Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

!سابق فرشتہ

- Posted in Amaal Nama by with comments

چند دن پہلے ایک اداکارہ نے کہا شیطان تو ویسے ہی بدنام ہے ۔ کہہ تو سچ ہی رہی تھیں،انہیں دیکھ کر لگتا بھی یہی ہی ہے۔ خواتین پر پی ایچ ڈی اور اس اداکارہ کا پرانا فین شیخو ایک دن بولا ’’حیرت تو یہ ہے کہ ان صاحبہ کا کرنٹ افیئرز سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر بھی کرنٹ بھی ہے اورافئیرز بھی‘‘ ۔اداکاری سے زیادہ اپنی شیطانی انگریزی کی وجہ سے مشہور اس اداکارہ سے جب پوچھا گیا کہ آپ کا پسندیدہ کرکٹر کون سا ہے تو فرمایا ’’Age Flower‘‘ بڑی مشکل سے پتا چلا کہ عمر گل کی بات کر رہی ہیں ۔ایک بار سوال ہوا کہ آپکو اپنا کونسا رول پسند ہے تو جواب مِلا ’’قیمے والا رول ‘‘ ۔جس نے کھایا ،تعریف ہی کی ۔جہاز میں طبیعت خراب ہوئی تو ائیر ہوسٹس نے کہا ’’اوہ ہو یو آر سفرنگ فرام فیور‘‘ تو جواب دیا ’’نو آئی ایم سفرنگ فراہم لاہور ‘‘۔ ایک تقریب میں لیٹ پہنچنے کی وجہ یہ بتائی ’’قبرستان سے آرہی ہوں اپنے گرینڈ فادر کی قبر پر If Lightsجلا کر‘‘ مطلب (اگر بتیاں جلا کر )۔ ساتھی اداکارہ کو بتایا ’’آئی ہیو ٹو سسٹرز اینڈ بوتھ آر گرلز‘‘۔ جیسے سیانے کہتے ہیں کہ پہلا اختلاف رائے شیطان نے کیاویسے ہی شیطان بھی بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ وہ کائنات کا پہلا صحافی ہے کیونکہ اسی نے اللہ تعالیٰ کو خبردی کہ زمین پر جا کر آدم کیا کرے گا ۔پھر کہتا ہے پہلا وکیل بھی میں ہی ہوں کہ جس نے یہ مشورہ دے کر ’’پھل کھا لو،کچھ نہیں ہوگا ‘‘ فیس کے طور پر جنت لے لی۔ہمارے ہاں ہر کوئی شیطان سے پناہ مانگتا ہے اورکئی کو دیکھ کر تو محسوس بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اسی کی پناہ میں ہیں ۔ بہت سارے معاشروں میں عورت کو زمین پر شیطان کی ایجنٹ سمجھا جاتا ہے لیکن شیخوکی عورت کے بارے میں اپنی ہی منطق ہے،کہتا ہے ’’ جو عورت آپ کو اچھی لگے وہ خوبصورت ہے اور جس عورت کو آپ اچھے لگیں وہ خوب سیرت ہے اور مرد محبت کیلئے شادی کرتا ہے جبکہ عورت شادی کیلئے محبت۔ ایک بار بولا ’’عورت وہ ادھوری بات ہے جسے ہر کوئی مکمل کرنا چاہتا ہے ‘‘۔ اسے تو لفظ ترمیم بھی اس لیئے پسند ہے کہ اس میں لفظ ‘‘میم ‘‘ آتا ہے ۔وہ لفظ پاکستانی کے ساتھ انگریزی والا’’ہر ‘‘ لگا کر ’’ہرپاکستانی‘‘ کو چاہتا ہے۔ شیخو کو مشتاق احمد یوسفی صرف ان دوفقروں کی وجہ سے پسند ہیں ۔ ’’پاکستان میں ہزار خواتین میں سے ایک خوبصورت ہوتی ہے اور ولائیت میں ہزار خواتین میں سے ایک بدصورت اور پاکستانی اُسی سے شادی کرتے ہیں‘‘ ۔ میں نے وسیم اکرم کی طرف توجہ دلائی کہ اُن کی ولایتی بیگم تو بہت خوبصورت ہیں۔تو بولا’’ مجھے عمران خان کے علاوہ کسی سے کیا لینا دینا‘‘ ۔ کنجوس اتنا ہے کہ ’’گھر میں آگ لگی تو بمشکل جان بچا کر باہرنکلا اور پھر ایک گھنٹہ تک فائر بریگیڈ کو مِس کالیں کرتا رہا ‘‘ ۔ چند دن پہلے میں ملنے گھر گیا تو اس کا اکلوتا بیٹا تو مچھر دانی میں بیٹھا اکیلا لڈو کھیل رہا تھا اور یہ اُس کے سکول ورک میں جتا ہوا تھا ۔اس کے انگریزی کے چند جملے ترجمے کے ساتھ نمونے کے طور پر حاضر ہیں۔She۔ کپتان نے جس عمر میں شادی کی ہے ، اس عمر میں تو شادی کا سوچ کر بھی بڑوں بڑوں کی Sheنکل جاتی ہے ۔ What ۔سابق گورنر چوہدری سرور کو تحریک انصاف میں دیکھ کر ن لیگ کے ماتھے پر Whatپڑ گیا۔Kill۔ میٹرو پروجیکٹ میں بے تحاشا استعمال ہونے کی وجہ سے اب اتفاق گروپ کے سٹیل کے Killبہت مہنگے ہو گئے ہیں ۔Key۔ اسمبلی کا بائیکاٹ اور سینٹ انتخابات ویلکم،تحریک انصاف تَیّنُوں Keyتکلیف اے ۔ Bull۔سردیوں میں خشک ہواسے اکثر Bullپھٹ جاتے ہیں۔مسیح کو مصلاّاور سِکھ کو شیونگ کٹ تک بیچ دینے کا ہنرجاننے والے شیخو سے ایک بار میں نے پوچھا کہ اگر بال گر رہے ہوں تو کیا کرنا چاہیے ۔بولا نیچے سے ہٹ جا نا چاہیے۔ایک مرتبہ فرمایا ’’ڈاکٹر کی دعا اور بیوی کی چپ اچھا شگون نہیں ہوتا ۔ایک امیر بیوی سے علیحدگی کے بعد اُس سے زیادہ دولتمند بیوہ سے شادی پر مبارکباد دینے والوں کو کہنے لگا ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ سخی کو پیسے جانے کا دکھ نہیں ہوتا اور غنی کو پیسے آنے کی خوشی نہیں ہوتی‘‘۔