خلیل جبران کہتا ہے کہ جو مرد عورت کی کمزوریاں برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا ، اس کا عورت کی خوبیوں پر بھی کوئی حق نہیں ہوتا ۔ برناڈشا کے مطابق تلخ مزاج مرد کا تو شہد بھی تلخ ہی ہوتا ہے ۔ارسطو نے کہا کہ عورتوں کا پیچھا کرتے مرَدوں کو دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ مرد پیچھے ہی رہ جائیں گے ۔ یونانی دانش کہتی ہے کہ مرد وہ بانسری ہے جسے جب بھی کسی عورت نے بجایا اندر سے جھوٹ ہی نکلا۔پرتگالی سیانوں کا متفقہ فیصلہ ہے کہ بیوی سے نہ ڈرنے والا مرد بزدل ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا میں 6قسم کے مرد زیادہ مشہور ہیں ۔جیسے یورپین مرد،ان کی ایک بیوی اورا یک گرل فرینڈ ہوتی ہے لیکن یہ زیادہ پیار اپنی بیوی سے کرتے ہیں ۔پھر امریکن مرد ہیں ،ان کی بھی ایک بیوی اور ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے مگر انہیں پیار اپنی گرل فرینڈ سے ہوتا ہے ۔برطانوی مرَدوں کے پاس ایک بیوی ،ایک بیوہ اور ایک گرل فرینڈ ہوتی ہے اورانہیں پیار اپنے بچوں سے ہوتا ہے۔روسی مرَدوں کے پاس ایک بیوی اور درجن بھر کے قریب وہ عورتیں ہوتی ہیں کہ جن سے یہ روزانہ واڈ کا پیتے ہیں، روسی مرَدوں کو خود سے بہت پیار ہوتا ہے ۔چار بیویوں اور شہر شہر بکھری گرل فرینڈز والے عربی مرد پیار اپنے اونٹ اور عقاب سے کرتے ہیں ،جبکہ پاکستانی مرَدوں کی ایک بیوی گھر اور دوسری خیالوں میں ہوتی ہے ۔یہ حسبِ استطاعت گرل فرینڈز بھی رکھتے ہیں لیکن یہ زیادہ پیار اپنی ماں سے کرتے ہیں ۔جیسے کسی سیانے مرد کا قول ہے کہ اگر مرد ہاتھ چھڑا کر جانا چاہے تو اِسے ہاتھ بڑھا کر روک لو ،ہو سکتا ہے وہ رک جائے۔لیکن اگر عورت ہاتھ چھڑا کر جانا چاہے تو مت روکنا کیونکہ وہ ہاتھ چھڑانے سے پہلے ہی جا چکی ہوتی ہے ۔ایسے ہی کسی سیانی عورت کا بھی فرمان ہے کہ جب کوئی عورت کہے کہ دنیا کے سارے مرد جھوٹے اور بے وفا ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوتا کہ اس نے سارے مرَدوں کو آزمالیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے جس شخص کو آزمایا وہ اکیلا ہی اس کیلئے پوری دنیا کے برابر تھا ۔ ہمارے ہاں کہانیاں تو یہ مشہور ہیں کہ مرد اگر عورت پر ہاتھ اُٹھائے تو ظالم ، عورت سے مار کھائے تو بزدل ،گھرسے باہر ہو تو آوارہ ،گھر میں ہو تو ناکارہ،بچوں کو دانٹے تو قصائی ،نہ ڈانٹے تو لا پرواہ ، عورت کو نوکری سے روکے تو دقیانوس اور شکی ،نہ روکے تو بیوی کی کمائی کھانے والا، ماں کی مانے تو ماں کا چمچہ اور اگر بیوی کی سنے تو جورو کا غلام ۔لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ یہاں سب کچھ کرکے بھی مرد معصوم اور عورت کچھ نہ کر کے بھی برُی۔ ہمار ا معاشرہ ایک پیٹ اور عورت اس میں اپنڈکس ۔جب تک بے ضرر ہے تو کسی توجہ کے لائق نہیں ،لیکن ذرا سا بھی اپنے ہونے کا احساس دلادیا تو آپریشن شروع اور قصہ ختم ۔مرد چاہے تو عورت کیلئے اپنے محلات ، شاہی محلے بنا دے اور ضرورت پڑجائے تو عورت کو قرآن سے بیاہ دے ۔