Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

حسد

- Posted in Amaal Nama by with comments

آسمان پر پہلے گناہ کی بنیاد ابلیس کا آدم ؑ سے حسداور قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے زمین پر پہلے قتل کی وجہ حسد مطلب حسد تب سے ہے جب ہم بھی نہ تھے اور یقیناًحسد تب بھی ہوگا جب ہم نہیں ہوں گے مگر نجانے کیوں اپنے ہاں گھر گھر موجودحاسدوں اور گلی گلی ہوتے حسد کو دیکھ اور بھگت کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے حسد کے بانی بھی ہم تھے اور اسکی بقاء کی ذمہ داری بھی ہماری ۔اپنے پاس تو ایسے ایسے حاسدہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔میرا ایک دوست جس کا نام احسان اور تخلص فراموش ، جس کے دانتوں اور نیت کو کب کا کیڑالگ چکا جو کالا ایسا کہ بندہ سو بار منہ کالا کر کے بھی اتنا کالا نہ ہوپائے یعنی چلتا پھرتا کسی تباہ شدہ جہاز کا بلیک باکس ۔قد اتنا کہ شروع ہوتے ہی ختم ہو جائے اور وزن اتناکہ پہلی کوشش میں خود بھی خود کو نہ اٹھا سکے ،سر سے زیادہ بال ناک اور کانوں پر ،نظر اتنی کمزور کہ عینک پہن کر سوئے جبکہ حس اتنی تیز کہ جگہ سونگھ کر بتا دے کہ یہاں کس قماش کی عورت کب آئی تھی ۔حافظہ ایسا کہ دوسروں کی ہر غلطی اور ہر برائی یاد۔مونچھیں اتنی بڑی کہ ایسا لگے کہ چہرے پر مونچھیں نہیں ،مونچھوں پرچہرہ اگا ہوا۔کنجوس ایسا کہ ویٹر کو ٹپ دیتے ہوئے بھی بارگین کرے ۔ کبھی یہ شادیوں کی فلمیں بنایا کرتا اور جس جس کی فلم بنائی اُس اُس کی شادی نہ چلی اور پھر ایک شادی پر خاتون کا کلوز لیتے لیتے اتنا کلوز ہو گیا کہ مجبوراً خاتون کو اس سے شادی کرنا پڑی۔ اب خوبصورت بیوی کو اپنے بھدے پن کا یہ جواز دے ’’ مجھے دیکھ کر غم نہ کیا کرو کیونکہ بدصورتی ہی عورت کی اصل محافظ ہوتی ہے ‘‘۔ اس کا خاندان ایسا کہ دادا نے چھ قتل کیئے اور چھ حج کیئے پھر دادا نے یہ کہہ کر قتل سے توبہ کر لی کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اب مجھ سے بار بار حج نہیں ہوتا ۔ والدِ محترم فخر سے بتایا کرتے کہ 65ء کی جنگ میں اُدھر پہلی گولی چلی اِدھر احسان پیدا ہوا ۔شیخو کہتا ہے کہ کاش پہلی گولی ہی نہ چلتی ۔ میرے اس دوست میں حسد اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ اس سے حسد نکال دیں تو باقی کپڑے ہی بچتے ہیں مگر وہ بھی حسد سے بھرے ہوئے ،یہ جب بھی ملا کسی نہ کسی سے حسد کرتے ہی ملا۔ یقین مانیں ایکدن تو خود سے ہی حسد کرتے پایا گیا۔ابھی چند دن پہلے جب ہم سب بیٹھے اپنے ملک کی تعریفیں کر رہے تھے تو حسد کی بُکل مارے کافی دیر سے چپ بیٹھا یہ بالآخر پھٹ پڑا ۔یہ بھی کوئی ملک ہے کہ جہاں نائیوں کے اپنے بال بڑھے ہوئے ہیں ، موچی جوتوں بغیر اور درزی ننگے جسم ملیں اور تو اور یہاں تو ڈاکٹر خود طبی سہولتوں سے محروم ۔ ہماری حکومتیں ایسی چلتی ہیں کہ جیسی ہماری ٹریفک اوراپوزیشن کی سیاست ایسی کہ جیسے چوکوں میں پھنسی یہی ٹریفک۔90فیصد رہنما ایسے کہ جب وہ چپ ہوں تو شبہ ہوتا ہے کہ انہیں حکومت اور سیاست کا کچھ پتا نہیں ،بول پڑیں تو یہ شبہ دور ہو جاتا ہے ۔ باقی 10فیصد اپنے قائم علی شاہ جیسے کہ جن کی انگریزی سمجھنے کیلئے سندھی کا آنا ضروری ہے ۔سیاسی جماعتوں کا یہ حال کہ وقتاً فوقتاً نکاح پر نکاح کھڑکاتی اور اپنی بقاء کیلئے اپنے بچے تک کھا جانے والی مسلم لیگ جبکہ کل تک بڑی تابعداری سے زیڈ اے پر مر مٹنے والی آج بڑی فرمانبرداری سے اے زیڈ کیلئے جانیں دیتی پیپلز پارٹی ۔ ڈکٹیٹروں نے دیا کچھ نہیں جبکہ سیاستدانوں نے چھوڑا کچھ نہیں۔ ایوب ایک گالی سے ڈر کر بھاگ گیا جبکہ ضیاء الحق اتنا سست نکلا کہ 90دن کا کام 9سالوں میں بھی نہ کر سکا۔ یہاں کا نظام ایسا کہ بندہ تھانے ، کچہری یا ہسپتال میں ہو تو گھر والے مصلوں پر ہوتے ہیں،با ئی روڈ سفر انگریزی والا Suffer، ریل ڈی ریل ہو چکی جبکہ جو اونٹ پر نہیں بیٹھا اور بیٹھنا چاہتا ہے وہ اپنی ائیر لائن پر سفر کر لے ۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ ائیر ہوسٹس زیادہ پرانی ہے یا جہاز اور جہاز کے اندر کا ماحول ایسا کہ 5منٹ میں ہی بندے کو اپنی بیوی پیاری لگنے لگ جائے ۔اوپر سے اپنا موسم دیکھو جیکب آباد اور سبی میں اتنی گرمی کہ بھینسیں خشک دودھ دیں جبکہ سکردو اور نتھیا گلی میں اتنی سردی کہ شادی کیئے بغیر اترتی ہی نہیں اور لاہور میں دھوتی اس لیئے پہنی جائے کہ یہ ائیر کنڈیشنڈ ہوتی ہے جبکہ کراچی کی ائیر ایسی کہ کسی کنڈیشن میں کوئی دھوتی پہننے کا سوچ بھی نہ سکے ۔ جب میرا یہ دوست اپنا جلاپا اور ساڑا نکال چکا تو میں نے کہا کہ’’ حکومتوں اور حکمرانوں کو چھوڑ و اپنی قوم کو دیکھو ، پوری مسلم امہ میں ایسے جذبوں اور ولولوں والی کوئی اور قوم ہے توبتاؤ ،ایک بھیانک سا قہقہہ مار کر بولا’’کہیڑ ی قوم تے کہیڑ ی مسلم امہ‘‘ ۔ لیبیا سے یمن تک مسلم امہ کا جو حال ہے، لگتا نہیں کہ اب اگلی کئی نسلوں کا کوئی مستقبل ہو گا جبکہ اپنی قوم کی مسلمانی دیکھ لو یہاں 80فیصد مسجدوں کی زمین متنازعہ،عید سے اذان تک جھگڑے ہی جھگڑے ، خود کو سوٹ کرتا ہر ایک کا اپنا اپنا دین ، مکہ ہوٹل پر باسی کھانے ملیں اور مدینہ بیکری کی ہر شے میں ملاوٹ ، ماشاء اللہ ٹریول ایجنسی پر انسانی سمگلنگ اور بسم اللہ پراپرٹی والوں پر یتیموں کے پلاٹ کھا جانے کے مقدمے ، اللہ ہو کلینک پرنقلی ڈاکٹر جعلی دوائیاں بیچے اور مسجدوں کے پنکھے ،ٹوٹیاں اور جوتوں کی چوری یہاں معمول ہو جائے ، یہاں جنازوں میں جیبیں کٹ جائیں اور یہاں مُردوں کے کفن اور قبروں کے کتبے تک کوئی نہ چھوڑے ۔ اس سے پہلے کہ ہم سب اس’’ حسد ی سیلاب‘‘ میں ڈوب جاتے میں نے ایک بار پھر موضوع بدلا ’’ ہر وقت حسد اور ہر وقت مایوسی۔ چھوڑو مسلم امہ کو دیکھو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی۔ برطانوی سائنسدانوں نے بڑھاپے کو روکنے اور ہزار سال تک زندہ رہنے کا نسخہ ڈھونڈلیا۔ روس میں ایک انسان کا سر دوسرے انسان کے دھڑ پر لگانے کی تیاریاں ہوچکیں۔ دبئی میں 2008ء میں ذیبح شدہ اونٹنی کے جرثومے سے پید ا ہونے والی اونٹنی اب خود ماں بننے والی ہے،آسٹریلوی ماہرین نے ڈینگی پر قابو پا لیاہے،کاکروچ کے دماغ کے بیکٹریوں سے انسانی بیماریوں کا علاج شروع ہوگیا ہے،سمندروں میں زرعی فارم بنانے ،کمپیوٹر اور دماغ کے میلاپ،سوچ کی لہروں سے رابطے اور نومولود بچوں کے رونے کو گفتگو میں ڈھالنے پر ماہرین کامیابی کے قریب ۔ ابھی میری بات جاری تھی کہ یہ حاسد ایک بار پھر بول پڑا ’’ جب تمہیں پتا ہے کہ ایک سگریٹ میں نیل پالش ریموراور چوہے مارنے جیسے چار ہزار زہریلے کمیکلز ہوتے ہیں تو پھرتم سگریٹ کیوں پیتے ہو‘‘۔چند لمحے اپنے جملے اور میری بے عزتی انجوائے کرنے کے بعداس ’’ جل ککڑے ‘‘ نے کہا ’’جس ملک میں فیس بک افواہوں اورکردار کشی کیلئے استعمال ہو ،جہاں ٹوئیٹر طعنوں اور گالیوں کیلئے رہ جائے،جہاں ویٹس اپ فحش ویڈیوز کا ذریعہ بن جائے اورجہاں ٹیلی فون کا استعمال الطاف حسین کے علاوہ اور کوئی نہ جانتا ہو وہاں ٹیکنالوجی اور تحقیق کسی کا کیا بگاڑلے گی ‘‘۔ ادھر میرا یہ حاسد دوست بولے جارہا تھا جبکہ اُدھر مجھے موریطاینہ کی50سالہ وہ خاتون یاد آرہی تھی کہ جو 55 شادیاں کر چکی ہے اور جس کی 12شادیاں صرف دو دو دن ہی چل پائیں ۔ اس خاتون سے اتنی ڈھیر ساری شادیوں کی ناکامی کی وجہ پوچھی گئی تو معصومیت سے بولی میرے خاوندوں کا مجھ سے حسد ۔ میرے حاسد کی باتوں نے میرا یہ حال کر دیا تھا کہ اس وقت مجھے اس خاتون کا یہ چٹا جھوٹ بھی سچ لگ رہا تھا ۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ حسد سے بچو یہ نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے کہ جیسے آگ لکڑی کو ‘‘ ۔ آپ ؐ کا ہی فرمان ہے کہ ’’ہر صاحبِ نعمت حسد کیا جاتا ہے ‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں کہ جس پر اللہ تعالیٰ کرم فرماتا ہے وہ حرص ،ہوس اور حسد سے بچ جاتا ہے ۔حضرت علیؓ کا کہنا ہے کہ حاسد کو کوئی خوش نہیں کر سکتا ۔ کہا جاتا ہے کہ حاسد کیلئے بد دعا نہ کرو کیونکہ وہ تو پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے اور پھر حاسد کیلئے یہ سز ا کیا کم ہے کہ جب تم خوش ہوتے ہو وہ غمگین ہو جاتا ہے ۔ایک بار حضور ؐ سے پوچھا گیا کہ حسد سے کیسے بچا جائے تو آپ ؐ نے فرمایا ’’تقویٰ اختیار کرو،صدقہ خیرات دو اور اپنی نعمتوں اور خوشیوں کو چھپاؤ ،حسد سے بچ جاؤگے‘‘ ۔حضور ؐ کی بتائی ہوئی ان باتوں پر عمل کر کے یقیناًآپ بھی حسد سے بچ سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ خود حاسد نہ ہوں ۔

