Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

!موٹاپا ۔۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

کنیڈین یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق موٹے لوگ مرنے سے 6سال پہلے ہی مر جاتے ہیں جبکہ امریکی ریسرچ بتاتی ہے کہ دنیا کی 20فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہے اور ان میں سے 62فیصد موٹوں کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔امریکیوں نے ہی بتایا کہ سب سے زیادہ موٹے امریکہ میں پائے جاتے ہیں اور ہر تیسرا امریکی موٹا ہوتا ہے ۔ماہرین کے مطابق دنیا کے 15فیصد موٹے بھارت اور چین مل کر پید ا کررہے ہیں جبکہ موٹاپے کے لحاظ سے پاکستان نویں نمبر پر ہے ۔بقول شیخو ہم تو ٹاپ فائیو میں ہوتے مگر نصرت فتح علی خاں اور اداکار ننھا کی وفات اور اداکارہ انجمن کی برطانیہ اور عدنان سمیع کی بھارت ہجرت ہمیں نویں نمبر پر لے آئی ،یہ تو بھلا ہو عابدہ پروین اور مولانا طاہر اشرفی کا ورنہ ہم تو ٹاپ ٹین میں بھی نہ ہوتے ۔ انہی کھوجیوں کی کھوج بتاتی ہے کہ 1980ء میں اس زمین پر 857ملین موٹے تھے جبکہ 2013ء میں یہ تعداد 2.1بلین ہوگئی ۔ لیکن ان حالات میں موریطانیہ کا حال دیکھیں ، اس افریقی ملک میں حسن کا معیار ہی موٹاپا ہے ، وہاں دبلی پتلی اور سمارٹ لڑکی کا مطلب عمر بھر کی کنوارگی ۔ اس دیس میں لڑکیوں کو پہلے دن سے ہی سب گھر والے ملکر صرف اس لیئے موٹا کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ لڑکی جتنی موٹی ہوگی اتنا ہی اچھا رشتہ آئے گا اور واقعی ہاتھیوں جیسی لڑکیوں کو امیر اور ہینڈ سم خاوند ہاتھوں ہاتھ لے جاتے ہیں ۔ میرے ایک دوست جن کی صحت ایسی ہے کہ ایک بار زلزلہ آنے پر گھر سے باہرآئے تو محلے داروں نے پوچھ لیا کہ آپ بھی زلزلے کی وجہ سے باہر آئے ہیں یا زلزلہ آپ کے باہر آنے کی وجہ سے آیا ہے ۔موصوف چل رہے ہوں تو لگتا ہے کہ پورا محلہ چل رہا ہے،کمر اتنی کہ بندہ پیدل ان کی شلوار میں نالہ نہیں ڈال سکتا ،منہ اس سائز کا کہ جتنی دیر میں شیوکرتے ہیں اتنی دیر میں شیو پھر سے اگنے لگ جاتی ہے، نہا کر نکلیں تو لگتا کہ باتھ روم کو نہلا کر نکلے ہیں ، پیٹ کا یہ حال کہ ایک مرتبہ پیٹ پر چوٹ لگی تو زخم ڈھونڈنے میں 18منٹ لگے ، پیدائشی گنجا ہونے کی وجہ سے گنج ان کی چڑ ہے۔ایک بار کرکٹ کھیلتے ہوئے جب ان کی باؤلنگ پر ایمپائر نے لگاتار تیسری مرتبہ ’’نو بال ‘‘ کہا تو گیند پھینک کر بولے ’’کھیل میں ذاتیات پر نہیں اترنا چاہیے ‘‘۔یہ اکیلے چار آدمیوں جتنا کام کرتے ہیں،یقین نہ آئے تو انہیں کھا تا دیکھ لیں ، اس طرح کھاتے ہیں کہ جس جس نے بھی انہیں کھاتے دیکھا پھر کئی کئی دن وہ خود کچھ نہ کھا سکا، یہ تو کھانا ہضم کرنے کیلئے اتنی دوائیاں کھاجا تے ہیں کہ عام انسان تو خالی یہ دوائیاں کھا کر ہی پیٹ بھر لے ۔ کھانا کھلانے والے کو کبھی نہیں بھولتے،خاص کرکے اُس وقت جب پھر سے بھوک لگ جائے ۔کھانا پینا اس قدر پسند ہے کہ ان کے نزدیک سنتری کا مذکرسنترہ ہوتا ہے ،کاجوکی برفی سے مراد وفادار بیوی ،حلیم کا مطلب اچھا رشتہ دار، نہاری سے مراد مخلص دوست ، اچھا باس چکن تکہ،لڑاکو بیوی سڑی ہوئی روٹی ،غریب رشتہ دار باسی سالن ،بھدی لڑکی ہسپتال کا کھانا ، محبوبہ بوفے ڈنر اور برا وقت وہ جب دودھ جلیبی بیوی کے ساتھ کھانی پڑے ۔انہی کا تجربہ ہے کہ پیاز اور مولی کھاکر ٹوتھ برش نہ کرنے والوں کا وزن تو نہیں البتہ دوست ضرور کم ہو جاتے ہیں ۔جس دن سے پہلی بیوی کی دوسری ماں نے جانوروں کی طرح کھاتے دیکھ کر ٹوکا اُس دن سے ساس کے نام سے ہی دور بھاگتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ سانسو ں اور ساسو ں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا ۔ پچھلے سال ساٹھ پاؤنڈ وزن کرنے کے بعد صرف اس وجہ سے ہفتوں پریشان رہے کہ اگر میرا وزن ہوتا ہی ساٹھ پاؤنڈ توپھر، جو پہلے یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ وہ موٹے ہیں ،کہا کرتے جتنا وزن شادی کے وقت تھا اتنا ہی آج ہے ثبوت کے طور پر اپنی 20سال پرانی ٹائی باندھ کر دکھاتے اور یہی صاحب جو زندہ رہنے کیلئے کھاتے نہیں تھے بلکہ کھانے کیلئے زندہ تھے، پچھلے دنوں ڈائٹ کھجوریں او رڈائٹ پکوڑے ڈھونڈتے ملے ،اس انقلاب کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے ’’درندوں کی طرح کھانے والوں کو آخر ڈاکٹر پرندوں جتنا کھانے سے بھی روک دیتے ہیں‘‘۔ یہ منہ اور یہ بات ۔ ہے نا قربِ قیامت کی نشانی ۔ یہ اقتدارکی کرشمہ سازی ہے یا خوش خوراکی کہ میاں نواز شریف اور فضل الرحمن دن بدن موٹے ہور ہے ہیں ،میاں صاحب تو اِس وقت بھی تن تنہا پوری ’’ق لیگ‘‘ جتنے لگتے ہیں جبکہ مولانا اکیلے بھی بیٹھے ہوں تو لگتا ہے سا ری جمعیت الاسلام (ف) بیٹھی ہوئی ہے ۔ آجکل کی سمارٹنس کو دیکھیں تو نبیل گبول اور امیر مقام بھی موٹے ہی لگتے ہیں ۔ سنا ہے کہ گبول صاحب کو ایک بار بخار چڑھا تو ڈاکٹر نے دوائی دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے چاہا تو بخار 5مہینوں میں اتر جائے گا ۔ پانچ مہینوں میں ، نبیل گبول حیر ت سے بولے تو ڈاکٹر نے کہا کہ یہ تو دوائی ایسی دی ہے ورنہ جتنا آپ کا قد اور جسم ہے بخار کو اترتے اترتے کم ازکم ایک سال تو ضرور لگ جاتا ۔ باقی رہے امیر مقام تووہ تو اس مقام پر ہیں کہ جہاں بندہ اپنے پاؤں بھی دور بین کے بغیر نہیں دیکھ سکتا ۔ شیخو کہتا ہے کہ قائم علی شاہ کا شمار ان موٹوں میں ہوتا ہے جو باہر سے نہیں اندرسے موٹے ہیں،اجلاسوں اور میٹنگوں کے عین درمیان سو جانا،اس طرح کھانا کہ اس کا اثر چولستان اور تھر تک محسوس ہو ،کھاتے پیتے ہوئے بھی کھاتے پیتے نہ لگنا مطلب سب عادتیں موٹوں والی ۔ شاہ صاحب جنہیں دیکھتے دیکھتے نجانے کتنی نسلیں گذر گئیں اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جہاں اگر وہ کہہ دیں کہ میں پانی پت کی لڑائی کا چشم دیدگواہ ہوں تو یہ بھی ماننے کودل کرتا ہے ۔چند دن پہلے انہیں ایک تقریب میں دیکھا ، اپنی حفاظت کیلئے پستول پاس تھا اور پستول کی حفاظت کیلئے 20کمانڈوساتھ تھے ۔ دو دن پہلے شیخو سے ملاقات ہوئی تو سلام دعا سے پہلے ہی کہنے لگا وزن بہت بڑھ گیا ہے ،کوئی حل بتاؤ۔ میں نے یاد دلایا کہ ابھی چند ماہ پہلے ڈاکٹر نے جب آپ سے کہا تھا کہ ایک روٹی صبح اور ایک روٹی شام کھایا کرو تو یہ آپ ہی تھے کہ جنہوں نے پوچھا کہ یہ ایک روٹی کھانے سے پہلے کھاؤں یا بعد میں ، آپ ہی ہروقت شکوہ کیا کرتے کہ قدرت نے کھانے کیلئے صرف ایک ہی منہ کیوں رکھا ہے ، آپ کا ہی فرمان تھا کہ سری پائے کھائے بغیر کوئی پائے کا لیڈر نہیں بن سکتا، آپ ہی تھے کہ جنہوں نے مس یونیورس کوٹی وی پر دیکھ کر کہا تھا کہ ’’ جتنے پونڈ کی یہ ہے اتنے پونڈ تو پچھلے ماہ میں سلاد کھا گیا تھا اوراس کی صحت دیکھو کہ بچے پسلیوں پر گنتی یاد کر لیں۔‘‘ میری بات کاٹ کر بولا تنگ آگیا ہوں کھا کھا کر، حالت یہ کہ چند سیڑھیاں چڑھنا محال اور اگر سیڑھیاں چڑھ جاؤں تو بسیار خوری کی وجہ سے یاداشت کا یہ عالم کہ آدھی سیڑھیوں میں پہنچ کر یہ یاد نہیں رہتا کہ اوپر جانا ہے یا نیچے۔اکثر فریج کا دروازہ کھول کر کھڑا رہتا ہوں کہ کچھ رکھنے آیا تھا یا کچھ لینے ۔کل محلے کے بچوں کے ساتھ فٹ بال کھیلنا چاہا تو جب فٹ بال وہاں رکھا جہاں سے ہٹ لگ سکے تو پیٹ کی وجہ سے وہاں سے فٹ بال نظر ہی نہیں آرہا تھا اور فٹ بال وہاں رکھا کہ جہاں سے نظر آسکے تواتنی دور سے ہٹ لگانا ناممکن تھا ۔بولا ایک مدت ہوئی ہے پورا نہائے ہوئے ، شاور کا پانی جتنا بھی تیز ہو جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ پھر بھی خشک رہ جاتا ہے اور غضب تو یہ کہ آج ایک خاتون کہنے لگی بھائی جی ماشاء اللہ اب توبڑے آرام سے آپ کے سائے میں دو چارپائیاں ڈالی جا سکتی ہیں ۔ کہنے لگا پہلی مرتبہ کسی خوبرو خاتون کا خود کو بھائی کہنے سے زیادہ اپنا موٹاپا برالگا۔ پھرمیرے بیٹھے بیٹھے ایک ٹانگ پر گھوم گھوم کر جب کوئی سرکسی ورزش کرنے لگا تو میں نے کہا کہ نہ کرو ٹانگ ٹوٹ جائے گی تو بولا کوئی بات نہیں میرے پاس دوسری ٹانگ ہے ۔ ابھی دو دن پہلے 450کلو کے امریکی موٹے جان بٹلر کو کرین کی مدد سے چوتھی منزل سے اتار کر ٹرک میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا ۔موصوف کا کہنا ہے کہ اپنی افسردگی دور کرنے کیلئے مجھے بڑے سائز کا پیزا اور دوکلو چپس کھا نا پڑتے ہیں اور کیا کروں میں مہینے میں 25دن افسردہ ہی رہتا ہوں ۔ گنز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق انسانی تاریخ کا سب سے موٹا امریکی جان براور تھا۔ان کا وزن 635کلو تھا جبکہ امریکی خاتون کارل یاگر 727کل وزن کے ساتھ اب تک نمبر ون پر ہیں مگر ان دونوں کی وفات کے بعد اب زندہ موٹوں میں سعودی خالد بن محسن 610کلو کے ساتھ مردوں اور امریکی خاتون مائرہ روسیلز 470کلو وزن کے ساتھ عورتوں میں نمبرون ہیں ۔اس موٹاپے کو دیکھ اور سوچ کر اپنے سرفراز شاہد یاد آتے ہیں جنہوں نے پتلی ہونے کی خواہشمند اپنی بیگم سے کیا خوب کہا ! آہ بھرتی ہوئی آئی ہو ’’سلمنگ سنٹر ‘‘ ’’آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک ‘‘ ’’ڈائنٹنگ ‘‘کھیل نہیں چند دِنوں کا بیگم ایک صدی چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک

!ایک سوال ۔۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

پہلے دیکھیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا کچھ دیا ہے ۔مضبوط نظریاتی بنیاد ، جوان قوم ، دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت،ساتویں بڑی فوج ،دسواں بڑا میزائل سسٹم ،سونے کے پانچویں ،دھاتوں ،پتھروں اور کوئلے کے ساتویں اور گیس کے بائیسویں بڑے ذخائر ، دنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام ، کپاس اور دودھ میں چوتھا نمبر ،گندم اور چاول پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک ،دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس،ہندؤں،بدھ متوں اور سکھوں کے مذہبی مراکز ، چار موسم ، دریا ، نہریں ،صحرا اور پہاڑ ۔ اب ملاحظہ ہو کہ ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم کہاں پہنچے ہوئے ہیں ۔ 184ملکوں میں کرپشن میں 143ویں اور غربت میں ہم 148ویں نمبرپر ،221ملکوں میں تعلیم میں ہمارا 180واں نمبر ، صحت کی سہولیات دینے والوں میں ہماری 134ویں پوزیشن،امن وامان کے حوالے سے ہم دنیا کے 5خطرناک ممالک میں اور روزگار دینے والوں میں ہم 142ویں نمبر پر ، 51لاکھ بچے سکولوں سے باہر ، 12تعلیمی نصابوں میں پھنسی نئی نسل ، یونیسکو کہتا ہے کہ کالجوں تک پہنچنے والے 3فیصد میں سے صرف ایک فیصد گریجوایشن تک پہنچ پاتے ہیں ۔سینکڑوں گھوسٹ سکول اور ہزاروں گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے اساتذہ۔ حکومتی ترجیحات کا یہ حال کہ بجٹ کا 17فیصد دفاع ،17فیصد واپڈا، ریلوے،سٹیل مل اور پی آئی اے کے خساروں 44فیصد ملکی قرضوں اور 7فیصد حکومتی اخراجات کے بعد بچ جانے والا صرف 15فیصد عوامی فلاح وبہبود کیلئے ،صوبائی اسمبلیوں کورہنے دیں، قومی اسمبلی کا سالانہ بجٹ 2ارب 60کروڑ جبکہ ایک ارب 57کروڑ سینٹ کا ۔اور تو اور بحیثیت چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن کیلئے بھی سالانہ 5کروڑ۔ یہی وجہ ہے کہ 6کروڑ لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ، پونے سات کروڑ افراد کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔دیہاتوں کو تو چھوڑہی دیں ، شہروں میں 5سے 8ہزار افراد کیلئے ہسپتال کا ایک بستر اور 3سے 5ہزار افراد کیلئے ایک ڈاکٹراور دنیا کلوننگ تک پہنچ گئی جبکہ ہمارے ہاں آج بھی 60فیصد بچے دائیاں پیداکروارہی ہیں۔ فوج جتنی بڑی پولیس مگر آدھی وی آئی پی ڈیوٹیوں پر، قانون کی یہ حالت کہ 20لاکھ مقدمے زیرالتوااور تھانوں،کچہریوں میں رُل گئی مخلوقِ خدا ، انصاف کا یہ عالم کہ گاڑیاں توڑنے والا گلوبٹ اندر مگر دن دیہاڑے 14بندے مارنے والے باہر۔کراچی میں فیکٹری کے بند دروازوں کے پیچھے جل چکے 256 لوگوں کے رشتہ دار اور 7سالوں میں ساڑھے سات ہزار دھماکوں اور خود کش حملوں میں 20ہزار سے زیادہ جانیں گنوانے والوں کے پیاروں کی آنکھیں رو رو کر خشک ہو گئیں مگر کچھ حاصل نہ ہوا ۔ فرات کے کنارے بھوکے کتے کی جوابدہی سے خوفزدہ بڑوں کے ہم ماننے والوں کی اسلامی مملکت میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں،خواتین کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں،بوڑھوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے اور تو اور اندھوں تک کو پھینٹی لگ چکی۔ لاہور کا تو گند بھی ترک کمپنی صاف کرے جبکہ لاہور سے باہر نکلیں تو غربت میں ڈوباآدھا پنجاب ،چند شہروں کے علاوہ سندھ کا کوئی حال ہے نہ مستقبل ،دہشت گردی سے چھلنی چھلنی ہو چکا خیبر پختونخواہ اور کراچی کی طرح آدھے بلوچستان میں جانا ناممکن ۔اب قوم کو دیکھ لیں۔ 5سال کی بچیاں ان سے محفوظ نہیں ، 10ہزار میں بندہ مارنے کو یہ تیار ، کتوں اور گدھوں کا گوشت یہ بیچیں ،زندگی بچانے والی دوائیوں میں ملاوٹ یہ کریں،ذخیرہ اندوزی انکا شوق ، مردہ خوری اور کفن چوری ان میں موجود، کھانے پینے میں کیا ہر کام اور ہر بات میں دونمبری مگر ہاتھ لگاؤ توسب کے سب اسلام کے قلعے اور بات کرو تو مسلم امہ کے ٹھیکیدار ۔ روزانہ سوجوتوں کے ساتھ سو پیاز کھاتے اقبال کے یہ شاہین چیختی چلاتی ایمبولینس کو رستہ نہیں دیتے ،ایک منٹ کیلئے سائیڈ پر ہو نا گوارا نہیں مگر خود ساختہ وی آئی پیز کے روٹوں میں سٹرکوں پر مریض مار کر خوش اور گاڑیوں میں بچے پیدا کر کے بھی مطمئن ۔ کمزور یادداشتوں والا 20کروڑ کا یہ تماش بین ہجوم سال کے 3مہینے پانی میں ڈوب ڈوب کر مرے اور اگلے 9مہینے بوند بوند کو ترس ترس کر فوت ہو جائے مگر دونوں صورتوں میں نہ کوئی شکوہ نہ کوئی شکایت۔فرائض ادا کرنا سیکھا نہیں اور حقوق انہیں مِل نہیں رہے مگر چیچنیا سے یمن تک سار ا درد ان کے جگر میں۔ سو باتوں کی ایک بات کہ ملک کے اندر جانوروں جیسی زندگی اور ملک سے باہر جانوروں سے بھی بدتر سلوک۔اب ایک جھلک اپنے قائدین کی ۔ایک رہنما اور اس کا خاندان برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑ ا سرمایہ کار۔ایک لیڈر یورپ کے امراء میں سے ایک اور ایک قائد کی مختلف ملکوں میں بکھری ہوئی اتنی پراپرٹی کہ اگرا یک جگہ اکٹھی کر لی جائے تو ایک چھوٹا سا ملک بن جائے ۔ایک بڑے صاحب کی ذہنی حالت اس سطح پر پہنچ چکی کہ بیڈ روم میں بیٹھ کر اپنے معالج کو کہے ’’ مسائل پیدا کر کے حل کرنا ہی اصل حکمرانی ہے ۔ عوا م بھوکی ہی رہے تو ٹھیک ، یہ ہمارے آگے ناچتی ہی اچھی لگتی ہے ۔ اس دنیا میں میرا کوئی رشتہ دار ،کوئی دوست نہیں اور میرے لیئے سب سے اہم میں ہی ہوں ‘‘ جبکہ ایک کی جسمانی صحت ایسی کہ مہینے میں 15راتیں پیمپر باندھ کر سوئے۔ایک کا دل اتنا بڑا کہ بھرتا ہی نہیں جبکہ دوسرے کا دل اتنا چھوٹا کہ ڈاکٹر بھی حیران۔ ایک کے بارے میں باہر کے اخبار یہ لکھیں کہ اس سے ہاتھ ملانے والے پہلے اپنی انگوٹھی اتار لیں ورنہ ہاتھ مِلاتے ہوئے یہ اتار لے گا ۔ایک رہنما کو بیرونی دنیا ’’ایشیاء کے کارٹون ‘‘ سے یاد کرے ۔ ملک و قوم کے کسی مسئلے یا معاملے پر اکٹھے ہونا محال مگر اپنی اولادوں ،جائیدادوں اور پوشاکوں پر ایسے متحد کہ انہیں نظر بھی نہیں لگتی ۔ عوامی مسائل پر کبھی کوئی’آل پارٹیز کانفرنس ‘ نہیں ،عوامی مصائب پر کبھی پارلیمنٹ کا کوئی مشترکہ اجلاس نہیں مگر جب مسئلہ اپنی بقاء کا ہو تو منٹوں سکنٹوں میں سب کچھ ہو جائے ،اوپر اوپرسے دشمن ایسے کہ سٹرکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ چیرنے کی باتیں مگر اندر سے اتفاق ایسا کہ ’علی بابا ‘ کی خدمت ہرن کے گوشت سے۔ویژن ایسا کہ 20کروڑ کا مستقبل دھندلا گیا اور نیتیں ایسی کہ ابھی چند سال پہلے ملکی ترقی و خوشحالی کی خاطر سنگاپور کے مرد آہن لی کوان یو سے مدد طلب کی گئی ،وہ اسلام آباد آئے اور ایک شام جب حکومتی ٹیم انہیں اڑھائی گھنٹے کی بریفنگ دے چکی تووہ بولے ’ آپ تو خوش نصیب ہیں کہ آپ کے پاس سب کچھ موجود ہے ۔بس اسے چینلائز کرنے کی ضرورت ہے لیکن بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ سب اپنے خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ بتائیں کہ واقعی آپ چاہتے ہیں کہ آپکا ملک خوشحال ہو جائے ،کیونکہ ملک تبھی خوشحال ہوتا ہے جب حکمرانوں کی جیبیں اور اکاوئنٹس خالی ہوں ، کیا آپ اپنے ملک کیلئے غریب ہونے کو تیار ہیں۔کانفرنس روم میں سناٹا چھا گیا اور پھر آئیں بائیں شائیں ، لی کوان یو کو جواب مل گیا اور وہ اُسی شام واپس چلے گئے ۔ اب ذرا اپنا نظام ملاحظہ فرمائیں ۔ نظام ایسا کہ جمہوریت میں جمہور کے خرچے پر ڈکٹیٹر بھی موجیں کر جائیں ۔نظام ایسا کہ جو اچھے بھلے جمہوریت پسندوں کو بھی آمر بنادے ۔ نظام ایسا کہ جس میں جمہوریت عوام کیلئے وہ جمہوریت بن جائے کہ جو سقراط کو زہر پلاتی ہے ،منصور کو سولی چڑھاتی ہے اورعیسیٰ ؑ کا احترام نہیں کرتی ۔ نظام ایسا کہ جس میں کوئی مفکر امام،دانشور ،ولی یا مردِحق برسرِاقتدار نہیں آسکتا‘‘۔دنیا کا نظام ایسا کہ ہر ٹونی بلیئر،کلنٹن اور بش اپنی اننگز کھیل کر ایسا جاتا ہے کہ پھر کبھی سیاست یا اقتدار کی طرف مڑکر بھی نہیں دیکھتا جبکہ ہمارے ہاں جو آتا ہے وہ جانے کا نام نہیں لیتا اور پھر جان چھڑانے کیلئے قذافی کو مارنا پڑتا ہے ،صدام کو پھانسی دینا پڑتی ہے اور حسنی مبارک کو جیل بھجوانا پڑتا ہے ۔ دنیا کا نظام ایسا کہ یوراگائے کاصد ر جوزموجیکا صدارتی محل کی بجائے اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک چھوٹے سے فارم ہاؤس میں رہے۔1987ء ماڈل کی پرانی فوکس ویگن چلائے،گھر کے باہر رکھوالی کیلئے دو پولیس اہلکار اور تین کتے اور ساڑھے 12ہزار ڈالر تنخواہ کا زیادہ تر حصہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دے جبکہ ہمارے نظام میں اپنے جمہوری بادشاہوں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ لیں ، یہ کیا تھے اور کیا بن گئے اور باقی چھوڑیں صرف بلاول ہاؤس اور رائے ونڈ کے گھر کی شان وشوکت ہی مان نہیں ، قصہ مختصر کہ ہمارا نظام ایسا کہ جہاں چھوٹے چوروں کو سزائیں مگر بڑے چوروں کو سیلوٹ ۔ آج نجانے کیوں آپ سے ایک سوال پوچھنے کو دل کر رہا ہے کہ روٹی،کپڑا اور مکان کے لاروں بھرے ایک ہی گانے پر برسوں سے ناچنے والو کیا آپ اپنے بچوں کو بھی یہی پاکستان دینا چاہتے ہو اگر نہیں توپھر یہ بے حسی اور یہ غلامی کیوں اور اگر ہاں تو پھر آپ کی عظمت کو سیلوٹ اور آپ کی ہمت ،حوصلے اور برداشت کو سلام !

