ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ قذافی ،حسنی مبارک، بن علی اورصدام حسین کے اقتدار کا سورج سوا نیزے پر تھا ۔ یہ سب ’’گریٹ لیڈرز‘‘ تھے ۔ ان سے ملنا ،بات کرنا کسی اعزاز سے کم نہ تھا ۔جن سے یہ سیدھے منہ بات کر لیتے ،ان کے چال چلن ہی بدل جایا کرتے ۔ ہمارے ایک وزیراعظم قذافی سے ملنے لیبیا گئے ۔اڑھائی دن انتظار کے بعد 10منٹ کی ملاقات ہوپائی اور پھر 10منٹ کی اس ملاقات کے 10دن تک چرچے ہوتے رہے۔ہیلری کلنٹن وزیرخارجہ بنیں تو اس نے قذافی سے ملنا چاہا ۔ کرنل صاحب ان دنوں صحرا میں خیمہ لگائے فطر ت کی خوبصورتیوں میں کھوئے ہوئے تھے ۔ ہفتہ بھر کی خط وکتابت اور ٹیلی فونک رابطوں کے بعد کرنل قذافی نے اپنے چھوٹے بیٹے متصم قذافی کو اس پیغام کے ساتھ امریکہ بھجوادیا کہ اسے مل لیں یہ بھی مجھ جتنا ہی بااختیار قذافی ہے ۔اسی بااختیار متصم قذافی کو جب ہم وطنوں نے تشدد کے بعد گولی مار کر ہلاک کیا تو اس وقت ایک بنیان اور شلوار کے علاوہ اس کے جسم پر کچھ نہ تھا ۔مگر کیا وقت تھا ۔کیا شان تھی ۔ قذافی کے ولی عہد بیٹے سیف الاسلام قذافی نے 2010ء کی اپنی سالگرہ خوابوں کے جزیرے ’’مانٹیگرو‘‘ میں منائی ۔ یہ وہ جزیرہ ہے کہ جہاں صرف ارب پتی جایا کرتے ہیں اور جہاں 12مہینے بادل زمین پر بچھے رہتے ہیں ۔سیف الاسلام کیلئے پورا جزیرہ بک تھا ۔دنیا بھر سے اس کے خرچے پر دوہزار مہمان وہاں پہنچے ۔صف اول کے فنکار،ہیرے ا ورسونے کے تاجر ،ولی عہد اور شہزادے ،کون تھا جو سیف الاسلام کو ’’ہیپی برتھ ڈے ‘‘کہنے نہیں آیا ۔یہ وہی سیف الاسلام تھا جسے ٹونی بلیئر ’’مائی فرینڈ ‘‘ کہہ کر پکارتا تھا ۔جو ملکہ برطانیہ کا مہمان بن کر کئی مرتبہ شاہی محل میں رہا ۔ جو دنیا بھر سے کوئی چیز خریدتے ہوئے کبھی قیمت نہیں پوچھتا تھا ۔ جس کیلئے خاص طور پر پرفیوم بنائے جاتے اور جو کہیں بھی ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اختیار رکھتا تھا ۔آج وہی سیف الاسلام طرابلس کے 12فٹ چوڑے اور 16فٹ لمبے کمرے میں قید ہے اور ایک بیڈ اور دو جوڑے کپڑوں کے علاوہ اس کے پا س کچھ نہیں ۔بادشاہوں کا بادشاہ کہلانے والا کرنل قذافی اپنے جن لوگوں کو غلیظ کیڑے اور کاکروچ کہتا رہا۔اُنہی کاکروچوں اور غلیظ کیڑوں نے نہ صرف اس کی ننگی لاش سٹرکوں پر گھسیٹی بلکہ اسے صحرا میں کسی نامعلوم مقام پر اس وقت دفنا یا جب اس کا مردہ جسم پھول کر پھٹنے والا ہوچکا تھا اور بدبو برداشت سے باہر تھی۔ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ ایکدن حسنی مبارک کے بڑے بیٹے جمال مبارک کو نجانے کیا سوجھی ۔دوست کی سالگرہ تھی ۔ ایک خاص ذائقے والے کیک کا آرڈر ایک سوئس سیون سٹار ہوٹل کو دیا ۔ تما م دوستوں کو ایک جہاز میں بٹھایا اور اُدھر کیک تیار ہوا اور اِدھر یہ سب بھی سوئٹز ر لینڈ پہنچ گئے۔ سبزے سے ڈھکے پہاڑ ،پہاڑوں میں درختوں اور آبشاروں سے بھری وادی،وادی میں موجود سیون سٹار ہوٹل اورسیون سٹار ہوٹل کا مالک عملے سمیت اپنے ان مہمانوں کے استقبال کیلئے خود موجود ۔ سب کچھ تیار تھا ،کیک کٹا،کافی اور سوپ پیا گیا اور 3گھنٹوں کے بعد یہ قافلہ واپس قاہرہ روانہ ہوگیا ۔آج اُسی جمال مبارک کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور وہ کہیں اور نہیں قاہرہ میں ہی اپنے بھائی کے ساتھ ایک قید خانے میں بند ہے۔ 