Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

enter image description here

چین کے ماہرین کاماننا ہے کہ پاؤں کی انگلیاں آپ کی پوری شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی شخص کے پاؤں کی انگلیوں کے ذریعے اس شخص کی صحت ، بیماری، شخصیت غرض ہر ایک چیز کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ پاؤں کی انگلیاں آپ کی شخصیت کے حوالے سے کیا کہتی ہیں؟ آیئے جانتے ہیں۔

٭ اگر آپ کی پاؤں کا انگوٹھا دیگر انگلیوں کے مقابلے میں بڑااور موٹا سا ہے۔ اس کا مطلب آپ بہت ذہین اور تخلیفی انسان ہیں اور آپ اپنے ارد گرد میں ہونے والی چیزوں کو الگ زاویے سے دیکھتے ہیں۔

٭ اگر آپ کا انگوٹھا دیگر انگلیوں کے مقابلے میں چھوٹا سا ہے تو اس کا مطلب آپ دوسروں سے بہت جلدی متاثر ہوجاتے ہیں اور آپ اپنی دنیا میں مگن رہنے والے انسان ہیں۔

٭ اگر آپ کی دوسری انگلی تمام انگلیوں سے بڑی ہے۔ اس کا مطلب آپ کا رویہ لیڈروں والا ہےاور ایسے لوگوں میں حکم چلانے کی عادت بہت زیادہ موجود ہوتی ہے۔

٭جن افراد کی دوسری انگلی چھوٹی ہے۔ وہ افراد بس اپنی من مانی کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ان کی کوئی ہم آہنگی نہیں ہوتی۔

٭جن افراد کی تیسری انگلی دیگر انگلیوں سے بڑی ہوتی ہے۔ ایسے افراد جس چیز کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس کام کو سرانجام کرکے ہی دم لیتے ہیں اور ایسے افراد ہر چیز میں کمال مہارت رکھتے اور چاہتے ہیں ہر چیز پرفیکٹ ہو۔

٭ اس کے برعکس وہ افراد جن کی تیسری انگلی چھوٹی ہوتی ہے۔ ایسے افراد اپنی زندگی کو بھرپور انجوئے کرتے ہیں۔ ایسے افراد اپنی زندگی کے ہر پہلو پر کام کرتے ہیں۔

٭جن فراد کی چوتھی انگلی دیگر انگلیوں سے بڑی ہوتی ہے۔ ایسے افراد کےلیے ان کی فمیلی سب کچھ ہوتی ہے۔ اگر چوتھی انگلی میں ذرا سا خم موجود ہے اس کا مطلب ایسے افراد کو رشتوں میں محبت کی کمی کا سامنا ہے۔لیکن یہ افراد بہت اچھے سننے والے ہوتے ہیں۔لوگ ان سے جو بھی بات کریں ،یہ افراد خاموشی سے ساری بات کو سنتے ہیں۔

٭جن افراد کی چوتھی انگلی چھوٹی ہوتی ہے۔ ایسے افراد کو نہ فیملی کی فکرہوتی ہے اور نہ ہی اپنے دوستوں کی۔ یہ افراد اپنی زندگی میں مست ہوتے ہیں۔

٭ جن افراد کی پاؤں کی آخری انگلی چھوٹی ہوتی ہے۔ ان افراد کا رویہ بچوں جیسا ہوتا ہے۔ یہ افراد کوئی بھی ذمہ داری نہیں لیتے اور ہر وقت ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں اور یہ لوگ چیزوں سے بہت جلدی بور بھی ہوجاتے ہیں۔

٭وہ افراد جو اپنے پاؤں کی آخری انگلی کو باآسانی حرکت دے سکتے ہیں۔ایسے افراد بہت بہادر اور موج مستی کرنے والے ہوتے ہیں