!ایک سوال ۔۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

پہلے دیکھیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا کچھ دیا ہے ۔مضبوط نظریاتی بنیاد ، جوان قوم ، دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت،ساتویں بڑی فوج ،دسواں بڑا میزائل سسٹم ،سونے کے پانچویں ،دھاتوں ،پتھروں اور کوئلے کے ساتویں اور گیس کے بائیسویں بڑے ذخائر ، دنیا کا دوسرا بڑا آبی نظام ، کپاس اور دودھ میں چوتھا نمبر ،گندم اور چاول پیدا کرنے والا ساتواں بڑا ملک ،دنیا کی دسویں بڑی لیبر فورس،ہندؤں،بدھ متوں اور سکھوں کے مذہبی مراکز ، چار موسم ، دریا ، نہریں ،صحرا اور پہاڑ ۔ اب ملاحظہ ہو کہ ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی ہم کہاں پہنچے ہوئے ہیں ۔ 184ملکوں میں کرپشن میں 143ویں اور غربت میں ہم 148ویں نمبرپر ،221ملکوں میں تعلیم میں ہمارا 180واں نمبر ، صحت کی سہولیات دینے والوں میں ہماری 134ویں پوزیشن،امن وامان کے حوالے سے ہم دنیا کے 5خطرناک ممالک میں اور روزگار دینے والوں میں ہم 142ویں نمبر پر ، 51لاکھ بچے سکولوں سے باہر ، 12تعلیمی نصابوں میں پھنسی نئی نسل ، یونیسکو کہتا ہے کہ کالجوں تک پہنچنے والے 3فیصد میں سے صرف ایک فیصد گریجوایشن تک پہنچ پاتے ہیں ۔سینکڑوں گھوسٹ سکول اور ہزاروں گھر بیٹھے تنخواہیں لیتے اساتذہ۔ حکومتی ترجیحات کا یہ حال کہ بجٹ کا 17فیصد دفاع ،17فیصد واپڈا، ریلوے،سٹیل مل اور پی آئی اے کے خساروں 44فیصد ملکی قرضوں اور 7فیصد حکومتی اخراجات کے بعد بچ جانے والا صرف 15فیصد عوامی فلاح وبہبود کیلئے ،صوبائی اسمبلیوں کورہنے دیں، قومی اسمبلی کا سالانہ بجٹ 2ارب 60کروڑ جبکہ ایک ارب 57کروڑ سینٹ کا ۔اور تو اور بحیثیت چیئرمین کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن کیلئے بھی سالانہ 5کروڑ۔ یہی وجہ ہے کہ 6کروڑ لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولیات ہی میسر نہیں ، پونے سات کروڑ افراد کو پینے کا صاف پانی نہیں ملتا۔دیہاتوں کو تو چھوڑہی دیں ، شہروں میں 5سے 8ہزار افراد کیلئے ہسپتال کا ایک بستر اور 3سے 5ہزار افراد کیلئے ایک ڈاکٹراور دنیا کلوننگ تک پہنچ گئی جبکہ ہمارے ہاں آج بھی 60فیصد بچے دائیاں پیداکروارہی ہیں۔ فوج جتنی بڑی پولیس مگر آدھی وی آئی پی ڈیوٹیوں پر، قانون کی یہ حالت کہ 20لاکھ مقدمے زیرالتوااور تھانوں،کچہریوں میں رُل گئی مخلوقِ خدا ، انصاف کا یہ عالم کہ گاڑیاں توڑنے والا گلوبٹ اندر مگر دن دیہاڑے 14بندے مارنے والے باہر۔کراچی میں فیکٹری کے بند دروازوں کے پیچھے جل چکے 256 لوگوں کے رشتہ دار اور 7سالوں میں ساڑھے سات ہزار دھماکوں اور خود کش حملوں میں 20ہزار سے زیادہ جانیں گنوانے والوں کے پیاروں کی آنکھیں رو رو کر خشک ہو گئیں مگر کچھ حاصل نہ ہوا ۔ فرات کے کنارے بھوکے کتے کی جوابدہی سے خوفزدہ بڑوں کے ہم ماننے والوں کی اسلامی مملکت میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں،خواتین کی عزتیں پامال ہو رہی ہیں،بوڑھوں کو سڑکوں پر گھسیٹا جاتا ہے اور تو اور اندھوں تک کو پھینٹی لگ چکی۔ لاہور کا تو گند بھی ترک کمپنی صاف کرے جبکہ لاہور سے باہر نکلیں تو غربت میں ڈوباآدھا پنجاب ،چند شہروں کے علاوہ سندھ کا کوئی حال ہے نہ مستقبل ،دہشت گردی سے چھلنی چھلنی ہو چکا خیبر پختونخواہ اور کراچی کی طرح آدھے بلوچستان میں جانا ناممکن ۔اب قوم کو دیکھ لیں۔ 5سال کی بچیاں ان سے محفوظ نہیں ، 10ہزار میں بندہ مارنے کو یہ تیار ، کتوں اور گدھوں کا گوشت یہ بیچیں ،زندگی بچانے والی دوائیوں میں ملاوٹ یہ کریں،ذخیرہ اندوزی انکا شوق ، مردہ خوری اور کفن چوری ان میں موجود، کھانے پینے میں کیا ہر کام اور ہر بات میں دونمبری مگر ہاتھ لگاؤ توسب کے سب اسلام کے قلعے اور بات کرو تو مسلم امہ کے ٹھیکیدار ۔ روزانہ سوجوتوں کے ساتھ سو پیاز کھاتے اقبال کے یہ شاہین چیختی چلاتی ایمبولینس کو رستہ نہیں دیتے ،ایک منٹ کیلئے سائیڈ پر ہو نا گوارا نہیں مگر خود ساختہ وی آئی پیز کے روٹوں میں سٹرکوں پر مریض مار کر خوش اور گاڑیوں میں بچے پیدا کر کے بھی مطمئن ۔ کمزور یادداشتوں والا 20کروڑ کا یہ تماش بین ہجوم سال کے 3مہینے پانی میں ڈوب ڈوب کر مرے اور اگلے 9مہینے بوند بوند کو ترس ترس کر فوت ہو جائے مگر دونوں صورتوں میں نہ کوئی شکوہ نہ کوئی شکایت۔فرائض ادا کرنا سیکھا نہیں اور حقوق انہیں مِل نہیں رہے مگر چیچنیا سے یمن تک سار ا درد ان کے جگر میں۔ سو باتوں کی ایک بات کہ ملک کے اندر جانوروں جیسی زندگی اور ملک سے باہر جانوروں سے بھی بدتر سلوک۔اب ایک جھلک اپنے قائدین کی ۔ایک رہنما اور اس کا خاندان برطانیہ میں سرمایہ کاری کرنے والا دنیا کا دوسرا بڑ ا سرمایہ کار۔ایک لیڈر یورپ کے امراء میں سے ایک اور ایک قائد کی مختلف ملکوں میں بکھری ہوئی اتنی پراپرٹی کہ اگرا یک جگہ اکٹھی کر لی جائے تو ایک چھوٹا سا ملک بن جائے ۔ایک بڑے صاحب کی ذہنی حالت اس سطح پر پہنچ چکی کہ بیڈ روم میں بیٹھ کر اپنے معالج کو کہے ’’ مسائل پیدا کر کے حل کرنا ہی اصل حکمرانی ہے ۔ عوا م بھوکی ہی رہے تو ٹھیک ، یہ ہمارے آگے ناچتی ہی اچھی لگتی ہے ۔ اس دنیا میں میرا کوئی رشتہ دار ،کوئی دوست نہیں اور میرے لیئے سب سے اہم میں ہی ہوں ‘‘ جبکہ ایک کی جسمانی صحت ایسی کہ مہینے میں 15راتیں پیمپر باندھ کر سوئے۔ایک کا دل اتنا بڑا کہ بھرتا ہی نہیں جبکہ دوسرے کا دل اتنا چھوٹا کہ ڈاکٹر بھی حیران۔ ایک کے بارے میں باہر کے اخبار یہ لکھیں کہ اس سے ہاتھ ملانے والے پہلے اپنی انگوٹھی اتار لیں ورنہ ہاتھ مِلاتے ہوئے یہ اتار لے گا ۔ایک رہنما کو بیرونی دنیا ’’ایشیاء کے کارٹون ‘‘ سے یاد کرے ۔ ملک و قوم کے کسی مسئلے یا معاملے پر اکٹھے ہونا محال مگر اپنی اولادوں ،جائیدادوں اور پوشاکوں پر ایسے متحد کہ انہیں نظر بھی نہیں لگتی ۔ عوامی مسائل پر کبھی کوئی’آل پارٹیز کانفرنس ‘ نہیں ،عوامی مصائب پر کبھی پارلیمنٹ کا کوئی مشترکہ اجلاس نہیں مگر جب مسئلہ اپنی بقاء کا ہو تو منٹوں سکنٹوں میں سب کچھ ہو جائے ،اوپر اوپرسے دشمن ایسے کہ سٹرکوں پر گھسیٹنے اور پیٹ چیرنے کی باتیں مگر اندر سے اتفاق ایسا کہ ’علی بابا ‘ کی خدمت ہرن کے گوشت سے۔ویژن ایسا کہ 20کروڑ کا مستقبل دھندلا گیا اور نیتیں ایسی کہ ابھی چند سال پہلے ملکی ترقی و خوشحالی کی خاطر سنگاپور کے مرد آہن لی کوان یو سے مدد طلب کی گئی ،وہ اسلام آباد آئے اور ایک شام جب حکومتی ٹیم انہیں اڑھائی گھنٹے کی بریفنگ دے چکی تووہ بولے ’ آپ تو خوش نصیب ہیں کہ آپ کے پاس سب کچھ موجود ہے ۔بس اسے چینلائز کرنے کی ضرورت ہے لیکن بات آگے بڑھانے سے پہلے آپ سب اپنے خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ بتائیں کہ واقعی آپ چاہتے ہیں کہ آپکا ملک خوشحال ہو جائے ،کیونکہ ملک تبھی خوشحال ہوتا ہے جب حکمرانوں کی جیبیں اور اکاوئنٹس خالی ہوں ، کیا آپ اپنے ملک کیلئے غریب ہونے کو تیار ہیں۔کانفرنس روم میں سناٹا چھا گیا اور پھر آئیں بائیں شائیں ، لی کوان یو کو جواب مل گیا اور وہ اُسی شام واپس چلے گئے ۔ اب ذرا اپنا نظام ملاحظہ فرمائیں ۔ نظام ایسا کہ جمہوریت میں جمہور کے خرچے پر ڈکٹیٹر بھی موجیں کر جائیں ۔نظام ایسا کہ جو اچھے بھلے جمہوریت پسندوں کو بھی آمر بنادے ۔ نظام ایسا کہ جس میں جمہوریت عوام کیلئے وہ جمہوریت بن جائے کہ جو سقراط کو زہر پلاتی ہے ،منصور کو سولی چڑھاتی ہے اورعیسیٰ ؑ کا احترام نہیں کرتی ۔ نظام ایسا کہ جس میں کوئی مفکر امام،دانشور ،ولی یا مردِحق برسرِاقتدار نہیں آسکتا‘‘۔دنیا کا نظام ایسا کہ ہر ٹونی بلیئر،کلنٹن اور بش اپنی اننگز کھیل کر ایسا جاتا ہے کہ پھر کبھی سیاست یا اقتدار کی طرف مڑکر بھی نہیں دیکھتا جبکہ ہمارے ہاں جو آتا ہے وہ جانے کا نام نہیں لیتا اور پھر جان چھڑانے کیلئے قذافی کو مارنا پڑتا ہے ،صدام کو پھانسی دینا پڑتی ہے اور حسنی مبارک کو جیل بھجوانا پڑتا ہے ۔ دنیا کا نظام ایسا کہ یوراگائے کاصد ر جوزموجیکا صدارتی محل کی بجائے اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک چھوٹے سے فارم ہاؤس میں رہے۔1987ء ماڈل کی پرانی فوکس ویگن چلائے،گھر کے باہر رکھوالی کیلئے دو پولیس اہلکار اور تین کتے اور ساڑھے 12ہزار ڈالر تنخواہ کا زیادہ تر حصہ ضرورت مندوں میں تقسیم کر دے جبکہ ہمارے نظام میں اپنے جمہوری بادشاہوں کے ٹھاٹھ باٹھ دیکھ لیں ، یہ کیا تھے اور کیا بن گئے اور باقی چھوڑیں صرف بلاول ہاؤس اور رائے ونڈ کے گھر کی شان وشوکت ہی مان نہیں ، قصہ مختصر کہ ہمارا نظام ایسا کہ جہاں چھوٹے چوروں کو سزائیں مگر بڑے چوروں کو سیلوٹ ۔ آج نجانے کیوں آپ سے ایک سوال پوچھنے کو دل کر رہا ہے کہ روٹی،کپڑا اور مکان کے لاروں بھرے ایک ہی گانے پر برسوں سے ناچنے والو کیا آپ اپنے بچوں کو بھی یہی پاکستان دینا چاہتے ہو اگر نہیں توپھر یہ بے حسی اور یہ غلامی کیوں اور اگر ہاں تو پھر آپ کی عظمت کو سیلوٹ اور آپ کی ہمت ،حوصلے اور برداشت کو سلام !

