Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

!مرد۔۔۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

خلیل جبران کہتا ہے کہ جو مرد عورت کی کمزوریاں برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا ، اس کا عورت کی خوبیوں پر بھی کوئی حق نہیں ہوتا ۔ برناڈشا کے مطابق تلخ مزاج مرد کا تو شہد بھی تلخ ہی ہوتا ہے ۔ارسطو نے کہا کہ عورتوں کا پیچھا کرتے مرَدوں کو دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ مرد پیچھے ہی رہ جائیں گے ۔ یونانی دانش کہتی ہے کہ مرد وہ بانسری ہے جسے جب بھی کسی عورت نے بجایا اندر سے جھوٹ ہی نکلا۔پرتگالی سیانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ بیوی سے نہ ڈرنے والا مرد بزدل ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا میں 6قسم کے مرد زیادہ مشہور ہیں ۔جیسے یورپین مرد،ان کی ایک بیوی اورا یک گرل فرینڈ ہوتی ہے لیکن یہ زیادہ پیار اپنی بیوی سے کرتے ہیں ۔پھر امریکن مرد ہیں ،ان کی بھی ایک بیوی اور ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے مگر انہیں پیار اپنی گرل فرینڈ سے ہوتا ہے ۔برطانوی مرَدوں کے پاس ایک بیوی ،ایک بیوہ اور ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے اورانہیں پیار اپنے بچوں سے ہوتا ہے۔روسی مرَدوں کے پاس ایک بیوی اور درجن بھر کے قریب وہ عورتیں ہوتی ہیں کہ جن سے یہ روزانہ واڈ کا پیتے ہیں، روسی مرَدوں کو خود سے بہت پیار ہوتا ہے ۔چار بیویوں اور شہر شہر بکھری گرل فرینڈز والے عربی مرد پیار اپنے اونٹ اور عقاب سے کرتے ہیں ،جبکہ پاکستانی مرَدوں کی ایک بیوی گھر اور دوسری خیالوں میں ہوتی ہے ۔یہ حسبِ استطاعت گرل فرینڈز بھی رکھتے ہیں لیکن یہ زیادہ پیار اپنی ماں سے کرتے ہیں ۔جیسے کسی سیانے مرد کا قول ہے کہ اگر مرد ہاتھ چھڑا کر جانا چاہے تو اِسے ہاتھ بڑھا کر روک لو ،ہو سکتا ہے وہ رک جائے۔لیکن اگر عورت ہاتھ چھڑا کر جانا چاہے تو مت روکنا کیونکہ وہ ہاتھ چھڑانے سے پہلے ہی جا چکی ہوتی ہے ۔ایسے ہی کسی سیانی عورت کا بھی فرمان ہے کہ جب کوئی عورت کہے کہ دنیا کے سارے مرد جھوٹے اور بے وفا ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس نے سارے مرَدوں کو آزمالیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے جس شخص کو آزمایا وہ اکیلا ہی اس کیلئے پوری دنیا کے برابر تھا ۔ ہمارے ہاں کہانیاں تو یہ مشہور ہیں کہ مرد اگر عورت پر ہاتھ اُٹھائے تو ظالم ، عورت سے مار کھائے تو بزدل ،گھرسے باہر ہو تو آوارہ ،گھر میں ہو تو ناکارہ،بچوں کو دانٹے تو قصائی ،نہ ڈانٹے تو لا پرواہ ، عورت کو نوکری سے روکے تو دقیانوس اور شکی ،نہ روکے تو بیوی کی کمائی کھانے والا، ماں کی مانے تو ماں کا چمچہ اور اگر بیوی کی سنے تو جورو کا غلام ۔لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ یہاں سب کچھ کرکے بھی مرد معصوم اور عورت کچھ نہ کر کے بھی برُی۔ ہمار ا معاشرہ ایک پیٹ اور عورت اس میں اپنڈکس ۔جب تک بے ضرر ہے تو کسی توجہ کے لائق نہیں ،لیکن ذرا سا بھی اپنے ہونے کا احساس دلادیا تو آپریشن شروع اور قصہ ختم ۔مرد چاہے تو عورت کیلئے اپنے محلات ، شاہی محلے بنا دے اور ضرورت پڑجائے تو عورت کو قرآن سے بیاہ دے ۔مرد نے یہ بتا کر کہ جنت تمہارے قدموں تلے ہے ، رکھا اسے ساری عمر ننگے پاؤں اور سمجھا اِسے پاؤں کی جوتی۔ہمارے ہاں جوانی میں عورت بچوں کی آیا ، ادھیڑعمرمیں خاوند کی خدمت گاراور بڑھاپے میں پورے گھر کی نرس ، یہاں دیکھنے والوں کو جتنی اکیلی عورت نظر آتی ہے سو مرد مل کر بھی اتنے دکھائی نہیں دیتے اور بقولِ شیخو عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہی ہوتی ہے اور عورت کو جتنا نقصان عورت نے پہنچایا ،اتنا پوری دنیا کے مرد ملکر بھی نہیں پہنچا سکتے ۔لیکن پھر بھی عورت کیلئے یہ خوشی اور اطمینان کیا کم ہے کہ شیطان مرد ہے عورت نہیں ۔ میرا ایک دوست جس نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی کہ پہلے دن سے ہی برانڈی ملا دودھ پینے کو مِلا،جس نے سکول کے زمانے میں ہر پرچے میں انڈا دینے پر استانی کا نام مرغی رکھ دیا ۔جس نے پانچویں جماعت میں مِس کا یہ جملہ بنا یا ’’مِس وہ ہوتی ہے کہ جسے کسی نے مس نہ کیا ہو‘‘ ۔ جو فل آواز میں ریڈیو لگا کر اس لیئے پڑھائی کرتا کہ گلی کے شور سے ڈسٹربینس نہ ہو ،جس نے عشق ہونے پر لڑکی کے گھر کے اتنے چکر لگائے کہ لڑکی کی ماں تک کو چکر چڑھ گئے ۔جسے بوندا باندی صرف اس لیئے پسند ہے کہ اس میں لفظ باندی بھی ہے ۔ جو ریڈیو کو ٹرانسسٹر اس لیئے نہیں کہتا کہ اس میں لفظ ’’سسٹر‘‘ آتاہے ۔ جس کی نظر اتنی کمزور کہ شیشے میں اپنا آپ بھی دھندلادکھائی دے مگرحِس ایسی تیز کہ سالن میں بوٹی اور محفل میں عورت دور سے نظر آجائے ، جس کے کان بند ہوں تو بھی زنانہ آواز سن لے ،جو راتوں کو سو نہ سکنے کی یہ دلیل دے کہ اگر آنکھ میں رائی برابر زرہ پڑ جائے تو نیند اڑجاتی ہے ،میں کیسے سوؤں میری آنکھ میں تو پوری عورت ہوتی ہے ،جسے جب بھی کوئی خاتون ملنے آئی ،ننگے پاؤں ہی آئی کیونکہ جوتے خاتون کے ہاتھ میں ہوتے ،جو ٹریفک اشاروں پر اس وجہ سے نہیں رکتا کہ بھلا اب ہماری عمر ہے اشاروں پہ رکنے کی ۔جو علامہ اقبال کا یہ شعر ’’ہو حلقہ یاراں توبہ ریشم کی طرح نرم ‘‘ پڑھکر ایک عرصے تک اداکارہ ریشم کا فین رہا ۔جس نے امیر گھر کی اکلوتی لڑکی سے اس لیئے شادی نہ کی کہ اسے ’’خشک سالی‘‘ کا قحط منظورنہ تھااور جس نے ایک بارکسی کو 40ہزار روپے دیئے کہ میرے خاندان کی ہسٹری لکھو لیکن محقق کی لکھی ہوئی ہسٹری پڑھکر 40ہزار اور دیدیئے کہ اسے چھاپنا مت ۔اسی حضرت کا کہنا ہے کہ عورت کو تربوز کی طرح ہونا چاہیے ،بھوک لگے تو کھا لو ،پیا س لگنے پر پی لو اوراگر بات نہ بنے تو تربوز کے پانی سے ہاتھ دھو کر کسی اور کے پیچھے پڑ جاؤ۔یہی فرماتا ہے کہ ہمارے ہاں خاوند اور حکمران میں ایک قدرمشترک ہوتی ہے کہ دونوں کیلئے کسی کوالیفکیشن کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر خاوند کسی اداکارہ کا ہو تو اس میں اور حکمران میں ایک اور قدر بھی مشترک ہوتی ہے کہ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ اس عہدے پر تاحیات رہیں گے ۔ایکدن بولا ذرا اپنے سیاسی مرَدوں پر غور کرو، زیادہ تر اپنے ناموں کی طرح ہی ہیں سوائے چوہدری شجاعت کے ،چوہدری صاحب تو کب کے ’’ہومیوپیتھک ‘‘ ہو چکے ، ممنون حسین کو عورت دیکھے یا مرد ہر زاویئے سے ممنون ہی دکھائی دیتے ہیں ،نوا ز شریف کے’’ جو بھی‘‘ قریب آیا نوازاگیا ،شہبا ز شہباز ہی ہوتا ہے کبھی کسی نے شہباز کو شریف نہیں دیکھا،عمران خان کی عمرانیات ہر دور کی عورتوں نے پڑھی۔یہ فضل ہے رحمن کا کہ خواتین فضل الرحمان سے بچی ہوئی ہیں ،رشید کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خاتون کو جب بھی ملا شیخ ہی ملا۔ چند لمحوں کا وقفہ لے کر میرا یہ دوست دوبارہ بولا ’’ایوب خان نے جتنی توجہ امریکی خاتونِ اول مسز کینڈی کودی ،اتنی اپنے سگے بیٹے گوہر ایوب اور منہ بولے بیٹے بھٹو کو دیدیتے تو چند سال اور نکال جاتے ،یحییٰ خان جتنی محنت سے خواتین کو اٹھا اٹھا کر سوئمنگ پول میں پھینکا کرتے ،اس سے آدھی محنت حکومتی امور میں کرجاتے تو کم ازکم قوم ہتھیار ڈالنے والی شرمناک تقریب کی شرمناکی سے ہی بچ جاتی اور پرویز مشرف نے جتنی دیر اداکارہ رانی مکھرجی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھا ، اس سے کم وقت میں تو ہمارے مغلیہ بادشاہ کسی کو رانی بنا کر فارغ بھی کر دیا کرتے تھے،مشرف کے اسی مصافحے کو دیکھ کر پاس کھڑے واجپائی نے اُسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اسے اگر ایک موقع اور مل گیا تو رانی کے ساتھ ساتھ راجدھانی بھی جائے گی اور پھر ہمارے دووزرأ اعظم تو کمال کے عورت شناس تھے ،ایک ٹیلی فون پر ایک گلوکارہ کو ایسے ایسے گانے سنایا کرتے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ خاتون اپنی گلوکاری بھی بھلا بیٹھی جبکہ دوسرے وزیر اعظم نے ایک خاتون سے اتنی لمبی لمبی گفتگوکی کہ وہ خاتون ابھی تک یہ سن رہی ہے ۔ کہنے لگا سوکنوں کا شوقین ہمار ا مرد معاشرہ خود صرف دو عورتوں کو برداشت نہ کر سکا ۔ پاکستان بنانے والوں کو ٹھکانے لگا کر مرَدوں نے فاطمہ جناح کو اس طرح ہرایا کہ پھر وہ اس صدمے سے ہی نہ نکل سکیں،بے نظیر بھٹو دن دیہاڑے ’’مرد گردی ‘‘ کی بھینٹ چڑھیں اور پھر بی بی کی پارٹی کے ساتھ ان کے اپنے مردجو مردانگی کر چکے وہ سب کے سامنے ہے ۔میر ے اس عزیز دوست کی بکواسیات مطلب سیاسیات ابھی جاری تھی کہ میں نے بات کاٹ کر موضوع بدلا ’’آپ کہا کرتے تھے کہ زندگی میں ایک بار گھر جوائی ضرور بننا ہے ، آپ کی اس خواہش کا کیا بنا‘‘ ایک لمبی اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا ’’میں نے گھر جوائی خاک بننا ہے میرا تو سسر خود ابھی تک اپنے سسرال میں رہ رہا ہے ‘‘۔ صاحبو مرد اگر آنکھ ہے تو عورت اسکی بینائی ،مرد اگر پھول ہے تو عورت اس کی خوشبو اور مرد اگر دنیا ہے تو عورت اس کی خوبصورتی ۔ مرد اور عورت کا میلاپ ایکدوسرے پر حکومت یا قبضہ کرنے کیلئے نہیں ایکدوسرے کی کمیاں پوری کرنے کیلئے ہوتا ہے کیونکہ محبت نہ تو قبضہ کرتی اور نہ محبت پرقابض ہوا جا سکتا ہے ،محبت کیلئے محبت ہی کافی ہوتی ہے اور پھر مرَدوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ صرف ان کی ماں بلکہ ان کے بچوں کی ماں بھی عورت ہی ہوتی ہے اور عورتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ اللہ کے سوا اگر کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو وہ سجدہ بیوی اپنے شوہر کو کرتی ۔