enter image description here برطانیہ میں حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ لڑکوں کا دماغ یا لڑکیوں کا دماغ جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی‘ بلکہ دونوں کے دماغ ایک جیسے ہوتے ہیں۔ جی ہاں‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ساخت کے اعتبار سے دونوں کا دماغ ایک جیسا ہوتا ہے لیکن دونوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ معاشرے میں جنس کی بنیاد پر ان کیلئے طے کردار ہیں۔ یعنی لڑکے اور لڑکیوں کے دماغ کو الگ الگ بتانے کی کوئی سائنسی بنیاد ہی نہیں ہے۔ برطانیہ کے برمنگھم میں واقع ایشٹن یونیورسٹی میں پروفیسر اور عصبی سائنس کی ماہر شماررپن نے کہا ”مرد مریخ سے آئے ہیں اور خواتین سیارے سے‘ اس سوچ کی کوئی سائنسی بنیاد نہیں ہے۔ ہمارے دماغ ان کے کردار کی وجہ سے مختلف ہیں‘ جسے نبھانے کیلئے معاشرہ ہم پر دباﺅ ڈالتا ہے اور جس کا تعین جنس کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔“ رپن کے مطابق‘ اس طرح کی قدامت پسند سوچ کہ خواتین نقشہ نہیں پڑھ سکتیں اور مرد مختلف طرح کے کام نہیں کر سکتے‘ اس کا سائنس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ خواتین اور مرد صرف اس لئے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ جس دنیا میں ہم رہتے ہیں وہاں جنس کی بنیاد پر کردار مسلط کر دیئے جاتے ہیں۔ سائنسی اعتبار سے ہم کسی دماغ کا انتخاب اس طرح نہیں کر سکتے کہ یہ لڑکیوں کا دماغ ہے اور یہ لڑکوں کا بلکہ وہ ایک طرح کے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیوں کو ان کی جنس کی بنیاد پر بچپن میں ہی کھلونے بھی مختلف طرح کے دیئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لڑکیوں کو کھیلنے کیلئے باربی گڑیا دی جاتی ہے تو لڑکوں کو سپر ہیروز۔ یوں شروع ہی سے ان کی سوچ کو الگ الگ راستوں پر ڈال دیا جاتا ہے

enter image description here

ٹیکنالوجی کی دنیا میں نئی دھماکہ خیز تبدیلی کا فیصلہ ،ایپل آئی فون میں ایسی ایپ انسٹال کی جائیگی جس سے موبائل ڈیٹا تک رسائی ممکن ہوگی۔تفصیلات کے مطابق سب سے زیادہ محفوظ سمجھے جانے والے ایپل آئی فون میں بھی جاسوسی کی ایپلی کیشنز انسٹال کیے جانے کے امکانات سامنے آئے ہیں۔آئی فونز کو سیکیورٹی کے حوالے سے سب سے زیادہ محفوظ سمجھاجاتا ہے مگر حال ہی میں ایک صارف نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ آئی فون میں میسج کے ذریعے جاسوسی کی ایپلی کیشن انسٹال کی جاسکتی ہے۔

اس سے نہ صرف موبائل ڈیٹا تک رسائی بلکہ موبائل ایپس جیسے فیس بک اور واٹس ایپ سے معلومات کے حصول سے لے کر باتیں سننے کے لیے موبائل کا مائیکروفون اور موبائل کا کیمرہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس کا صارف کو پتا بھی نہیں چلتا کہ اس کی جاسوسی ہورہی ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایپل کمپنی نے سیکیورٹی میں یہ خرابی دور کردی جس میں اسے 10 روز لگے۔

پروفیسرفتح محمد ملک

اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مفکر پاکستان اور بابائے قوم کی تفہیم القرآن پر عمل کرنا چاہیے یا ان لوگوں کے فرمودات کو مشعل راہ بنانا چاہیے، جنہیں تحریک پاکستان کے زمانے میں پاکستان کا مطلب ہی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ جواب بہت سادہ اور آسان ہے ۔

