے نام سے مشہور جنرل امیر عبداللہ نیازی سقوطِ ڈھاکہ سے آٹھ دن پہلے گورنر اے ایم مالک کے سامنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر بچوں کی طرح رونے کے بعد اُسی شام میجر صدیق سالک کو کہتے ہیں کہ ’’ سالک شکرکرو تم آج جرنیل نہیں ہو‘‘اور ان کی ذہنی سطح ملاحظہ ہو کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد جنرل اروڑا سے پوچھتے ہیں کہ ’’میں کیسا لڑا ‘‘۔ دوستو! بلاشبہ بھارت کی اکھنڈ بھارت کی کوششیں ، کرنل ایم اے جے عثمانی کی مکتی باہنی کی کاروائیاں ،اپنے دوستوں کا منہ پھیر لینا، ون یونٹ کا ٹوٹنا ، مغربی اور مشرقی پاکستان کے متفقہ 56کے آئین کا خاتمہ ، مجیب کے 6نکات، بنگالی رہنماؤں کی وعدہ خلافیاں ،چالاکیاں اور یو ٹرن ،اگر تلہ سازش کیس،بنگالی خواتین کی عصمت دری ،آئے روز ہوتی ہلاکتیں، سارجنٹ ظہور الحق کی موت، فوج میں بنگالی یونٹوں کے قیام کا معاملہ،3مارچ 1971کو اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ اور باقی جو کچھ ہوا اس نے جلتی پر تیل ہی ڈالا مگر اصل بات تو یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے بویا ،وہی ہم نے کاٹ لیا۔اور قصور وار کوئی ایک نہیں ،سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔ مگر دکھ کی بات یہ ہے پاکستان بننے کے 24سال بعدآئے 16 دسمبر سے آج 43سال گذرنے کے بعد بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا ،اگر اُس وقت’’ اگرتلہ ساز ش ‘‘کی باتیں تھیں تو آج لندن پلان کی کہانیاں ہیں ۔ اگر اُس وقت قائداعظم کے پتلے نذرِآتش ہوتے اور پرچم جلا ئے جاتے تھے تو آج بلوچستان میں قومی پرچم کے ساتھ یہی کچھ ہو چکا اور زیارت ریڈنسی تک محفوظ نہیں رہی ۔ اگر اُس وقت ڈھاکہ کہتا تھا کہ ہمارے وسائل کوئی اور کھا جاتا ہے تو آج پشاور اور کوئٹہ یہی باتیں کر رہا ہے ۔ اگر اُس وقت مجیب الرحمن غدار تھا تو آج حکومتی ترجمانوں نے عمران خان کو عمران نیازی کہنا شروع کر دیا ہے ۔ اگر اُس وقت ڈھاکہ ،سلہٹ ،جسور اور چٹا گانگ میں لوگ مر رہے تھے تو آج کراچی،کوئٹہ کے ساتھ ساتھ لاہور،اسلام آباد اور فیصل آباد میں یہی کھیل جاری ہے ۔اگر اُس وقت حکومت نے اپنے مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگا رکھا تھا تو آج دوسال گذر گئے مگر حکومت 4حلقے کھولنے پر تیار نہیں ۔اگر اُس وقت جلاؤ گھیراؤ اور پہیہ جام کی باتیں ہور ہی تھیں تو آج بھی یہی کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے ، اور اگر اُس وقت حکمران مشرقی پاکستان جانا گوارہ نہیں کرتے تھے تو آج دو سالوں میں وزیراعظم پاکستان کے لاہور کے دوروں کو دیکھ لیں اور پھرکوئٹہ اور پشاور کے دورے گن لیں ۔ اور اگر اُس وقت خوشحالی اور ترقی صرف مغربی پاکستان کا مقدر تھی تو آج بھی سب منصوبے لاہور اور اسلام آباد کیلئے ہی ہیں ۔ یہ سوچنے کی باتیں ہیں،سب کرنے کے کام ہیں اور ہمیں اب دیر نہیں کرنی چاہیے ۔ مگر 16دسمبر کاسب سے بڑا سبق جو یاد رکھنا ہوگا وہ یہ ہے کہ جو حکمران اپنی قوم کی نہیں سنتے،اپنے سیاسی مخالفین کی نہیں مانتے اور اپنوں کی عزت نہیں کرتے ،ان کی باہر کوئی عزت نہیں ہوتی ، انہیں غیروں کے آگے جھکنا پڑتا ہے اور انہیں بالآخر دشمنوں کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں۔