مرد نے یہ بتا کر کہ جنت تمہارے قدموں تلے ہے ، رکھا اسے ساری عمر ننگے پاؤں اور سمجھا اِسے پاؤں کی جوتی۔ہمارے ہاں جوانی میں عورت بچوں کی آیا ، ادھیڑعمرمیں خاوند کی خدمت گاراور بڑھاپے میں پورے گھر کی نرس ، یہاں دیکھنے والوں کو جتنی اکیلی عورت نظر آتی ہے سو مرد مل کر بھی اتنے دکھائی نہیں دیتے اور بقولِ شیخو عورت کی سب سے بڑی دشمن عورت ہی ہوتی ہے اور عورت کو جتنا نقصان عورت نے پہنچایا ،اتنا پوری دنیا کے مرد ملکر بھی نہیں پہنچا سکتے ۔لیکن پھر بھی عورت کیلئے یہ خوشی اور اطمینان کیا کم ہے کہ شیطان مرد ہے عورت نہیں ۔ میرا ایک دوست جس نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی کہ پہلے دن سے ہی برانڈی ملا دودھ پینے کو مِلا،جس نے سکول کے زمانے میں ہر پرچے میں انڈا دینے پر استانی کا نام مرغی رکھ دیا ۔جس نے پانچویں جماعت میں مِس کا یہ جملہ بنا یا ’’مِس وہ ہوتی ہے کہ جسے کسی نے مس نہ کیا ہو‘‘ ۔ جو فل آواز میں ریڈیو لگا کر اس لیئے پڑھائی کرتا کہ گلی کے شور سے ڈسٹربینس نہ ہو ،جس نے عشق ہونے پر لڑکی کے گھر کے اتنے چکر لگائے کہ لڑکی کی ماں تک کو چکر چڑھ گئے ۔جسے بوندا باندی صرف اس لیئے پسند ہے کہ اس میں لفظ باندی بھی ہے ۔ جو ریڈیو کو ٹرانسسٹر اس لیئے نہیں کہتا کہ اس میں لفظ ’’سسٹر‘‘ آتاہے ۔ جس کی نظر اتنی کمزور کہ شیشے میں اپنا آپ بھی دھندلادکھائی دے مگرحِس ایسی تیز کہ سالن میں بوٹی اور محفل میں عورت دور سے نظر آجائے ، جس کے کان بند ہوں تو بھی زنانہ آواز سن لے ،جو راتوں کو سو نہ سکنے کی یہ دلیل دے کہ اگر آنکھ میں رائی برابر زرہ پڑ جائے تو نیند اڑجاتی ہے ،میں کیسے سوؤں میری آنکھ میں تو پوری عورت ہوتی ہے ،جسے جب بھی کوئی خاتون ملنے آئی ،ننگے پاؤں ہی آئی کیونکہ جوتے خاتون کے ہاتھ میں ہوتے ،جو ٹریفک اشاروں پر اس وجہ سے نہیں رکتا کہ بھلا اب ہماری عمر ہے اشاروں پہ رکنے کی ۔جو علامہ اقبال کا یہ شعر ’’ہو حلقہ یاراں توبہ ریشم کی طرح نرم ‘‘ پڑھکر ایک عرصے تک اداکارہ ریشم کا فین رہا ۔جس نے امیر گھر کی اکلوتی لڑکی سے اس لیئے شادی نہ کی کہ اسے ’’خشک سالی‘‘ کا قحط منظورنہ تھااور جس نے ایک بارکسی کو 40ہزار روپے دیئے کہ میرے خاندان کی ہسٹری لکھو لیکن محقق کی لکھی ہوئی ہسٹری پڑھکر 40ہزار اور دیدیئے کہ اسے چھاپنا مت ۔اسی حضرت کا کہنا ہے کہ عورت کو تربوز کی طرح ہونا چاہیے ،بھوک لگے تو کھا لو ،پیا س لگنے پر پی لو اوراگر بات نہ بنے تو تربوز کے پانی سے ہاتھ دھو کر کسی اور کے پیچھے پڑ جاؤ۔یہی فرماتا ہے کہ ہمارے ہاں خاوند اور حکمران میں ایک قدرمشترک ہوتی ہے کہ دونوں کیلئے کسی کوالیفکیشن کی ضرورت نہیں ہوتی اور اگر خاوند کسی اداکارہ کا ہو تو اس میں اور حکمران میں ایک اور قدر بھی مشترک ہوتی ہے کہ دونوں سمجھتے ہیں کہ وہ اس عہدے پر تاحیات رہیں گے ۔ایکدن بولا ذرا اپنے سیاسی مرَدوں پر غور کرو، زیادہ تر اپنے ناموں کی طرح ہی ہیں سوائے چوہدری شجاعت کے ،چوہدری صاحب تو کب کے ’’ہومیوپیتھک ‘‘ ہو چکے ، ممنون حسین کو عورت دیکھے یا مرد ہر زاویئے سے ممنون ہی دکھائی دیتے ہیں ،نوا ز شریف کے’’ جو بھی‘‘ قریب آیا نوازاگیا ،شہبا ز شہباز ہی ہوتا ہے کبھی کسی نے شہباز کو شریف نہیں دیکھا،عمران خان کی عمرانیات ہر دور کی عورتوں نے پڑھی۔