پہلی بیوی جب بھی ’’عزت افزائی‘‘ کرتی تو کہتا کوئی بات نہیں آئن سٹائن کی بیوی بھی آئے روز اس کی بے عزتی کیا کرتی تھی اور ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب فلم محبتیں کے سیٹ پر سب کے سامنے جیا بہادری نے امیتابھ جیسے بڑے فنکار کی اتار کر ہاتھ میں پکڑا دی تھی ۔ بیوی سے خوش ہوتا تو مثال دیتا کہ اگر جیا بہادری امیتابھ کو دھرمیندر کی جگہ فلم ’’زنجیر‘‘ لے کر نہ دیتی تو آج گریڈ 17سے ریٹائر ہو کر امیتابھ پنشن پر گذارہ کر رہا ہوتا ۔ جب دوسری بیوی نے چھوڑدیا تو بولا ’’اچھا ہی ہو ا چلی گئی اسے ساتھ رکھنا کسی آرٹ سے کم نہ تھا اور اُس کے ساتھ رہنا بھی ایک سائنس تھی،یوں آئی کہ جیسے اچھے دل میں برا خیال اور یوں گئی کہ جیسے برے دل سے اچھا خیال۔تیسری نے زبر دستی طلاق لے لی تو کہنے لگا ’’خس کم جہاں پاک، اتنی محتاط عورت کہ جس روز پیاز کھایا ہوتا فون بھی اٹینڈ نہ کرتی اور چالاک ایسی کہ کہتی ’’ماں بننے سے ڈر تی ہوں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے اور میں نہیں چاہتی کہ اتنی مقدس جگہ پاؤں کے نیچے ہو ‘‘۔ چوتھی سے ہاتھ دھونے کے بعد فرمایا ’’جاہل تھی نہ اسے ادب کا پتا تھا اور نہ فلسفے کی کوئی شدھ بدھ ‘‘ مثال یہ دی کہ ایک دن جب میں نے اُسے کہا کہ غزل اور نظم میں وہی فرق ہوتا ہے جو محبوبہ اورمنکوحہ میں ۔ تو بے وقوفوں کی طرح منہ تکنے لگی اور جب میں نے یہ کہا کہ ’’ زندگی کی بے ثبا تی کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ جتنے میں روزانہ سانس لیتا ہوں ،پاکستان میں اس سے زیادہ لوگ روزانہ مر جاتے ہیں ۔تو بولی ’’ جانو اب تو آپ ٹوتھ پیسٹ کر لیا کریں‘‘ ۔کہنے لگا کہ وہ جنت جانے کی بجائے دوزخ کو ائیر کنڈیشن کرنے کا سوچتی رہتی اور اکثر مجھے دیکھ کر یہ گنگنایا کرتی :۔ میرا دل تمہاری محبت کیلئے ہے مگر یہ پیشکش محدود مدت کیلئے ہے کل جب میں شیخو سے مِلا تو حیران رہ گیا، وگ کے بالوں میں بھی سفیدی آگئی تھی اور چل ایسے رہا تھاکہ جیسے کوئی چال چل رہا ہو۔یہ تنہائی اور یہ ویرانی، میں نے جب ایک اور شادی کا مشورہ دیا تو بولا ’’جس عمر میں آپ کی شادی پر آپ سے زیادہ ہمسائے خوش ہور ہے ہوں ، اُس عمر میں شادی نہیں کرنی چاہیے ‘‘۔ اٹھتے ہوئے جب میں نے پوچھا کہ ’’کترینہ کیف کی تصویر غسل خانے کے باہر دروازے پر کیوں لگائی ہوئی ہے ۔تو بڑے اطمینان سے بولا’’ غسل خانے کے اندر گیلی ہوجاتی ہے ‘‘۔ کہتے ہیں کہ شیطان مرد کے دماغ میں رہتا ہے اور عورت کے دل میں ۔ یہ نہ ہوتا تو بڑے بڑے معززین اپنے بچوں سمیت بھوکے مر جاتے ۔ کسی نے شیطان سے پوچھا کہ تیری سمجھ کیو ں نہیں آتی تو بولا ’’ میں سمجھ میں نہیں دل میں آتا ہوں۔ بڑے بتا تے ہیں کہ شیطان کا پسندیدہ کا م میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوا کر انہیں علیحدہ کرنا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو کئی حضرات اس کام میں شیطان سے بھی آگے نکل گئے ہیں ۔ یہ تو غیر شادی شدوں کا نکاح بھی تڑوا دیتے ہیں ۔ مگر ابھی بھی اس جہاں میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ۔ ایکدن اُس بزرگ سے ملاقات ہوئی ،جن کے منہ سے آج تک کسی کی بدتعریفی نہیں سنی، جو دوسروں میں وہ خوبیاں بھی تلاش کر لیتے ہیں جِسے سن کرسننے والا بھی حیران رہ جاتا ہے اور جو بیسویں منزل سے گرنے والے کو بھی یہ کہہ رہے ہوتے ہیں ’’ گھبرانا نہیں تمہیں انیسویں منزل تک کچھ نہیں ہوگا‘‘۔شیطان کا ذکر چھڑا تو بڑی محبت سے بولے ’’ ابلیس پہلے جن تھا ۔ بے انتہا عبادت گذاری پر اللہ تعالیٰ نے اسے مقرب فرشتوں میں جگہ دی مگر تکبر اور’’میں میں ‘‘ نے اسے شیطان بنا دیا ۔لیکن ہے بڑا محنتی ۔ اپنے مقصد کیلئے دن رات ایک کر دیتا ہے ۔ اس کی ڈکشنری میں Noکا مطلب Next Opportunityہے اور Endسے مراد Efforts Never Diesہیں ۔ بیٹا اگر ہم تکبر سے پاک ہو جائیں، ہم سے’’ مَیں مَیں‘‘نکل جائے اور پھر اس جیسی کمٹمنٹ ہمیں اپنے مقصد کیلئے نصیب ہوجائے تو ہماری دنیابھی سنور جائے اور آخرت بھی ۔

!سابق فرشتہ

- Posted in Amaal Nama by with comments