حسد

- Posted in Amaal Nama by with comments

آسمان پر پہلے گناہ کی بنیاد ابلیس کا آدم ؑ سے حسداور قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے زمین پر پہلے قتل کی وجہ حسد مطلب حسد تب سے ہے جب ہم بھی نہ تھے اور یقیناًحسد تب بھی ہوگا جب ہم نہیں ہوں گے مگر نجانے کیوں اپنے ہاں گھر گھر موجودحاسدوں اور گلی گلی ہوتے حسد کو دیکھ اور بھگت کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے حسد کے بانی بھی ہم تھے اور اسکی بقاء کی ذمہ داری بھی ہماری ۔اپنے پاس تو ایسے ایسے حاسدہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔میرا ایک دوست جس کا نام احسان اور تخلص فراموش ، جس کے دانتوں اور نیت کو کب کا کیڑالگ چکا جو کالا ایسا کہ بندہ سو بار منہ کالا کر کے بھی اتنا کالا نہ ہوپائے یعنی چلتا پھرتا کسی تباہ شدہ جہاز کا بلیک باکس ۔قد اتنا کہ شروع ہوتے ہی ختم ہو جائے اور وزن اتناکہ پہلی کوشش میں خود بھی خود کو نہ اٹھا سکے ،سر سے زیادہ بال ناک اور کانوں پر ،نظر اتنی کمزور کہ عینک پہن کر سوئے جبکہ حس اتنی تیز کہ جگہ سونگھ کر بتا دے کہ یہاں کس قماش کی عورت کب آئی تھی ۔حافظہ ایسا کہ دوسروں کی ہر غلطی اور ہر برائی یاد۔مونچھیں اتنی بڑی کہ ایسا لگے کہ چہرے پر مونچھیں نہیں ،مونچھوں پرچہرہ اگا ہوا۔کنجوس ایسا کہ ویٹر کو ٹپ دیتے ہوئے بھی بارگین کرے ۔ کبھی یہ شادیوں کی فلمیں بنایا کرتا اور جس جس کی فلم بنائی اُس اُس کی شادی نہ چلی اور پھر ایک شادی پر خاتون کا کلوز لیتے لیتے اتنا کلوز ہو گیا کہ مجبوراً خاتون کو اس سے شادی کرنا پڑی۔ اب خوبصورت بیوی کو اپنے بھدے پن کا یہ جواز دے ’’ مجھے دیکھ کر غم نہ کیا کرو کیونکہ بدصورتی ہی عورت کی اصل محافظ ہوتی ہے ‘‘۔ اس کا خاندان ایسا کہ دادا نے چھ قتل کیئے اور چھ حج کیئے پھر دادا نے یہ کہہ کر قتل سے توبہ کر لی کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اب مجھ سے بار بار حج نہیں ہوتا ۔ والدِ محترم فخر سے بتایا کرتے کہ 65ء کی جنگ میں اُدھر پہلی گولی چلی اِدھر احسان پیدا ہوا ۔شیخو کہتا ہے کہ کاش پہلی گولی ہی نہ چلتی ۔ میرے اس دوست میں حسد اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ اس سے حسد نکال دیں تو باقی کپڑے ہی بچتے ہیں مگر وہ بھی حسد سے بھرے ہوئے ،یہ جب بھی ملا کسی نہ کسی سے حسد کرتے ہی ملا۔ یقین مانیں ایکدن تو خود سے ہی حسد کرتے پایا گیا۔ابھی چند دن پہلے جب ہم سب بیٹھے اپنے ملک کی تعریفیں کر رہے تھے تو حسد کی بُکل مارے کافی دیر سے چپ بیٹھا یہ بالآخر پھٹ پڑا ۔یہ بھی کوئی ملک ہے کہ جہاں نائیوں کے اپنے بال بڑھے ہوئے ہیں ، موچی جوتوں بغیر اور درزی ننگے جسم ملیں اور تو اور یہاں تو ڈاکٹر خود طبی سہولتوں سے محروم ۔ ہماری حکومتیں ایسی چلتی ہیں کہ جیسی ہماری ٹریفک اوراپوزیشن کی سیاست ایسی کہ جیسے چوکوں میں پھنسی یہی ٹریفک۔90فیصد رہنما ایسے کہ جب وہ چپ ہوں تو شبہ ہوتا ہے کہ انہیں حکومت اور سیاست کا کچھ پتا نہیں ،بول پڑیں تو یہ شبہ دور ہو جاتا ہے ۔ باقی 10فیصد اپنے قائم علی شاہ جیسے کہ جن کی انگریزی سمجھنے کیلئے سندھی کا آنا ضروری ہے ۔سیاسی جماعتوں کا یہ حال کہ وقتاً فوقتاً نکاح پر نکاح کھڑکاتی اور اپنی بقاء کیلئے اپنے بچے تک کھا جانے والی مسلم لیگ جبکہ کل تک بڑی تابعداری سے زیڈ اے پر مر مٹنے والی آج بڑی فرمانبرداری سے اے زیڈ کیلئے جانیں دیتی پیپلز پارٹی ۔ ڈکٹیٹروں نے دیا کچھ نہیں جبکہ سیاستدانوں نے چھوڑا کچھ نہیں۔ ایوب ایک گالی سے ڈر کر بھاگ گیا جبکہ ضیاء الحق اتنا سست نکلا کہ 90دن کا کام 9سالوں میں بھی نہ کر سکا۔ یہاں کا نظام ایسا کہ بندہ تھانے ، کچہری یا ہسپتال میں ہو تو گھر والے مصلوں پر ہوتے ہیں،با ئی روڈ سفر انگریزی والا Suffer، ریل ڈی ریل ہو چکی جبکہ جو اونٹ پر نہیں بیٹھا اور بیٹھنا چاہتا ہے وہ اپنی ائیر لائن پر سفر کر لے ۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ ائیر ہوسٹس زیادہ پرانی ہے یا جہاز اور جہاز کے اندر کا ماحول ایسا کہ 5منٹ میں ہی بندے کو اپنی بیوی پیاری لگنے لگ جائے ۔اوپر سے اپنا موسم دیکھو جیکب آباد اور سبی میں اتنی گرمی کہ بھینسیں خشک دودھ دیں جبکہ سکردو اور نتھیا گلی میں اتنی سردی کہ شادی کیئے بغیر اترتی ہی نہیں اور لاہور میں دھوتی اس لیئے پہنی جائے کہ یہ ائیر کنڈیشنڈ ہوتی ہے جبکہ کراچی کی ائیر ایسی کہ کسی کنڈیشن میں کوئی دھوتی پہننے کا سوچ بھی نہ سکے ۔ جب میرا یہ دوست اپنا جلاپا اور ساڑا نکال چکا تو میں نے کہا کہ’’ حکومتوں اور حکمرانوں کو چھوڑ و اپنی قوم کو دیکھو ، پوری مسلم امہ میں ایسے جذبوں اور ولولوں والی کوئی اور قوم ہے توبتاؤ ،ایک بھیانک سا قہقہہ مار کر بولا’’کہیڑ ی قوم تے کہیڑ ی مسلم امہ‘‘ ۔ لیبیا سے یمن تک مسلم امہ کا جو حال ہے، لگتا نہیں کہ اب اگلی کئی نسلوں کا کوئی مستقبل ہو گا جبکہ اپنی قوم کی مسلمانی دیکھ لو یہاں 80فیصد مسجدوں کی زمین متنازعہ،عید سے اذان تک جھگڑے ہی جھگڑے ، خود کو سوٹ کرتا ہر ایک کا اپنا اپنا دین ، مکہ ہوٹل پر باسی کھانے ملیں اور مدینہ بیکری کی ہر شے میں ملاوٹ ، ماشاء اللہ ٹریول ایجنسی پر انسانی سمگلنگ اور بسم اللہ پراپرٹی والوں پر یتیموں کے پلاٹ کھا جانے کے مقدمے ، اللہ ہو کلینک پرنقلی ڈاکٹر جعلی دوائیاں بیچے اور مسجدوں کے پنکھے ،ٹوٹیاں اور جوتوں کی چوری یہاں معمول ہو جائے ، یہاں جنازوں میں جیبیں کٹ جائیں اور یہاں مُردوں کے کفن اور قبروں کے کتبے تک کوئی نہ چھوڑے ۔ اس سے پہلے کہ ہم سب اس’’ حسد ی سیلاب‘‘ میں ڈوب جاتے میں نے ایک بار پھر موضوع بدلا ’’ ہر وقت حسد اور ہر وقت مایوسی۔ چھوڑو مسلم امہ کو دیکھو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی۔ برطانوی سائنسدانوں نے بڑھاپے کو روکنے اور ہزار سال تک زندہ رہنے کا نسخہ ڈھونڈلیا۔ روس میں ایک انسان کا سر دوسرے انسان کے دھڑ پر لگانے کی تیاریاں ہوچکیں۔ دبئی میں 2008ء میں ذیبح شدہ اونٹنی کے جرثومے سے پید ا ہونے والی اونٹنی اب خود ماں بننے والی ہے،آسٹریلوی ماہرین نے ڈینگی پر قابو پا لیاہے،کاکروچ کے دماغ کے بیکٹریوں سے انسانی بیماریوں کا علاج شروع ہوگیا ہے،سمندروں میں زرعی فارم بنانے ،کمپیوٹر اور دماغ کے میلاپ،سوچ کی لہروں سے رابطے اور نومولود بچوں کے رونے کو گفتگو میں ڈھالنے پر ماہرین کامیابی کے قریب ۔ ابھی میری بات جاری تھی کہ یہ حاسد ایک بار پھر بول پڑا ’’ جب تمہیں پتا ہے کہ ایک سگریٹ میں نیل پالش ریموراور چوہے مارنے جیسے چار ہزار زہریلے کمیکلز ہوتے ہیں تو پھرتم سگریٹ کیوں پیتے ہو‘‘۔چند لمحے اپنے جملے اور میری بے عزتی انجوائے کرنے کے بعداس ’’ جل ککڑے ‘‘ نے کہا ’’جس ملک میں فیس بک افواہوں اورکردار کشی کیلئے استعمال ہو ،جہاں ٹوئیٹر طعنوں اور گالیوں کیلئے رہ جائے،جہاں ویٹس اپ فحش ویڈیوز کا ذریعہ بن جائے اورجہاں ٹیلی فون کا استعمال الطاف حسین کے علاوہ اور کوئی نہ جانتا ہو وہاں ٹیکنالوجی اور تحقیق کسی کا کیا بگاڑلے گی ‘‘۔ ادھر میرا یہ حاسد دوست بولے جارہا تھا جبکہ اُدھر مجھے موریطاینہ کی50سالہ وہ خاتون یاد آرہی تھی کہ جو 55 شادیاں کر چکی ہے اور جس کی 12شادیاں صرف دو دو دن ہی چل پائیں ۔ اس خاتون سے اتنی ڈھیر ساری شادیوں کی ناکامی کی وجہ پوچھی گئی تو معصومیت سے بولی میرے خاوندوں کا مجھ سے حسد ۔ میرے حاسد کی باتوں نے میرا یہ حال کر دیا تھا کہ اس وقت مجھے اس خاتون کا یہ چٹا جھوٹ بھی سچ لگ رہا تھا ۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ حسد سے بچو یہ نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے کہ جیسے آگ لکڑی کو ‘‘ ۔ آپ ؐ کا ہی فرمان ہے کہ ’’ہر صاحبِ نعمت حسد کیا جاتا ہے ‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں کہ جس پر اللہ تعالیٰ کرم فرماتا ہے وہ حرص ،ہوس اور حسد سے بچ جاتا ہے ۔حضرت علیؓ کا کہنا ہے کہ حاسد کو کوئی خوش نہیں کر سکتا ۔ کہا جاتا ہے کہ حاسد کیلئے بد دعا نہ کرو کیونکہ وہ تو پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے اور پھر حاسد کیلئے یہ سز ا کیا کم ہے کہ جب تم خوش ہوتے ہو وہ غمگین ہو جاتا ہے ۔ایک بار حضور ؐ سے پوچھا گیا کہ حسد سے کیسے بچا جائے تو آپ ؐ نے فرمایا ’’تقویٰ اختیار کرو،صدقہ خیرات دو اور اپنی نعمتوں اور خوشیوں کو چھپاؤ ،حسد سے بچ جاؤگے‘‘ ۔حضور ؐ کی بتائی ہوئی ان باتوں پر عمل کر کے یقیناًآپ بھی حسد سے بچ سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ خود حاسد نہ ہوں ۔