یہ فضل ہے رحمن کا کہ خواتین فضل الرحمان سے بچی ہوئی ہیں ،رشید کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے خاتون کو جب بھی ملا شیخ ہی ملا۔ چند لمحوں کا وقفہ لے کر میرا یہ دوست دوبارہ بولا ’’ایوب خان نے جتنی توجہ امریکی خاتونِ اول مسز کینڈی کودی ،اتنی اپنے سگے بیٹے گوہر ایوب اور منہ بولے بیٹے بھٹو کو دیدیتے تو چند سال اور نکال جاتے ،یحییٰ خان جتنی محنت سے خواتین کو اٹھا اٹھا کر سوئمنگ پول میں پھینکا کرتے ،اس سے آدھی محنت حکومتی امور میں کرجاتے تو کم ازکم قوم ہتھیار ڈالنے والی شرمناک تقریب کی شرمناکی سے ہی بچ جاتی اور پرویز مشرف نے جتنی دیر اداکارہ رانی مکھرجی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں رکھا ، اس سے کم وقت میں تو ہمارے مغلیہ بادشاہ کسی کو رانی بنا کر فارغ بھی کر دیا کرتے تھے،مشرف کے اسی مصافحے کو دیکھ کر پاس کھڑے واجپائی نے اُسی وقت تہیہ کر لیا تھا کہ اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اسے اگر ایک موقع اور مل گیا تو رانی کے ساتھ ساتھ راجدھانی بھی جائے گی اور پھر ہمارے دووزرأ اعظم تو کمال کے عورت شناس تھے ،ایک ٹیلی فون پر ایک گلوکارہ کو ایسے ایسے گانے سنایا کرتے کہ زمانے کے ساتھ ساتھ خاتون اپنی گلوکاری بھی بھلا بیٹھی جبکہ دوسرے وزیر اعظم نے ایک خاتون سے اتنی لمبی لمبی گفتگوکی کہ وہ خاتون ابھی تک یہ سن رہی ہے ۔ کہنے لگا سوکنوں کا شوقین ہمار ا مرد معاشرہ خود صرف دو عورتوں کو برداشت نہ کر سکا ۔ پاکستان بنانے والوں کو ٹھکانے لگا کر مرَدوں نے فاطمہ جناح کو اس طرح ہرایا کہ پھر وہ اس صدمے سے ہی نہ نکل سکیں،بے نظیر بھٹو دن دیہاڑے ’’مرد گردی ‘‘ کی بھینٹ چڑھیں اور پھر بی بی کی پارٹی کے ساتھ ان کے اپنے مردجو مردانگی کر چکے وہ سب کے سامنے ہے ۔میر ے اس عزیز دوست کی بکواسیات مطلب سیاسیات ابھی جاری تھی کہ میں نے بات کاٹ کر موضوع بدلا ’’آپ کہا کرتے تھے کہ زندگی میں ایک بار گھر جوائی ضرور بننا ہے ، آپ کی اس خواہش کا کیا بنا‘‘ ایک لمبی اور ٹھنڈی آہ بھر کر بولا ’’میں نے گھر جوائی خاک بننا ہے میرا تو سسر خود ابھی تک اپنے سسرال میں رہ رہا ہے ‘‘۔ صاحبو مرد اگر آنکھ ہے تو عورت اسکی بینائی ،مرد اگر پھول ہے تو عورت اس کی خوشبو اور مرد اگر دنیا ہے تو عورت اس کی خوبصورتی ۔ مرد اور عورت کا میلاپ ایکدوسرے پر حکومت یا قبضہ کرنے کیلئے نہیں ایکدوسرے کی کمیاں پوری کرنے کیلئے ہوتا ہے کیونکہ محبت نہ تو قبضہ کرتی اور نہ محبت پرقابض ہوا جا سکتا ہے ،محبت کیلئے محبت ہی کافی ہوتی ہے اور پھر مرَدوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ نہ صرف ان کی ماں بلکہ ان کے بچوں کی ماں بھی عورت ہی ہوتی ہے اور عورتوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارا دین کہتا ہے کہ اللہ کے سوا اگر کسی اور کو سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو وہ سجدہ بیوی اپنے شوہر کو کرتی ۔