Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

!عورت ۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

فرانسیسی کہتے ہیں کہ ’’عورت ،وقت اور ہوا کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا‘‘ ،جاپانیوں کا خیال ہے کہ’’ عورت ایک ہی راز رکھ سکتی ہے اور وہ ہے اپنی عمر کا راز‘‘۔چینی کہاوت ہے کہ ’’دولت اور عورت فساد کی جڑ ہیں‘‘ ۔عربی محاورہ ہے کہ’’ پرانی گندم ،تازہ مکھن ،توانا گھوڑا اور خوبرو عورت پاس ہو تو یہ دنیا کسی جنت سے کم نہیں ‘‘۔ہسپانیوں کا کہنا ہے کہ ’’اکیلی عورت وہ ہوتی ہے جو اپنے لیئے پرفیوم خود خریدے‘‘ جبکہ شیخو کا تجربہ کہتا ہے کہ’’ جس عورت کو مرد کی سمجھ نہ آئے وہ اُسے چھوڑ دیتی ہے اور جس مرد کو عورت کی سمجھ نہ آئے وہ اُسے اپنا لیتا ہے‘‘ ۔ابھی پچھلے ہفتے شیخو کی پسندیدہ خاتون اداکارہ کو شب خوابی کے لباس میں ایک مارننگ شو میں دیکھا ۔موصوفہ جنہوں نے اتنی دنیا نہیں دیکھی جتنا دنیا نے انہیں دیکھا ہے اور جن کی فلمیں اور ڈرامے دیکھ کر پتا ہی نہیں چلتا کہ رول زیادہ بر ا تھا یا اداکاری ۔فرمارہی تھیں کہ ’’میرا گھرانہ اتنا مذہبی تھا کہ والد نے گھر سے پریشر ککر اٹھوا دیا کہ بچیاں جوان ہیں اور یہ سیٹیاں مارتا ہے‘‘ آئیڈیل مرد کے حوالے سے کہا کہ ’’جب بھی مجھے کوئی ڈھنگ کا بندہ مِلاتو اتفاق ایسا ہوا کہ یا تواُس وقت اُس کی کوئی بدصورت بیوی ہوتی یا پھر میرا کوئی نہ کوئی شوہر زندہ ہوتا ‘‘۔سوال ہوا آپکی عمر جواب مِلا 25سال اور کچھ مہینے، پوچھا گیا کتنے مہینے، جواب آیا 350مہینے ۔ میزبان نے انگریزی میں سوال کیا تو بولیں ’’انگلش کمز ٹو می آلسو‘‘ پھر کہنے لگیں ’’اوپن دا ونڈو لٹ انوائرمنٹ کم ان سائیڈ ‘‘ ۔ ایک پرستار کو آٹو گراف دے کر کہا " Go kill the waves"مطلب جاؤ موجیں مارو ۔پسندیدہ خوراک "Head Foot" بتائی یعنی سری پائے ۔پروگرام میں لفظ دستک کا یہ جملہ بنا یا ’’مجھے دس تک گنتی آتی ہے ‘‘ شادی کارڈز پر لکھے ’’ج م س ف‘‘ کا مطلب ان کے مطابق’’ جوتوں سے مرمت فرمائیں ‘‘تھا ،پھر سے شادی کے سوال پرکہا ’’نہیں اب نہیں ،میری شادی اب فن سے ہو چکی‘‘۔ اس پر شیخو بولا ’’ بہت اچھا فیصلہ ہے اس سے ایک تو طلاق کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور دوسرا بچے بھی اسی کی تحویل میں رہیں گے ‘‘۔ دو دن پہلے شیخو سے ملاقات ہوئی تو کچھ زیادہ ہی سیاسی لگا ، اپنے پسندیدہ موضوع خواتین پر بھی بولنے کو تیار نہ تھا ،بہت چھیڑا تو یہ کہہ کر کہ ’’میٹھی سے میٹھی عورت میں بھی اتنا زہر ہوتا ہے کہ جب چاہے بندہ مار دے ‘‘ ۔پھر سیاست کی طرف آگیا کہنے لگاکہ’’ جیسے غلط موقع پر صحیح بات کرنا عمران خان کی پسندیدہ عادت ہے ایسے ہی سرکاری اشتہارات پر اپنے چہرے دیکھناہمارے لیڈران کا پسندیدہ شوق ہے‘‘ ۔بولا ڈینگی سے بچاؤ کا اشتہار آیا مگر اُس پر تصویراپنے ایک رہنما کی تھی۔ کار چوروں سے ہوشیار رہیے والے اشتہار پر بھی اپنے ایک لیڈر مسکراتے ملے ، پولیو ایک خطر ناک بیماری والے اشتہار پر بھی اپنا ایک قائدپوز بنائے بیٹھا تھا ، خواتین کے عالمی دن پر جو اشتہار شائع ہوا اس پر بھی ہمارا ایک مر د رہنما تشریف فرما تھا اور تو اور لائیو سٹاک کے اشتہار پر ایک طرف گائے ،بھینس ،بکری اور مرغیوں کی تصویر تھی جبکہ دوسری طرف شرمیلی مسکراہٹ بکھیرتا اپنالیڈر بیٹھا تھا ۔ کہنے لگا کہ اگر دھرنوں کیخلاف اپنی بقاء کیلئے پارلیمنٹ اکھٹی ہوسکتی ہے تو مہنگائی اور بے روز گاری کیخلاف عوامی بقاء کیلئے کیوں نہیں اوراگر سینٹ کی چیئرمینی کیلئے حکومت اور اپوزیشن ایک ہوسکتی ہے تو قومی مسائل اور مصائب پر کیوں نہیں ۔پھر بولا بجلی اس وقت چلی جاتی ہے جب اس کی ضرورت ہو تی ہے اور گیس تو اب انسانوں کے پیٹوں میں ہی رہ گئی ہے۔ فرمانے لگا ہمارے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ آنکھوں والوں کو کچھ سجھائی اور سمجھائی نہیں دے رہا جبکہ نابینا آئے روز سڑکوں پر ہوتے ہیں ۔ جب خاموش ہوا تو میں نے کہا کہ قبلہ آپ عمر کے جس حصے میں ہیں وہاں اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ دوسروں کی خامیاں ہی ہوتی ہیں تو میرے گرد آلود پرانے جوتے دیکھتے ہوئے بولا ’’کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اچھے جوتے نہ پہننے والے کی شخصیت بھی اپنے جوتوں کی طرح ہی ہوتی ہے ۔ نپولین نے ایک با رکہا ’’میں نے ملکوں اور تاجوں کو روندڈالا مگر ایک عورت سے شکست کھا گیا ‘‘،پرتگالی دانش کہتی ہے کہ ’’عورت سے بات کرتے وقت وہ سنیئے جو اسکی آنکھیں کہتی ہیں ‘‘۔ قدیم ہندو شاستروں میں عورت کی 404چالبازیاں بتائی گئیں ، 404اس لیئے کہ اس وقت لوگوں کو گنتی ہی اتنی آتی تھی ۔ عورت کو سب سے زیادہ وہ جانتا ہے جسے یہ معلوم ہے کہ وہ اسے نہیں جانتا ۔ عورت کو میں نے سمجھ لیا یہ کہنے والا کم ازکم زندہ تو کوئی نہیں اور جو زندہ نہیں اُس سے یہ سوال پوچھا نہیں جا سکتا۔ عورت کو اگر کسی نے سمجھا ہے تو وہ خود عورت ہی ہے ۔خوشی ہے کہ ماں عورت ہوتی ہے لیکن دکھ یہ ہے کہ بیوی بھی عورت ہی ہوتی ہے۔لیکن کیا کریں جیسے نیند میں کوئی ولی نہیں بنتا ایسے ہی عورت کے بغیر کوئی مردبھی نہیں بن سکتا ۔کہتے ہیں جاٹ بانسری بجانے لگے تو خطرناک،برہمن ہاتھ میں چھڑی پکڑلے تو خطرناک ،کوئی مسلسل پی ٹی وی دیکھنے لگ جائے تو خطرناک اور بیوی چپ ہو تو خطرناک۔ سیانے کہتے ہیں کسی کو جنگ پر جانے اور شادی کا مشورہ نہ دو ۔ میرا ایک وہ دوست جس کے بٹوے سے جب ان کی بیگم نے اداکارہ نیلی کی تصویر پکڑ لی تو بیگم کے ہی سر پر ہاتھ رکھ کر بولا ’’ تصویر تمہاری ہی تھی بس بٹوے میں پڑی پڑی نیلی ہوگئی ہے‘‘ ۔