! سورج مکھی قوم

- Posted in Amaal Nama by with comments

گہرے سرخ رنگ کی میلی قمیض ،پائنچوں سے پھٹی ہوئی کالی شلوار اور گود میں رکھا داغوں دھبوں سے بھرا سفید دوپٹہ ،آدھے سر کے بالوں کی چھوٹی چھوٹی پونیاں بنی ہوئیں جبکہ آدھے سر کے بال کُھلے ہوئے ، خشک پھٹے ہونٹ،خوفزدہ آنکھیں اور ہر تاثر سے عاری چہرہ، وہ میرے سامنے کرسی پر خاموش بیٹھی تھی ۔’’ آپ کے بیٹے کا بہت دکھ ہوا ۔آپ صبر سے کام لیں کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ آپ بہت جلد تندرست ہو جائیں گی ،ابھی تو آپ نے بہت سارے ڈراموں اور فلموں میں کام کرنا ہے‘‘ ۔ یہ اور اس طرح کی کئی اور باتیں،گذشتہ 25منٹوں سے میں ہی بول رہا تھا ،وہ بس تھوڑی تھوڑی دیر بعد خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھتی اور پھر تین رنگوں کی نیل پالش لگے ناخنوں سے اپنے ڈوپٹے میں لگے موتی ادھیڑ نے لگ جاتی ۔ ایک بار جب بات کرتے کرتے میری آواز اونچی ہوئی تو وہ اچانک کرسی سے اٹھ کر کمرے سے باہرنکل گئی اور پھر بڑی مشکل سے ڈاکٹر اسے بہلا پھسلا کر واپس لایا ۔ ایک مرتبہ جب ساتھ والے کمرے سے کسی عورت کی رونے کی آوازیں آنے لگیں تو اس نے ہنسنا شروع کر دیا اور کافی دیر تک ہنستی رہی ۔ میں چھ ماہ بعد اسے دوبارہ مل رہا تھا ،بڑی تیزی سے سفید ہوتے بال ،چہرے پر گہری سے گہری ہوتی جھریاں اور آنکھوں کے گر د سیاہ حلقے ،ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ایک ایک مہینے میں ایک ایک سال گذار رہی ہو ۔ ایک گھنٹے کی کوششوں کے بعد جب مجھے اور ڈاکٹر کو یہ یقین ہو گیا کہ آج وہ بالکل بھی بولنے کے موڈ میں نہیں تو انتہائی بے بسی کے عالم میں ڈاکٹر روحی بانو کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔جی ہاں روحی بانو، فیصل آباد میں پیدا ہونے والی روحی بانو ، اللہ رکھا طبلہ نواز کی بیٹی روحی بانو ، اپنے وقت کی سپرسٹار روحی بانو ، چھوٹی سکرین کی بڑی اداکارہ روحی بانواور شربتی آنکھوں اور معصوم چہرے والی روحی بانو ۔وہی روحی بانو جس کی 2005میں اپنے جوان بیٹے علی کے قتل کے بعدآج یہ حالت ہوگئی ہے کہ کبھی وہ پاگل خانے میں ہوتی ہے تو کبھی ننگے پاؤں گلیوں اور بازاروں میں ملتی ہے ،کبھی ساری ساری رات روتی رہتی ہے تو کبھی کئی کئی دن ہنستے رہتی ہے ۔وہ کل کیا تھی اور آج کیاہے اُسے کچھ معلوم نہیں۔ لیکن شائد ’’قدرت کو یہی منظور تھا ‘‘ کا کہہ کر ایک ماں سے ہوئی ناانصافی اور اس کے دکھوں سے جان چھڑانے والوں کے اس دیس میں یہ کوئی انوکھی یا نئی بات نہیں یہاں اکیلی روحی بانو ہی نہیں کہ جسے اس معاشرے نے جیتے جی مار دیاہو ، یہاں اور بھی ایسے بہت ہیں کہ جو بدلتی رتوں کی بھینٹ چڑھ گئے ، جیسے ایک صادق علی ہوا کرتا تھا۔پرنس کے نام سے مشہور یہ اداکارپاکستان کی محبت میں عزت و شہرت کو لات مار کر ممبئی سے کراچی آگیا ۔ یہ وہ اداکار تھا کہ جب وہ سٹوڈیو آیا کرتا تواسکی کار سے فلمی سیٹ تک سرخ قالین بچھایا جاتا ۔لیکن ہمارے دیس میں اسی صادق علی پرنس کو دو وقت کی روٹی کیلئے کراچی کی بند روڈ پر پرانے استعمال شدہ کپڑے بیچنا پڑے اور ایکدن وہ اسی سٹرک کے فٹ پاتھ پر مر گیا ۔عوامی اداکار علاوالدین جس کا ڈائیلاگ ’’کہاں سے آئے یہ جھمکے ، کس نے دیئے یہ جھمکے ‘‘ کل کی طرح آج بھی زبان زدوعام ہے ۔ یہ اس محل نما بنگلے کا مکین تھا کہ جہاں ہر وقت دعوتیں چل رہی ہوتیں مگر پھر اپنو ں نے اسے اس حال تک پہنچا دیا کہ اسی علاوالدین کو شباب کیرانوی نے ترس کھا کر ایک معمولی سی نوکری دی اور وہ اسی ’’چاکری ‘‘ میں سسک سسک کر مر ا ۔ بیچ بھنور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ ’’شاہ مدینہ ‘‘ ، ’’مرلی والے مرلی بجا‘‘ اور غالب کی غزلوں کی لاجواب گلوکارہ ثریا جس کی اپنی ضدی نانی کی وجہ سے دلیپ کمار سے شادی نہ ہو سکی ، اپنے وقتوں کی اسی خوبرو ثریا نے زندگی کے آخری ایام ایک تنگ و تاریک فلیٹ میں ایسے گذارے کہ پڑوسیوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہ بڑھیا کون ہے ۔مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ ایک بار ان کا ایک دوست ڈاکٹر عمر عادل ثریا کا ٹھکانہ ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گیا ۔ ملاقات کے بعد جب ڈاکٹر عادل نے جانے کی اجازت چاہی تو ثریا بولی’’ دیکھیئے میرے فلیٹ کے باہر ہروقت مداحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے ، سب مجھے ملنا چاہتے ہیں مگر میری طبیعت خراب ہے میں آرام کرنا چاہتی ہوں ،کسی سے مل نہیں سکتی لہذا میری طرف سے آپ سب سے معذرت کرلیجیئے گا ‘ ‘جی اچھا کہہ کر ڈاکٹر عمر عادل فلیٹ سے نکلا تو باہر گٹر کے پانی سے لبالب بھری سنسنان راہداری میں کوئی نہیں تھا ۔ لاہور کی فردوس مارکیٹ والے قبرستان کے ایک کونے میں جنگلی گھاس اور جھاڑیوں میں تقریباً چھُپ چکی وحید مراد کی قبر ہے۔وہی وحید مراد جو پورے ملک کا چاکلیٹی ہیروتھا ،جس کا رومانس ،بولنے کا انداز اور ہیئر اسٹائل آج بھی کاپی کیا جاتا ہے ۔یہی وحید مراددوستوں کی بے وفائیوں،ایک حادثے میں چہرے پر لگنے والے زخموں کے نشانوں کے دکھ ،اداکار ندیم کی اٹھان اور لگاتار تین فلموں کے فلاپ ہونے پر نشے کا عادی ہو کر ایسا بستر پر لیٹا کہ ایکدن اسی حالت میں اس کا دل جواب دے گیا ۔ پھر جس وحید مراد کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے زمانہ ترسا کرتا تھا اُسی وحید مراد کے جنازے کو کندھا دینے والے بتاتے ہیں کہ پرانے کپڑوں کی رسیاں بنا کر 5جگہوں سے باندھنے کے بعد وہ ٹوٹی پھوٹی چارپائی اس قابل ہوئی کہ اس پر وحید مراد کا جسد خاکی قبرستان لے جایاگیا ۔ایک زمانہ تھا کہ جب مظہر شاہ کے بغیر پنجابی فلم بنانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ایک ایسا ولن کہ جس کی بڑھک پر پورا سینما ہال قدموں پر کھڑا ہو جایا کرتا، آخری دنوں میں یہی مظہر شاہ گوالمنڈی میں ایک تھڑے پر سار اسارا دن اکیلا بیٹھا رہتا اور کسی کو پتا بھی نہ ہوتا کہ یہ کون ہے،پھر اسی تھڑے پر بیٹھے بیٹھے وہ فوت ہو گیا ۔ایک فلمسٹار راگنی ہو ا کرتی تھی ،جس نے سہگل سمیت ہر بڑے ہیرو کے ساتھ کام کیا اور جس کے حسن اور سحر طراز آنکھوں کی پورے ہندوستان میں دھوم تھی ۔اسی راگنی نے زندگی کے آخری دن اُس کمرے میں گذارے کہ جس کا جگہ جگہ سے سیمنٹ اکھڑا اور فرش ٹوٹاہوا تھا جبکہ ایک بوسیدہ بستر اور سرہانے رکھی نل کے پانی سے بھری بوتل اس شکستہ کمرے کا کُل سامان تھا ۔ کس کس کے دکھوں کو یاد کریں اور کس کس کی کہانی سنائیں یہ تو وہ دیس ہے کہ جہاں ساڑھے سات سوفلموں میں کام کرنے والا الیاس کشمیری کوڑی کوڑی کا محتاج ہو کر مرا ، جہاں رنگیلا اور لہری جیسے فنکار نو دولتیوں سے خیرات لینے پر مجبور ہوئے ، جہاں اسٹیج کا بادشاہ ببو برال پیشاپ کی بوتل ہاتھ میں پکڑے کینسر کے علاج کیلئے وزیروں اور مشیروں کے دروازے کھٹکھٹاتے کھٹکھٹاتے گذرگیا ، جہاں بہاولپور کے ایک ہسپتال میں دوائیو ں کا خرچہ برداشت نہ کر سکنے پر قابلِ علاج مرض والا اداکار مستانہ لاعلاج ہو کر مرا ، جہاں مکالمہ بازی کاگرو افضال احمد اور 5سو سے زیادہ فلموں میں کام کر چکا ہمایوں قریشی فالج کے بعد زندہ لاشیں بن چکے اورکوئی پرسانِ حال نہیں ، جہاں ’’دیوداس‘‘ میں دلیپ کمارسے بہتر اداکاری کرنے والا حبیب 3سو فلموں میں ہیرو آکر بھی آج چھوٹے چھوٹے کرداروں کیلئے ٹی وی سنٹروں کے چکر کاٹ رہاہے ، جہاں اپنے وقت کی مونالیزا اداکارہ دیبا ٹوٹی چپل پہنے سستے بازاروں میں سودا خریدتی ملے ، جہاں ’’ سُن وے بلوری اکھ والیا‘‘ والی فلم سٹار نغمہ ٹیکسی کے پیسے بچانے کیلئے میلوں پیدل چلے ،جہاں دردانہ رحمان اور صبیحہ خانم جیسی اداکارائیں ’’ بی گریڈ ڈراموں‘‘میں سازشی اورلڑاکی ساسیں بننے پر مجبور ہوں ، جہاں ہزار کے قریب ڈراموں اور فلموں میں کام کرچکے انور قادری کے پاس ایک کپ چائے کے پیسے نہ ہوں ، جہاں اداکار علی اعجاز کے اکلوتے مکان پر قبضہ ہو جائے اور اُسکی کہیں شنوائی بھی نہ ہو اور جہاں بکری کی مینگنوں سے بھری ، بلیوں کی بیٹھک اور چوہوں کا مسکن بنی سوراخوں والی قبر سے جھاڑیا ں ہٹا کر کتبہ پڑھنے پر معلوم پڑے کہ یہ جو ش ملیح آبادی کی آخری آرام گاہ ہے ۔ وہاں کچھ کہنے ، کچھ سننے کا کیا فائدہ اور وہاں جلنے کڑھنے سے کیا حاصل ۔ ذرا سوچیں جس ملک میں نصرت فتح علی خان کو اُس وقت تک نجی محفلوں اور مزارعوں کا قوال سمجھا جائے کہ جب تک وہ ویڈیو نہ آجا ئے کہ جس میں ’’ تم ایک گورکھ دھندا ہو‘‘ پر امتیابھ بچن نصرت فتح علی خان کے قدموں میں بیٹھا جھوم رہا ہو اور پھر یہ ویڈیو ایک قوال کو استاد بنا دے ۔ اس دیس اور اس معاشرے کو دیکھ کر مجھے تو رشک آتا ہے دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کی قسمت پر کہ وہ یہاں سے چلے گئے اگر یہ پشاور میں ہی رہ جاتے تو نجانے یہ سورج مکھی قوم ان کا کیا حشرکرتی ۔