!مرد۔۔۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

خلیل جبران کہتا ہے کہ جو مرد عورت کی کمزوریاں برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا ، اس کا عورت کی خوبیوں پر بھی کوئی حق نہیں ہوتا ۔ برناڈشا کے مطابق تلخ مزاج مرد کا تو شہد بھی تلخ ہی ہوتا ہے ۔ارسطو نے کہا کہ عورتوں کا پیچھا کرتے مرَدوں کو دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ مرد پیچھے ہی رہ جائیں گے ۔ یونانی دانش کہتی ہے کہ مرد وہ بانسری ہے جسے جب بھی کسی عورت نے بجایا اندر سے جھوٹ ہی نکلا۔پرتگالی سیانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ بیوی سے نہ ڈرنے والا مرد بزدل ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا میں 6قسم کے مرد زیادہ مشہور ہیں ۔جیسے یورپین مرد،ان کی ایک بیوی اورا یک گرل فرینڈ ہوتی ہے لیکن یہ زیادہ پیار اپنی بیوی سے کرتے ہیں ۔پھر امریکن مرد ہیں ،ان کی بھی ایک بیوی اور ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے مگر انہیں پیار اپنی گرل فرینڈ سے ہوتا ہے ۔برطانوی مرَدوں کے پاس ایک بیوی ،ایک بیوہ اور ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے اورانہیں پیار اپنے بچوں سے ہوتا ہے۔روسی مرَدوں کے پاس ایک بیوی اور درجن بھر کے قریب وہ عورتیں ہوتی ہیں کہ جن سے یہ روزانہ واڈ کا پیتے ہیں، روسی مرَدوں کو خود سے بہت پیار ہوتا ہے ۔چار بیویوں اور شہر شہر بکھری گرل فرینڈز والے عربی مرد پیار اپنے اونٹ اور عقاب سے کرتے ہیں ،جبکہ پاکستانی مرَدوں کی ایک بیوی گھر اور دوسری خیالوں میں ہوتی ہے ۔یہ حسبِ استطاعت گرل فرینڈز بھی رکھتے ہیں لیکن یہ زیادہ پیار اپنی ماں سے کرتے ہیں ۔جیسے کسی سیانے مرد کا قول ہے کہ اگر مرد ہاتھ چھڑا کر جانا چاہے تو اِسے ہاتھ بڑھا کر روک لو ،ہو سکتا ہے وہ رک جائے۔لیکن اگر عورت ہاتھ چھڑا کر جانا چاہے تو مت روکنا کیونکہ وہ ہاتھ چھڑانے سے پہلے ہی جا چکی ہوتی ہے ۔ایسے ہی کسی سیانی عورت کا بھی فرمان ہے کہ جب کوئی عورت کہے کہ دنیا کے سارے مرد جھوٹے اور بے وفا ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس نے سارے مرَدوں کو آزمالیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے جس شخص کو آزمایا وہ اکیلا ہی اس کیلئے پوری دنیا کے برابر تھا ۔ ہمارے ہاں کہانیاں تو یہ مشہور ہیں کہ مرد اگر عورت پر ہاتھ اُٹھائے تو ظالم ، عورت سے مار کھائے تو بزدل ،گھرسے باہر ہو تو آوارہ ،گھر میں ہو تو ناکارہ،بچوں کو دانٹے تو قصائی ،نہ ڈانٹے تو لا پرواہ ، عورت کو نوکری سے روکے تو دقیانوس اور شکی ،نہ روکے تو بیوی کی کمائی کھانے والا، ماں کی مانے تو ماں کا چمچہ اور اگر بیوی کی سنے تو جورو کا غلام ۔لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ یہاں سب کچھ کرکے بھی مرد معصوم اور عورت کچھ نہ کر کے بھی برُی۔ ہمار ا معاشرہ ایک پیٹ اور عورت اس میں اپنڈکس ۔جب تک بے ضرر ہے تو کسی توجہ کے لائق نہیں ،لیکن ذرا سا بھی اپنے ہونے کا احساس دلادیا تو آپریشن شروع اور قصہ ختم ۔مرد چاہے تو عورت کیلئے اپنے محلات ، شاہی محلے بنا دے اور ضرورت پڑجائے تو عورت کو قرآن سے بیاہ دے ۔مرد نے یہ بتا کر کہ جنت تمہارے قدموں تلے ہے ، رکھا اسے ساری عمر ننگے پاؤں اور سمجھا اِسے پاؤں کی جوتی۔ہمارے ہاں جوانی میں عورت بچوں کی آیا ، ادھیڑعمرمیں خاوند کی خدمت گاراور بڑھاپے میں پورے گھر کی نرس ، یہاں دیکھنے والوں کو جتنی اکیلی عورت نظر آتی ہے سو مرد مل کر بھی اتنے دکھائی نہیں دیتے اور بقولِ شیخو عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہی ہوتی ہے اور عورت کو جتنا نقصان عورت نے پہنچایا ،اتنا پوری دنیا کے مرد ملکر بھی نہیں پہنچا سکتے ۔لیکن پھر بھی عورت کیلئے یہ خوشی اور اطمینان کیا کم ہے کہ شیطان مرد ہے عورت نہیں ۔ میرا ایک دوست جس نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی کہ پہلے دن سے ہی برانڈی ملا دودھ پینے کو مِلا،جس نے سکول کے زمانے میں ہر پرچے میں انڈا دینے پر استانی کا نام مرغی رکھ دیا ۔جس نے پانچویں جماعت میں مِس کا یہ جملہ بنا یا ’’مِس وہ ہوتی ہے کہ جسے کسی نے مس نہ کیا ہو‘‘ ۔ جو فل آواز میں ریڈیو لگا کر اس لیئے پڑھائی کرتا کہ گلی کے شور سے ڈسٹربینس نہ ہو ،جس نے عشق ہونے پر لڑکی کے گھر کے اتنے چکر لگائے کہ لڑکی کی ماں تک کو چکر چڑھ گئے ۔