اس صاحبِ کمال کا کہنا ہے کہ میری دو شادیاں ہوئیں اور دونوں ناکام ہوئیں ۔ پہلی بیوی مجھے چھوڑ گئی اور دوسری چھوڑتی ہی نہیں ۔ اسی سیانے کا قول ہے کہ انسان تو شادی کرتے ہی مر جاتا ہے بعد میں جو نظر آتا ہے وہ تو خاوند ہوتا ہے اور ’’عجلت میں شادی کرو گے تو فرصت میں پچھتاؤ گے ‘‘۔ کہتا ہے ’’غم آدمی کو عقل مند بناتا ہے مگر عورت کا دیا ہو اغم عبرت بنادیتا ہے‘‘۔ایکدن بولا’’ شادی سے بڑی بے وقوفی کوئی نہیں اور دانا وہ ہے جو شادی سے پہلے یہ جانتا ہو‘‘۔کہنے لگا’’ جیسے دولت جمع کرتے وقت یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کفن کی جیب نہیں ہوتی ایسے شادی کرتے وقت یہ بھی خیال میں رہے کہ بیوی تیز رفتار گھوڑے پر بیٹھ کر آتی ہے اور کندھوں پر واپس جاتی ہے لیکن کندھوں کے اس استعمال کی نوبت کم کم ہی آتی ہے ۔لیکن صاحبو جب سے ہم نے یہ سنا ہے کہ فلپائن میں طلاق نہیں دی جا سکتی،رومانیہ کی رفقہ سٹانسکو 23سال کی عمر میں دادی بن گئیں ،برمنگھم یونیورسٹی میں آسٹروفزکس میں پی ایچ ڈی کرتی میگی مریخ پر بچہ پیدا کرنے کی خواہشمند ہے اور امریکی خاتون جیمی 1000 شادیوں میں شرکت کرکے بھی خود کنواری ہے تو اپنی حالت اُسی آدمی جیسی ہوگئی ہے کہ جس نے اپنے ماں باپ کو قتل کر دیالیکن جب اسے سزا سنائی جانے لگی تو اس نے اس بناء پر رحم کی درخواست کردی کہ وہ یتیم ہے ۔ بہت سی عورتیں ایسی ہیں جو آدمی کو بے وقوف بناتی ہیں اور بہت سی ایسی ہیں جو بے وقوف کو آدمی بناتی ہیں ۔ جس نے عورت سے کبھی محبت نہیں کی وہ قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتا اور جس نے عورت سے ہی محبت کی وہ بھی قابلِ بھروسہ نہیں ہوتا۔ ویسے محبت وہ بیماری ہے جس میں مرد،عورت کی بینائی کم ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی تو یہ اندھے بھی ہو جاتے ہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ حکومت اور عورت کی محبت سے جان چھڑانا ’صبر‘سے بھی بڑا کام ہوتا ہے ۔ عورت کو خوش کرنا سب سے آسان اور اسے خوش رکھنا سب سے مشکل ۔ خدا نے مرد کو پہلے بنایا پھر عورت کو اور وہ بھی مرد کی پسلی سے ، مطلب عورت پہلے مرد تھی ،علیحدہ ہوئی تو عورت بنی مگر اب ہر مرد پہلے عورت ہوتا ہے، نو مہینوں بعد علیحدہ ہو کر مرد بن جاتا ہے ۔ عورتوں کی بہترین خصلتیں وہ ہیں جو مردوں کی بدترین صفتیں ہیںیعنی بزدلی اور کنجوسی۔عورت اور مرد کا ایک ہی رشتہ فطری ہے جو حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا کا تھا ،باقی سارے رشتے انسان کی اپنی دریافت ہیں۔عورت وہ خدائی تحفہ ہے جو جنت کے کھوجانے کی کمی پوری کرنے کیلئے دیا گیا مگر بقول شیخوپھر جہنم میں عورتیں زیادہ کیوں ہوں گی ۔ عورت پر سو باتیں اور بھی ہوسکتی ہیں کیونکہ عورت اور باتیں ایک ہی بات ہے مگر سوباتوں کی ایک بات کہ عورت کے ساتھ تو گذارا مشکل ہوتا ہی ہے مگر مشکل یہ ہے کہ عورت کے بغیر گذارہ بھی نہیں ہوسکتا ۔

’’خوشامد‘‘

- Posted in Amaal Nama by with comments

کہتے ہیں کہ دیمک کے دانت ، سانپ کے پاؤں ،چیونٹی کی ناک اور خوشامد کا منہ کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔ عربی محاورہ ہے کہ بوڑھی عورت اور خوشامد سے بچو ،فرانسیسی کہاوت ہے کہ روتی عورت ،ہنستے مرد اور خوشامد سے ہوشیار رہو ،جاپانیوں کا خیال ہے کہ آگ سے جلے اور سانپ سے ڈسے کا علاج ممکن ہے مگر خوشامد پسند مریض کا کوئی علاج نہیں ، چینیوں کا کہنا ہے کہ خوشامد بے وقوف کا خزانہ ہے جبکہ شیخو کہتا ہے کہ خوشامد روٹی کی طرح ہوتی ہے، مطلب روز ہو اور تازہ ہو ۔پاکستانی زندگی سے خوشامد نکال دیں تو ’’یہ دنیا پیتل دی‘‘لگنے لگتی ہے ۔یہاں ’’چٹیاں کلائیاں ‘‘کی اتنی مانگ نہیں کہ جتنی خوشامد کی ڈیمانڈ ہے ۔یہاں تو ان کی خوشامد بھی ہو رہی ہوتی ہے کہ جنہیں غور سے دیکھیں تو بندے کا ’’ہاسہ ‘‘ نکل جائے ۔ اپنے پاس تو ایسے ایسے خوشامدی پائے جاتے ہیں کہ جن پر خود خوشامد نازاں ہے ،یہ خاموش بھی ہوں تو لگتا ہے کہ خوشامد ہی کر رہے ہیں ،’’میں خوشامد خوشامد کر دی آپے خوشامد ہوئی‘‘ ۔ ہمارے ہاں تو اتنی محنت سے خوشامد کی جاتی ہے کہ اس سے آدھی محنت سے باعزت زندگی گذاری جا سکتی ہے ۔خیبرپختون خواہ کے ایک ممبر قومی اسمبلی کو جب پتا چلتا کہ فلاں جگہ وزیراعظم نواز شریف آرہے ہیں تویہ وہاں پہنچ جاتے ، کافی بار ایسا ہو اتو انہیں کہا گیا کہ جب آپ کو تکلیف نہیں دی جاتی تو آپ یہ تکلیف کیوں کرتے ہیں،بولے ’’میں ثواب کی نیت کر کے آتا ہوں اپنے قائد کو دیکھ کر مجھے ثواب ملتا ہے اور آپ مجھے ثواب کمانے سے روکتے ہو ‘‘ ۔مشرف کا مارشل لاء لگا اور ق لیگ بنی تو مزید ثواب کیلئے یہ نہ صرف ق لیگ میں شامل ہو گئے بلکہ پشاور کے اُس جلسے میں یہ مہمان خصوصی تھے کہ جہاں ہر برائی نواز شریف کے کھاتے میں ڈالی جارہی تھی ۔ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ایک رکنِ قومی اسمبلی کی ہیرا پھیریاں پکڑی گئیں، بی بی نے بلا کر پہلے خوب لتاڑا اور پھر انہیں کہا کہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیں ۔یہ صاحب بولے ’’اے عظیم باپ کی عظیم بیٹی اسمبلی کی رکنیت کیا چیز ہے ،آپ کیلئے تو دنیا بھی چھوڑ سکتا ہوں ‘‘،بس میری آخری خواہش پوری کر دیں ،بی بی نے پوچھا کیا، تو انہوں نے فرمایا ’’ بس ایک بار ویسے ہی مسکرا کر شفقت بھری نظروں سے دیکھ لیں جیسے ان گناہوں سے پہلے آپ دیکھا کرتی تھیں ‘‘،محترمہ بے اختیار ہنس پڑیں اور یہ صاحب بچ گئے ۔پنجاب کے ایک بڑے گھرانے کے چشم وچراغ اورممبر قومی اسمبلی کی عادت تھی کہ جب بھی پارٹی میٹنگ ہوتی یہ ایک نمایاں جگہ پر بیٹھ کر چپ چاپ اپنے پارٹی قائد کو گھورتے رہتے ۔ اس عجیب و غریب’’ گھورو پروگرام‘‘ سے تنگ آکر ایکدن پارٹی قائد کی ہمت جواب دے گئی، اُنہوں نے اِسے بلا کر کہا کہ آئندہ یہ بدتہذیبی کی تومیٹنگ کیا پارٹی سے نکال دوں گا ۔ اتنا کہنا تھا کہ یہ موٹے موٹے آنسو بہا کر بولے ’’قائد محترم یہ تو میری عبادت ہے خد ا کیلئے مجھے یہ عبادت کرنے دیں ‘‘۔ قائد نے بے اختیارانہیں اپنے بازؤں میں لے کر نہ صرف عبادت کی اجازت دیدی بلکہ چند ماہ بعد اس عبادت کو شرفِ قبولیت بخش کر انہیں وزیر مملکت بنا دیا ۔ پارٹی میٹنگ میں ایک رہنما نے جوشِ خطابت میں جب اپنے پارٹی سربراہ کو ہٹلر اور چرچل کہہ دیا تو بعدمیں توجہ دلائی گئی کہ حضور ایک تو ہٹلر اور چرچل کی شخصیات میں زمین وآسمان کا فرق تھا اور دوسرا وہ ایکدوسرے کے دشمن تھے ۔آپ نے یہ کیاجھک ماردی تو موصوف بولے ’’ میرا لیڈر اپنوں کیلئے چرچل اور مخالفین کیلئے ہٹلر ہے ‘‘۔ ق لیگ کی حکومت میں ایک رہنما اسٹیج پر بیٹھے اپنے قائد کی طرف دیکھتے ہوئے رکوع کی حالت میں جا کر بولے ’’ میرے قائد کی حکومت میں وہ وقت بھی آئے گا کہ جب ہوائی جہاز سوزوکی کار کی قیمت میں مِلا کرے گا ‘‘بعد میں کسی نے کہا قبلہ یہ کیا کہہ دیا ، تو ہنس کر بولے’’ کوئی بات نہیں سوزوکی کار کی قیمت جہاز کے برابر کر دیں گے‘‘۔ ہمارے ایک رہنمابات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ قوم کے درد نے مجھے دل کا مریض بنا دیا ہے ۔اور پھر اپنی ای سی جی رپورٹ دکھاتے ہیں جو برطانیہ کے ایک ہسپتال میں لی گئی ‘‘۔ انہی کا کہنا ہے کہ’’ جمہوریت کیلئے جیل جانے کو بھی تیار ہوں مگر بقول شیخو ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ انہیں وہاں سے گرفتار کیا جائے جہاں وہ موجود نہ ہوں‘‘۔ہمارے ایک رہنما جنہیں ٹی وی پروگراموں کی ٹی بی ہو چکی ہے ،جن کی سیاست ایسی مثالی ہے کہ لوگ مثال دیتے ہیں کہ ایسی سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔جو درباروں کی موم بتیاں بجھا کر کہہ دیتے ہیں کہ بجلی کی بچت ایسے کرنی چاہیے، بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ کسی مسئلے کے حق یا مخالفت میں ایک لفظ کہے بغیر گھنٹوں خوشامد مطلب تقریر کر سکتے ہیں ۔ شیخو کہتا ہے کہ پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جہاں لوگ اس عمر میں’’ میری جان کو خطرہ ہے ‘‘کا کہہ کر سیکیورٹی اور پروٹوکول کے مزے لے رہے ہوتے ہیں کہ جس عمر میں صرف عزرائیل والا خطرہ ہی باقی رہ جاتا ہے ۔ میرے ایک غیر سیاسی دوست کو توخادم اعلیٰ کی سیاست پسند ہے جبکہ مجھے شہباز شریف کا سرکار چلانا اور سرکاری لوگوں کو سمجھانے کا انداز اچھا لگتا ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے اکثر فیکٹری کا وہ مالک یاد آجاتا ہے کہ جس کا ملازم انشورنس پالیسی پر دستخط نہیں کر رہا تھا ۔ جب سب لوگ سب جتن کر چکے تو فیکٹری مالک اپنے ملازم کو ایک طرف لے جا کر بولا ’’دستخط کرو ورنہ ابھی کان سے پکڑ کر فیکٹری سے نکال دوں گا،ملازم نے فوراً دستخط کر دیئے ‘‘۔ بعد میں پوچھا گیا کہ پہلے دستخط کیوں نہیں کیئے تھے ،بولا پہلے کسی نے اتنے واضح طریقے سے پالیسی سمجھائی ہی نہیں تھی۔کپتان اور طاہر القادری کے اتحاد اور دھرنوں کے دوران چھوٹے میاں صاحب کی سوچ اُس آدمی کی سی تھی جو میلہ دیکھنے گیا ،سارا دن میلے میں پھرنے کے بعد ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا تو آنکھ لگ گئی لیکن جب اٹھا تو اس کا کمبل غائب تھا ،واپس آیا تو گھر والوں نے پوچھا کہ میلہ کیسا رہا ،کہنے لگا میلا شیلا تو ایک بہانہ تھا اصل میں تو سب لوگ میرا کمبل چرانے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے ۔سیاسی مخالفین کی طبیعتیں صاف کرتے ہوئے خادم اعلیٰ کی کیفیت اُس پٹھان جیسی ہوجا تی ہے جو سب کچھ لوٹنے کے بعد آخری چیز جائے نماز اٹھانے لگا تو رسیوں سے بندھا مالک بولا’’ خان صاحب یہ تو چھوڑ جاؤ،خان بولا ’’اے ظالم تم ہم کو کافر سمجھتا ہے کیا ‘‘۔ خادم اعلیٰ گا بھی لیتے ہیں ۔گلوکاری میں ان کا وہی مقام ہے جو سیاست میں ابرار الحق کا ہے۔اُنہوں نے حبیب جالب کی ’’میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا ‘‘ کو جہاں جہاں اور جس جس طرح گایا ہے ،سنا ہے کہ اوپر حبیب جالب بھی اب مان نہیں رہے،بس انتظار میں بیٹھے ہیں ۔شہباز شریف نے پنجاب پولیس کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ بقول ایک لاہوری دوست کے اب تو بیگم کو بلانے پر وہ ’’آئی جی‘‘ کہہ دے توڈر کر میں اپنا کام خود ہی کرلیتا ہوں ۔ ان کے میٹرو پروجیکٹ کے تو کیا کہنے ۔ اب بھلا اس میں ان کا کیا قصور کہ قوم میٹرو پر اتنی تیزی سے آگے نکل گئی ہے کہ روٹی ،کپڑا اور مکان پیچھے رہ گئے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے کہ ملک چاہے جتنی ترقی کر جائے حکمران ، موسم ، عورت اور خوشامد پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ ہمارے ہاں یہ کہاوت حرف بہ حرف سچ ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو ملک نے جو دیا اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور انہوں نے وطن کوجو دیا اس کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’خوشامد اور تعریف کی محبت شیطان کے دو بڑے داؤ ہیں اور زبان سے بڑھکر کوئی چیز بھی زیادہ دیر قید رکھے جانے کی حقدار نہیں ‘‘۔ امام جعفر صادق ؓ کا کہنا ہے کہ ’’خوشامدی لوگ تیرے لیئے تکبر کا تخم ہیں ‘‘۔ امام شافیؓ کہتے ہیں کہ ’’جو تمہارے ایسے اوصاف بیان کرے جو تم میں نہ ہوں وہ تمہارے ایسے عیوب بھی بیان کرے گا جو تم میں نہیں ہوں گے ‘‘۔ امام احمد بن حنبلؓ فرماتے ہیں کہ ’’دشمن سے ہمیشہ بچو ، لیکن دوست سے اس وقت بچو جب وہ تمہاری تعریف کرے ‘‘۔حضرت معروف کرخیؓ نصیحت کرتے ہیں کہ’’ جس طرح تم اپنی برائی سننا ناپسند کرتے ہو اسی طرح خو دکو مدح سرائی سے بھی بچا ‘‘۔ شیخ سعدی ؒ کے مطابق’’ خوشامد پسند پرلے درجے کا بے وقوف ہوتا ہے ‘‘۔کالٹن نے کہا کہ ’’جسے خوشامد اور قرض کی ضرورت محسو س نہ ہو وہ دنیا کا امیر ترین انسان ہے ‘‘۔سرفرانسس نے خوشامدکو میٹھا زہر کہا ۔ واصف علی واصف کا تجربہ ہے کہ خوشامد وہ بیان ہے کہ جس کے دینے والا جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور سننے والا سمجھتا ہے کہ یہ سچ ہے۔انہی کا کہنا ہے کہ ’’خوشامدی لوگ کبھی سچا لیڈرنہیں چن سکتے ‘‘اور روسی کہاوت ہے کہ ’’چیتا ،باز ، کمان اور خوشامد یہ سب جھک کر وار کرتے ہیں ‘‘۔ جیسے غلاموں کے ملک میں غلام ہی حکومت کرتے ہیں ایسے خوشامد پسندوں کے وطن میں ہمیشہ خوشامد کا ہی راج ہوتا ہے اور اپنی 67سالہ تاریخ اسکی منہ بولتی تصویر ہے ۔ قائدِاعظم اور دو چار کو چھوڑ کر ہر کسی نے یہاں خوشامد کی نقب لگا کر اقتدار کے مزے لوٹے ۔ دو روز پہلے ٹی وی پروگرام میں ایک بہت بڑے رہنما نے جب اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کریہ کہا کہ عوامی خدمت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے تو مجھے بے اختیار ان کے وہ لاکھوں ووٹرز یاد آگئے جو آج بھی سردیوں میں زمین بچھا کر اور گرمیوں میں مچھر اوڑھ کر سوتے ہیں ۔

’’خوشامد‘‘

- Posted in Amaal Nama by with comments

کہتے ہیں کہ دیمک کے دانت ، سانپ کے پاؤں ،چیونٹی کی ناک اور خوشامد کا منہ کوئی نہیں دیکھ سکتا ۔ عربی محاورہ ہے کہ بوڑھی عورت اور خوشامد سے بچو ،فرانسیسی کہاوت ہے کہ روتی عورت ،ہنستے مرد اور خوشامد سے ہوشیار رہو ،جاپانیوں کا خیال ہے کہ آگ سے جلے اور سانپ سے ڈسے کا علاج ممکن ہے مگر خوشامد پسند مریض کا کوئی علاج نہیں ، چینیوں کا کہنا ہے کہ خوشامد بے وقوف کا خزانہ ہے جبکہ شیخو کہتا ہے کہ خوشامد روٹی کی طرح ہوتی ہے، مطلب روز ہو اور تازہ ہو ۔پاکستانی زندگی سے خوشامد نکال دیں تو ’’یہ دنیا پیتل دی‘‘لگنے لگتی ہے ۔یہاں ’’چٹیاں کلائیاں ‘‘کی اتنی مانگ نہیں کہ جتنی خوشامد کی ڈیمانڈ ہے ۔یہاں تو ان کی خوشامد بھی ہو رہی ہوتی ہے کہ جنہیں غور سے دیکھیں تو بندے کا ’’ہاسہ ‘‘ نکل جائے ۔ اپنے پاس تو ایسے ایسے خوشامدی پائے جاتے ہیں کہ جن پر خود خوشامد نازاں ہے ،یہ خاموش بھی ہوں تو لگتا ہے کہ خوشامد ہی کر رہے ہیں ،’’میں خوشامد خوشامد کر دی آپے خوشامد ہوئی‘‘ ۔ ہمارے ہاں تو اتنی محنت سے خوشامد کی جاتی ہے کہ اس سے آدھی محنت سے باعزت زندگی گذاری جا سکتی ہے ۔خیبرپختون خواہ کے ایک ممبر قومی اسمبلی کو جب پتا چلتا کہ فلاں جگہ وزیراعظم نواز شریف آرہے ہیں تویہ وہاں پہنچ جاتے ، کافی بار ایسا ہو اتو انہیں کہا گیا کہ جب آپ کو تکلیف نہیں دی جاتی تو آپ یہ تکلیف کیوں کرتے ہیں،بولے ’’میں ثواب کی نیت کر کے آتا ہوں اپنے قائد کو دیکھ کر مجھے ثواب ملتا ہے اور آپ مجھے ثواب کمانے سے روکتے ہو ‘‘ ۔مشرف کا مارشل لاء لگا اور ق لیگ بنی تو مزید ثواب کیلئے یہ نہ صرف ق لیگ میں شامل ہو گئے بلکہ پشاور کے اُس جلسے میں یہ مہمان خصوصی تھے کہ جہاں ہر برائی نواز شریف کے کھاتے میں ڈالی جارہی تھی ۔ بے نظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ایک رکنِ قومی اسمبلی کی ہیرا پھیریاں پکڑی گئیں، بی بی نے بلا کر پہلے خوب لتاڑا اور پھر انہیں کہا کہ قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیں ۔یہ صاحب بولے ’’اے عظیم باپ کی عظیم بیٹی اسمبلی کی رکنیت کیا چیز ہے ،آپ کیلئے تو دنیا بھی چھوڑ سکتا ہوں ‘‘،بس میری آخری خواہش پوری کر دیں ،بی بی نے پوچھا کیا، تو انہوں نے فرمایا ’’ بس ایک بار ویسے ہی مسکرا کر شفقت بھری نظروں سے دیکھ لیں جیسے ان گناہوں سے پہلے آپ دیکھا کرتی تھیں ‘‘،محترمہ بے اختیار ہنس پڑیں اور یہ صاحب بچ گئے ۔پنجاب کے ایک بڑے گھرانے کے چشم وچراغ اورممبر قومی اسمبلی کی عادت تھی کہ جب بھی پارٹی میٹنگ ہوتی یہ ایک نمایاں جگہ پر بیٹھ کر چپ چاپ اپنے پارٹی قائد کو گھورتے رہتے ۔ اس عجیب و غریب’’ گھورو پروگرام‘‘ سے تنگ آکر ایکدن پارٹی قائد کی ہمت جواب دے گئی، اُنہوں نے اِسے بلا کر کہا کہ آئندہ یہ بدتہذیبی کی تومیٹنگ کیا پارٹی سے نکال دوں گا ۔ اتنا کہنا تھا کہ یہ موٹے موٹے آنسو بہا کر بولے ’’قائد محترم یہ تو میری عبادت ہے خد ا کیلئے مجھے یہ عبادت کرنے دیں ‘‘۔ قائد نے بے اختیارانہیں اپنے بازؤں میں لے کر نہ صرف عبادت کی اجازت دیدی بلکہ چند ماہ بعد اس عبادت کو شرفِ قبولیت بخش کر انہیں وزیر مملکت بنا دیا ۔ پارٹی میٹنگ میں ایک رہنما نے جوشِ خطابت میں جب اپنے پارٹی سربراہ کو ہٹلر اور چرچل کہہ دیا تو بعدمیں توجہ دلائی گئی کہ حضور ایک تو ہٹلر اور چرچل کی شخصیات میں زمین وآسمان کا فرق تھا اور دوسرا وہ ایکدوسرے کے دشمن تھے ۔آپ نے یہ کیاجھک ماردی تو موصوف بولے ’’ میرا لیڈر اپنوں کیلئے چرچل اور مخالفین کیلئے ہٹلر ہے ‘‘۔ ق لیگ کی حکومت میں ایک رہنما اسٹیج پر بیٹھے اپنے قائد کی طرف دیکھتے ہوئے رکوع کی حالت میں جا کر بولے ’’ میرے قائد کی حکومت میں وہ وقت بھی آئے گا کہ جب ہوائی جہاز سوزوکی کار کی قیمت میں مِلا کرے گا ‘‘بعد میں کسی نے کہا قبلہ یہ کیا کہہ دیا ، تو ہنس کر بولے’’ کوئی بات نہیں سوزوکی کار کی قیمت جہاز کے برابر کر دیں گے‘‘۔ ہمارے ایک رہنمابات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ قوم کے درد نے مجھے دل کا مریض بنا دیا ہے ۔