! سورج مکھی قوم

- Posted in Amaal Nama by with comments

گہرے سرخ رنگ کی میلی قمیض ،پائنچوں سے پھٹی ہوئی کالی شلوار اور گود میں رکھا داغوں دھبوں سے بھرا سفید دوپٹہ ،آدھے سر کے بالوں کی چھوٹی چھوٹی پونیاں بنی ہوئیں جبکہ آدھے سر کے بال کُھلے ہوئے ، خشک پھٹے ہونٹ،خوفزدہ آنکھیں اور ہر تاثر سے عاری چہرہ، وہ میرے سامنے کرسی پر خاموش بیٹھی تھی ۔’’ آپ کے بیٹے کا بہت دکھ ہوا ۔آپ صبر سے کام لیں کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ آپ بہت جلد تندرست ہو جائیں گی ،ابھی تو آپ نے بہت سارے ڈراموں اور فلموں میں کام کرنا ہے‘‘ ۔ یہ اور اس طرح کی کئی اور باتیں،گذشتہ 25منٹوں سے میں ہی بول رہا تھا ،وہ بس تھوڑی تھوڑی دیر بعد خالی خالی نظروں سے میری طرف دیکھتی اور پھر تین رنگوں کی نیل پالش لگے ناخنوں سے اپنے ڈوپٹے میں لگے موتی ادھیڑ نے لگ جاتی ۔ ایک بار جب بات کرتے کرتے میری آواز اونچی ہوئی تو وہ اچانک کرسی سے اٹھ کر کمرے سے باہرنکل گئی اور پھر بڑی مشکل سے ڈاکٹر اسے بہلا پھسلا کر واپس لایا ۔ ایک مرتبہ جب ساتھ والے کمرے سے کسی عورت کی رونے کی آوازیں آنے لگیں تو اس نے ہنسنا شروع کر دیا اور کافی دیر تک ہنستی رہی ۔ میں چھ ماہ بعد اسے دوبارہ مل رہا تھا ،بڑی تیزی سے سفید ہوتے بال ،چہرے پر گہری سے گہری ہوتی جھریاں اور آنکھوں کے گر د سیاہ حلقے ،ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے وہ ایک ایک مہینے میں ایک ایک سال گذار رہی ہو ۔ ایک گھنٹے کی کوششوں کے بعد جب مجھے اور ڈاکٹر کو یہ یقین ہو گیا کہ آج وہ بالکل بھی بولنے کے موڈ میں نہیں تو انتہائی بے بسی کے عالم میں ڈاکٹر روحی بانو کو لے کر کمرے سے نکل گیا۔جی ہاں روحی بانو، فیصل آباد میں پیدا ہونے والی روحی بانو ، اللہ رکھا طبلہ نواز کی بیٹی روحی بانو ، اپنے وقت کی سپرسٹار روحی بانو ، چھوٹی سکرین کی بڑی اداکارہ روحی بانواور شربتی آنکھوں اور معصوم چہرے والی روحی بانو ۔وہی روحی بانو جس کی 2005میں اپنے جوان بیٹے علی کے قتل کے بعدآج یہ حالت ہوگئی ہے کہ کبھی وہ پاگل خانے میں ہوتی ہے تو کبھی ننگے پاؤں گلیوں اور بازاروں میں ملتی ہے ،کبھی ساری ساری رات روتی رہتی ہے تو کبھی کئی کئی دن ہنستے رہتی ہے ۔وہ کل کیا تھی اور آج کیاہے اُسے کچھ معلوم نہیں۔ لیکن شائد ’’قدرت کو یہی منظور تھا ‘‘ کا کہہ کر ایک ماں سے ہوئی ناانصافی اور اس کے دکھوں سے جان چھڑانے والوں کے اس دیس میں یہ کوئی انوکھی یا نئی بات نہیں یہاں اکیلی روحی بانو ہی نہیں کہ جسے اس معاشرے نے جیتے جی مار دیاہو ، یہاں اور بھی ایسے بہت ہیں کہ جو بدلتی رتوں کی بھینٹ چڑھ گئے ، جیسے ایک صادق علی ہوا کرتا تھا۔پرنس کے نام سے مشہور یہ اداکارپاکستان کی محبت میں عزت و شہرت کو لات مار کر ممبئی سے کراچی آگیا ۔ یہ وہ اداکار تھا کہ جب وہ سٹوڈیو آیا کرتا تواسکی کار سے فلمی سیٹ تک سرخ قالین بچھایا جاتا ۔لیکن ہمارے دیس میں اسی صادق علی پرنس کو دو وقت کی روٹی کیلئے کراچی کی بند روڈ پر پرانے استعمال شدہ کپڑے بیچنا پڑے اور ایکدن وہ اسی سٹرک کے فٹ پاتھ پر مر گیا ۔عوامی اداکار علاوالدین جس کا ڈائیلاگ ’’کہاں سے آئے یہ جھمکے ، کس نے دیئے یہ جھمکے ‘‘ کل کی طرح آج بھی زبان زدوعام ہے ۔ یہ اس محل نما بنگلے کا مکین تھا کہ جہاں ہر وقت دعوتیں چل رہی ہوتیں مگر پھر اپنو ں نے اسے اس حال تک پہنچا دیا کہ اسی علاوالدین کو شباب کیرانوی نے ترس کھا کر ایک معمولی سی نوکری دی اور وہ اسی ’’چاکری ‘‘ میں سسک سسک کر مر ا ۔ بیچ بھنور میں آن پھنسا ہے دل کا سفینہ ’’شاہ مدینہ ‘‘ ، ’’مرلی والے مرلی بجا‘‘ اور غالب کی غزلوں کی لاجواب گلوکارہ ثریا جس کی اپنی ضدی نانی کی وجہ سے دلیپ کمار سے شادی نہ ہو سکی ، اپنے وقتوں کی اسی خوبرو ثریا نے زندگی کے آخری ایام ایک تنگ و تاریک فلیٹ میں ایسے گذارے کہ پڑوسیوں کو بھی معلوم نہ تھا کہ یہ بڑھیا کون ہے ۔مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ ایک بار ان کا ایک دوست ڈاکٹر عمر عادل ثریا کا ٹھکانہ ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو گیا ۔ ملاقات کے بعد جب ڈاکٹر عادل نے جانے کی اجازت چاہی تو ثریا بولی’’ دیکھیئے میرے فلیٹ کے باہر ہروقت مداحوں کا ہجوم لگا رہتا ہے ، سب مجھے ملنا چاہتے ہیں مگر میری طبیعت خراب ہے میں آرام کرنا چاہتی ہوں ،کسی سے مل نہیں سکتی لہذا میری طرف سے آپ سب سے معذرت کرلیجیئے گا ‘ ‘جی اچھا کہہ کر ڈاکٹر عمر عادل فلیٹ سے نکلا تو باہر گٹر کے پانی سے لبالب بھری سنسنان راہداری میں کوئی نہیں تھا ۔ لاہور کی فردوس مارکیٹ والے قبرستان کے ایک کونے میں جنگلی گھاس اور جھاڑیوں میں تقریباً چھُپ چکی وحید مراد کی قبر ہے۔وہی وحید مراد جو پورے ملک کا چاکلیٹی ہیروتھا ،جس کا رومانس ،بولنے کا انداز اور ہیئر اسٹائل آج بھی کاپی کیا جاتا ہے ۔یہی وحید مراددوستوں کی بے وفائیوں،ایک حادثے میں چہرے پر لگنے والے زخموں کے نشانوں کے دکھ ،اداکار ندیم کی اٹھان اور لگاتار تین فلموں کے فلاپ ہونے پر نشے کا عادی ہو کر ایسا بستر پر لیٹا کہ ایکدن اسی حالت میں اس کا دل جواب دے گیا ۔ پھر جس وحید مراد کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے زمانہ ترسا کرتا تھا اُسی وحید مراد کے جنازے کو کندھا دینے والے بتاتے ہیں کہ پرانے کپڑوں کی رسیاں بنا کر 5جگہوں سے باندھنے کے بعد وہ ٹوٹی پھوٹی چارپائی اس قابل ہوئی کہ اس پر وحید مراد کا جسد خاکی قبرستان لے جایاگیا ۔ایک زمانہ تھا کہ جب مظہر شاہ کے بغیر پنجابی فلم بنانے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ایک ایسا ولن کہ جس کی بڑھک پر پورا سینما ہال قدموں پر کھڑا ہو جایا کرتا، آخری دنوں میں یہی مظہر شاہ گوالمنڈی میں ایک تھڑے پر سار اسارا دن اکیلا بیٹھا رہتا اور کسی کو پتا بھی نہ ہوتا کہ یہ کون ہے،پھر اسی تھڑے پر بیٹھے بیٹھے وہ فوت ہو گیا ۔ایک فلمسٹار راگنی ہو ا کرتی تھی ،جس نے سہگل سمیت ہر بڑے ہیرو کے ساتھ کام کیا اور جس کے حسن اور سحر طراز آنکھوں کی پورے ہندوستان میں دھوم تھی ۔اسی راگنی نے زندگی کے آخری دن اُس کمرے میں گذارے کہ جس کا جگہ جگہ سے سیمنٹ اکھڑا اور فرش ٹوٹاہوا تھا جبکہ ایک بوسیدہ بستر اور سرہانے رکھی نل کے پانی سے بھری بوتل اس شکستہ کمرے کا کُل سامان تھا ۔ کس کس کے دکھوں کو یاد کریں اور کس کس کی کہانی سنائیں یہ تو وہ دیس ہے کہ جہاں ساڑھے سات سوفلموں میں کام کرنے والا الیاس کشمیری کوڑی کوڑی کا محتاج ہو کر مرا ، جہاں رنگیلا اور لہری جیسے فنکار نو دولتیوں سے خیرات لینے پر مجبور ہوئے ، جہاں اسٹیج کا بادشاہ ببو برال پیشاپ کی بوتل ہاتھ میں پکڑے کینسر کے علاج کیلئے وزیروں اور مشیروں کے دروازے کھٹکھٹاتے کھٹکھٹاتے گذرگیا ، جہاں بہاولپور کے ایک ہسپتال میں دوائیو ں کا خرچہ برداشت نہ کر سکنے پر قابلِ علاج مرض والا اداکار مستانہ لاعلاج ہو کر مرا ، جہاں مکالمہ بازی کاگرو افضال احمد اور 5سو سے زیادہ فلموں میں کام کر چکا ہمایوں قریشی فالج کے بعد زندہ لاشیں بن چکے اورکوئی پرسانِ حال نہیں ، جہاں ’’دیوداس‘‘ میں دلیپ کمارسے بہتر اداکاری کرنے والا حبیب 3سو فلموں میں ہیرو آکر بھی آج چھوٹے چھوٹے کرداروں کیلئے ٹی وی سنٹروں کے چکر کاٹ رہاہے ، جہاں اپنے وقت کی مونالیزا اداکارہ دیبا ٹوٹی چپل پہنے سستے بازاروں میں سودا خریدتی ملے ، جہاں ’’ سُن وے بلوری اکھ والیا‘‘ والی فلم سٹار نغمہ ٹیکسی کے پیسے بچانے کیلئے میلوں پیدل چلے ،جہاں دردانہ رحمان اور صبیحہ خانم جیسی اداکارائیں ’’ بی گریڈ ڈراموں‘‘میں سازشی اورلڑاکی ساسیں بننے پر مجبور ہوں ، جہاں ہزار کے قریب ڈراموں اور فلموں میں کام کرچکے انور قادری کے پاس ایک کپ چائے کے پیسے نہ ہوں ، جہاں اداکار علی اعجاز کے اکلوتے مکان پر قبضہ ہو جائے اور اُسکی کہیں شنوائی بھی نہ ہو اور جہاں بکری کی مینگنوں سے بھری ، بلیوں کی بیٹھک اور چوہوں کا مسکن بنی سوراخوں والی قبر سے جھاڑیا ں ہٹا کر کتبہ پڑھنے پر معلوم پڑے کہ یہ جو ش ملیح آبادی کی آخری آرام گاہ ہے ۔ وہاں کچھ کہنے ، کچھ سننے کا کیا فائدہ اور وہاں جلنے کڑھنے سے کیا حاصل ۔ ذرا سوچیں جس ملک میں نصرت فتح علی خان کو اُس وقت تک نجی محفلوں اور مزارعوں کا قوال سمجھا جائے کہ جب تک وہ ویڈیو نہ آجا ئے کہ جس میں ’’ تم ایک گورکھ دھندا ہو‘‘ پر امتیابھ بچن نصرت فتح علی خان کے قدموں میں بیٹھا جھوم رہا ہو اور پھر یہ ویڈیو ایک قوال کو استاد بنا دے ۔ اس دیس اور اس معاشرے کو دیکھ کر مجھے تو رشک آتا ہے دلیپ کمار اور شاہ رخ خان کی قسمت پر کہ وہ یہاں سے چلے گئے اگر یہ پشاور میں ہی رہ جاتے تو نجانے یہ سورج مکھی قوم ان کا کیا حشرکرتی ۔