جسے بوندا باندی صرف اس لیئے پسند ہے کہ اس میں لفظ باندی بھی ہے ۔ جو ریڈیو کو ٹرانسسٹر اس لیئے نہیں کہتا کہ اس میں لفظ ’’سسٹر‘‘ آتاہے ۔ جس کی نظر اتنی کمزور کہ شیشے میں اپنا آپ بھی دھندلادکھائی دے مگرحِس ایسی تیز کہ سالن میں بوٹی اور محفل میں عورت دور سے نظر آجائے ، جس کے کان بند ہوں تو بھی زنانہ آواز سن لے ،جو راتوں کو سو نہ سکنے کی یہ دلیل دے کہ اگر آنکھ میں رائی برابر زرہ پڑ جائے تو نیند اڑجاتی ہے ،میں کیسے سوؤں میری آنکھ میں تو پوری عورت ہوتی ہے ،جسے جب بھی کوئی خاتون ملنے آئی ،ننگے پاؤں ہی آئی کیونکہ جوتے خاتون کے ہاتھ میں ہوتے ،جو ٹریفک اشاروں پر اس وجہ سے نہیں رکتا کہ بھلا اب ہماری عمر ہے اشاروں پہ رکنے کی ۔جو علامہ اقبال کا یہ شعر ’’ہو حلقہ یاراں توبہ ریشم کی طرح نرم ‘‘ پڑھکر ایک عرصے تک اداکارہ ریشم کا فین رہا ۔جس نے امیر گھر کی اکلوتی لڑکی سے اس لیئے شادی نہ کی کہ اسے ’’خشک سالی‘‘ کا قحط منظورنہ تھااور جس نے ایک بارکسی کو 40ہزار روپے دیئے کہ میرے خاندان کی ہسٹری لکھو لیکن محقق کی لکھی ہوئی ہسٹری پڑھکر 40ہزار اور دیدیئے کہ اسے چھاپنا مت ۔اسی حضرت کا کہنا ہے کہ عورت کو تربوز کی طرح ہونا چاہیے ،بھوک لگے تو کھا لو ،پیا س لگنے پر پی لو اوراگر بات نہ بنے تو تربوز کے پانی سے ہاتھ دھو کر کسی اور کے پیچھے پڑ جاؤ۔یہی فرماتا ہے کہ ہمارے ہاں خاوند اور حکمران میں ایک قدرمشترک ہوتی ہے کہ دونوں کیلئے کسی کوالیفکیشن کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر خاوند کسی اداکارہ کا ہو تو اس میں اور حکمران میں ایک اور قدر بھی مشترک ہوتی ہے کہ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ اس عہدے پر تاحیات رہیں گے ۔ایکدن بولا ذرا اپنے سیاسی مرَدوں پر غور کرو، زیادہ تر اپنے ناموں کی طرح ہی ہیں سوائے چوہدری شجاعت کے ،چوہدری صاحب تو کب کے ’’ہومیوپیتھک ‘‘ ہو چکے ، ممنون حسین کو عورت دیکھے یا مرد ہر زاویئے سے ممنون ہی دکھائی دیتے ہیں ،نوا ز شریف کے’’ جو بھی‘‘ قریب آیا نوازاگیا ،شہبا ز شہباز ہی ہوتا ہے کبھی کسی نے شہباز کو شریف نہیں دیکھا،عمران خان کی عمرانیات ہر دور کی عورتوں نے پڑھی۔یہ فضل ہے رحمن کا کہ خواتین فضل الرحمان سے بچی ہوئی ہیں ،رشید کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خاتون کو جب بھی ملا شیخ ہی ملا۔ چند لمحوں کا وقفہ لے کر میرا یہ دوست دوبارہ بولا ’’ایوب خان نے جتنی توجہ امریکی خاتونِ اول مسز کینڈی کودی ،اتنی اپنے سگے بیٹے گوہر ایوب اور منہ بولے بیٹے بھٹو کو دیدیتے تو چند سال اور نکال جاتے ،یحییٰ خان جتنی محنت سے خواتین کو اٹھا اٹھا کر سوئمنگ پول میں پھینکا کرتے ،اس سے آدھی محنت حکومتی امور میں کرجاتے تو کم ازکم قوم ہتھیار ڈالنے والی شرمناک تقریب کی شرمناکی سے ہی بچ جاتی اور پرویز مشرف نے جتنی دیر اداکارہ رانی مکھرجی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھا ، اس سے کم وقت میں تو ہمارے مغلیہ بادشاہ کسی کو رانی بنا کر فارغ بھی کر دیا کرتے تھے،مشرف کے اسی مصافحے کو دیکھ کر پاس کھڑے واجپائی نے اُسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اسے اگر ایک موقع اور مل گیا تو رانی کے ساتھ ساتھ راجدھانی بھی جائے گی اور پھر ہمارے دووزرأ اعظم تو کمال کے عورت شناس تھے ،ایک ٹیلی فون پر ایک گلوکارہ کو ایسے ایسے گانے سنایا کرتے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ خاتون اپنی گلوکاری بھی بھلا بیٹھی جبکہ دوسرے وزیر اعظم نے ایک خاتون سے اتنی لمبی لمبی گفتگوکی کہ وہ خاتون ابھی تک یہ سن رہی ہے ۔ کہنے لگا سوکنوں کا شوقین ہمار ا مرد معاشرہ خود صرف دو عورتوں کو برداشت نہ کر سکا ۔ پاکستان بنانے والوں کو ٹھکانے لگا کر مرَدوں نے فاطمہ جناح کو اس طرح ہرایا کہ پھر وہ اس صدمے سے ہی نہ نکل سکیں،بے نظیر بھٹو دن دیہاڑے ’’مرد گردی ‘‘ کی بھینٹ چڑھیں اور پھر بی بی کی پارٹی کے ساتھ ان کے اپنے مردجو مردانگی کر چکے وہ سب کے سامنے ہے ۔میر ے اس عزیز دوست کی بکواسیات مطلب سیاسیات ابھی جاری تھی کہ میں نے بات کاٹ کر موضوع بدلا ’’آپ کہا کرتے تھے کہ زندگی میں ایک بار گھر جوائی ضرور بننا ہے ، آپ کی اس خواہش کا کیا بنا‘‘ ایک لمبی اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا ’’میں نے گھر جوائی خاک بننا ہے میرا تو سسر خود ابھی تک اپنے سسرال میں رہ رہا ہے ‘‘۔ صاحبو مرد اگر آنکھ ہے تو عورت اسکی بینائی ،مرد اگر پھول ہے تو عورت اس کی خوشبو اور مرد اگر دنیا ہے تو عورت اس کی خوبصورتی ۔ مرد اور عورت کا میلاپ ایکدوسرے پر حکومت یا قبضہ کرنے کیلئے نہیں ایکدوسرے کی کمیاں پوری کرنے کیلئے ہوتا ہے کیونکہ محبت نہ تو قبضہ کرتی اور نہ محبت پرقابض ہوا جا سکتا ہے ،محبت کیلئے محبت ہی کافی ہوتی ہے اور پھر مرَدوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ صرف ان کی ماں بلکہ ان کے بچوں کی ماں بھی عورت ہی ہوتی ہے اور عورتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ اللہ کے سوا اگر کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو وہ سجدہ بیوی اپنے شوہر کو کرتی ۔