اور پھر اپنی ای سی جی رپورٹ دکھاتے ہیں جو برطانیہ کے ایک ہسپتال میں لی گئی ‘‘۔ انہی کا کہنا ہے کہ’’ جمہوریت کیلئے جیل جانے کو بھی تیار ہوں مگر بقول شیخو ان کی یہ خواہش بھی ہے کہ انہیں وہاں سے گرفتار کیا جائے جہاں وہ موجود نہ ہوں‘‘۔ہمارے ایک رہنما جنہیں ٹی وی پروگراموں کی ٹی بی ہو چکی ہے ،جن کی سیاست ایسی مثالی ہے کہ لوگ مثال دیتے ہیں کہ ایسی سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔جو درباروں کی موم بتیاں بجھا کر کہہ دیتے ہیں کہ بجلی کی بچت ایسے کرنی چاہیے، بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ وہ کسی مسئلے کے حق یا مخالفت میں ایک لفظ کہے بغیر گھنٹوں خوشامد مطلب تقریر کر سکتے ہیں ۔ شیخو کہتا ہے کہ پاکستان غالباً دنیا کا وہ واحد ملک ہے کہ جہاں لوگ اس عمر میں’’ میری جان کو خطرہ ہے ‘‘کا کہہ کر سیکیورٹی اور پروٹوکول کے مزے لے رہے ہوتے ہیں کہ جس عمر میں صرف عزرائیل والا خطرہ ہی باقی رہ جاتا ہے ۔ میرے ایک غیر سیاسی دوست کو توخادم اعلیٰ کی سیاست پسند ہے جبکہ مجھے شہباز شریف کا سرکار چلانا اور سرکاری لوگوں کو سمجھانے کا انداز اچھا لگتا ہے۔ انہیں دیکھ کر مجھے اکثر فیکٹری کا وہ مالک یاد آجاتا ہے کہ جس کا ملازم انشورنس پالیسی پر دستخط نہیں کر رہا تھا ۔ جب سب لوگ سب جتن کر چکے تو فیکٹری مالک اپنے ملازم کو ایک طرف لے جا کر بولا ’’دستخط کرو ورنہ ابھی کان سے پکڑ کر فیکٹری سے نکال دوں گا،ملازم نے فوراً دستخط کر دیئے ‘‘۔ بعد میں پوچھا گیا کہ پہلے دستخط کیوں نہیں کیئے تھے ،بولا پہلے کسی نے اتنے واضح طریقے سے پالیسی سمجھائی ہی نہیں تھی۔کپتان اور طاہر القادری کے اتحاد اور دھرنوں کے دوران چھوٹے میاں صاحب کی سوچ اُس آدمی کی سی تھی جو میلہ دیکھنے گیا ،سارا دن میلے میں پھرنے کے بعد ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا تو آنکھ لگ گئی لیکن جب اٹھا تو اس کا کمبل غائب تھا ،واپس آیا تو گھر والوں نے پوچھا کہ میلہ کیسا رہا ،کہنے لگا میلا شیلا تو ایک بہانہ تھا اصل میں تو سب لوگ میرا کمبل چرانے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے ۔سیاسی مخالفین کی طبیعتیں صاف کرتے ہوئے خادم اعلیٰ کی کیفیت اُس پٹھان جیسی ہوجا تی ہے جو سب کچھ لوٹنے کے بعد آخری چیز جائے نماز اٹھانے لگا تو رسیوں سے بندھا مالک بولا’’ خان صاحب یہ تو چھوڑ جاؤ،خان بولا ’’اے ظالم تم ہم کو کافر سمجھتا ہے کیا ‘‘۔ خادم اعلیٰ گا بھی لیتے ہیں ۔گلوکاری میں ان کا وہی مقام ہے جو سیاست میں ابرار الحق کا ہے۔اُنہوں نے حبیب جالب کی ’’میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا ‘‘ کو جہاں جہاں اور جس جس طرح گایا ہے ،سنا ہے کہ اوپر حبیب جالب بھی اب مان نہیں رہے،بس انتظار میں بیٹھے ہیں ۔شہباز شریف نے پنجاب پولیس کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ بقول ایک لاہوری دوست کے اب تو بیگم کو بلانے پر وہ ’’آئی جی‘‘ کہہ دے توڈر کر میں اپنا کام خود ہی کرلیتا ہوں ۔ ان کے میٹرو پروجیکٹ کے تو کیا کہنے ۔ اب بھلا اس میں ان کا کیا قصور کہ قوم میٹرو پر اتنی تیزی سے آگے نکل گئی ہے کہ روٹی ،کپڑا اور مکان پیچھے رہ گئے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے کہ ملک چاہے جتنی ترقی کر جائے حکمران ، موسم ، عورت اور خوشامد پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ ہمارے ہاں یہ کہاوت حرف بہ حرف سچ ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو ملک نے جو دیا اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور انہوں نے وطن کوجو دیا اس کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے کہ ’’خوشامد اور تعریف کی محبت شیطان کے دو بڑے داؤ ہیں اور زبان سے بڑھکر کوئی چیز بھی زیادہ دیر قید رکھے جانے کی حقدار نہیں ‘‘۔ امام جعفر صادق ؓ کا کہنا ہے کہ ’’خوشامدی لوگ تیرے لیئے تکبر کا تخم ہیں ‘‘۔ امام شافیؓ کہتے ہیں کہ ’’جو تمہارے ایسے اوصاف بیان کرے جو تم میں نہ ہوں وہ تمہارے ایسے عیوب بھی بیان کرے گا جو تم میں نہیں ہوں گے ‘‘۔ امام احمد بن حنبلؓ فرماتے ہیں کہ ’’دشمن سے ہمیشہ بچو ، لیکن دوست سے اس وقت بچو جب وہ تمہاری تعریف کرے ‘‘۔حضرت معروف کرخیؓ نصیحت کرتے ہیں کہ’’ جس طرح تم اپنی برائی سننا ناپسند کرتے ہو اسی طرح خو دکو مدح سرائی سے بھی بچا ‘‘۔ شیخ سعدی ؒ کے مطابق’’ خوشامد پسند پرلے درجے کا بے وقوف ہوتا ہے ‘‘۔کالٹن نے کہا کہ ’’جسے خوشامد اور قرض کی ضرورت محسو س نہ ہو وہ دنیا کا امیر ترین انسان ہے ‘‘۔سرفرانسس نے خوشامدکو میٹھا زہر کہا ۔ واصف علی واصف کا تجربہ ہے کہ خوشامد وہ بیان ہے کہ جس کے دینے والا جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے اور سننے والا سمجھتا ہے کہ یہ سچ ہے۔انہی کا کہنا ہے کہ ’’خوشامدی لوگ کبھی سچا لیڈرنہیں چن سکتے ‘‘اور روسی کہاوت ہے کہ ’’چیتا ،باز ، کمان اور خوشامد یہ سب جھک کر وار کرتے ہیں ‘‘۔ جیسے غلاموں کے ملک میں غلام ہی حکومت کرتے ہیں ایسے خوشامد پسندوں کے وطن میں ہمیشہ خوشامد کا ہی راج ہوتا ہے اور اپنی 67سالہ تاریخ اسکی منہ بولتی تصویر ہے ۔ قائدِاعظم اور دو چار کو چھوڑ کر ہر کسی نے یہاں خوشامد کی نقب لگا کر اقتدار کے مزے لوٹے ۔ دو روز پہلے ٹی وی پروگرام میں ایک بہت بڑے رہنما نے جب اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کریہ کہا کہ عوامی خدمت ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے تو مجھے بے اختیار ان کے وہ لاکھوں ووٹرز یاد آگئے جو آج بھی سردیوں میں زمین بچھا کر اور گرمیوں میں مچھر اوڑھ کر سوتے ہیں ۔