!باتوں کے دھنی۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

ایک چھوٹے سے ہوٹل پر برتن دھو نے والا والد اور دفتروں میں معمولی نوکریاں کرتی والدہ مگر بیٹا اوبامہ پہلا سیاہ فام امریکی صدربن گیا۔ گجرات ریلوے اسٹیشن پر والد کے ڈھابے پر ’’چائے گرم چائے ‘‘کی آواز یں مارتا 6سالہ بچہ جو 21سال کا ہوا تو اپنی پارٹی کے دفتر میں سویا کرتا ،صبح اٹھ کر دفتر میں جھاڑو دیتا اور میز کرسیوں کی صفائی کرتا، یہ بھارت کا پندرہواں وزیراعظم نریندر مودی ہے۔10سال کیلئے چین کا منتخب وزیراعظم ژی جن ینگ فیکٹری مزدورتھا اور 1970ء میں حالات ایسے ہوئے کہ ایک غار میں رہنا پڑا ۔بل گیٹس کو ہارورڈ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ۔اپنے دوست پال ایلن کیساتھ اس کا پہلا کاروبار بھی ناکام ہوا مگر اس کی اگلی کوشش مائیکرو سوفٹ کی بنیاد بنی اور آج یہ دنیا کا امیر ترین انسان ہے ۔ایک اوسط درجے کا طالب علم جو اپنی پڑھائی کا خرچہ چلانے کیلئے ایک فارم ہاؤس کی چوکیداری کیا کرتا اور جسے فارم ہاؤس کے مالک نے کبھی پوری تنخواہ نہ دی ،اسی عام طالب علم آئزک نیوٹن نے دنیا کو ’’قوانین حرکت ‘‘ دیئے ۔ بیوقوف اور نالائق مشہور تھامس ایڈیسن کو اپنی نالائقیوں پر دو نوکریوں سے نکا ل دیا گیا لیکن اسی ایڈیسن نے ایک ہزار ناکام کوششوں کے بعد آخر کار’ بلب‘ بناڈالا۔ 4سال کی عمر تک ایک لفظ بول نہ سکنے والے آئن سٹائن کو ذہنی پسماندگی پر جب سکول سے نکالا گیا تو پھر کئی سال کوئی تعلیمی ادارہ اسے داخلہ دینے کو تیا ر نہ تھا مگر آگے چل کر اسی آئن سٹائن نے فزکس کی دنیا ہی بدل ڈالی ۔ جب رائٹ برادرز سائیکل بنانے میں ناکام ہوئے تو وہ ایک دوسری مشین بنانے میں جُت گئے اور پھر 700 ناکام کوششوں کے بعد دونوں بھائی وہ مشین بنانے میں کامیاب ہو گئے کہ جسے دنیا آج ’ہوائی جہاز‘ کے نام سے جانتی ہے ۔ امریکہ کا سولہواں صد ر ابراہم لنکن بچپن میں جوتیاں گانڈھتا تھا ، برطانیہ کے سابق وزیراعظم جان میجر کو لمبے قد کی وجہ سے بس کنڈیکٹر کی ملازمت نہ ملی ، آج ترکی کی پہچان صدر طیب ایردوان کل تک استنبول کی گلیوں میں پیسٹریاں بیچتا رہا ، بھارتی بزنس ٹائیکون امبانی پٹرول پمپ پر ملازم رہا ، سچن ٹنڈولکر دسویں جماعت میں فیل ہوا ۔اداکاررجنی کانت بس ڈرائیور اور گلوکار محمد رفیع درزی تھا ، شاہ رخ خان بنچوں پر سویا اور ایک دوست سے 20روپے روزانہ ادھار لے کر دن گذارے ۔آسکرایوارڈ یافتہ موسیقار اے آر رحمان کو غربت کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی ، ہنری فورڈ اپنے پہلے 5کاروباروں میں ایسا ناکام ہوا کہ دیوالیہ نکل گیا مگر اس کی چھٹی کوشش نے امریکہ میں گاڑیوں کی سب سے بڑی فورڈ کمپنی کی بنیاد رکھ دی ۔ آرایچ میسی کے پہلے 7بزنس شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئے مگر آٹھویں بار جب اس نے نیویارک میں میسی گارمنٹس کا سٹور کھولا تو پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ایف ایچ ورتھ ایک دکان پر ملازم تھا،اس کا مالک بہانے بہانے سے اسکی تنخواہ کاٹتا رہتا ۔ ایکدن دوستوں سے قرضہ لے کر اس نے ایک چھوٹا سا ’’ایف ایچ ورتھ‘‘ جنرل سٹور کھولا اور آج یہ امریکہ میں ڈیپارٹمنٹل سٹورز کی سب سے بڑی چین ہے۔ اپنے باپ کی سائیکلوں کی دکان پر کام کرنے والے سوچیر یو ہنڈا کو روایتی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ ٹیوٹا موٹرز میں جب اِسے نوکری نہ ملی تو اُس نے قرضہ لے کر گھر میں موٹر سائیکل بنانا شروع کر دیئے اور یوں دنیا ’’ہنڈا موٹرز‘‘ سے متعارف ہوئی ۔اکیومورتیا کا ککر بنانے کا کاروبار ناکام ہوا تو اس کی اگلی کوشش سے سونی کارپوریشن وجود میں آگئی ۔ مرغی کو ایک الگ طرح سے تلنے کا آئیڈیا ایک ہزارنو مرتبہ رد ہونے کے بعد ہارلینڈڈیوڈ کو جب ایک چھوٹے سے ریستوران میں مشروط اجازت ملی تو ’’ کے ایف سی ‘‘ معرضِ وجود میں آگئی اور آج کو نسا ایسا ملک ہے کہ جہاں’’ کے ایف سی‘‘ نہیں ۔ڈزنی لینڈ کے خالق والٹ ڈزنی کو ایک اخبار سے اس بناء پر نکال دیاگیا کہ اس کے پا س تخلیقی آئیڈیاز نہیں ہیں۔خلائی جہاز راکٹ کا موجد رابرٹ گوڑرڑ کالج کے دنوں میں اتنا نالائق تھا کہ کلاس میں سز اکے طور پر اسے تقریباً روزانہ ہی پنچ پر کھڑا ہونا پڑتا۔کالج میں پہلے سائیکالوجی ٹیسٹ میں سی گریڈ لینے والا رابرٹ سٹینبر گ امریکن سائیکالو جیکل ایسوسی ایشن کا صدر بنا ۔ ارجنٹائن کے شہر ہ آفاق فٹ بالر لیونل میسی کا والد سٹیل فیکٹری میں مزدور جبکہ ماں گھروں میں کام کیا کرتی تھی،فٹ بال ٹریننگ کا خرچہ پورا کرنے کیلئے میسی نے ایک عرصہ تک ہوٹل پر ویٹری کی ۔پرتگالی فٹ بالر کرسٹینورونالڈو کی والدہ باورچی جبکہ والد میونسپل کمیٹی میں مالی تھا۔ان کا پورا خاندان ایک کمرے میں رہتا ۔ یہ چودہ سال کی عمر تک مزدوریاں کر کے بھی فٹبال شوز نہ خرید سکا ،لیکن یہی رونالڈو 2009سے 2013تک دنیا کا امیر ترین کھلاڑی رہا ۔ چلی کافٹبالر الیکس سائنچیز بچپن میں گاڑیاں دھویا کرتا ،یوروگائے کے ارب پتی فٹبالر سیو راز کے پاس ابتدائی دنوں میں بس کا کرایہ نہ ہوتا ۔ اپنے ہاں دیکھ لیں گذشتہ کل کے کپاس اور چاول کی دنیا کے بادشاہ اور آج ہوٹلنگ کنگ صدر الدین ہاشوانی جنہیں ماں ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں ،بارہویں جماعت میں فیل ہو کر انہوں نے ایک میز کرسی والے دفتر سے عملی زندگی کا آغاز کیا ،صبح دفتر کھول کر جھاڑو دینے سے رات گئے تک سب کام خود کرتے ، ریلوے اسٹیشن کے بنچوں پر سونے اور بلوچستان کے صحراؤں میں ٹرکوں اور کیکڑا گاڑی پر سفر کرنے والے صدر الدین ہاشوانی کو آج کون نہیں جانتا۔