آسمان پر پہلے گناہ کی بنیاد ابلیس کا آدم ؑ سے حسداور قابیل کے ہاتھوں ہابیل کے زمین پر پہلے قتل کی وجہ حسد مطلب حسد تب سے ہے جب ہم بھی نہ تھے اور یقیناًحسد تب بھی ہوگا جب ہم نہیں ہوں گے مگر نجانے کیوں اپنے ہاں گھر گھر موجودحاسدوں اور گلی گلی ہوتے حسد کو دیکھ اور بھگت کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے حسد کے بانی بھی ہم تھے اور اسکی بقاء کی ذمہ داری بھی ہماری ۔اپنے پاس تو ایسے ایسے حاسدہیں کہ عقل دنگ رہ جائے۔میرا ایک دوست جس کا نام احسان اور تخلص فراموش ، جس کے دانتوں اور نیت کو کب کا کیڑالگ چکا جو کالا ایسا کہ بندہ سو بار منہ کالا کر کے بھی اتنا کالا نہ ہوپائے یعنی چلتا پھرتا کسی تباہ شدہ جہاز کا بلیک باکس ۔قد اتنا کہ شروع ہوتے ہی ختم ہو جائے اور وزن اتناکہ پہلی کوشش میں خود بھی خود کو نہ اٹھا سکے ،سر سے زیادہ بال ناک اور کانوں پر ،نظر اتنی کمزور کہ عینک پہن کر سوئے جبکہ حس اتنی تیز کہ جگہ سونگھ کر بتا دے کہ یہاں کس قماش کی عورت کب آئی تھی ۔حافظہ ایسا کہ دوسروں کی ہر غلطی اور ہر برائی یاد۔مونچھیں اتنی بڑی کہ ایسا لگے کہ چہرے پر مونچھیں نہیں ،مونچھوں پرچہرہ اگا ہوا۔کنجوس ایسا کہ ویٹر کو ٹپ دیتے ہوئے بھی بارگین کرے ۔ کبھی یہ شادیوں کی فلمیں بنایا کرتا اور جس جس کی فلم بنائی اُس اُس کی شادی نہ چلی اور پھر ایک شادی پر خاتون کا کلوز لیتے لیتے اتنا کلوز ہو گیا کہ مجبوراً خاتون کو اس سے شادی کرنا پڑی۔ اب خوبصورت بیوی کو اپنے بھدے پن کا یہ جواز دے ’’ مجھے دیکھ کر غم نہ کیا کرو کیونکہ بدصورتی ہی عورت کی اصل محافظ ہوتی ہے ‘‘۔ اس کا خاندان ایسا کہ دادا نے چھ قتل کیئے اور چھ حج کیئے پھر دادا نے یہ کہہ کر قتل سے توبہ کر لی کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اب مجھ سے بار بار حج نہیں ہوتا ۔ والدِ محترم فخر سے بتایا کرتے کہ 65ء کی جنگ میں اُدھر پہلی گولی چلی اِدھر احسان پیدا ہوا ۔شیخو کہتا ہے کہ کاش پہلی گولی ہی نہ چلتی ۔ میرے اس دوست میں حسد اس طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے کہ اس سے حسد نکال دیں تو باقی کپڑے ہی بچتے ہیں مگر وہ بھی حسد سے بھرے ہوئے ،یہ جب بھی ملا کسی نہ کسی سے حسد کرتے ہی ملا۔ یقین مانیں ایکدن تو خود سے ہی حسد کرتے پایا گیا۔ابھی چند دن پہلے جب ہم سب بیٹھے اپنے ملک کی تعریفیں کر رہے تھے تو حسد کی بُکل مارے کافی دیر سے چپ بیٹھا یہ بالآخر پھٹ پڑا ۔یہ بھی کوئی ملک ہے کہ جہاں نائیوں کے اپنے بال بڑھے ہوئے ہیں ، موچی جوتوں بغیر اور درزی ننگے جسم ملیں اور تو اور یہاں تو ڈاکٹر خود طبی سہولتوں سے محروم ۔ ہماری حکومتیں ایسی چلتی ہیں کہ جیسی ہماری ٹریفک اوراپوزیشن کی سیاست ایسی کہ جیسے چوکوں میں پھنسی یہی ٹریفک۔