!خادمِ اعلیٰ

- Posted in Amaal Nama by with comments

شیخو کہتا ہے کہ شہباز شریف کسی کی سنتے نہیں اور عمران خان کسی کی مانتے نہیں۔ جیسے غلط موقع پر صحیح بات کرناکپتان کا شوق ہے ،ایسے ہی حکومت پنجاب کے اشتہار پر اپنی تصویر دیکھنا چھوٹے میاں صاحب کی پسندیدہ عادت ہے ۔کہنے لگا ڈینگی سے بچاؤ کا اشتہار آیا تو اُ س پر تصویر میاں صاحب کی تھی ،کار چوروں سے ہوشیار رہیئے والے اشتہار پر بھی میاں صاحب ہی مسکراتے نظر آئے اور تو اور پولیو والے اشتہار میں بھی خادم اعلیٰ علامہ اقبال والے پوز میں موجود تھے ۔ پھر گویا ہوا کہ چھوٹے میاں صاحب تووہ بڑے سیاستدان ہیں کہ جو کسی مسئلے کے حق یا مخالفت میں ایک لفظ کہے بغیر گھنٹوں تقریر کر سکتے ہیں ۔ جب خاموش ہواتو میں نے کہا کہ قبلہ آپ عمر کے جس حصے میں ہیں وہاں اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ دوسروں کی خامیاں ہی ہوتی ہیں ، تو میرے گرد آلود پرانے جوتے دیکھتے ہوئے بولا ’’ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اچھے جوتے نہ پہننے والے کی شخصیت بھی اپنے جوتوں کی طرح ہی ہوتی ہے‘‘ ۔ ڈاکٹر یونس بٹ کا کہنا ہے کہ’’ امریکی سٹرکیں کمال کی ہوتی ہیں اگرآپ نے رکنا نہ ہو اور امریکی عورتیں لاجواب ہیں اگر آپ نے شادی نہ کرنی ہو‘‘ ۔ہم سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کمال کے انسان ہیں اگر وہ سیاستدان نہ ہوں اور شہباز شریف کمال کے سیاستدان ہیں اگرملک میں جمہوریت نہ ہو ۔ ایک بار ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ’’بلونگڑ ے دیکھ کر ہی یہ یقین آتا ہے کہ بلیاں صرف لڑتی ہی نہیں رہتیں‘‘ ۔ آجکل پنڈی اسلام آباد کی موت کے کنویں بنی سٹرکیں دیکھ کر ہم جیسوں کو بھی یقین آجاتا ہے کہ شہباز شریف صرف سیاست ہی نہیں کرتے۔شیخو کہتا ہے کہ قوم میٹرو پر اتنی تیزی سے آگے جارہی ہے کہ روٹی،کپڑا اور مکان پیچھے رہ گئے ہیں ۔ شہباز شریف جتنی محنت سے غلطی کرتے ہیں اس سے آدھی محنت سے تو صحیح کام کیا جا سکتا ہے ۔ خادم اعلیٰ گا بھی لیتے ہیںیہ علیحدہ بات ہے کہ گاتے ایسے ہیں کہ گانا ختم ہونے سے پہلے گلوکار ختم ہو جاتا ہے ۔گلوکاری میں ان کا وہی مقام ہے جو سیاست میں ابرارالحق کا ہے ۔ایک بار استاد مہدی حسن کے سامنے گانا گایا تو خان صاحب بولے ’’گانا تو تم میرا ہی گا رہے تھے مگر جس طرح گا رہے تھے لگ رہا تھا کہ تمہارا ہی ہے‘‘ ۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ ملک وقوم کیلئے بے انتہا دردِ دل رکھتا ہوں ۔اگر کسی کو یقین نہ آئے تو اُسے اپنی ای سی جی رپورٹ ضرور دکھاتے ہیں ۔ انہی کا کہنا ہے کہ ملک اور جمہوریت کیلئے جیل جانے کو بھی تیار ہوں مگر خواہش ہے کہ مجھے وہاں سے گرفتار کیاجائے جہاں میں موجود نہ ہوں۔ ان کی سیاست ایسی مثالی ہے کہ لوگ مثال دیتے ہیں کہ ایسی سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے پنجاب پولیس کو اُس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ بقول ایک لاہوری دوست کے اب تو بیگم کو بلانے پر اگر وہ ’’آئی جی ‘‘ کہہ دے تو میں اپنا کام خو دہی کر لیتا ہوں ۔ میاں صاحب کی سمجھانے کی صلاحیت فیکٹری کے اس جنرل منیجر جیسی ہے کہ جس کا ملازم انشورنس پالیسی پر دستخط ہی نہیں کر رہا تھا ۔ جب سب لوگ سب جتن کر چکے تو جنرل منیجراپنے ملازم کو ایک طرف لے جا کر بولا دستخط کر دو ورنہ ابھی کان سے پکڑ کر فیکٹری سے نکال دوں گا ،ملازم نے فوراً دستخط کر دیئے ۔ بعد میں دوستوں نے پوچھا کہ پہلے دستخط کیوں نہیں کیئے تھے،کہنے لگا پہلے کسی نے اتنے واضح طریقے سے پالیسی سمجھائی ہی نہیں تھی۔ کپتان اور طاہر القادری کے میلاپ اور دھرنوں کے دوران چھوٹے میاں صاحب کی سوچ اُس آدمی کی سی تھی جو میلہ دیکھنے گیا ،سار ا دن میلے میں پھرنے کے بعد ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا تو آنکھ لگ گئی لیکن جب اُٹھا تو اس کا کمبل غائب تھا۔ واپس آیاتو گھر والوں نے پوچھا کہ میلہ کیسا رہا ،کہنے لگا میلہ شیلا تو ایک بہانہ تھا اصل میں تو سب لوگ میرا کمبل چرانے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے ۔ اپنے مخالفین کی صفائی ،دھلائی کرتے ہوئے میاں صاحب کی کیفیت اُس پٹھان کی سی ہوتی ہے جو سب کچھ لوٹنے کے بعد آخری چیز جائے نماز اٹھانے لگا تو رسیوں سے بندھا مالک بولا خان صاحب یہ تو چھوڑ جاؤ ۔ خان بولا ’’اے ظالم تم ہم کو کافر سمجھتا ہے کیا ‘‘۔ ایک کہاوت ہے کہ ملک چاہے جتنی ترقی کر جائے سیاستدان،موسم، اورعورت پر قابو نہیں پایا جا سکتا ۔ ہمارے ہاں تو یہ کہاوت حرف بہ حرف سچ ہے ۔ہمارے سیاستدا نو ں کو وطن نے جو دیا اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور انہوں نے وطن کو جو دیا اس کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بار خادم اعلیٰ جوشِ جذبات میں مائیک گرا کر بولے’’ آپ کے قائد میاں نواز شریف کی حکومت میں وہ وقت بھی آئے گا کہ جب ہوائی جہاز سوزوکی کار کی قیمت میں مِلا کرے گا‘‘۔بعد میں کسی نے کہا کہ حضور یہ کیا کہہ دیا،فرمایا ’’فکر نہ کرو کار کی قیمت جہاز کے برابر کر دیں گے ‘‘۔ شیخو کہتا ہے کہ مجھے بالی ووڈ کی جیکولین کا گانا ’’چٹیاں کلائیاں ‘‘ اتنا پسند نہیں ہے جتنی میاں صاحب کی وہ انگلی پسند ہے جس پر پچھلے تیس سال سے وہ حکومت اور سیاست کو نچا رہے ہیں۔ ہماری سیاست میں وہ نہ ہوں تو’’ سیاست پیتل دی‘‘ لگنے لگ جاتی ہے ۔وہ سیاست کے ایفل ٹاور اور سیاستدانوں کی رولز رائس ہیں ۔ ماہر ایسے کہ پل پہلے بنا لیتے ہیں نیچے سے نہر بعد میں گذارتے ہیں ۔