چند دن پہلے ایک اداکارہ نے کہا شیطان تو ویسے ہی بدنام ہے ۔ کہہ تو سچ ہی رہی تھیں،انہیں دیکھ کر لگتا بھی یہی ہی ہے۔ خواتین پر پی ایچ ڈی اور اس اداکارہ کا پرانا فین شیخو ایک دن بولا ’’حیرت تو یہ ہے کہ ان صاحبہ کا کرنٹ افیئرز سے کوئی تعلق نہیں مگر پھر بھی کرنٹ بھی ہے اورافئیرز بھی‘‘ ۔اداکاری سے زیادہ اپنی شیطانی انگریزی کی وجہ سے مشہور اس اداکارہ سے جب پوچھا گیا کہ آپ کا پسندیدہ کرکٹر کون سا ہے تو فرمایا ’’Age Flower‘‘ بڑی مشکل سے پتا چلا کہ عمر گل کی بات کر رہی ہیں ۔ایک بار سوال ہوا کہ آپکو اپنا کونسا رول پسند ہے تو جواب مِلا ’’قیمے والا رول ‘‘ ۔جس نے کھایا ،تعریف ہی کی ۔جہاز میں طبیعت خراب ہوئی تو ائیر ہوسٹس نے کہا ’’اوہ ہو یو آر سفرنگ فرام فیور‘‘ تو جواب دیا ’’نو آئی ایم سفرنگ فراہم لاہور ‘‘۔ ایک تقریب میں لیٹ پہنچنے کی وجہ یہ بتائی ’’قبرستان سے آرہی ہوں اپنے گرینڈ فادر کی قبر پر If Lightsجلا کر‘‘ مطلب (اگر بتیاں جلا کر )۔ ساتھی اداکارہ کو بتایا ’’آئی ہیو ٹو سسٹرز اینڈ بوتھ آر گرلز‘‘۔ جیسے سیانے کہتے ہیں کہ پہلا اختلاف رائے شیطان نے کیاویسے ہی شیطان بھی بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ وہ کائنات کا پہلا صحافی ہے کیونکہ اسی نے اللہ تعالیٰ کو خبردی کہ زمین پر جا کر آدم کیا کرے گا ۔پھر کہتا ہے پہلا وکیل بھی میں ہی ہوں کہ جس نے یہ مشورہ دے کر ’’پھل کھا لو،کچھ نہیں ہوگا ‘‘ فیس کے طور پر جنت لے لی۔ہمارے ہاں ہر کوئی شیطان سے پناہ مانگتا ہے اورکئی کو دیکھ کر تو محسوس بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ اسی کی پناہ میں ہیں ۔ بہت سارے معاشروں میں عورت کو زمین پر شیطان کی ایجنٹ سمجھا جاتا ہے لیکن شیخوکی عورت کے بارے میں اپنی ہی منطق ہے،کہتا ہے ’’ جو عورت آپ کو اچھی لگے وہ خوبصورت ہے اور جس عورت کو آپ اچھے لگیں وہ خوب سیرت ہے اور مرد محبت کیلئے شادی کرتا ہے جبکہ عورت شادی کیلئے محبت۔ ایک بار بولا ’’عورت وہ ادھوری بات ہے جسے ہر کوئی مکمل کرنا چاہتا ہے ‘‘۔ اسے تو لفظ ترمیم بھی اس لیئے پسند ہے کہ اس میں لفظ ‘‘میم ‘‘ آتا ہے ۔وہ لفظ پاکستانی کے ساتھ انگریزی والا’’ہر ‘‘ لگا کر ’’ہرپاکستانی‘‘ کو چاہتا ہے۔ شیخو کو مشتاق احمد یوسفی صرف ان دوفقروں کی وجہ سے پسند ہیں ۔ ’’پاکستان میں ہزار خواتین میں سے ایک خوبصورت ہوتی ہے اور ولائیت میں ہزار خواتین میں سے ایک بدصورت اور پاکستانی اُسی سے شادی کرتے ہیں‘‘ ۔ میں نے وسیم اکرم کی طرف توجہ دلائی کہ اُن کی ولایتی بیگم تو بہت خوبصورت ہیں۔تو بولا’’ مجھے عمران خان کے علاوہ کسی سے کیا لینا دینا‘‘ ۔ کنجوس اتنا ہے کہ ’’گھر میں آگ لگی تو بمشکل جان بچا کر باہرنکلا اور پھر ایک گھنٹہ تک فائر بریگیڈ کو مِس کالیں کرتا رہا ‘‘ ۔ چند دن پہلے میں ملنے گھر گیا تو اس کا اکلوتا بیٹا تو مچھر دانی میں بیٹھا اکیلا لڈو کھیل رہا تھا اور یہ اُس کے سکول ورک میں جتا ہوا تھا ۔اس کے انگریزی کے چند جملے ترجمے کے ساتھ نمونے کے طور پر حاضر ہیں۔She۔ کپتان نے جس عمر میں شادی کی ہے ، اس عمر میں تو شادی کا سوچ کر بھی بڑوں بڑوں کی Sheنکل جاتی ہے ۔ What ۔سابق گورنر چوہدری سرور کو تحریک انصاف میں دیکھ کر ن لیگ کے ماتھے پر Whatپڑ گیا۔Kill۔ میٹرو پروجیکٹ میں بے تحاشا استعمال ہونے کی وجہ سے اب اتفاق گروپ کے سٹیل کے Killبہت مہنگے ہو گئے ہیں ۔Key۔ اسمبلی کا بائیکاٹ اور سینٹ انتخابات ویلکم،تحریک انصاف تَیّنُوں Keyتکلیف اے ۔ Bull۔سردیوں میں خشک ہواسے اکثر Bullپھٹ جاتے ہیں۔مسیح کو مصلاّاور سِکھ کو شیونگ کٹ تک بیچ دینے کا ہنرجاننے والے شیخو سے ایک بار میں نے پوچھا کہ اگر بال گر رہے ہوں تو کیا کرنا چاہیے ۔بولا نیچے سے ہٹ جا نا چاہیے۔ایک مرتبہ فرمایا ’’ڈاکٹر کی دعا اور بیوی کی چپ اچھا شگون نہیں ہوتا ۔ایک امیر بیوی سے علیحدگی کے بعد اُس سے زیادہ دولتمند بیوہ سے شادی پر مبارکباد دینے والوں کو کہنے لگا ’’اس کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ سخی کو پیسے جانے کا دکھ نہیں ہوتا اور غنی کو پیسے آنے کی خوشی نہیں ہوتی‘‘۔پہلی بیوی جب بھی ’’عزت افزائی‘‘ کرتی تو کہتا کوئی بات نہیں آئن سٹائن کی بیوی بھی آئے روز اس کی بے عزتی کیا کرتی تھی اور ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ جب فلم محبتیں کے سیٹ پر سب کے سامنے جیا بہادری نے امیتابھ جیسے بڑے فنکار کی اتار کر ہاتھ میں پکڑا دی تھی ۔ بیوی سے خوش ہوتا تو مثال دیتا کہ اگر جیا بہادری امیتابھ کو دھرمیندر کی جگہ فلم ’’زنجیر‘‘ لے کر نہ دیتی تو آج گریڈ 17سے ریٹائر ہو کر امیتابھ پنشن پر گذارہ کر رہا ہوتا ۔ جب دوسری بیوی نے چھوڑدیا تو بولا ’’اچھا ہی ہو ا چلی گئی اسے ساتھ رکھنا کسی آرٹ سے کم نہ تھا اور اُس کے ساتھ رہنا بھی ایک سائنس تھی،یوں آئی کہ جیسے اچھے دل میں برا خیال اور یوں گئی کہ جیسے برے دل سے اچھا خیال۔تیسری نے زبر دستی طلاق لے لی تو کہنے لگا ’’خس کم جہاں پاک، اتنی محتاط عورت کہ جس روز پیاز کھایا ہوتا فون بھی اٹینڈ نہ کرتی اور چالاک ایسی کہ کہتی ’’ماں بننے سے ڈر تی ہوں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے اور میں نہیں چاہتی کہ اتنی مقدس جگہ پاؤں کے نیچے ہو ‘‘۔ چوتھی سے ہاتھ دھونے کے بعد فرمایا ’’جاہل تھی نہ اسے ادب کا پتا تھا اور نہ فلسفے کی کوئی شدھ بدھ ‘‘ مثال یہ دی کہ ایک دن جب میں نے اُسے کہا کہ غزل اور نظم میں وہی فرق ہوتا ہے جو محبوبہ اورمنکوحہ میں ۔ تو بے وقوفوں کی طرح منہ تکنے لگی اور جب میں نے یہ کہا کہ ’’ زندگی کی بے ثبا تی کا یہ عالم ہو گیا ہے کہ جتنے میں روزانہ سانس لیتا ہوں ،پاکستان میں اس سے زیادہ لوگ روزانہ مر جاتے ہیں ۔تو بولی ’’ جانو اب تو آپ ٹوتھ پیسٹ کر لیا کریں‘‘ ۔کہنے لگا کہ وہ جنت جانے کی بجائے دوزخ کو ائیر کنڈیشن کرنے کا سوچتی رہتی اور اکثر مجھے دیکھ کر یہ گنگنایا کرتی :۔ میرا دل تمہاری محبت کیلئے ہے مگر یہ پیشکش محدود مدت کیلئے ہے کل جب میں شیخو سے مِلا تو حیران رہ گیا، وگ کے بالوں میں بھی سفیدی آگئی تھی اور چل ایسے رہا تھاکہ جیسے کوئی چال چل رہا ہو۔یہ تنہائی اور یہ ویرانی، میں نے جب ایک اور شادی کا مشورہ دیا تو بولا ’’جس عمر میں آپ کی شادی پر آپ سے زیادہ ہمسائے خوش ہور ہے ہوں ، اُس عمر میں شادی نہیں کرنی چاہیے ‘‘۔ اٹھتے ہوئے جب میں نے پوچھا کہ ’’کترینہ کیف کی تصویر غسل خانے کے باہر دروازے پر کیوں لگائی ہوئی ہے ۔تو بڑے اطمینان سے بولا’’ غسل خانے کے اندر گیلی ہوجاتی ہے ‘‘۔ کہتے ہیں کہ شیطان مرد کے دماغ میں رہتا ہے اور عورت کے دل میں ۔ یہ نہ ہوتا تو بڑے بڑے معززین اپنے بچوں سمیت بھوکے مر جاتے ۔ کسی نے شیطان سے پوچھا کہ تیری سمجھ کیو ں نہیں آتی تو بولا ’’ میں سمجھ میں نہیں دل میں آتا ہوں۔ بڑے بتا تے ہیں کہ شیطان کا پسندیدہ کا م میاں بیوی میں پھوٹ ڈلوا کر انہیں علیحدہ کرنا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں تو کئی حضرات اس کام میں شیطان سے بھی آگے نکل گئے ہیں ۔ یہ تو غیر شادی شدوں کا نکاح بھی تڑوا دیتے ہیں ۔ مگر ابھی بھی اس جہاں میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں ۔ ایکدن اُس بزرگ سے ملاقات ہوئی ،جن کے منہ سے آج تک کسی کی بدتعریفی نہیں سنی، جو دوسروں میں وہ خوبیاں بھی تلاش کر لیتے ہیں جِسے سن کرسننے والا بھی حیران رہ جاتا ہے اور جو بیسویں منزل سے گرنے والے کو بھی یہ کہہ رہے ہوتے ہیں ’’ گھبرانا نہیں تمہیں انیسویں منزل تک کچھ نہیں ہوگا‘‘۔شیطان کا ذکر چھڑا تو بڑی محبت سے بولے ’’ ابلیس پہلے جن تھا ۔ بے انتہا عبادت گذاری پر اللہ تعالیٰ نے اسے مقرب فرشتوں میں جگہ دی مگر تکبر اور’’میں میں ‘‘ نے اسے شیطان بنا دیا ۔لیکن ہے بڑا محنتی ۔ اپنے مقصد کیلئے دن رات ایک کر دیتا ہے ۔ اس کی ڈکشنری میں Noکا مطلب Next Opportunityہے اور Endسے مراد Efforts Never Diesہیں ۔ بیٹا اگر ہم تکبر سے پاک ہو جائیں، ہم سے’’ مَیں مَیں‘‘نکل جائے اور پھر اس جیسی کمٹمنٹ ہمیں اپنے مقصد کیلئے نصیب ہوجائے تو ہماری دنیابھی سنور جائے اور آخرت بھی ۔

Untitled: Monday 2nd of February 2015

- Posted in Amaal Nama by with comments

!جسٹس چوہدری کا سچ

- Posted in Amaal Nama by with comments