کرکٹر محمد یوسف کے والد ریلوے اسٹیشن پر کلی تھے ،یوسف نے بہاولپور میں رکشہ چلایا اور درزی کا کام بھی کیا۔ کرکٹر اظہر محمود اپنے باپ کی لوہے کی دکان پر کام کیا کرتا ۔ آج لمبے قد والے معروف باؤلر محمد عرفان نے پولٹری فارم اور پائپ فیکٹری میں مزدوری کی ۔ دوستو! یہ تو چند مثالیں ہیں ،ایسی ہزاروں کہانیاں اور بھی ہیں ، ناکامیوں سے کامیابیوں اور تاریکی سے روشنی کی طرف یہ سفر کل کی طرح آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گا مگر غور طلب بات یہ ہے کہ ان سب میں کیا تھا جو ہم میں نہیں اورغور کرنے پر ہی پتا چلتا ہے کہ ان میں خود اعتمادی تھی،مستقل مزاجی تھی،مسلسل محنت تھی اور انہوں نے وقت کا صحیح استعمال کیا ۔کہتے ہیں دنیا کے بازار میں زندگی کا سب سے قیمتی سکہ خود اعتمادی ہے۔خود اعتمادی ہی وہ جذبہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے پھر ضرورت سے خواہش ،خواہش سے کوشش،کوشش سے حصول اور حصول سے نتیجہ یہ سب مستقل مزاجی اور محنت کا کھیل ہے۔خوش قسمتی محنت کی اولاد ہوتی ہے،کامیابی کا چیک محنت کے بینک سے کسی وقت بھی کیش کروایا جا سکتا ہے۔محنتی کے سامنے پہاڑ کنکر جبکہ سست کیلئے کنکر بھی پہاڑ اور یہ بھی سچ ہے کہ فتح مستقل مزاج لوگوں کا ہی مقدربنتی ہے ۔باقی رہا وقت تو وقت سب کو ملتا ہے زندگی بدلنے کیلئے مگر زندگی دوبارہ نہیں ملتی وقت بدلنے کیلئے،وقت اور وقت کی سمجھ دونوں ایک ساتھ خوش نصیب ہی سمجھ پاتے ہیں کیونکہ اکثر وقت پہ سمجھ نہیں آتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا۔امام غزالی کہتے ہیں کہ وقت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اسے آگے سے پکڑو۔مولانا روم کا کہنا ہے کہ وقت کی قدر نہ کی جائے تو یہ سب کچھ چھین لیتا ہے ۔افلاطون کے مطابق وقت وہ زمین ہے جو ہر وقت محنت مانگتی ہے اور ارسطوکے خیال میں جو وقت ضائع کرتا ہے ،وقت اسے ضائع کر دیتا ہے اور پھر بحیثیت مسلمان ہمارے لیے تو آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہمارے نبی محمد مصطفی ؐ خود اعتمادی،مستقل مزاجی،محنت اور وقت کے صحیح استعمال کی وہ روشن مثال چھوڑ گئے جو دنیانے نہ پہلے دیکھی اور نہ دیکھے گی ۔ حضرت علیؓ کو اپنے بسترپر سلا کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ جان بچا کر رات کی تاریکی میں مکہ مکرمہ سے نکلنے والے ہمارے نبی ؐ 8 سال بعد دن کے اجالے میں 10ہزارجانثاروں کے ہمراہ فتح کے شادیانے بجاتے اُسی مکہ مکرمہ میں واپس آئے ،یہ سب کیسے ہوا، یہ اللہ کے فضل کے بعد نبی ؐ کا خود پر بھروسہ ، سچے مقصد سے سچی لگن،نبی ؐ کی مستقل مزاجی ، انتھک محنت اور ہر لمحے کا بہترین استعمال تھا ۔ لیکن اپنی جڑیں خود ہی کاٹتے ، مقصد اور محنت سے عاری، وقت ضائع کرنے کے چمپیئن اور باتوں کے دھنی ہم محمد ؐ کے امتی اپنے نبی ؐ کا یہ سبق بھی کیوں بھلا بیٹھے ۔ سوچیئے گا ضرور۔

!باتوں کے دھنی۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

ایک چھوٹے سے ہوٹل پر برتن دھو نے والا والد اور دفتروں میں معمولی نوکریاں کرتی والدہ مگر بیٹا اوبامہ پہلا سیاہ فام امریکی صدربن گیا۔ گجرات ریلوے اسٹیشن پر والد کے ڈھابے پر ’’چائے گرم چائے ‘‘کی آواز یں مارتا 6سالہ بچہ جو 21سال کا ہوا تو اپنی پارٹی کے دفتر میں سویا کرتا ،صبح اٹھ کر دفتر میں جھاڑو دیتا اور میز کرسیوں کی صفائی کرتا، یہ بھارت کا پندرہواں وزیراعظم نریندر مودی ہے۔10سال کیلئے چین کا منتخب وزیراعظم ژی جن ینگ فیکٹری مزدورتھا اور 1970ء میں حالات ایسے ہوئے کہ ایک غار میں رہنا پڑا ۔بل گیٹس کو ہارورڈ یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ۔اپنے دوست پال ایلن کیساتھ اس کا پہلا کاروبار بھی ناکام ہوا مگر اس کی اگلی کوشش مائیکرو سوفٹ کی بنیاد بنی اور آج یہ دنیا کا امیر ترین انسان ہے ۔ایک اوسط درجے کا طالب علم جو اپنی پڑھائی کا خرچہ چلانے کیلئے ایک فارم ہاؤس کی چوکیداری کیا کرتا اور جسے فارم ہاؤس کے مالک نے کبھی پوری تنخواہ نہ دی ،اسی عام طالب علم آئزک نیوٹن نے دنیا کو ’’قوانین حرکت ‘‘ دیئے ۔ بیوقوف اور نالائق مشہور تھامس ایڈیسن کو اپنی نالائقیوں پر دو نوکریوں سے نکا ل دیا گیا لیکن اسی ایڈیسن نے ایک ہزار ناکام کوششوں کے بعد آخر کار’ بلب‘ بناڈالا۔ 4سال کی عمر تک ایک لفظ بول نہ سکنے والے آئن سٹائن کو ذہنی پسماندگی پر جب سکول سے نکالا گیا تو پھر کئی سال کوئی تعلیمی ادارہ اسے داخلہ دینے کو تیا ر نہ تھا مگر آگے چل کر اسی آئن سٹائن نے فزکس کی دنیا ہی بدل ڈالی ۔ جب رائٹ برادرز سائیکل بنانے میں ناکام ہوئے تو وہ ایک دوسری مشین بنانے میں جُت گئے اور پھر 700 ناکام کوششوں کے بعد دونوں بھائی وہ مشین بنانے میں کامیاب ہو گئے کہ جسے دنیا آج ’ہوائی جہاز‘ کے نام سے جانتی ہے ۔ امریکہ کا سولہواں صد ر ابراہم لنکن بچپن میں جوتیاں گانڈھتا تھا ، برطانیہ کے سابق وزیراعظم جان میجر کو لمبے قد کی وجہ سے بس کنڈیکٹر کی ملازمت نہ ملی ، آج ترکی کی پہچان صدر طیب ایردوان کل تک استنبول کی گلیوں میں پیسٹریاں بیچتا رہا ، بھارتی بزنس ٹائیکون امبانی پٹرول پمپ پر ملازم رہا ، سچن ٹنڈولکر دسویں جماعت میں فیل ہوا ۔اداکاررجنی کانت بس ڈرائیور اور گلوکار محمد رفیع درزی تھا ، شاہ رخ خان بنچوں پر سویا اور ایک دوست سے 20روپے روزانہ ادھار لے کر دن گذارے ۔آسکرایوارڈ یافتہ موسیقار اے آر رحمان کو غربت کی وجہ سے تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑی ، ہنری فورڈ اپنے پہلے 5کاروباروں میں ایسا ناکام ہوا کہ دیوالیہ نکل گیا مگر اس کی چھٹی کوشش نے امریکہ میں گاڑیوں کی سب سے بڑی فورڈ کمپنی کی بنیاد رکھ دی ۔ آرایچ میسی کے پہلے 7بزنس شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوگئے مگر آٹھویں بار جب اس نے نیویارک میں میسی گارمنٹس کا سٹور کھولا تو پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ایف ایچ ورتھ ایک دکان پر ملازم تھا،اس کا مالک بہانے بہانے سے اسکی تنخواہ کاٹتا رہتا ۔ ایکدن دوستوں سے قرضہ لے کر اس نے ایک چھوٹا سا ’’ایف ایچ ورتھ‘‘ جنرل سٹور کھولا اور آج یہ امریکہ میں ڈیپارٹمنٹل سٹورز کی سب سے بڑی چین ہے۔ اپنے باپ کی سائیکلوں کی دکان پر کام کرنے والے سوچیر یو ہنڈا کو روایتی تعلیم سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ ٹیوٹا موٹرز میں جب اِسے نوکری نہ ملی تو اُس نے قرضہ لے کر گھر میں موٹر سائیکل بنانا شروع کر دیئے اور یوں دنیا ’’ہنڈا موٹرز‘‘ سے متعارف ہوئی ۔اکیومورتیا کا ککر بنانے کا کاروبار ناکام ہوا تو اس کی اگلی کوشش سے سونی کارپوریشن وجود میں آگئی ۔ مرغی کو ایک الگ طرح سے تلنے کا آئیڈیا ایک ہزارنو مرتبہ رد ہونے کے بعد ہارلینڈڈیوڈ کو جب ایک چھوٹے سے ریستوران میں مشروط اجازت ملی تو ’’ کے ایف سی ‘‘ معرضِ وجود میں آگئی اور آج کو نسا ایسا ملک ہے کہ جہاں’’ کے ایف سی‘‘ نہیں ۔ڈزنی لینڈ کے خالق والٹ ڈزنی کو ایک اخبار سے اس بناء پر نکال دیاگیا کہ اس کے پا س تخلیقی آئیڈیاز نہیں ہیں۔خلائی جہاز راکٹ کا موجد رابرٹ گوڑرڑ کالج کے دنوں میں اتنا نالائق تھا کہ کلاس میں سز اکے طور پر اسے تقریباً روزانہ ہی پنچ پر کھڑا ہونا پڑتا۔کالج میں پہلے سائیکالوجی ٹیسٹ میں سی گریڈ لینے والا رابرٹ سٹینبر گ امریکن سائیکالو جیکل ایسوسی ایشن کا صدر بنا ۔ ارجنٹائن کے شہر ہ آفاق فٹ بالر لیونل میسی کا والد سٹیل فیکٹری میں مزدور جبکہ ماں گھروں میں کام کیا کرتی تھی،فٹ بال ٹریننگ کا خرچہ پورا کرنے کیلئے میسی نے ایک عرصہ تک ہوٹل پر ویٹری کی ۔پرتگالی فٹ بالر کرسٹینورونالڈو کی والدہ باورچی جبکہ والد میونسپل کمیٹی میں مالی تھا۔ان کا پورا خاندان ایک کمرے میں رہتا ۔ یہ چودہ سال کی عمر تک مزدوریاں کر کے بھی فٹبال شوز نہ خرید سکا ،لیکن یہی رونالڈو 2009سے 2013تک دنیا کا امیر ترین کھلاڑی رہا ۔ چلی کافٹبالر الیکس سائنچیز بچپن میں گاڑیاں دھویا کرتا ،یوروگائے کے ارب پتی فٹبالر سیو راز کے پاس ابتدائی دنوں میں بس کا کرایہ نہ ہوتا ۔ اپنے ہاں دیکھ لیں گذشتہ کل کے کپاس اور چاول کی دنیا کے بادشاہ اور آج ہوٹلنگ کنگ صدر الدین ہاشوانی جنہیں ماں ڈاکٹر بنانا چاہتی تھیں ،بارہویں جماعت میں فیل ہو کر انہوں نے ایک میز کرسی والے دفتر سے عملی زندگی کا آغاز کیا ،صبح دفتر کھول کر جھاڑو دینے سے رات گئے تک سب کام خود کرتے ، ریلوے اسٹیشن کے بنچوں پر سونے اور بلوچستان کے صحراؤں میں ٹرکوں اور کیکڑا گاڑی پر سفر کرنے والے صدر الدین ہاشوانی کو آج کون نہیں جانتا۔کرکٹر محمد یوسف کے والد ریلوے اسٹیشن پر کلی تھے ،یوسف نے بہاولپور میں رکشہ چلایا اور درزی کا کام بھی کیا۔ کرکٹر اظہر محمود اپنے باپ کی لوہے کی دکان پر کام کیا کرتا ۔ آج لمبے قد والے معروف باؤلر محمد عرفان نے پولٹری فارم اور پائپ فیکٹری میں مزدوری کی ۔ دوستو! یہ تو چند مثالیں ہیں ،ایسی ہزاروں کہانیاں اور بھی ہیں ، ناکامیوں سے کامیابیوں اور تاریکی سے روشنی کی طرف یہ سفر کل کی طرح آج بھی جاری ہے اور جاری رہے گا مگر غور طلب بات یہ ہے کہ ان سب میں کیا تھا جو ہم میں نہیں اورغور کرنے پر ہی پتا چلتا ہے کہ ان میں خود اعتمادی تھی،مستقل مزاجی تھی،مسلسل محنت تھی اور انہوں نے وقت کا صحیح استعمال کیا ۔کہتے ہیں دنیا کے بازار میں زندگی کا سب سے قیمتی سکہ خود اعتمادی ہے۔خود اعتمادی ہی وہ جذبہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے پھر ضرورت سے خواہش ،خواہش سے کوشش،کوشش سے حصول اور حصول سے نتیجہ یہ سب مستقل مزاجی اور محنت کا کھیل ہے۔خوش قسمتی محنت کی اولاد ہوتی ہے،کامیابی کا چیک محنت کے بینک سے کسی وقت بھی کیش کروایا جا سکتا ہے۔محنتی کے سامنے پہاڑ کنکر جبکہ سست کیلئے کنکر بھی پہاڑ اور یہ بھی سچ ہے کہ فتح مستقل مزاج لوگوں کا ہی مقدربنتی ہے ۔باقی رہا وقت تو وقت سب کو ملتا ہے زندگی بدلنے کیلئے مگر زندگی دوبارہ نہیں ملتی وقت بدلنے کیلئے،وقت اور وقت کی سمجھ دونوں ایک ساتھ خوش نصیب ہی سمجھ پاتے ہیں کیونکہ اکثر وقت پہ سمجھ نہیں آتی اور سمجھ آنے تک وقت نہیں رہتا۔امام غزالی کہتے ہیں کہ وقت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے اسے آگے سے پکڑو۔مولانا روم کا کہنا ہے کہ وقت کی قدر نہ کی جائے تو یہ سب کچھ چھین لیتا ہے ۔افلاطون کے مطابق وقت وہ زمین ہے جو ہر وقت محنت مانگتی ہے اور ارسطوکے خیال میں جو وقت ضائع کرتا ہے ،وقت اسے ضائع کر دیتا ہے اور پھر بحیثیت مسلمان ہمارے لیے تو آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہمارے نبی محمد مصطفی ؐ خود اعتمادی،مستقل مزاجی،محنت اور وقت کے صحیح استعمال کی وہ روشن مثال چھوڑ گئے جو دنیانے نہ پہلے دیکھی اور نہ دیکھے گی ۔ حضرت علیؓ کو اپنے بسترپر سلا کر حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ساتھ جان بچا کر رات کی تاریکی میں مکہ مکرمہ سے نکلنے والے ہمارے نبی ؐ 8 سال بعد دن کے اجالے میں 10ہزارجانثاروں کے ہمراہ فتح کے شادیانے بجاتے اُسی مکہ مکرمہ میں واپس آئے ،یہ سب کیسے ہوا، یہ اللہ کے فضل کے بعد نبی ؐ کا خود پر بھروسہ ، سچے مقصد سے سچی لگن،نبی ؐ کی مستقل مزاجی ، انتھک محنت اور ہر لمحے کا بہترین استعمال تھا ۔ لیکن اپنی جڑیں خود ہی کاٹتے ، مقصد اور محنت سے عاری، وقت ضائع کرنے کے چمپیئن اور باتوں کے دھنی ہم محمد ؐ کے امتی اپنے نبی ؐ کا یہ سبق بھی کیوں بھلا بیٹھے ۔ سوچیئے گا ضرور۔