90فیصد رہنما ایسے کہ جب وہ چپ ہوں تو شبہ ہوتا ہے کہ انہیں حکومت اور سیاست کا کچھ پتا نہیں ،بول پڑیں تو یہ شبہ دور ہو جاتا ہے ۔ باقی 10فیصد اپنے قائم علی شاہ جیسے کہ جن کی انگریزی سمجھنے کیلئے سندھی کا آنا ضروری ہے ۔سیاسی جماعتوں کا یہ حال کہ وقتاً فوقتاً نکاح پر نکاح کھڑکاتی اور اپنی بقاء کیلئے اپنے بچے تک کھا جانے والی مسلم لیگ جبکہ کل تک بڑی تابعداری سے زیڈ اے پر مر مٹنے والی آج بڑی فرمانبرداری سے اے زیڈ کیلئے جانیں دیتی پیپلز پارٹی ۔ ڈکٹیٹروں نے دیا کچھ نہیں جبکہ سیاستدانوں نے چھوڑا کچھ نہیں۔ ایوب ایک گالی سے ڈر کر بھاگ گیا جبکہ ضیاء الحق اتنا سست نکلا کہ 90دن کا کام 9سالوں میں بھی نہ کر سکا۔ یہاں کا نظام ایسا کہ بندہ تھانے ، کچہری یا ہسپتال میں ہو تو گھر والے مصلوں پر ہوتے ہیں،با ئی روڈ سفر انگریزی والا Suffer، ریل ڈی ریل ہو چکی جبکہ جو اونٹ پر نہیں بیٹھا اور بیٹھنا چاہتا ہے وہ اپنی ائیر لائن پر سفر کر لے ۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ ائیر ہوسٹس زیادہ پرانی ہے یا جہاز اور جہاز کے اندر کا ماحول ایسا کہ 5منٹ میں ہی بندے کو اپنی بیوی پیاری لگنے لگ جائے ۔اوپر سے اپنا موسم دیکھو جیکب آباد اور سبی میں اتنی گرمی کہ بھینسیں خشک دودھ دیں جبکہ سکردو اور نتھیا گلی میں اتنی سردی کہ شادی کیئے بغیر اترتی ہی نہیں اور لاہور میں دھوتی اس لیئے پہنی جائے کہ یہ ائیر کنڈیشنڈ ہوتی ہے جبکہ کراچی کی ائیر ایسی کہ کسی کنڈیشن میں کوئی دھوتی پہننے کا سوچ بھی نہ سکے ۔ جب میرا یہ دوست اپنا جلاپا اور ساڑا نکال چکا تو میں نے کہا کہ’’ حکومتوں اور حکمرانوں کو چھوڑ و اپنی قوم کو دیکھو ، پوری مسلم امہ میں ایسے جذبوں اور ولولوں والی کوئی اور قوم ہے توبتاؤ ،ایک بھیانک سا قہقہہ مار کر بولا’’کہیڑ ی قوم تے کہیڑ ی مسلم امہ‘‘ ۔ لیبیا سے یمن تک مسلم امہ کا جو حال ہے، لگتا نہیں کہ اب اگلی کئی نسلوں کا کوئی مستقبل ہو گا جبکہ اپنی قوم کی مسلمانی دیکھ لو یہاں 80فیصد مسجدوں کی زمین متنازعہ،عید سے اذان تک جھگڑے ہی جھگڑے ، خود کو سوٹ کرتا ہر ایک کا اپنا اپنا دین ، مکہ ہوٹل پر باسی کھانے ملیں اور مدینہ بیکری کی ہر شے میں ملاوٹ ، ماشاء اللہ ٹریول ایجنسی پر انسانی سمگلنگ اور بسم اللہ پراپرٹی والوں پر یتیموں کے پلاٹ کھا جانے کے مقدمے ، اللہ ہو کلینک پرنقلی ڈاکٹر جعلی دوائیاں بیچے اور مسجدوں کے پنکھے ،ٹوٹیاں اور جوتوں کی چوری یہاں معمول ہو جائے ، یہاں جنازوں میں جیبیں کٹ جائیں اور یہاں مُردوں کے کفن اور قبروں کے کتبے تک کوئی نہ چھوڑے ۔ اس سے پہلے کہ ہم سب اس’’ حسد ی سیلاب‘‘ میں ڈوب جاتے میں نے ایک بار پھر موضوع بدلا ’’ ہر وقت حسد اور ہر وقت مایوسی۔ چھوڑو مسلم امہ کو دیکھو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی۔ برطانوی سائنسدانوں نے بڑھاپے کو روکنے اور ہزار سال تک زندہ رہنے کا نسخہ ڈھونڈلیا۔ روس میں ایک انسان کا سر دوسرے انسان کے دھڑ پر لگانے کی تیاریاں ہوچکیں۔ دبئی میں 2008ء میں ذیبح شدہ اونٹنی کے جرثومے سے پید ا ہونے والی اونٹنی اب خود ماں بننے والی ہے،آسٹریلوی ماہرین نے ڈینگی پر قابو پا لیاہے،کاکروچ کے دماغ کے بیکٹریوں سے انسانی بیماریوں کا علاج شروع ہوگیا ہے،سمندروں میں زرعی فارم بنانے ،کمپیوٹر اور دماغ کے میلاپ،سوچ کی لہروں سے رابطے اور نومولود بچوں کے رونے کو گفتگو میں ڈھالنے پر ماہرین کامیابی کے قریب ۔ ابھی میری بات جاری تھی کہ یہ حاسد ایک بار پھر بول پڑا ’’ جب تمہیں پتا ہے کہ ایک سگریٹ میں نیل پالش ریموراور چوہے مارنے جیسے چار ہزار زہریلے کمیکلز ہوتے ہیں تو پھرتم سگریٹ کیوں پیتے ہو‘‘۔چند لمحے اپنے جملے اور میری بے عزتی انجوائے کرنے کے بعداس ’’ جل ککڑے ‘‘ نے کہا ’’جس ملک میں فیس بک افواہوں اورکردار کشی کیلئے استعمال ہو ،جہاں ٹوئیٹر طعنوں اور گالیوں کیلئے رہ جائے،جہاں ویٹس اپ فحش ویڈیوز کا ذریعہ بن جائے اورجہاں ٹیلی فون کا استعمال الطاف حسین کے علاوہ اور کوئی نہ جانتا ہو وہاں ٹیکنالوجی اور تحقیق کسی کا کیا بگاڑلے گی ‘‘۔ ادھر میرا یہ حاسد دوست بولے جارہا تھا جبکہ اُدھر مجھے موریطاینہ کی50سالہ وہ خاتون یاد آرہی تھی کہ جو 55 شادیاں کر چکی ہے اور جس کی 12شادیاں صرف دو دو دن ہی چل پائیں ۔ اس خاتون سے اتنی ڈھیر ساری شادیوں کی ناکامی کی وجہ پوچھی گئی تو معصومیت سے بولی میرے خاوندوں کا مجھ سے حسد ۔ میرے حاسد کی باتوں نے میرا یہ حال کر دیا تھا کہ اس وقت مجھے اس خاتون کا یہ چٹا جھوٹ بھی سچ لگ رہا تھا ۔ حضور اکرم ؐ نے فرمایا ’’ حسد سے بچو یہ نیکیوں کو ایسے کھا جاتا ہے کہ جیسے آگ لکڑی کو ‘‘ ۔ آپ ؐ کا ہی فرمان ہے کہ ’’ہر صاحبِ نعمت حسد کیا جاتا ہے ‘‘۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کہتے ہیں کہ جس پر اللہ تعالیٰ کرم فرماتا ہے وہ حرص ،ہوس اور حسد سے بچ جاتا ہے ۔حضرت علیؓ کا کہنا ہے کہ حاسد کو کوئی خوش نہیں کر سکتا ۔ کہا جاتا ہے کہ حاسد کیلئے بد دعا نہ کرو کیونکہ وہ تو پہلے ہی حسد کی آگ میں جل رہا ہوتا ہے اور پھر حاسد کیلئے یہ سز ا کیا کم ہے کہ جب تم خوش ہوتے ہو وہ غمگین ہو جاتا ہے ۔ایک بار حضور ؐ سے پوچھا گیا کہ حسد سے کیسے بچا جائے تو آپ ؐ نے فرمایا ’’تقویٰ اختیار کرو،صدقہ خیرات دو اور اپنی نعمتوں اور خوشیوں کو چھپاؤ ،حسد سے بچ جاؤگے‘‘ ۔حضور ؐ کی بتائی ہوئی ان باتوں پر عمل کر کے یقیناًآپ بھی حسد سے بچ سکتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ آپ خود حاسد نہ ہوں ۔