بات وہیں سے شروع کرتے ہیں جہاں پچھلی مرتبہ ختم کی تھی ۔ 9مارچ 2007ء کی صبح گیارہ بجکر پچیس منٹ پر جسٹس افتخار چوہدری آرمی ہاؤس راولپنڈی پہنچے تو انہیں مہمان خانے میں بٹھا دیا گیا ۔ پانچ منٹ بعد پاؤں کی ٹھوکر سے دروازہ کھول کر صدر مشرف داخل ہوئے ۔چند لمحوں کے بعد سرکاری میڈیا آیا ،تصویریں کھینچیں ، ٹی وی فوٹیج بنی اور پھر جسٹس چوہدری نے سارک لاء کانفرنس اور سپریم کورٹ کے اختتامی گولڈن جوبلی سیشن پر بات شروع ہی کی تھی کہ صدر مشرف بول پڑے ’’مجھے پشاور ہائی کورٹ کے جج کی طرف سے آپ کیخلاف شکایت موصول ہوئی ہے ‘‘ میں جانتا ہوں مگریہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے ،اس غیر متوقع سوال پر حیران و پریشان رہ جانے والے جسٹس چوہدری نے جواب دیا ۔ آپ کیخلاف کافی شکائتیں اور بھی ہیں اور میرے پاس بہت ساری چیزوں کے ثبوت بھی ہیں ۔یہ کہہ کر مشرف نے جب اپنے اے ڈی سی سے کہا کہ ’’باقی لوگوں کو بھی بلا لیں ‘‘ تو وزیراعظم شوکت عزیز ،جنرل اشفاق پرویز کیانی ،جنرل حامد جاوید ،میجر جنرل ندیم اعجاز اور بریگیڈ ئیر اعجاز شاہ بھی آ گئے ۔ صدر مشرف دوبارہ بولے ’’ سپریم کورٹ کی گاڑیاںآپ کے خاندان کے زیر استعمال رہتی ہیں‘‘۔ نہیں یہ جھوٹ ہے ،افتخار چوہدری نے جواب دیا ۔آپ مرسڈیز کارچلا رہے ہیں ،جبکہ قانونی طور پر آپ یہ کار استعمال نہیں کر سکتے۔مشرف نے کہا : یہ گاڑی وزیراعظم نے خود بھیجی تھی وہ یہاں موجود ہیں، آپ ان سے یہ پوچھ سکتے ہیں ،جسٹس چوہدری نے جب یہ بتایا تو صدر مشرف نے حیرانگی سے شوکت عزیزکی طرف دیکھا ،مگر جھکے کندھوں میں ڈبل جھکے سر کے ساتھ بیٹھے شوکت عزیز نے کچھ کہنا تو درکنار آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔ آپ نے لاہور ہائیکورٹ کے معاملات میں مسلسل دخل اندازی کی اور چیف جسٹس (لاہور ہائیکورٹ ) کی سفارشات جان بوجھ کر نظر انداز کیں ۔صدر مشرف پھر بولے ۔یہ محض پروپیگنڈا ہے ،جس کا مقصد مجھے او ر عدلیہ کو بدنام کرنا ہے ۔جسٹس چوہدری نے وضاحت پیش کی ۔ چوہدری صاحب ویسے تو میرے پاس اور بھی بہت ساری چیزیں ہیں لیکن ان چیزوں میں پڑنے کا کیا فائدہ۔ میرا خیال ہے کہ آپ استعفیٰ دیدیں ،مستعفی ہونے پر آپ کو کسی اہم جگہ پر لگا دیا جائے گا جبکہ انکار کی صورت میں آپ کو مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑے گااور شرمندگی الگ ہو گی ۔صدر مشرف کا لہجہ اب سخت ہوگیا تھا ۔میں نے کسی ضابطے یا قانون کی خلاف ورزی نہیں کی ۔ قانون کا سرپرست ہوتے ہوئے مجھے اپنے اللہ پر مکمل بھروسہ ہے اور یہ یقین بھی ہے کہ وہ میری مدد کرے گا ۔ استعفیٰ نہیں دوں گااور میں تمام الزامات کا سامنا کرنے کو تیار ہوں ۔جونہی جسٹس چوہدری نے بات مکمل کی تو صدر مشرف انتہائی غصے میں پہلے اٹھ کر کھڑے ہوئے پھر اونچی آواز میں یہ کہہ کر کہ ’’انہیں سب ثبوت دکھائیں‘‘ وزیراعظم شوکت عزیز کے ہمراہ کمرے سے نکل گئے ۔ جنرل مشرف کے جانے کے بعد جنرل کیانی، میجر جنرل ندیم اعجاز اور بریگیڈئیر اعجاز شاہ نے کوئی ثبوت تو نہ دکھا ئے البتہ تھوڑی دیر بعد جنرل کیانی بولے ’’جب آپ بلوچستان ہائیکورٹ کے جج تھے تو آپ نے اپنے بیٹے کیلئے بولان میڈیکل کالج سے خلاف ضابطہ سیٹ لی تھی ۔آپ کی گاڑیوں میں ڈالے گئے پٹرول کی رسیدیں چیک کی گئیں تو0 9فیصد جعلی نکلیں ۔آپ استعفیٰ دیدیں ، اسی میں آپ کی بہتری ہے ۔پھر جنرل ندیم اعجاز نے بھی استعفیٰ کیلئے جسٹس چوہدری پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا ۔اب لہجے توہین اور تحقیر آمیز ہو چکے تھے ۔ مگر تمام تر کوششوں کے باوجود بھی جب افتخار چوہدری نہ مانے تو تقریباً ایک گھنٹے بعد یہ لوگ بھی کمرے سے نکل گئے ۔ ا ن کے جانے کے بعد افتخار چوہدری بھی واپسی کیلئے اٹھے تو ایک آفیسر نے انہیں وہیں بیٹھے رہنے کو کہا اور پھر جسٹس چوہدری کو یہ پتا بھی چل گیا کہ انہیں کیمرے کی آنکھ سے دیکھا جا رہا ہے۔ کیونکہ کافی دیر اکیلا بیٹھنے کے بعد جب اُنہوں نے دوسری مرتبہ جانے کی کوشش کی تو کہیں سے تقربیاً دوڑتا ہوا ایک آفیسر آگیا ۔ آپ کمرے سے باہر نہیں جا سکتے۔ جسٹس چوہدری کو دروازے پر روک کر وہ بولا ۔ گھنٹہ بھر کے بعد جسٹس چوہدری نے پھر جانا چاہا تو ایک اور آفیسرنے آ کر کہا کہ ’’ ابھی آپ کو جانے کی اجازت نہیں ہے‘‘ ۔ وہ بار بار جانے کی کوشش کرتے رہے اور انہیں بار بار روکا جاتا رہا ۔’’میرے پروٹوکول آفیسر کو بلاد یں میں اُس سے کچھ ڈسکس کرنا چاہتا ہوں‘‘ ، جسٹس چوہدری کی اس درخواست پر جواب مِلا ’’وہ یہاں نہیں آسکتا‘‘ ۔ آپ میرے سٹاف آفیسر کو یہ پیغام ہی پہنچا دیں کہ وہ گھر بتا دے کہ میں آرمی ہاؤس میں ہوں اور مجھے دیر ہوجائے گی ،لہذا آج لاہور جانے کا پروگرام ملتوی کر دیا جائے ۔ انہوں نے جب یہ دوسری درخواست کی تو کہا گیا ’’ آپ کا کوئی پیغام نہیں دیا جا سکتا‘‘ ، پھر اسی دوران انہیں بتایا گیا کہ صدر مشرف دوبارہ آئیں گے ۔ مگر صدر مشرف تو نہ آئے لیکن انہیں مہمان خانے میں بیٹھے جب ساڑھے 5گھنٹے ہو گئے تو شام 5بجے میجر جنرل ندیم اعجاز نے آکر کہا آئیے ! میں آپ کو گاڑی تک چھوڑ دیتا ہوں ۔ پورچ میں گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے جنرل ندیم اعجاز بولے "This is a bad day" آپ کو بحیثیت چیف جسٹس آف پاکستان اور جج آف سپریم کورٹ کام کرنے سے روک دیا گیا ہے ۔ اسی اثناء میں افتخار چوہدری نے دیکھا کہ انکی گاڑی سے پاکستان اور سپریم کورٹ کے جھنڈے اتار لیئے گئے تھے۔پھر جونہی وہ گاڑی میں بیٹھے تو ان کا سٹاف آفیسر رندھی ہوئی آواز میں بولا ’’سر میں نے ٹی وی پر دیکھا ہے کہ جسٹس جاوید اقبال نے قائم مقائم چیف جسٹس کا حلف اٹھا لیا ہے ‘‘۔ گاڑی آرمی ہاؤس سے نکلی تو ڈرائیور رو پڑا ’’سرہمیں سپریم کورٹ جانے سے منع کر دیا گیا ہے مجھے آپ کو گھر لے جانے کو کہا گیا ہے ‘‘۔ فکر نہ کرو اللہ بہتر کرے گا، تم سپریم کورٹ چلو، افتخار چوہدری مضبوط لہجے میں بولے۔لیکن ان کی گاڑی سپورٹس کمپلیکس اسلام آباد سے سپریم کورٹ کی جانب مڑی ہی تھی کہ آناً فاناً پولیس کی گاڑیوں نے انہیں گھیرے میں لے کر رکنے پر مجبور کر دیا ۔گاڑی رکتے ہی ایک پولیس آفیسر نے آ کر کہا ’’ڈرائیور اور گن مین گاڑی سے باہر آجائیں ‘‘ جب ڈرائیور اور گن مین نے اترنے سے انکار کیا تو پولیس آفیسر نے اہلکاروں کو حکم دیا کہ دونوں کو گاڑی سے باہر نکا ل لیں اور اس سے پہلے کہ صورتحال خراب ہوجاتی جسٹس چوہدری نے پولیس آفیسر سے کہا کہ’’ اوکے ہم سپریم کورٹ نہیں جاتے ، گھر چلے جاتے ہیں ‘‘ ۔پولیس پیچھے ہٹی اور 5بجکر 45منٹ پرجب افتخار چوہدری گھر پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سادہ کپڑوں میں ملبوس بیسوؤں اہلکاروں نے ان کا گھر چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔تمام ٹیلی فون ڈیڈ ہو چکے تھے ۔ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کنکشن کاٹ دیئے گئے تھے، نہ کوئی گھر کے اندر آسکتا تھا اور نہ کسی کو گھر سے باہرجانے کی اجازت تھی ۔ اوریوں نہ صرف چیف جسٹس آف پاکستان اپنے خاندان سمیت نظر بند ہو گئے بلکہ پوری دنیا سے ان کا رابطہ بھی منقطع ہو گیا ۔ اس سے آگے جو کچھ ہواوہ آپ سب جانتے ہیں لیکن یہ اور باقی سب کچھ جسٹس چوہدری کی اُس کتاب میں آنے والا ہے جو اب لکھی جا رہی ہے ۔اسی کتاب میں ہے کہ جب وہ گھر پہنچے تو اہل خانہ کی حالت کیا تھی ،پہلی رات کیسے گذری ،کیسے ان کے 7سالہ بیمار بچے کی دوائیاں روک لی گئیں، کیسے ایک بیٹی کالج اور دوسری یونیورسٹی کے پیپرز دینے نہ جا سکی اور ان کے گھر کے پرانے ملازمین کو کیوں اٹھا لیا گیا ۔ آپ اسی کتاب میں پڑھیں گے کہ جب چوہدری شجاعت انہیں ملنے آئے تو باہر کیا ہو رہا تھا ۔ سندھ ہاؤس سے لمحہ بہ لمحہ انہیں کس کے کہنے پر مانیٹر کیا جاتا رہا ۔ بے نظیر بھٹو نے انہیں کیا پیغام بھجوایا ۔ وہ چیف جسٹس ہاؤس کیوں آئیں ،اعتزاز احسن انہیں زرداری صاحب سے ملوانے کیوں لے گئے ،وہاں کیا باتیں ہوئیں۔نظر بندی کے دوران وہ کِن حالات سے گزرے ،انہیں کیا کیاپیشکشیں ہوئیں ۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر ارسلان اور ریاض ملک کی کہانی کا دوسرا رخ کیا ہے ۔ چیف جسٹس بحالی تحریک کے قائدین کیوں بدل گئے ، دیکھتے ہی دیکھتے کِس کِس کی زندگی سنور گئی ۔شروع کے دنوں میں جج صاحبان کا رویہ کیسا رہا ، جسٹس چوہدری کا بیٹا ساری ساری رات چھت پر پہرہ دینے پر کیوں مجبور ہوا ،چوہدری صاحب پیدل سپریم کورٹ جانے کیلئے محصور گھر سے نکلنے میں کیسے کامیاب ہوئے ، بلوچستان ہاؤس کے سامنے مشہور زمانہ ’’پولیس گردی ‘‘ سے پہلے سابق وزیراعظم جمالی انہیں کہاں لے گئے ، وہاں کیا گفتگو ہوئی۔جسٹس چوہدری نے جمالی صاحب سے کیا فرمائش کی اور جمالی صاحب نے مسز افتخار چوہدری کو واپس گھر کیوں بھیج دیا ۔ اسی کتاب سے آپ کو پتا چلے گا کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے کہ جسٹس چوہدری شعیب سڈل کو چیئر مین نیب لگوانا چاہتے تھے ۔عمران خان کے الزامات میں کتنی سچائی ہے۔ موجودہ صورتحال پر وہ کیا سوچتے ہیں ، اب کی جوڈیشری پر ان کو تحفظات کیوں ہیں اور کل تک ان پر جانیں وار دینے کی باتیں کرنے والے آج خاموش کیوں ہیں ۔ یہ کتاب جسٹس چوہدری کا سچ ہے، یہ سچ آنے والا ہے اور مجھے اتنا تو یقین ہے کہ جب یہ سچ آئے گا تو آپ اپنے ضمیر کی پارلیمنٹ میں چوبیسویں ترمیم لانے پر مجبور ہو جائیں گے ۔