پاکستان کی روحانی نظریاتی بنیاد کو مٹا کر ایک نئی سیکولر بنیاد کی تعمیر میں کوشاں قوتوں کے مقدر میں بھی ویسی ہی ناکامی لکھی ہے، جیسی ناکامی سے قیامِ پاکستان کی مخالف قوتیں آج سے پہلے دو چار ہو چکی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس وقت ہماری سیاسی اور تہذیبی زندگی پر موروثی جاگیردار سیاستدان اور مغرب کی ذہنی غلامی پر ناز کرنے والی افسر شاہی مسلط ہے مگر یہ بھی ایک تاریخی صداقت ہے کہ یہ تو وہ لوگ ہیں، جن کے آباؤ اجداد نے قیامِ پاکستان کی مخالفت میں آخر دم تک ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور خود کو قائداعظم کا ایک ادنیٰ سپاہی قرار دینے والے علامہ اقبال نے، جن کے بارے میں عامۃ المسلمین کو یوں خبردار کیا تھا: داغم از رُسوائی ایں کارواں در امیرِ اُو ندیدم نورِ جہاں تن پرست و جاہ مست و کم نگاہ اندرونش بے نصیب از لا اِلٰہ در حرم زاد و کلیسا را مرید پردۂ ناموسِ مارا بردرید دامنِ اُو را گرفتن ابلہی است سینۂِ اُو از دل روشن تہی است اندریں رہ ، تکیہ بر خود کن کہ مرد صیدِ آہو با سگِ کورے نکرد اسّی برس پہلے قلمبند ہونے والا یہ محاکمہ ہماری آج کی سیاسی اور فکری قیادت پر بھی لفظ بہ لفظ صادق آتا ہے۔ یہ کل بھی سچ تھا اور آج بھی سچ ہے۔ ماضی کے ورق الٹتے ہی ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کی شاندار انتخابی کامیابی تک پہنچیں تو آپ دیکھ کر پریشان ہو جائیں گے کہ اسمبلی میں مسلم لیگ کی بھاری اکثریت کو صریحاً نظرانداز کر کے صرف چھ سات نشستوں کی حامل یونینسٹ پارٹی کے سربراہ سردار خضر حیات ٹوانہ کو پنجاب کا اقتدار سونپ دیا گیا۔ برطانوی استعمار کی سرپرستی میں خضر حیات ٹوانہ نے (کہ پیدا تو حرم میں ہوئے تھے مگر مرید کلیسا کے ہیں)ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مل کر حکومت بنالی اور کالے قوانین کے سہارے مسلمان عوام کو کچلنے میں مصروف ہو گئے۔ یونینسٹ پارٹی کوئی سیاسی پارٹی نہ تھی۔ یہ تو جاگیرداری نظام کی بقا اور استحکام کے ایک نکاتی پروگرام پر متحدہونے والے ہندو، سکھ اور مسلمان جاگیرداروں کا ناپاک گٹھ جوڑ تھا۔ دولت اور اقتدار کے پجاری یہ جاگیردار، مسلمان عوام کی سیاسی بیداری اور مسلم لیگ کے منشور میں زرعی اصلاحات اور معاشی انصاف کے وعدوں سے خائف تھے اس لیے الیکشن میں مسلم لیگ کی فتح مبین کے باوجود قیامِ پاکستان کو روکنے میں سرگرم عمل تھے۔ ایسے میں عامۃ المسلمین نے اقبال کے تجویز کردہ نسخۂ شفا کی روشنی میں اپنی اجتماعی بصیرت (تکیہ برخودکن) پر اس شان سے اعتماد کیا کہ پنجاب کے کھیت کھلیان اور کوچہ و بازار اس طرح کی صداؤں سے گونجنے لگے خضر بچہ ہائے ہائے ٹوڈی بچہ ہائے ہائے تازہ خبر آئی اے خضر ماں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ متشددانہ قوانین حرکت میں آئے۔ ریاستی تشدد کے جواب میں عوامی اتحاد پیدا ہوا، نتیجہ یہ کہ جیلوں میں تل دھرنے کی جگہ نہ رہی۔