12ربیع الاوّل 11ہجری ۔پیر صبح 10سے 11بجے کا درمیانی وقت۔جب آپ ؐ عبدالرحمن بن ابوبکرؓ کی دی ہوئی مسواک کر چکے، پانی سے اپنا چہرہ مسلسل تر کرتے ہوئے ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔مو ت کی سختیاں ہیں ‘‘ فرما چکے تونماز، نمازاور میری امت کے غریب لوگ کہتے کہتے آپ ؐ پر نزع کی حالت طاری ہوئی ۔آپ ؐ کا سر حضرت عائشہؓ کی گود میں تھا ۔ آپ ؐ نے اپنی انگلی مبارک اوپر اٹھائی اور نگاہ چھت کی طرف بلند ہوئی ،ہونٹ مبارک پھرسے ہلنا شروع ہو ئے ، حضرت عائشہ ؓ نے آپ ؐ کے منہ سے اپنا کان لگایا تو آپ ؐ فرما رہے تھے ’’ان انبیاء،صدیقین ،شہدا اور صالحین کے ہمراہ جنہیں تو نے انعام سے نوازا ،اے اللہ مجھ پر رحم کر ۔ اے اللہ اے رفیقِ اعلیٰ،اے اللہ اے رفیقِ اعلیٰ، اے اللہ اے رفیقِ اعلیٰ۔۔ آخری فقرہ تیسری بار دہراتے ہوئے آپ ؐ کا ہاتھ مبارک جھک گیا اور آپ ؐ اپنے رفیقِ اعلیٰ سے جاملے ۔ اس وقت آپ ؐ کی عمر 63سال 4دن تھی ۔ ایکدن نہایت سرد وخنک موسم میں حضرت ابوبکرؓ صدیق نے غسل کیا تو ٹھنڈ لگنے سے بخار چڑھا اور 15روزہ بخار نے یہ حالت کر دی کہ مسجد جانے سے بھی معذور ہوئے ، 22جمادی الثانی 13ہجری اور پیرکادن تھا آپؓ نے اپنے کفن دفن کی وصیت کر کے کہا کہ ’’آرزو ہے کہ آج رات ہی اس عالمِ فانی سے کوچ کر جاؤں‘‘ وہی ہوا ،پیر کا دن ڈوبا اور رات کو 63برس کی عمر میں آپؐ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے۔ فیروز ابو لولونے یکم محرم 24ہجری کو حضرت عمرؓ پر قاتلانہ حملہ کیا ،خنجرسے لگے چھ واروں کے زخموں سے جب حضرت عمر فاروق ؓ کی حالت زیادہ بگڑی اور وقتِ آخر آن پہنچا تو ان آخری لمحوں میں آپؓ نے فرمایا ’’اے اللہ مجھے اپنی مغفرت سے ڈھانپ لے اگر ایسا نہ ہوا تو افسوس مجھ پر اور میری ماں پر جس نے مجھے جنم دیا ‘‘۔ 18ذوالحج 35ہجری کو کئی دنوں سے باغیوں کے گھیرے میں حضرت عثمان غنیؓ پر موقع پا کر جب ایک باغی کنانہ بن بشر نے لوہے کی لاٹ سے حملہ کیا تو قرآن پڑھتے ہوئے پیشانی پر ضرب کھا کر آپؓ ایک طرف گر کربولے ’’میرااللہ پر توکل ہے ،وہ میرے لیے کافی ہے اور وہی ذات سب کچھ سنتی اور خوب علم رکھتی ہے‘‘، ابھی یہ الفاظ اداہی کیئے تھے کہ سودان بن حمران نے دوسری ضرب لگائی اور پھر عمروبن الحمق نے سینے پر چڑھ کر تلوار کے وار سے آپؓ کو شہید کر دیا ۔19رمضان 40ہجری کو نماز فجر کے دوران عبدالرحمن بن ملجم نے حضرت علیؓ پرتلوار سے حملہ کیا، سر مبارک پرگہری چوٹ آئی ، جب دنیا سے جانے کا وقت آیا تو آپؓ نے امام حسنؓ اور امام حسینؓ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’ میں تم دونوں کو تقویٰ الہی کی وصیت کرتاہوں ’’یتیم پر رحم کرنا ،بے کس کی مدد کرنا ،آخرت کیلئے نیک اعمال کا خیال رکھنا ، ظالم کا دشمن اور مظلوم کا دوست بننا۔ قیامت والے دن ذرہ برابر نیکی کی جزا ملے گی اورذرہ برابر برائی کی سزا ملے گی‘‘۔ اپنے آخری لمحوں میں حضرت امیر معاویہؓ نے کہا ’’کاش میں نے حکومت نہ کی ہوتی،کاش میں اس فقیر کی طرح ہوتا جو تھوڑے پر زندہ رہتا اور جب موت اپنے ناخن چبھوتی ہے تو کوئی تعویذ فائدہ نہیں دیتا‘‘۔ اپنی جان اللہ کے سپرد کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے کہا ’’ ہم پیٹھ پھیرنے والے نہیں ہم وہ ہیں جو سینہ سپر رہتے ہیں‘‘۔ حضرت عمروبن العاصؓ نے کلمہ پڑھتے ہوئے وفات پائی ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ وہ خلیفہ ہیں کہ جن کے دور میں حضور ؐ کی یہ حدیث سچ ہوئی کہ ’’میر ی امت پر ایک وقت آئے گا کہ جب ڈھونڈنے سے بھی زکوٰۃ لینے والا نہیں ملے گا ‘‘۔ ایک روایت کے مطابق آپؓ کو زہر دیا گیا ،جب خالقِ حقیقی کے پاس جانے کا وقت آیا تو آپؓ نے قرآن پاک کے بیسوویں پارے کی سورہ قصص کی 83ویں آیت پڑھی ،جس کا ترجمہ ہے کہ ’’یہ آخرت کا گھر ان لوگوں کیلئے ہے جو دنیا میں اپنی بڑائی نہیں چاہتے اور نہ زمین پر فساد کرتے ہیں اور آخرت تو تقویٰ والے (اللہ سے ڈرنے ) والوں کی ہے ‘‘۔ حضرت داؤد ؑ کے بیٹے حضرت سلیمان ؑ نے وفات کے وقت فرمایا’’ میں اپنے اللہ کے ہاں جا رہا ہوں ،جو گناہ صغیرہ کا حساب لیتا ہے اور گناہ کبیرہ پر عذاب دیتا ہے‘‘۔ سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ وحدہ لا شریک اور توحید ،توحید کہتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے ۔ حضرت رابعہ بصریؓ نے ’’راہ کشادہ کرو،موت آگئی ہے‘‘ کہہ کر کلمہ پڑھااور اللہ کو پیاری ہوگئیں ۔ حضرت امام غزالیؒ ’’آقا کا حکم سر آنکھوں پر‘‘ کہہ کر اور حضرت امام احمدبن حنبلؒ ’’میرا اللہ میرا محافظ ہے ‘‘کہتے ہوئے سفر آخرت پر روانہ ہوئے ۔ مہاتما بدھ آخری سانسیں لیتے ہوئے بولے ’’ بھکشوؤں کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ تمام چیزوں کو زوال ہے‘‘، سقراط مرتے وقت بولا ’’اب تم سب لوگ خاموش ہو جاؤ مجھے سکون سے مرنے دو اور میرے قصاب دوست کا قرض چکا دینا ‘‘ ۔ انسان کو بندر کی ترقی یافتہ شکل قرار دینے والا چارلس ڈارون مرنے سے چند لمحے پہلے مدھم آواز میں بولا ’’میں موت سے بالکل نہیں ڈرتا‘‘، نیوٹن کے آخری کلما ت تھے کہ ’’ میری حالت اس بچے کی سی تھی ،جو سمندر کے کنارے بیٹھا گھونگوں اورسیپیوں سے جی بہلاتا رہا جبکہ قدرت کا عجائبات بھرا سمندر اس کے سامنے تھا ‘‘ اور امریکہ دریافت کرنے والا کرسٹو فرکولمبس تنگدستی و کسمپرسی کی حالت میں مرتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’ اے خدا میں اپنی روح تیرے سپر د کرتا ہوں‘‘۔ جارج واشنگٹن کے آخری الفاظ تھے ’’ڈاکٹر مجھے جانے دو ‘‘۔ حجاج بن یوسف نے مرتے ہوئے کہا کہ ’’الہٰی مجھے بخش دے،کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ تو مجھے نہیں بخشے گا،الہٰی بندوں نے مجھے ناامید کر ڈالا حالانکہ میں تجھ سے بڑی ہی امید رکھتاہوں۔ ‘‘ اپنے آخری لمحات میں سکندر اعظم بولے ’’میرے بعد میری سلطنت سب سے طاقتور کیلئے ہے‘‘ ، مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے وفات کے وقت کہا کہ ’’میرے ساتھیوں کا خیال رکھنا ‘‘، اورنگ زیب عالمگیر نے ’’حقیقی محافظ اللہ ہے‘‘ کہتے ہوئے وفات پائی ۔ شیر شاہ سوری وفات سے چند لمحے پہلے بولے ’’ روح اٹھنے کا وقت آگیا ہے‘‘ ، مصطفی کمال اتاترک نے کہا ’’ میرے عزیز دوستو موت اٹل ہے ا سے کوئی نہیں ٹال سکتا‘‘ ، نپولین مرتے وقت کہنے لگا ’’یہ دنیا مایوسی کا ہی نام ہے ‘‘۔ علامہ اقبال ؒ نے آخری لفظ ’’اللہ‘‘ کہا ،قائداعظم ’’ اللہ پاکستان‘‘کہہ کر لیاقت علی خان’’ خدا پاکستان کی حفاظت کرے‘‘ ، ٹپیو سلطان ’’اسی طرح تیزی سے آگے بڑھتے جاؤ ‘‘، مسولینی’’ میں بے گناہ ہوں‘‘ اور مشہور ادیب برناڈ شا اپنی آخری سانسو ں میں نرس سے مخاطب ہو کر بولا’’ خاتون میں ختم ہو چکا ہوں ،تمام ہو چکا ہوں ‘‘۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تختہ دار پر چڑھتے ہوئے کہا کہ "Finish it"۔ شہرہ آفاق روسی افسانہ نویس ٹالسٹائی نے مرتے وقت اپنی بیٹی سے کہا ’’مسلسل جستجو۔۔ مسلسل جستجو‘‘۔رابندر ناتھ ٹیگو ر بولا ’’میں نہیں جانتاکیا ہوگا ،کیا ہوگا‘‘۔ آزادی کی جنگ لڑنے والے کیوبا کے فیڈرل کاسترو کے ساتھی چی گویرا نے مرتے ہوئے کہا کہ ’’ ایلڈا(بیوی) میرا پیار تم تک پہنچے ،غم نہ کرنا اور دوسری شادی کر لینا اور فیڈرل کاسترو ’’آپ پریشان نہ ہوں،آپ نے جو کیا،ٹھیک کیا‘‘۔صاحبو ! یہ وقتِ آخر کی باتیں ہیں ۔موت نے نہ کبھی کسی کو بخشا ہے اور نہ بخشے گی اور یہ’’ وقتِ آخر‘‘ ہم پر بھی آنا ہے ۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے کہ ’’ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ پھر فرمایا’’ تم جہاں بھی ہو گے موت تمہیں ڈھونڈنکا لے گی ‘‘، سورۃرحمن میں ہے کہ ’’سب نے فنا ہونا ہے، باقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات رہے گی‘‘ ۔حضور ؐ نے فرمایا ’’دنیا میں اسطرح رہو جس طرح کوئی مسافر یا راہ گذر ہوتاہے‘‘۔ آپ ؐ کا ہی فرمان ہے کہ ’’موت کی یاد نفس کی تمام بیماریوں کا علاج ہے ‘‘۔ ایک بار حضرت علی ؑ حیرت سے بولے ’’ لوگوں کو قہقہے لگاتے دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے کہ کیا انہیں قبر یا دنہیں ‘‘۔ ایک شام بہت ساری باتیں کرنے کے بعد مولانا طارق جمیل بولے ’’چند حکمرانوں اور حکومتوں کو چھوڑ کر ہمارے حکمران اور حکومتیں پہلے بھی ایسی ہی گذارہ لائق تھیں ،جیسی اب ہیں ۔لہذا ہر برائی اور ہر خرابی حکمرانوں اور حکومتوں کے کھاتے میں ڈالنے کی بجائے خود کو ٹھیک کر لو ، یاد رکھو ہمارے مسائل حکمرانوں اور حکومتوں نے اتنے خراب نہیں کیئے ، جتنا خود کو ہم نے خود ہی تباہ کر لیا ۔ کہنے لگے آج اہل مغرب کی زندگیوں میں ان کا دین ہے جبکہ ہمارا دین ہماری مسجدوں، منبروں اور تقریروں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے ۔ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ ہمارے سیدھے کام بھی ہمیں الٹے اس لیئے پڑ رہے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہے ۔ لہذااس سے پہلے کہ مہلت ختم ہوجائے ، جانے کی گھڑیاں آن پہنچیں ،توبہ کے دروازے بھی بند ہو جائیں اور اس سے پہلے کہ ’’وقتِ آخر ‘‘ آن پہنچے ،اپنی اصلاح کر کے اللہ کو منالو ،مخلوقِ خدا کی بھلائی کر کے اللہ کو منالو اور اپنے اللہ کی مان کر اپنے اللہ کو منالو ۔