’’16دسمبر کا سبق ‘‘

- Posted in Amaal Nama by with comments

’’بڑا پرندہ پنجرے میں ہے ۔دوسرے اپنے گھونسلوں میں موجود نہیں ۔اوور‘‘جونہی 25مارچ 1971ء کو رات دو بجے جنرل ٹکا خان کے ہیڈ کوارٹر میں کھڑی جیپ کے وائر لیس سیٹ پر 57بریگیڈ کے میجر جعفر کی آواز گونجی تو ’’آپریشن سرچ لائٹ ‘‘کرنے والے کمانڈوز آزاد بنگلہ دیش کا اعلان کرچکے ،شیخ مجیب الرحمن کو ان کے بیڈ روم سے حراست میں لے کر فوجی چھاؤنی کی طرف روانہ ہو چکے تھے ۔ مگرا ب دیر ہو چکی تھی ۔کیونکہ مغربی پاکستان کا مجرم مجیب الرحمن اب مشرقی پاکستان کا ہیروتھا ۔دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ قائدِاعظم کی وفات اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اُس وقت جب ایکدوسرے سے ہزار میل دور مشرقی اور مغربی پاکستان میں مضبوط اور سب کو قابلِ قبول حکمران کی ضرورت تھی، اُس وقت پورا ملک مفلوج اور معذور گورنر جنرل غلام محمد کے رحم وکرم پرتھا ۔اور ان کی حالت یہ تھی کہ بقول قدرت اللہ شہاب’’ پاگل پن کے قریب پہنچے غلام محمد صبح سویرے سوٹ پہن کر وہیل چیئر پر کینٹ روم میں آجاتے۔اپنے سٹاف کو جمع کرتے ۔ان کو وزارتیں دیتے ،ان سے حلف اٹھواتے ،ان میں پورٹ فولیوز تقسیم کرتے ، اور پھر گھنٹوں اس کابینہ کے اجلاس سے خطاب فرماتے مگر فالج زدہ زبان کی وجہ سے کسی کے پلے کچھ نہ پڑتا‘‘۔ دیر اس لیئے بھی ہوچکی تھی کہ جب سیاسی استحکام کی ضرورت تھی، اُس وقت 10سالوں میں 7وزراء اعظم اور 3گورنر جنرلز اور صدور بھگتانے کے بعد ملک ایوب خان کے مارشل لاء کی نذر ہوگیااور وہ ایوب خان جو سرِعام بنگالیوں کو ناقابل اعتبار مخلوق کہتے اور جن کی 10سالہ دورِ ترقی میں ڈھاکہ کو کچھ نہ ملااوروہ ایکدن سب کچھ یحییٰ خان کو سونپ کر چلتے بنے ۔دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ ملکی قیادت کی باہمی لڑائیوں، سازشوں اور ایکدوسرے پر اعتماد کا یہ عالم تھا کہ بقول شہاب صاحب ’’ایکدن صدر سکندر مرزا نے مجھے قرآن پاک کا ایک نسخہ دیا۔ جس کے سرورق کی پشت والے خالی صفحے پر تمام بڑے سیاستدانوں نے اللہ کو حاضر ناظر جان اور قرآن پاک کو گواہ بنا کر آپس میں تعاون کرنے کا عہد نامہ کرکے دستخط کیئے ہوئے تھے۔مگر3ماہ بعد ہی یہ عہد نا مہ ٹوٹ گیا اور سب پھر سے سازشوں میں لگ گئے‘‘ ۔آئین پاکستان کی کیا حیثیت رہ گئی تھی شہاب صاحب ہی بتاتے ہیں کہ ایک روز صدر سکندر مرز آئے۔ اُنہوں نے میرے دفتر میں داخل ہوتے ہی ہاتھ میں پکڑے دستورِ پاکستان کے کتابچے کو ہوا میں لہراکر بلند آواز میں کہا ’’شہاب صاحب یہ کیا Trash (بے کار،ردی) ہے‘‘۔ دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ ہمارے سیاسی تدبر کا یہ حال ہو چکا تھا کہ جس رات سینکڑوں بنگالی قتل اور بنگلہ دیش کی تمام قیادت گرفتار ہوتی ہے ۔ اُس سے اگلے دن کراچی میں بھٹو بیان دیتے ہیں کہ ’’شکر ہے پاکستان بچ گیا ہے ‘‘۔ دوسری طرف مجیب الرحمن بولے ’’بھٹو قاتل ہے‘‘۔ جواباً بھٹونے کہا ۔’’ مجیب غدار ہے اسے سزا ملنی چاہیے‘‘۔ پھر کہا ’’جو ڈھاکہ جائے گا اُس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور میں گندے انڈوں کیساتھ نہیں بیٹھوں گا‘‘، اور پھر کہہ دیا ’’اِدھر ہم اُدھر تم ‘‘۔ دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ زمینی حقائق یہ تھے کہ ایک طرف ڈھاکہ ائیر پورٹ پر جب میجر صدیق سالک (وہی صدیق سالک جو بعد میں بریگیڈئیربنے اور ضیا ء الحق کے ساتھ جہاز میں جہاں بحق ہوئے ) نے سامان اٹھانے والے بنگالی لڑکے کو ٹپ دینا چاہی تو پاس کھڑا حوالدار غصے سے بولا ’’سر ان حرام زادوں کی عادت نہ بگاڑیئے‘‘۔ جبکہ دوسری طرف پورے بنگلہ دیش میں صرف اور صرف فوجی یونٹوں پر ہی پاکستانی جھنڈا لہرا رہا تھااور دیر اس لیے بھی ہو چکی تھی کہ بھارتی کمانڈر انچیف مانک شاہ کہتے ہیں کہ’’ اندراگاندھی نے سقوطِ ڈھاکہ سے دو سال پہلے ہی ہمیں کہہ دیا تھا کہ اپنی تیاری مکمل کر لیں‘‘ جبکہ دوسری طرف جنرل ٹکا خان ایکدن ائیر مارشل اے رحیم خاں کو ٹیلی فون پر شدید غصے اور بیزاری میں بتاتے ہیں کہ ’’جی ایچ کیو سے آرڈر آتا ہے ٹینک ٹرین میں لوڈکر و‘‘،جب لوڈ کرتے ہیں تو آرڈر آجاتا ہے’’ اتار لو ،ابھی موو نہیں کرنا ،ہمارے ساتھ تو روزانہ یہی ہو رہا ہے‘‘ ۔ دیر اس لیئے بھی ہو چکی تھی کہ جب پاک فوج مشرقی پاکستان میں ایک مشکل ترین لڑائی لڑ رہی تھی،جب بھارت دنیا بھر میں پاکستانی قیادت اور فوج کوبدنام کرنے میں لگا ہوا تھا۔جب بھارتی انٹیلی ایجنسیاں 24گھنٹے کام کررہی تھیں ،اُس وقت اپنے فوجی کمانڈروں کی درخواستوں اوراپنے مشرقی پاکستان کے گورنر کے پیغاموں کے باوجود یحییٰ خان ڈھاکہ آنے کو تیار ہی نہیں تھے اور پھر یحییٰ خان نے جب اپنی سیاسی و فوجی قیادت کو فیصلے کا اختیار دیا تو اُس وقت کچھ بھی ان کے دائرہ اختیارمیں نہیں تھا ۔ یہ اسی دیر کا نتیجہ تھا کہ ایک ماہ بعد ہی مجیب رہا ہوگیا ،پورا مشرقی پاکستان باہر نکلا ،ایک ایک کر کے ہم ہر محاذ پر ہارتے گئے اور پھر وہ وقت آیا کہ دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس اور 1965ء کی جنگ میں ہلال جرأت لینے والے ٹائیگر کے نام سے مشہور جنرل امیر عبداللہ نیازی سقوطِ ڈھاکہ سے آٹھ دن پہلے گورنر اے ایم مالک کے سامنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر بچوں کی طرح رونے کے بعد اُسی شام میجر صدیق سالک کو کہتے ہیں کہ ’’ سالک شکرکرو تم آج جرنیل نہیں ہو‘‘اور ان کی ذہنی سطح ملاحظہ ہو کہ ہتھیار ڈالنے کے بعد جنرل اروڑا سے پوچھتے ہیں کہ ’’میں کیسا لڑا ‘‘۔ دوستو! بلاشبہ بھارت کی اکھنڈ بھارت کی کوششیں ، کرنل ایم اے جے عثمانی کی مکتی باہنی کی کاروائیاں ،اپنے دوستوں کا منہ پھیر لینا، ون یونٹ کا ٹوٹنا ، مغربی اور مشرقی پاکستان کے متفقہ 56کے آئین کا خاتمہ ، مجیب کے 6نکات، بنگالی رہنماؤں کی وعدہ خلافیاں ،چالاکیاں اور یو ٹرن ،اگر تلہ سازش کیس،بنگالی خواتین کی عصمت دری ،آئے روز ہوتی ہلاکتیں، سارجنٹ ظہور الحق کی موت، فوج میں بنگالی یونٹوں کے قیام کا معاملہ،3مارچ 1971کو اسمبلی اجلاس ملتوی کرنے کا فیصلہ اور باقی جو کچھ ہوا اس نے جلتی پر تیل ہی ڈالا مگر اصل بات تو یہ ہے کہ جو کچھ ہم نے بویا ،وہی ہم نے کاٹ لیا۔اور قصور وار کوئی ایک نہیں ،سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔ مگر دکھ کی بات یہ ہے پاکستان بننے کے 24سال بعدآئے 16 دسمبر سے آج 43سال گذرنے کے بعد بھی ہم نے کچھ نہیں سیکھا ،اگر اُس وقت’’ اگرتلہ ساز ش ‘‘کی باتیں تھیں تو آج لندن پلان کی کہانیاں ہیں ۔ اگر اُس وقت قائداعظم کے پتلے نذرِآتش ہوتے اور پرچم جلا ئے جاتے تھے تو آج بلوچستان میں قومی پرچم کے ساتھ یہی کچھ ہو چکا اور زیارت ریڈنسی تک محفوظ نہیں رہی ۔ اگر اُس وقت ڈھاکہ کہتا تھا کہ ہمارے وسائل کوئی اور کھا جاتا ہے تو آج پشاور اور کوئٹہ یہی باتیں کر رہا ہے ۔ اگر اُس وقت مجیب الرحمن غدار تھا تو آج حکومتی ترجمانوں نے عمران خان کو عمران نیازی کہنا شروع کر دیا ہے ۔ اگر اُس وقت ڈھاکہ ،سلہٹ ،جسور اور چٹا گانگ میں لوگ مر رہے تھے تو آج کراچی،کوئٹہ کے ساتھ ساتھ لاہور،اسلام آباد اور فیصل آباد میں یہی کھیل جاری ہے ۔اگر اُس وقت حکومت نے اپنے مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگا رکھا تھا تو آج دوسال گذر گئے مگر حکومت 4حلقے کھولنے پر تیار نہیں ۔اگر اُس وقت جلاؤ گھیراؤ اور پہیہ جام کی باتیں ہور ہی تھیں تو آج بھی یہی کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے ، اور اگر اُس وقت حکمران مشرقی پاکستان جانا گوارہ نہیں کرتے تھے تو آج دو سالوں میں وزیراعظم پاکستان کے لاہور کے دوروں کو دیکھ لیں اور پھرکوئٹہ اور پشاور کے دورے گن لیں ۔ اور اگر اُس وقت خوشحالی اور ترقی صرف مغربی پاکستان کا مقدر تھی تو آج بھی سب منصوبے لاہور اور اسلام آباد کیلئے ہی ہیں ۔ یہ سوچنے کی باتیں ہیں،سب کرنے کے کام ہیں اور ہمیں اب دیر نہیں کرنی چاہیے ۔ مگر 16دسمبر کاسب سے بڑا سبق جو یاد رکھنا ہوگا وہ یہ ہے کہ جو حکمران اپنی قوم کی نہیں سنتے،اپنے سیاسی مخالفین کی نہیں مانتے اور اپنوں کی عزت نہیں کرتے ،ان کی باہر کوئی عزت نہیں ہوتی ، انہیں غیروں کے آگے جھکنا پڑتا ہے اور انہیں بالآخر دشمنوں کے آگے ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں۔