عوامی غیض و غضب کی مسلسل اونچی اٹھتی ہوئی لہر سے گبھرا کر انگریز استعمار نے خضر وزارت برطرف کر دی، مگر مسلم لیگ کو حق اقتدار سے محروم رکھنے کی خاطر اقتدار گورنر کے سپرد کر دیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لارڈ ماؤنٹ بیٹن قائداعظم کے دلائل سے زچ ہو کر دھمکی پر اتر آئے تھے: ’’مسٹر جناح! اگرآپ نے میری بات نہ مانی تو اپنے پاکستان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔‘‘ اس پر قائداعظم نے صوفیانہ استقامت کے ساتھ برجستہ فرمایا تھا: ’’مسٹر وائسرائے! جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔‘‘ جو ہونا تھا وہ ہو کر رہا مگر قیام پاکستان کے فوراً بعد برطانوی استعمار کے لے پالک جاگیردار سیاستدانوں اور برطانوی استعماری اداروں کے ساختہ پرداختہ افسران کے متحدہ محاذ نے تصورِ پاکستان سے انحراف کی راہ اپنا لی۔ تب سے لے کر اب تک ہم پاکستانی معاشرے کو سامراجی اور نوآبادیاتی آلائشوں سے پاک کر کے پاکستان کے تصور کو حقیقت میں بدلنے کا کام کسی نہ کسی بہانے ملتوی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ گزشتہ سڑسٹھ برس کے دوران ہم نے اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کی بجائے کلیسا کے مرید سیاسی رہنماؤں پر تکیہ کرنے کی خُو اپنائے رکھی۔ گویا ہم نے، اقبال کے لفظوں میں اندھے کتے سے یہ توقع قائم کر رکھی ہے کہ وہ ہمارے لیے ہرن شکار کر لائے گا۔ نتیجہ یہ کہ سڑسٹھ برس پیشتر عدم سے وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کے بارے میں آج ہم وجود سے عدم میں چلے جانے کی سناؤنیاں سُن رہے ہیں۔ اس صورتِ حال کے ذمہ دار یاں تو ہم سب ہیں مگر سب سے بڑی ذمہ داری موروثی سیاستدانوں اور ان کے حلیف علمائے کرام پر عائد ہوتی ہے۔ موروثی سیاستدانوں کو اپنے جاگیردارانہ مفادات پاکستان اور اسلام ہر دو سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ قیام پاکستان کے صرف چھ ماہ بعد دولتانہ اور ممدوٹ نے وزارتوں سے مستعفی ہونے کا مشورہ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ہر چند پنجاب کے دو یونینسٹ خاندان سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان سیاستدان اقتدار کی دوڑ میں ایک دوسرے کے حریف تھے مگر جاگیرداری کے تحفظ میں اس حد تک متحد تھے کہ اپنے قائداعظم کی راہ کو نہ صرف ٹھکرانے پر آمادہ ہو گئے تھے بلکہ اپنے زیرِاثر اخبارات میں ’’قائداعظم کے آمرانہ روّیہ ‘‘ پر اداریئے لکھوانے میں بھی سرگرم عمل ہو گئے تھے۔ پچھلے دنوں زرعی آمدن پر ٹیکس کے مسئلے پر کچھ ایسا ہی اتحاد فکر و عمل نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کے پیروکار جاگیرداروں میں بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ جاگیرداری نظام کی حفاظت میں یہ لوگ نہ صرف پارٹی حد بندیوں سے اُوپر اُٹھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ دین و ملّت کی حدود سے ماورا ہو کر ہندو اور سکھ جاگیرداروں سے بھی اتحاد کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ اسی کا نام تو یونینسٹ ذہنیت ہے، جو ہماری سیاست میں آج تک سرگرمِ کار چلی آ رہی ہے۔ علامہ اقبال نے ۱۹۳۰ء میں اپنے تصورِ پاکستان کی فکری اور نظریاتی بنیادوں پر روشنی ڈالتے ہوئے قیامِ پاکستان کو اسلام کے حق میں فائدہ مند قرار دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ برصغیر میں ایک جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام سے اسلام کو یہ موقع ملے گا کہ وہ عرب ملوکیت کی چھاپ سے نجات پا کر اپنی اصل روح کو از سرِ نو دریافت کرے۔ اپنے کلچر، قانون اور تعلیم کی متحرک روح کو بیدار کرے اور پھر اپنی حقیقی روح کو روحِ عصر کے ساتھ ہم آہنگ کر کے ایک جدید اسلامی ریاست اور ایک سچا اسلامی معاشرہ قائم کرے۔ چند برس بعد اسلامیانِ ہند کو درپیش مسائل پر قائداعظم سے اپنی خط و کتابت کے دوران اقبال نے جواہر لعل نہرو کی بے خدا اشتراکیت کو رد کرتے ہوئے اسلامی شریعت کی دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق تفسیر اور نفاذ میں عوام الناس کے روٹی روزگار کے مسائل کا حل دیکھا تھا۔ پھراپنی مثنوی ’’پس چہ باید کرد۔۔۔‘‘میں اقبال نے علمائے کرام کو اپنے حجروں کی ٹھنڈی چھاؤں سے باہر نکل کر تپتے ہوئے کارزارِ حیات میں آ کر اسرار دین بیان کرنے کی دعوت دی تھی: اے کہ مے نازی بہ قرآن حکیم تاکجا در حجرہ مے باشی مقیم در جہاں اسرارِ دیں را فاش کن نکتۂِ شرعِ مبیں را فاش کن کس نگر دو در جہاں محتاج کس نکتۂِ شرع متین ایں است و بست اقبال کی نظر میں اسلامی شریعت کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا محتاج نہ رہے مگر اقبال کے عہد کے بیشتر علمائے کرام غریبوں کے روٹی روزگار کے مصائب کو گویا اپنے دائرۂِ اسلام سے خارج کر کے فقط حدود اور تعزیرات کی قدیمی فقہی موشگافیوں میں الجھے ہوئے تھے۔ ان میں کوئی شاہ ولی اللہ تو کجا ’’حجۃاللہ البالغہ‘‘ کے اس نکتے کو سمجھنے والا بھی پیدا نہ ہوا کہ جس معاشرے کی اقتصادی تنظیم فرعونی اصولوں پر مبنی ہو، اس میں اسلامی اخلاق نہ پیدا ہو سکتا ہے نہ پنپ سکتا ہے۔ چنانچہ اقبال نے ہم پر اسلام کی انقلابی روح کو منکشف کرنے کا فریصہ بھی خود ہی انجام دیا مگر افسوس صد افسوس کہ اس انقلابی اسلام کو ہم نے آج تک پاکستان میں داخل ہی نہیں ہونے دیا۔ اس ستم ظریفی کا خیال کرتا ہوں تو دل پر بہت گہری چوٹ پڑتی ہے کہ پاکستان میں معاشی عدل و انصاف اور معاشرتی اخوت و مساوات کے قیام کے نام پر اٹھنے والی ہر تحریک کی مخالفت میں چند علمائے کرام بھی استحصالی طبقے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے نظر آتے ہیں۔ دسمبر ۱۹۴۸ء میں ہاری کمیٹی کی رپورٹ شائع کرتے وقت حکومت نے مسعود کھدر پوش کے اختلافی نوٹ کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی تھی، مگر اس کے باوجود اس اختلافی نوٹ کے مندرجات علمائے کرام تک پہنچا دیئے گئے تھے۔ چنانچہ تین ماہ کے اندر اندر مولانا عبدالحامد بدایونی سمیت سولہ علمائے کرام کے دستخطوں سے ’’اشتراکیت اور زرعی مساوات‘‘ کے عنوان سے وڈیرا شاہی اور جاگیرداری کی حمایت اور مسعود کھدر پوش کی مذمت میں ایک پمفلٹ منظر عام پر آ گیا۔ اس پمفلٹ میں جہاں وڈیرا شاہی کے شرعی جواز فراہم کیے گئے ہیں، وہاں مسعود کھدر پوش کو اپنے غیر مطبوعہ اختلاف نوٹ کی بنیاد پر اشتراکی اور ملحد بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس دوران بھارت میں جاگیرداری نظام کے خاتمہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے مولانا مناظر احسن گیلانی نے ایک تحقیقی مقالہ سپرد قلم فرمایا جس میں اسلام میں جاگیرداری کے عدم جواز کی تلاش میں پاکستان کے شیخ الاسلام مولانا ظفر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہ‘ نے ایک کتابچہ تحریر فرمایا۔ ’’اسلام میں جاگیرداری و زمیندار ی کا نظام‘‘ میں مولانا عثمانی نے مولانا گیلانی کو اشتراکیت دوستی اور سرکار پرستی کے الزامات دیئے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ کی پہلی کونسل میٹنگ میں زرعی اصلاحات کا انتخابی وعدہ ایفاء کرنے کی خاطر کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ ہوا تو دوسرے دن کمیٹی کے قیام کی خبر کے ساتھ ساتھ چند علماء کی طرف سے جاگیرداری نظام کے شرعی جواز پر مشتمل فتویٰ بھی اخبارات میں شائع ہو گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنے تمام تر اختلافات کے باوجود اس باب میں سید ابوالاعلیٰ مودودی اور مرزا بشیر الدین محمود متفق علیہ ہیں۔ مرزا بشیر الدین محمود ’’اسلام اور ملکیت زمین‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’زمینداروں سے زمین کسی بھی صورت میں نہیں لی جا سکتی‘‘ تو مولانا مودودی مسئلۂ ملکیت زمین میں قرار دیتے ہیں کہ: ’’اسلام ایسے قوانین بنانے کی اجازت نہیں دیتا جس کے ذریعے سے کسی شخص یا گروہ کو اپنی ملکیت حکومت کے ہاتھ بیچنے پر مجبور کیا جا سکے۔‘‘(صفحہ۷۰) اب ایک طرف قابلِ صد احترام علمائے کرام ہیں اور دوسری طرف بابائے قوم ہیں، جو سٹیٹ بینک کے افتتاح کی تقریب میں اسلام کے حریت و مساوات کے تصورات کا حوالہ دے کر خبردار کرتے ہیں: ’’ہمیں اسلام کی روح کے مطابق اپنے معاشی نظام کو ڈھالنے کا کام شروع کر دینا چاہیے اور اگر ہم نے ایسا کرنے میں مزید تاخیر کی تو ممکن ہے کہ وہ عظیم الشان موقع، جو اس وقت ہمیں حاصل ہے ہمیشہ کے لیے ہمارے ہاتھ سے نکل جائے۔‘‘ ایک طرف وہ مذہبی رہنما ہیں جو اللہ کی زمین کوفرنگ نژاد جاگیرداروں کی مقدس ملکیت سمجھتے ہیں تو دوسری طرف مفکر پاکستان علامہ اقبال ہیں جو قرآن حکیم میں غوطہ زن ہو کر پکار اٹھتے ہیں: دیہہ خدایا، یہ زمین تری نہیں، تیری نہیں تیرے آبا کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں! اب سوال یہ ہے کہ پاکستان میں مفکر پاکستان اور بابائے قوم کی تفہیم القرآن پر عمل کرنا چاہیے یا ان لوگوں کے فرمودات کو مشعل راہ بنانا چاہیے، جنہیں تحریک پاکستان کے زمانے میں پاکستان کا مطلب ہی سمجھ میں نہ آتا تھا۔ جواب بہت سادہ اور آسان ہے مگر اس پر عمل بہت دشوار ہے کہ اس کے لیے ہمیں اپنے بہت سے ذاتی، گروہی اور جماعتی مفادات کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کا تصور دینے والوں کے نزدیک تعلیمات اسلامی کا بنیادی نکتہ یہ ہے: چیست قرآں! خواجہ را پیغام مرگ دستگیرِ بندۂِ بے ساز و برگ مگر ہمارے خواجگان کی مشکل یہ ہے کہ اگر ہاری کا بیٹا ہاری نہیں بنے گا تو ان کے کھیت میں کام کون کرے گا؟۔۔۔نتیجہ یہ کہ پاکستان میں روزِ اوّل ہی سے نظریات سے روگردانی اور مفادات کی پاسبانی کی سیاست رائج ہے۔ آج چونکہ ہاری کا بیٹا اسلامی معاشی انصاف اخوت و مساوات کا مطالبہ کرنے لگا ہے، اس لیے ہمارا حکمران طبقہ پاکستان میں اقبال کے دینی تصورات کے عملی ظہور کے امکانات سے خوفزدہ ہو کر کسی ایسے مصور پاکستان کی تلاش میں نکل کھڑا ہے، جو پاکستان کی روحانی اساس کو سیکولر اساس میں بدل سکے۔ اس مہم میں اسے اپنے مغربی سرپرستوں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس مہم کی ناکامی بھی نوشتۂ دیوار ہے کہ پاکستانی عوام بیدار بے چین اور اسلام کی محبت میں سرشار ہیں۔

Beautiful Roads of Pakistan Documentary In Urdu