!عورت ۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

فرانسیسی کہتے ہیں کہ ’’عورت ،وقت اور ہوا کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا‘‘ ،جاپانیوں کا خیال ہے کہ’’ عورت ایک ہی راز رکھ سکتی ہے اور وہ ہے اپنی عمر کا راز‘‘۔چینی کہاوت ہے کہ ’’دولت اور عورت فساد کی جڑ ہیں‘‘ ۔عربی محاورہ ہے کہ’’ پرانی گندم ،تازہ مکھن ،توانا گھوڑا اور خوبرو عورت پاس ہو تو یہ دنیا کسی جنت سے کم نہیں ‘‘۔ہسپانیوں کا کہنا ہے کہ ’’اکیلی عورت وہ ہوتی ہے جو اپنے لیئے پرفیوم خود خریدے‘‘ جبکہ شیخو کا تجربہ کہتا ہے کہ’’ جس عورت کو مرد کی سمجھ نہ آئے وہ اُسے چھوڑ دیتی ہے اور جس مرد کو عورت کی سمجھ نہ آئے وہ اُسے اپنا لیتا ہے‘‘ ۔ابھی پچھلے ہفتے شیخو کی پسندیدہ خاتون اداکارہ کو شب خوابی کے لباس میں ایک مارننگ شو میں دیکھا ۔موصوفہ جنہوں نے اتنی دنیا نہیں دیکھی جتنا دنیا نے انہیں دیکھا ہے اور جن کی فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر پتا ہی نہیں چلتا کہ رول زیادہ بر ا تھا یا اداکاری ۔فرمارہی تھیں کہ ’’میرا گھرانہ اتنا مذہبی تھا کہ والد نے گھر سے پریشر ککر اٹھوا دیا کہ بچیاں جوان ہیں اور یہ سیٹیاں مارتا ہے‘‘ آئیڈیل مرد کے حوالے سے کہا کہ ’’جب بھی مجھے کوئی ڈھنگ کا بندہ مِلاتو اتفاق ایسا ہوا کہ یا تواُس وقت اُس کی کوئی بدصورت بیوی ہوتی یا پھر میرا کوئی نہ کوئی شوہر زندہ ہوتا ‘‘۔سوال ہوا آپکی عمر جواب مِلا 25سال اور کچھ مہینے، پوچھا گیا کتنے مہینے، جواب آیا 350مہینے ۔ میزبان نے انگریزی میں سوال کیا تو بولیں ’’انگلش کمز ٹو می آلسو‘‘ پھر کہنے لگیں ’’اوپن دا ونڈو لٹ انوائرمنٹ کم ان سائیڈ ‘‘ ۔ ایک پرستار کو آٹو گراف دے کر کہا " Go kill the waves"مطلب جاؤ موجیں مارو ۔پسندیدہ خوراک "Head Foot" بتائی یعنی سری پائے ۔پروگرام میں لفظ دستک کا یہ جملہ بنا یا ’’مجھے دس تک گنتی آتی ہے ‘‘ شادی کارڈز پر لکھے ’’ج م س ف‘‘ کا مطلب ان کے مطابق’’ جوتوں سے مرمت فرمائیں ‘‘تھا ،پھر سے شادی کے سوال پرکہا ’’نہیں اب نہیں ،میری شادی اب فن سے ہو چکی‘‘۔ اس پر شیخو بولا ’’ بہت اچھا فیصلہ ہے اس سے ایک تو طلاق کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور دوسرا بچے بھی اسی کی تحویل میں رہیں گے ‘‘۔ دو دن پہلے شیخو سے ملاقات ہوئی تو کچھ زیادہ ہی سیاسی لگا ، اپنے پسندیدہ موضوع خواتین پر بھی بولنے کو تیار نہ تھا ،بہت چھیڑا تو یہ کہہ کر کہ ’’میٹھی سے میٹھی عورت میں بھی اتنا زہر ہوتا ہے کہ جب چاہے بندہ مار دے ‘‘ ۔پھر سیاست کی طرف آگیا کہنے لگاکہ’’ جیسے غلط موقع پر صحیح بات کرنا عمران خان کی پسندیدہ عادت ہے ایسے ہی سرکاری اشتہارات پر اپنے چہرے دیکھناہمارے لیڈران کا پسندیدہ شوق ہے‘‘ ۔بولا ڈینگی سے بچاؤ کا اشتہار آیا مگر اُس پر تصویراپنے ایک رہنما کی تھی۔ کار چوروں سے ہوشیار رہیے والے اشتہار پر بھی اپنے ایک لیڈر مسکراتے ملے ، پولیو ایک خطر ناک بیماری والے اشتہار پر بھی اپنا ایک قائدپوز بنائے بیٹھا تھا ، خواتین کے عالمی دن پر جو اشتہار شائع ہوا اس پر بھی ہمارا ایک مر د رہنما تشریف فرما تھا اور تو اور لائیو سٹاک کے اشتہار پر ایک طرف گائے ،بھینس ،بکری اور مرغیوں کی تصویر تھی جبکہ دوسری طرف شرمیلی مسکراہٹ بکھیرتا اپنالیڈر بیٹھا تھا ۔ کہنے لگا کہ اگر دھرنوں کیخلاف اپنی بقاء کیلئے پارلیمنٹ اکھٹی ہوسکتی ہے تو مہنگائی اور بے روز گاری کیخلاف عوامی بقاء کیلئے کیوں نہیں اوراگر سینٹ کی چیئرمینی کیلئے حکومت اور اپوزیشن ایک ہوسکتی ہے تو قومی مسائل اور مصائب پر کیوں نہیں ۔پھر بولا بجلی اس وقت چلی جاتی ہے جب اس کی ضرورت ہو تی ہے اور گیس تو اب انسانوں کے پیٹوں میں ہی رہ گئی ہے۔ فرمانے لگا ہمارے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ آنکھوں والوں کو کچھ سجھائی اور سمجھائی نہیں دے رہا جبکہ نابینا آئے روز سڑکوں پر ہوتے ہیں ۔ جب خاموش ہوا تو میں نے کہا کہ قبلہ آپ عمر کے جس حصے میں ہیں وہاں اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ دوسروں کی خامیاں ہی ہوتی ہیں تو میرے گرد آلود پرانے جوتے دیکھتے ہوئے بولا ’’کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اچھے جوتے نہ پہننے والے کی شخصیت بھی اپنے جوتوں کی طرح ہی ہوتی ہے ۔ نپولین نے ایک با رکہا ’’میں نے ملکوں اور تاجوں کو روندڈالا مگر ایک عورت سے شکست کھا گیا ‘‘،پرتگالی دانش کہتی ہے کہ ’’عورت سے بات کرتے وقت وہ سنیئے جو اسکی آنکھیں کہتی ہیں ‘‘۔ قدیم ہندو شاستروں میں عورت کی 404چالبازیاں بتائی گئیں ، 404اس لیئے کہ اس وقت لوگوں کو گنتی ہی اتنی آتی تھی ۔ عورت کو سب سے زیادہ وہ جانتا ہے جسے یہ معلوم ہے کہ وہ اسے نہیں جانتا ۔ عورت کو میں نے سمجھ لیا یہ کہنے والا کم ازکم زندہ تو کوئی نہیں اور جو زندہ نہیں اُس سے یہ سوال پوچھا نہیں جا سکتا۔ عورت کو اگر کسی نے سمجھا ہے تو وہ خود عورت ہی ہے ۔خوشی ہے کہ ماں عورت ہوتی ہے لیکن دکھ یہ ہے کہ بیوی بھی عورت ہی ہوتی ہے۔لیکن کیا کریں جیسے نیند میں کوئی ولی نہیں بنتا ایسے ہی عورت کے بغیر کوئی مردبھی نہیں بن سکتا ۔کہتے ہیں جاٹ بانسری بجانے لگے تو خطرناک،برہمن ہاتھ میں چھڑی پکڑلے تو خطرناک ،کوئی مسلسل پی ٹی وی دیکھنے لگ جائے تو خطرناک اور بیوی چپ ہو تو خطرناک۔ سیانے کہتے ہیں کسی کو جنگ پر جانے اور شادی کا مشورہ نہ دو ۔ میرا ایک وہ دوست جس کے بٹوے سے جب ان کی بیگم نے اداکارہ نیلی کی تصویر پکڑ لی تو بیگم کے ہی سر پر ہاتھ رکھ کر بولا ’’ تصویر تمہاری ہی تھی بس بٹوے میں پڑی پڑی نیلی ہوگئی ہے‘‘ ۔اس صاحبِ کمال کا کہنا ہے کہ میری دو شادیاں ہوئیں اور دونوں ناکام ہوئیں ۔ پہلی بیوی مجھے چھوڑ گئی اور دوسری چھوڑتی ہی نہیں ۔ اسی سیانے کا قول ہے کہ انسان تو شادی کرتے ہی مر جاتا ہے بعد میں جو نظر آتا ہے وہ تو خاوند ہوتا ہے اور ’’عجلت میں شادی کرو گے تو فرصت میں پچھتاؤ گے ‘‘۔ کہتا ہے ’’غم آدمی کو عقل مند بناتا ہے مگر عورت کا دیا ہو اغم عبرت بنادیتا ہے‘‘۔ایکدن بولا’’ شادی سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں اور دانا وہ ہے جو شادی سے پہلے یہ جانتا ہو‘‘۔کہنے لگا’’ جیسے دولت جمع کرتے وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی ایسے شادی کرتے وقت یہ بھی خیال میں رہے کہ بیوی تیز رفتار گھوڑے پر بیٹھ کر آتی ہے اور کندھوں پر واپس جاتی ہے لیکن کندھوں کے اس استعمال کی نوبت کم کم ہی آتی ہے ۔لیکن صاحبو جب سے ہم نے یہ سنا ہے کہ فلپائن میں طلاق نہیں دی جا سکتی،رومانیہ کی رفقہ سٹانسکو 23سال کی عمر میں دادی بن گئیں ،برمنگھم یونیورسٹی میں آسٹروفزکس میں پی ایچ ڈی کرتی میگی مریخ پر بچہ پیدا کرنے کی خواہشمند ہے اور امریکی خاتون جیمی 1000 شادیوں میں شرکت کرکے بھی خود کنواری ہے تو اپنی حالت اُسی آدمی جیسی ہوگئی ہے کہ جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیالیکن جب اسے سزا سنائی جانے لگی تو اس نے اس بناء پر رحم کی درخواست کردی کہ وہ یتیم ہے ۔ بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو آدمی کو بے وقوف بناتی ہیں اور بہت سی ایسی ہیں جو بے وقوف کو آدمی بناتی ہیں ۔ جس نے عورت سے کبھی محبت نہیں کی وہ قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتا اور جس نے عورت سے ہی محبت کی وہ بھی قابلِ بھروسہ نہیں ہوتا۔ ویسے محبت وہ بیماری ہے جس میں مرد،عورت کی بینائی کم ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی تو یہ اندھے بھی ہو جاتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ حکومت اور عورت کی محبت سے جان چھڑانا ’صبر‘سے بھی بڑا کام ہوتا ہے ۔ عورت کو خوش کرنا سب سے آسان اور اسے خوش رکھنا سب سے مشکل ۔ خدا نے مرد کو پہلے بنایا پھر عورت کو اور وہ بھی مرد کی پسلی سے ، مطلب عورت پہلے مرد تھی ،علیحدہ ہوئی تو عورت بنی مگر اب ہر مرد پہلے عورت ہوتا ہے، نو مہینوں بعد علیحدہ ہو کر مرد بن جاتا ہے ۔ عورتوں کی بہترین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین صفتیں ہیںیعنی بزدلی اور کنجوسی۔عورت اور مرد کا ایک ہی رشتہ فطری ہے جو حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا کا تھا ،باقی سارے رشتے انسان کی اپنی دریافت ہیں۔عورت وہ خدائی تحفہ ہے جو جنت کے کھوجانے کی کمی پوری کرنے کیلئے دیا گیا مگر بقول شیخوپھر جہنم میں عورتیں زیادہ کیوں ہوں گی ۔ عورت پر سو باتیں اور بھی ہوسکتی ہیں کیونکہ عورت اور باتیں ایک ہی بات ہے مگر سوباتوں کی ایک بات کہ عورت کے ساتھ تو گذارا مشکل ہوتا ہی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ عورت کے بغیر گذارہ بھی نہیں ہوسکتا ۔