وہ تو درباروں کی موم بتیاں تک بجھا دیتے ہیں تاکہ بجلی کی بچت ہو ۔اگر وہ کہیں کہ مجھے خوبصورت چہرہ دیکھے کافی دیر ہوگئی ہے تو سمجھ جائیں انہیں شیشہ دیکھے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا ہوگا۔شہبا ز شریف کہتے ہیں مجھے الجبرا اور عمران خان کی کبھی سمجھ نہیں آئی، خود 7زبانیں جانتے ہیں لیکن سمجھتے کونسی زبان ہیں یہ بھی آج تک کسی کو پتا نہیں چل سکا۔ ایک مرتبہ انٹرویو دیتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ سیاست میرا اوڑھنا بچھونا ہے تو مجھے لاہور میں ان کے حلقے کے وہ ہزاروں لوگ یاد آگئے جو آج بھی سردیوں میں زمین بچھا کر اور گرمیوں میں مچھر اوڑھ کر سوتے ہیں ۔ پاکستان جہاں امیر مقام اور قائم علی شاہ جسیے نابغہ روزگارموجود ہوں وہاں شہباز شریف کا دم بھی غنیمت لگتا ہے ۔سنا ہے کہ امیر مقام کو ایک مرتبہ بخار چڑھا تو چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے دوائی دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے چاہا تو بخار 5مہینوں میں اتر جائے گا۔ پانچ مہینوں میں ،امیر مقام حیرت سے بولے تو ڈاکٹر نے کہا کہ یہ تو دوائی ایسی دی ہے ورنہ آپ کا جتنا قد ہے بخار کو اترنے میں کم ازکم سال تو لگ سکتا تھا۔ شیخو کہتا ہے کہ’’ امیرمقام تو اس مقام پر ہیں کہ جہاں بندہ اپنے پاؤں بھی دوربین کے بغیر نہیں دیکھ سکتا‘‘۔جہاں تک قائم علی شاہ صاحب کی بات تو اگر وہ کہہ دیں میں پانی پت کی لڑائی کا چشم دیدگواہ ہوں تو یہ بھی ماننے کو دل کرتا ہے ۔ گذشتہ ماہ انہیں ایک تقریب میں دیکھا،اپنی حفاظت کیلئے پستول پاس تھا اور پستول کی حفاظت کیلئے 20کمانڈوز ساتھ تھے ۔ میاں صاحب کو چوروں سے اتنی نفرت ہے کہ جمہوریت کی خاطر اپنے ’’علی بابا ‘‘ کو تو رائے ونڈ بلا کر ہرن کا گوشت کھلایا مگر 40چاروں میں سے کسی ایک کو بھی دال روٹی تک کی آفر نہیں کی ۔وہ زبان کے اتنے پکے ہیں کہ کہتے تھے کہ اگر بجلی کا مسئلہ حل نہ کر سکا تو اپنا نام بدل لوں گا ،لہذا شہباز شریف کی بجائے خود ہی خادِم اعلیٰ بن گئے ۔انصاف پسند ایسے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا تو اپنے خلاف ایف آئی آرکٹوا کر رانا ثناء اللہ سے وزارت لے لی اور جمہوریت پسند اس قدر ہیں کہ جب چوہدری صاحبان مونس الہی اور زرداری صاحب بلاول مطلب اپنی اولادوں کو اپنی سیاسی گدیاں سونپ چکے ہیں ایسے میں پورے پنجاب میں ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد حمزہ جب بلا مقابلہ جیتا تب میاں صاحب نے اسے اپنی جانشینی کیلئے چنا ۔مگر اس ناشکری قوم کا کیا کریں جو ہر وقت کیڑے نکالتی رہتی ہے ۔جیسے چند دن پہلے ایک شہباز جلے نے خادم اعلیٰ کا ذکر چھڑنے پر یہ لطیفہ سنا دیا ۔ایک شاعر نے جب غزل کا پچاسواں شعر پڑھا تو ایک پہلوان ڈنڈا لے کر سٹیج پر آگیا ۔شاعر گھبرا کر بولا پہلوان جی بس آخری شعر ہے۔ پہلوان بولا تم لگے رہو میں تو اُسے ڈھونڈ رہا ہوں جو تمہیں یہاں لے آکر آیا ہے ۔

!خادمِ اعلیٰ

- Posted in Amaal Nama by with comments

شیخو کہتا ہے کہ شہباز شریف کسی کی سنتے نہیں اور عمران خان کسی کی مانتے نہیں۔ جیسے غلط موقع پر صحیح بات کرناکپتان کا شوق ہے ،ایسے ہی حکومت پنجاب کے اشتہار پر اپنی تصویر دیکھنا چھوٹے میاں صاحب کی پسندیدہ عادت ہے ۔کہنے لگا ڈینگی سے بچاؤ کا اشتہار آیا تو اُ س پر تصویر میاں صاحب کی تھی ،کار چوروں سے ہوشیار رہیئے والے اشتہار پر بھی میاں صاحب ہی مسکراتے نظر آئے اور تو اور پولیو والے اشتہار میں بھی خادم اعلیٰ علامہ اقبال والے پوز میں موجود تھے ۔ پھر گویا ہوا کہ چھوٹے میاں صاحب تووہ بڑے سیاستدان ہیں کہ جو کسی مسئلے کے حق یا مخالفت میں ایک لفظ کہے بغیر گھنٹوں تقریر کر سکتے ہیں ۔ جب خاموش ہواتو میں نے کہا کہ قبلہ آپ عمر کے جس حصے میں ہیں وہاں اگر کچھ نظر آتا ہے تو وہ دوسروں کی خامیاں ہی ہوتی ہیں ، تو میرے گرد آلود پرانے جوتے دیکھتے ہوئے بولا ’’ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اچھے جوتے نہ پہننے والے کی شخصیت بھی اپنے جوتوں کی طرح ہی ہوتی ہے‘‘ ۔ ڈاکٹر یونس بٹ کا کہنا ہے کہ’’ امریکی سٹرکیں کمال کی ہوتی ہیں اگرآپ نے رکنا نہ ہو اور امریکی عورتیں لاجواب ہیں اگر آپ نے شادی نہ کرنی ہو‘‘ ۔ہم سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کمال کے انسان ہیں اگر وہ سیاستدان نہ ہوں اور شہباز شریف کمال کے سیاستدان ہیں اگرملک میں جمہوریت نہ ہو ۔ ایک بار ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ’’بلونگڑ ے دیکھ کر ہی یہ یقین آتا ہے کہ بلیاں صرف لڑتی ہی نہیں رہتیں‘‘ ۔ آجکل پنڈی اسلام آباد کی موت کے کنویں بنی سٹرکیں دیکھ کر ہم جیسوں کو بھی یقین آجاتا ہے کہ شہباز شریف صرف سیاست ہی نہیں کرتے۔شیخو کہتا ہے کہ قوم میٹرو پر اتنی تیزی سے آگے جارہی ہے کہ روٹی،کپڑا اور مکان پیچھے رہ گئے ہیں ۔ شہباز شریف جتنی محنت سے غلطی کرتے ہیں اس سے آدھی محنت سے تو صحیح کام کیا جا سکتا ہے ۔ خادم اعلیٰ گا بھی لیتے ہیںیہ علیحدہ بات ہے کہ گاتے ایسے ہیں کہ گانا ختم ہونے سے پہلے گلوکار ختم ہو جاتا ہے ۔گلوکاری میں ان کا وہی مقام ہے جو سیاست میں ابرارالحق کا ہے ۔ایک بار استاد مہدی حسن کے سامنے گانا گایا تو خان صاحب بولے ’’گانا تو تم میرا ہی گا رہے تھے مگر جس طرح گا رہے تھے لگ رہا تھا کہ تمہارا ہی ہے‘‘ ۔ شہباز شریف کہتے ہیں کہ ملک وقوم کیلئے بے انتہا دردِ دل رکھتا ہوں ۔اگر کسی کو یقین نہ آئے تو اُسے اپنی ای سی جی رپورٹ ضرور دکھاتے ہیں ۔ انہی کا کہنا ہے کہ ملک اور جمہوریت کیلئے جیل جانے کو بھی تیار ہوں مگر خواہش ہے کہ مجھے وہاں سے گرفتار کیاجائے جہاں میں موجود نہ ہوں۔ ان کی سیاست ایسی مثالی ہے کہ لوگ مثال دیتے ہیں کہ ایسی سیاست نہیں ہونی چاہیے ۔ انہوں نے پنجاب پولیس کو اُس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ بقول ایک لاہوری دوست کے اب تو بیگم کو بلانے پر اگر وہ ’’آئی جی ‘‘ کہہ دے تو میں اپنا کام خو دہی کر لیتا ہوں ۔ میاں صاحب کی سمجھانے کی صلاحیت فیکٹری کے اس جنرل منیجر جیسی ہے کہ جس کا ملازم انشورنس پالیسی پر دستخط ہی نہیں کر رہا تھا ۔ جب سب لوگ سب جتن کر چکے تو جنرل منیجراپنے ملازم کو ایک طرف لے جا کر بولا دستخط کر دو ورنہ ابھی کان سے پکڑ کر فیکٹری سے نکال دوں گا ،ملازم نے فوراً دستخط کر دیئے ۔ بعد میں دوستوں نے پوچھا کہ پہلے دستخط کیوں نہیں کیئے تھے،کہنے لگا پہلے کسی نے اتنے واضح طریقے سے پالیسی سمجھائی ہی نہیں تھی۔ کپتان اور طاہر القادری کے میلاپ اور دھرنوں کے دوران چھوٹے میاں صاحب کی سوچ اُس آدمی کی سی تھی جو میلہ دیکھنے گیا ،سار ا دن میلے میں پھرنے کے بعد ایک درخت کے سائے تلے بیٹھا تو آنکھ لگ گئی لیکن جب اُٹھا تو اس کا کمبل غائب تھا۔ واپس آیاتو گھر والوں نے پوچھا کہ میلہ کیسا رہا ،کہنے لگا میلہ شیلا تو ایک بہانہ تھا اصل میں تو سب لوگ میرا کمبل چرانے کیلئے اکٹھے ہوئے تھے ۔ اپنے مخالفین کی صفائی ،دھلائی کرتے ہوئے میاں صاحب کی کیفیت اُس پٹھان کی سی ہوتی ہے جو سب کچھ لوٹنے کے بعد آخری چیز جائے نماز اٹھانے لگا تو رسیوں سے بندھا مالک بولا خان صاحب یہ تو چھوڑ جاؤ ۔ خان بولا ’’اے ظالم تم ہم کو کافر سمجھتا ہے کیا ‘‘۔ ایک کہاوت ہے کہ ملک چاہے جتنی ترقی کر جائے سیاستدان،موسم، اورعورت پر قابو نہیں پایا جا سکتا ۔ ہمارے ہاں تو یہ کہاوت حرف بہ حرف سچ ہے ۔ہمارے سیاستدا نو ں کو وطن نے جو دیا اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا اور انہوں نے وطن کو جو دیا اس کا بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ایک بار خادم اعلیٰ جوشِ جذبات میں مائیک گرا کر بولے’’ آپ کے قائد میاں نواز شریف کی حکومت میں وہ وقت بھی آئے گا کہ جب ہوائی جہاز سوزوکی کار کی قیمت میں مِلا کرے گا‘‘۔بعد میں کسی نے کہا کہ حضور یہ کیا کہہ دیا،فرمایا ’’فکر نہ کرو کار کی قیمت جہاز کے برابر کر دیں گے ‘‘۔ شیخو کہتا ہے کہ مجھے بالی ووڈ کی جیکولین کا گانا ’’چٹیاں کلائیاں ‘‘ اتنا پسند نہیں ہے جتنی میاں صاحب کی وہ انگلی پسند ہے جس پر پچھلے تیس سال سے وہ حکومت اور سیاست کو نچا رہے ہیں۔ ہماری سیاست میں وہ نہ ہوں تو’’ سیاست پیتل دی‘‘ لگنے لگ جاتی ہے ۔وہ سیاست کے ایفل ٹاور اور سیاستدانوں کی رولز رائس ہیں ۔ ماہر ایسے کہ پل پہلے بنا لیتے ہیں نیچے سے نہر بعد میں گذارتے ہیں ۔وہ تو درباروں کی موم بتیاں تک بجھا دیتے ہیں تاکہ بجلی کی بچت ہو ۔اگر وہ کہیں کہ مجھے خوبصورت چہرہ دیکھے کافی دیر ہوگئی ہے تو سمجھ جائیں انہیں شیشہ دیکھے ہوئے ایک گھنٹے سے زیادہ ہو گیا ہوگا۔شہبا ز شریف کہتے ہیں مجھے الجبرا اور عمران خان کی کبھی سمجھ نہیں آئی، خود 7زبانیں جانتے ہیں لیکن سمجھتے کونسی زبان ہیں یہ بھی آج تک کسی کو پتا نہیں چل سکا۔ ایک مرتبہ انٹرویو دیتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ سیاست میرا اوڑھنا بچھونا ہے تو مجھے لاہور میں ان کے حلقے کے وہ ہزاروں لوگ یاد آگئے جو آج بھی سردیوں میں زمین بچھا کر اور گرمیوں میں مچھر اوڑھ کر سوتے ہیں ۔ پاکستان جہاں امیر مقام اور قائم علی شاہ جسیے نابغہ روزگارموجود ہوں وہاں شہباز شریف کا دم بھی غنیمت لگتا ہے ۔سنا ہے کہ امیر مقام کو ایک مرتبہ بخار چڑھا تو چیک اپ کے بعد ڈاکٹر نے دوائی دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے چاہا تو بخار 5مہینوں میں اتر جائے گا۔ پانچ مہینوں میں ،امیر مقام حیرت سے بولے تو ڈاکٹر نے کہا کہ یہ تو دوائی ایسی دی ہے ورنہ آپ کا جتنا قد ہے بخار کو اترنے میں کم ازکم سال تو لگ سکتا تھا۔ شیخو کہتا ہے کہ’’ امیرمقام تو اس مقام پر ہیں کہ جہاں بندہ اپنے پاؤں بھی دوربین کے بغیر نہیں دیکھ سکتا‘‘۔جہاں تک قائم علی شاہ صاحب کی بات تو اگر وہ کہہ دیں میں پانی پت کی لڑائی کا چشم دیدگواہ ہوں تو یہ بھی ماننے کو دل کرتا ہے ۔ گذشتہ ماہ انہیں ایک تقریب میں دیکھا،اپنی حفاظت کیلئے پستول پاس تھا اور پستول کی حفاظت کیلئے 20کمانڈوز ساتھ تھے ۔ میاں صاحب کو چوروں سے اتنی نفرت ہے کہ جمہوریت کی خاطر اپنے ’’علی بابا ‘‘ کو تو رائے ونڈ بلا کر ہرن کا گوشت کھلایا مگر 40چاروں میں سے کسی ایک کو بھی دال روٹی تک کی آفر نہیں کی ۔وہ زبان کے اتنے پکے ہیں کہ کہتے تھے کہ اگر بجلی کا مسئلہ حل نہ کر سکا تو اپنا نام بدل لوں گا ،لہذا شہباز شریف کی بجائے خود ہی خادِم اعلیٰ بن گئے ۔انصاف پسند ایسے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن ہوا تو اپنے خلاف ایف آئی آرکٹوا کر رانا ثناء اللہ سے وزارت لے لی اور جمہوریت پسند اس قدر ہیں کہ جب چوہدری صاحبان مونس الہی اور زرداری صاحب بلاول مطلب اپنی اولادوں کو اپنی سیاسی گدیاں سونپ چکے ہیں ایسے میں پورے پنجاب میں ایک کانٹے دار مقابلے کے بعد حمزہ جب بلا مقابلہ جیتا تب میاں صاحب نے اسے اپنی جانشینی کیلئے چنا ۔مگر اس ناشکری قوم کا کیا کریں جو ہر وقت کیڑے نکالتی رہتی ہے ۔جیسے چند دن پہلے ایک شہباز جلے نے خادم اعلیٰ کا ذکر چھڑنے پر یہ لطیفہ سنا دیا ۔ایک شاعر نے جب غزل کا پچاسواں شعر پڑھا تو ایک پہلوان ڈنڈا لے کر سٹیج پر آگیا ۔شاعر گھبرا کر بولا پہلوان جی بس آخری شعر ہے۔ پہلوان بولا تم لگے رہو میں تو اُسے ڈھونڈ رہا ہوں جو تمہیں یہاں لے آکر آیا ہے ۔