30سال تک مصر کے سیاہ وسفید کا مالک حسنی مبارک جس کیلئے کپڑے تیا ر کرنے والی اٹالین فیکٹری کو اجازت نہیں تھی کہ وہ کچھ اور بنا سکے ۔ جس کے پاس دنیا بھر کے رہنما اپنے مسائل کے حل کیلئے آیا کرتے تھے ۔ آج وہی حسنی مبارک کینسر کے مرض میں مبتلا ہسپتال میں ہے ۔ ہسپتال کے کمرے کو جیل قرار دیا جا چکا ہے اور پوری دنیا اسے لوہے کے پنجرے میں عدالتی پیشیاں بھگتتے دیکھ چکی ہے اور دیکھ رہی ہے ۔تیونس کا راجہ بن علی جو کبھی اتنا بااختیار تھا کہ اُس نے ایک بار اپنے نائی کو نائب وزیر بنا دیا ۔لیکن جب ایک سبزی فروش کی خود سوزی پر لوگ گھروں سے نکلے تو اسی بن علی کو سعودی عرب کے علاوہ کہیں اور جائے پناہ نہ ملی ، سونے کے برتنوں میں کھانے کے شوقین نئی گاڑیوں اور جدید اسلحے کے شیدائی اور اقتدار کی خاطر داماد تک کو مار دینے والے چراوہے کے بیٹے اور سوتیلے باپ کے ظلم وستم سے تنگ آکر بغداد آنے والے صدام حسین کے چوہے کے بل جیسی چند فٹ کی سرنگ سے پھانسی گھاٹ تک کے مناظر ۔ کہاں گئے یہ سب بادشاہ،کہاں گئیں ان کی بادشاہتیں،کیا ہوا ان کی دانائیوں اور حکمتوں کو اور کیسے مٹی میں مل گئے یہ سب ناز نخرے ۔کل جو سب کچھ تھے ۔ آج وہ دھونڈ نے سے بھی نہیں مل رہے ۔ فرمان الہی ہے کہ ’’سب نے فنا ہو جانا ہے۔صرف اللہ تعالیٰ کی ذات باقی رہے گی ‘‘۔ حضرت علیؓ سے کسی نے کہا بہت پریشان ہوں ۔فرمایا کیوں ؟ وہ کہنے لگا سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس دنیا کیلئے کتنا کچھ کروں اور آخرت کیلئے کتنا کچھ کروں ۔فرمایا ’’اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔جتنا یہاں (دنیا میں) رہنا ہے اِتنا اس کیلئے کرو اور جتنا وہاں رہنا ہے اتنا اُس کیلئے کرو‘‘۔۔آج دل تو چاہ رہا ہے کہ اپنے قذافیوں،حسنی مبارکوں ،صداموں ان کے سب چہتوں کو بتاؤں کہ مٹھی خواہ ٹارزن کی بھی ہو ،وقت کو پھسلنے سے روک نہیں سکتی ،طاقت فرعون کی بھی ہواور دولت قارون سے زیادہ ہی کیوں نہ ہو ،جب سورج ڈھلنے کا وقت آتا ہے تو اندھیرے خواہ رات کے ہوں یا قبرکے ، آکے ہی رہتے ہیں ۔آج دل تو چاہ رہا ہے کہ اپنے لوکل قذافیوں ،حسنی مبارکوں اور صداموں ،ان کے جما ل مبا رکوں اور سیف الاسلاموں سے کہوں کہ تم سے زیادہ طاقتور اور عقل والے ہو کر بھی جب وہ کچھ بچا نہ پائے تو دراز رسی کے کھیچنے پر تم کیا کرو گے ،ان کی دولتیں اور جاہ وجلال جب ان کے کسی کام نہ آئیں تو سوئس بینکوں میں پڑے ڈالرز اور دنیا بھر میں پھیلے تمہارے عیش کدے کیا تمہیں بچا لیں گے ۔اور ’’میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمرؓ ہوتا ‘‘ رسول خدا ؐ کا وہی عمر فاروق ؓ جب فرات کے کنارے بھوک سے مرنیواے کتے کی جوابدہی سے خوفزدہ ہے تو تم اپنی 67سالہ عوامی قتل وغارت اور لوٹ کھسوٹ کا کیا جواب دو گے ۔کاش ایوب ،ضیاء ،بھٹو یا بے نظیر، کوئی ایک ہی چند لمحوں کیلئے آکر ان کو بتا جائے کہ آگے کیا ہوا، ہوتا ہے یا ہوسکتا ہے لیکن چونکہ تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کسی نے سبق نہیں سیکھا ۔ اس لیئے مجھے تو یہی لگتا ہے کہ جب تک یہ گردنیں موجود ہیں ان گردنوں سے سرئیے نہیں نکلیں گے ۔ آخرمیں جاتے محرم اور آتے دسمبر کے ان لمحوں میں کربلا سے سقوطِ ڈھاکہ کی بڑھتے ہوئے عدیم ہاشمی مرحوم کا یہ شعر آپ کی نذر :۔
ہم ایک لاکھ تھے ، ہم نے تو سر جھکا دیئے حسین ؑ تیرے بہتر سروں پر لاکھ سلام