!موٹاپا ۔۔۔

- Posted in Amaal Nama by with comments

کنیڈین یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق موٹے لوگ مرنے سے 6سال پہلے ہی مر جاتے ہیں جبکہ امریکی ریسرچ بتاتی ہے کہ دنیا کی 20فیصد آبادی موٹاپے کا شکار ہے اور ان میں سے 62فیصد موٹوں کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہے۔امریکیوں نے ہی بتایا کہ سب سے زیادہ موٹے امریکہ میں پائے جاتے ہیں اور ہر تیسرا امریکی موٹا ہوتا ہے ۔ماہرین کے مطابق دنیا کے 15فیصد موٹے بھارت اور چین مل کر پید ا کررہے ہیں جبکہ موٹاپے کے لحاظ سے پاکستان نویں نمبر پر ہے ۔بقول شیخو ہم تو ٹاپ فائیو میں ہوتے مگر نصرت فتح علی خاں اور اداکار ننھا کی وفات اور اداکارہ انجمن کی برطانیہ اور عدنان سمیع کی بھارت ہجرت ہمیں نویں نمبر پر لے آئی ،یہ تو بھلا ہو عابدہ پروین اور مولانا طاہر اشرفی کا ورنہ ہم تو ٹاپ ٹین میں بھی نہ ہوتے ۔ انہی کھوجیوں کی کھوج بتاتی ہے کہ 1980ء میں اس زمین پر 857ملین موٹے تھے جبکہ 2013ء میں یہ تعداد 2.1بلین ہوگئی ۔ لیکن ان حالات میں موریطانیہ کا حال دیکھیں ، اس افریقی ملک میں حسن کا معیار ہی موٹاپا ہے ، وہاں دبلی پتلی اور سمارٹ لڑکی کا مطلب عمر بھر کی کنوارگی ۔ اس دیس میں لڑکیوں کو پہلے دن سے ہی سب گھر والے ملکر صرف اس لیئے موٹا کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ لڑکی جتنی موٹی ہوگی اتنا ہی اچھا رشتہ آئے گا اور واقعی ہاتھیوں جیسی لڑکیوں کو امیر اور ہینڈ سم خاوند ہاتھوں ہاتھ لے جاتے ہیں ۔ میرے ایک دوست جن کی صحت ایسی ہے کہ ایک بار زلزلہ آنے پر گھر سے باہرآئے تو محلے داروں نے پوچھ لیا کہ آپ بھی زلزلے کی وجہ سے باہر آئے ہیں یا زلزلہ آپ کے باہر آنے کی وجہ سے آیا ہے ۔موصوف چل رہے ہوں تو لگتا ہے کہ پورا محلہ چل رہا ہے،کمر اتنی کہ بندہ پیدل ان کی شلوار میں نالہ نہیں ڈال سکتا ،منہ اس سائز کا کہ جتنی دیر میں شیوکرتے ہیں اتنی دیر میں شیو پھر سے اگنے لگ جاتی ہے، نہا کر نکلیں تو لگتا کہ باتھ روم کو نہلا کر نکلے ہیں ، پیٹ کا یہ حال کہ ایک مرتبہ پیٹ پر چوٹ لگی تو زخم ڈھونڈنے میں 18منٹ لگے ، پیدائشی گنجا ہونے کی وجہ سے گنج ان کی چڑ ہے۔ایک بار کرکٹ کھیلتے ہوئے جب ان کی باؤلنگ پر ایمپائر نے لگاتار تیسری مرتبہ ’’نو بال ‘‘ کہا تو گیند پھینک کر بولے ’’کھیل میں ذاتیات پر نہیں اترنا چاہیے ‘‘۔یہ اکیلے چار آدمیوں جتنا کام کرتے ہیں،یقین نہ آئے تو انہیں کھا تا دیکھ لیں ، اس طرح کھاتے ہیں کہ جس جس نے بھی انہیں کھاتے دیکھا پھر کئی کئی دن وہ خود کچھ نہ کھا سکا، یہ تو کھانا ہضم کرنے کیلئے اتنی دوائیاں کھاجا تے ہیں کہ عام انسان تو خالی یہ دوائیاں کھا کر ہی پیٹ بھر لے ۔ کھانا کھلانے والے کو کبھی نہیں بھولتے،خاص کرکے اُس وقت جب پھر سے بھوک لگ جائے ۔کھانا پینا اس قدر پسند ہے کہ ان کے نزدیک سنتری کا مذکرسنترہ ہوتا ہے ،کاجوکی برفی سے مراد وفادار بیوی ،حلیم کا مطلب اچھا رشتہ دار، نہاری سے مراد مخلص دوست ، اچھا باس چکن تکہ،لڑاکو بیوی سڑی ہوئی روٹی ،غریب رشتہ دار باسی سالن ،بھدی لڑکی ہسپتال کا کھانا ، محبوبہ بوفے ڈنر اور برا وقت وہ جب دودھ جلیبی بیوی کے ساتھ کھانی پڑے ۔انہی کا تجربہ ہے کہ پیاز اور مولی کھاکر ٹوتھ برش نہ کرنے والوں کا وزن تو نہیں البتہ دوست ضرور کم ہو جاتے ہیں ۔جس دن سے پہلی بیوی کی دوسری ماں نے جانوروں کی طرح کھاتے دیکھ کر ٹوکا اُس دن سے ساس کے نام سے ہی دور بھاگتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ سانسو ں اور ساسو ں کا کوئی بھروسہ نہیں ہوتا ۔ پچھلے سال ساٹھ پاؤنڈ وزن کرنے کے بعد صرف اس وجہ سے ہفتوں پریشان رہے کہ اگر میرا وزن ہوتا ہی ساٹھ پاؤنڈ توپھر، جو پہلے یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ وہ موٹے ہیں ،کہا کرتے جتنا وزن شادی کے وقت تھا اتنا ہی آج ہے ثبوت کے طور پر اپنی 20سال پرانی ٹائی باندھ کر دکھاتے اور یہی صاحب جو زندہ رہنے کیلئے کھاتے نہیں تھے بلکہ کھانے کیلئے زندہ تھے، پچھلے دنوں ڈائٹ کھجوریں او رڈائٹ پکوڑے ڈھونڈتے ملے ،اس انقلاب کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے ’’درندوں کی طرح کھانے والوں کو آخر ڈاکٹر پرندوں جتنا کھانے سے بھی روک دیتے ہیں‘‘۔ یہ منہ اور یہ بات ۔ ہے نا قربِ قیامت کی نشانی ۔ یہ اقتدارکی کرشمہ سازی ہے یا خوش خوراکی کہ میاں نواز شریف اور فضل الرحمن دن بدن موٹے ہور ہے ہیں ،میاں صاحب تو اِس وقت بھی تن تنہا پوری ’’ق لیگ‘‘ جتنے لگتے ہیں جبکہ مولانا اکیلے بھی بیٹھے ہوں تو لگتا ہے سا ری جمعیت الاسلام (ف) بیٹھی ہوئی ہے ۔ آجکل کی سمارٹنس کو دیکھیں تو نبیل گبول اور امیر مقام بھی موٹے ہی لگتے ہیں ۔ سنا ہے کہ گبول صاحب کو ایک بار بخار چڑھا تو ڈاکٹر نے دوائی دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے چاہا تو بخار 5مہینوں میں اتر جائے گا ۔ پانچ مہینوں میں ، نبیل گبول حیر ت سے بولے تو ڈاکٹر نے کہا کہ یہ تو دوائی ایسی دی ہے ورنہ جتنا آپ کا قد اور جسم ہے بخار کو اترتے اترتے کم ازکم ایک سال تو ضرور لگ جاتا ۔ باقی رہے امیر مقام تووہ تو اس مقام پر ہیں کہ جہاں بندہ اپنے پاؤں بھی دور بین کے بغیر نہیں دیکھ سکتا ۔ شیخو کہتا ہے کہ قائم علی شاہ کا شمار ان موٹوں میں ہوتا ہے جو باہر سے نہیں اندرسے موٹے ہیں،اجلاسوں اور میٹنگوں کے عین درمیان سو جانا،اس طرح کھانا کہ اس کا اثر چولستان اور تھر تک محسوس ہو ،کھاتے پیتے ہوئے بھی کھاتے پیتے نہ لگنا مطلب سب عادتیں موٹوں والی ۔ شاہ صاحب جنہیں دیکھتے دیکھتے نجانے کتنی نسلیں گذر گئیں اب عمر کے اس حصے میں ہیں کہ جہاں اگر وہ کہہ دیں کہ میں پانی پت کی لڑائی کا چشم دیدگواہ ہوں تو یہ بھی ماننے کودل کرتا ہے ۔چند دن پہلے انہیں ایک تقریب میں دیکھا ، اپنی حفاظت کیلئے پستول پاس تھا اور پستول کی حفاظت کیلئے 20کمانڈوساتھ تھے ۔ دو دن پہلے شیخو سے ملاقات ہوئی تو سلام دعا سے پہلے ہی کہنے لگا وزن بہت بڑھ گیا ہے ،کوئی حل بتاؤ۔ میں نے یاد دلایا کہ ابھی چند ماہ پہلے ڈاکٹر نے جب آپ سے کہا تھا کہ ایک روٹی صبح اور ایک روٹی شام کھایا کرو تو یہ آپ ہی تھے کہ جنہوں نے پوچھا کہ یہ ایک روٹی کھانے سے پہلے کھاؤں یا بعد میں ، آپ ہی ہروقت شکوہ کیا کرتے کہ قدرت نے کھانے کیلئے صرف ایک ہی منہ کیوں رکھا ہے ، آپ کا ہی فرمان تھا کہ سری پائے کھائے بغیر کوئی پائے کا لیڈر نہیں بن سکتا، آپ ہی تھے کہ جنہوں نے مس یونیورس کوٹی وی پر دیکھ کر کہا تھا کہ ’’ جتنے پونڈ کی یہ ہے اتنے پونڈ تو پچھلے ماہ میں سلاد کھا گیا تھا اوراس کی صحت دیکھو کہ بچے پسلیوں پر گنتی یاد کر لیں۔‘‘ میری بات کاٹ کر بولا تنگ آگیا ہوں کھا کھا کر، حالت یہ کہ چند سیڑھیاں چڑھنا محال اور اگر سیڑھیاں چڑھ جاؤں تو بسیار خوری کی وجہ سے یاداشت کا یہ عالم کہ آدھی سیڑھیوں میں پہنچ کر یہ یاد نہیں رہتا کہ اوپر جانا ہے یا نیچے۔اکثر فریج کا دروازہ کھول کر کھڑا رہتا ہوں کہ کچھ رکھنے آیا تھا یا کچھ لینے ۔کل محلے کے بچوں کے ساتھ فٹ بال کھیلنا چاہا تو جب فٹ بال وہاں رکھا جہاں سے ہٹ لگ سکے تو پیٹ کی وجہ سے وہاں سے فٹ بال نظر ہی نہیں آرہا تھا اور فٹ بال وہاں رکھا کہ جہاں سے نظر آسکے تواتنی دور سے ہٹ لگانا ناممکن تھا ۔بولا ایک مدت ہوئی ہے پورا نہائے ہوئے ، شاور کا پانی جتنا بھی تیز ہو جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ پھر بھی خشک رہ جاتا ہے اور غضب تو یہ کہ آج ایک خاتون کہنے لگی بھائی جی ماشاء اللہ اب توبڑے آرام سے آپ کے سائے میں دو چارپائیاں ڈالی جا سکتی ہیں ۔ کہنے لگا پہلی مرتبہ کسی خوبرو خاتون کا خود کو بھائی کہنے سے زیادہ اپنا موٹاپا برالگا۔ پھرمیرے بیٹھے بیٹھے ایک ٹانگ پر گھوم گھوم کر جب کوئی سرکسی ورزش کرنے لگا تو میں نے کہا کہ نہ کرو ٹانگ ٹوٹ جائے گی تو بولا کوئی بات نہیں میرے پاس دوسری ٹانگ ہے ۔ ابھی دو دن پہلے 450کلو کے امریکی موٹے جان بٹلر کو کرین کی مدد سے چوتھی منزل سے اتار کر ٹرک میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا ۔موصوف کا کہنا ہے کہ اپنی افسردگی دور کرنے کیلئے مجھے بڑے سائز کا پیزا اور دوکلو چپس کھا نا پڑتے ہیں اور کیا کروں میں مہینے میں 25دن افسردہ ہی رہتا ہوں ۔ گنز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق انسانی تاریخ کا سب سے موٹا امریکی جان براور تھا۔ان کا وزن 635کلو تھا جبکہ امریکی خاتون کارل یاگر 727کل وزن کے ساتھ اب تک نمبر ون پر ہیں مگر ان دونوں کی وفات کے بعد اب زندہ موٹوں میں سعودی خالد بن محسن 610کلو کے ساتھ مردوں اور امریکی خاتون مائرہ روسیلز 470کلو وزن کے ساتھ عورتوں میں نمبرون ہیں ۔اس موٹاپے کو دیکھ اور سوچ کر اپنے سرفراز شاہد یاد آتے ہیں جنہوں نے پتلی ہونے کی خواہشمند اپنی بیگم سے کیا خوب کہا ! آہ بھرتی ہوئی آئی ہو ’’سلمنگ سنٹر ‘‘ ’’آہ کو چاہیے ایک عمر اثر ہونے تک ‘‘ ’’ڈائنٹنگ ‘‘کھیل نہیں چند دِنوں کا بیگم ایک صدی چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک