کہتے ہیں مچھر ،مکھی اور ساس کی زندگی میں نہ سکون ہو تا ہے اور نہ یہ کسی کو سکون لینے دیتے ہیں ،کہا یہ بھی جاتا ہے کہ سانسوں کی طرح ساسوں کا بھی کوئی بھروسہ نہیں اور چاہے جو بھی کر لو ساس ، سا س ہی رہے گی کیونکہ پھٹے دودھ کا جمنا ممکن مگر سا س کا بدلنا نا ممکن۔ چند دن پہلے ایک سیانے نے جب کہا کہ آسمان کا زمین والوں کیلئے پہلا تحفہ ماں اور آخری تحفہ ساس تو شیخو بولا مطلب تو یہی ہوا کہ تحفہ پہلا ہی اچھا بعد میں تو پھر ساس ہی ملتی ہے ۔شیخو کا ہی کہنا ہے کہ زندگی میں دو عورتوں سے فاصلے پر رہو ایک ظالم ساس اور دوسری بھی ساس ، کیونکہ ساس اور پہاڑ دور سے ہی اچھے لگتے ہیں ۔شیخو کا ہی تجربہ ہے کہ جیسے سانپ کا زہر اس کے دانتوں میں ،بچھو کا دُم میں ،بھڑ کا ڈنک میں اور پاگل کتے کا زہر اسکی زبان میں ہوتا ہے ایسے ہی ساس کا زہر سا س میں ہی ہوتا ہے اور اگر ساس سے یہ زہر نکال دیا جائے تو باقی صرف بہو ہی بچتی ہے ۔مغرب میں تو چونکہ مستقل بیوی رکھنے کا بھی کوئی رجحان نہیں لہذا وہاں ساس کا تو کوئی تصور ہی نہیں لیکن مشرق میں گھر گھر ساس راج اور یہاں کی ساسیں بھی ایسیں کہ بہوؤں کے عیبوں کے چلتے پھرتے اشتہار ۔یہاں بہوؤں کے وہی عیب ظاہر نہیں ہوپا تے جن کا ساسوں کو علم نہیں ہوتا ۔ یہاں کی ساسوں کے کیا کہنے ، گذشتہ کل اپنی ساس کو تگنی کا ناچ نچا کر آج اپنی بہو پر راج کرتی چست لباس میں ڈبل چست ساس کے منہ سے یہ سن کر شیخو بے ہوش ہوتے ہوئے بچا کہ ’’مجھے تو زندگی میں سکھ کا ایک سانس تک نصیب نہ ہوا ،بہو بنی تو ساس اچھی نہ ملی اور ساس بنی تو اچھی بہو نصیب نہ ہوئی‘‘۔ ایک داماد سسرال گیا تو تیسرے دن سا س نے پوچھا’’ کیوں بیٹا کیا خیال ہے آج کدو شریف نہ پکا لوں،پچھلے تین دنوں سے دالیں کھاتا داماد بولا ’’ماں جی کہاں میں گناہ گار اور کہاں کدو شریف مہربانی کر کے آج کوئی بے غیرت سا مرغا ہی پکا لیں‘‘۔ ولائیت پلٹ لڑکا پہلی بار اپنی منگیتر کے گھر پہنچ کر(یہ بتانے کیلئے کہ مجھے انگریزی آتی ہے ) سلام دعا کے بعد بولا انگلش چلے گی، منگیتر کے بولنے سے پہلے اسکی ہونیوالی ساس بول پڑی ’’اگر مونگ پھلی اور سوڈا بھی ساتھ ہو تو پھر دیسی بھی چلے گی‘‘۔ ایک ساس نے اپنے فوجی داماد کو خط لکھا کہ’’ تم کتنے سگندل ہو میری بیٹی کو اکیلا چھوڑ کر سرحد پر موج مستی کر رہے ہو شرافت سے فوراً چھٹی لے کر آجاؤ ‘‘۔ 4دن بعد ہینڈ گرنیڈ کے ساتھ داماد کا یہ مختصر سا تحریری جواب ساس کو ملا’’آنٹی اگر آپ اس گرنیڈکی پین کھینچ لیں تو مجھے فوراً 3دن کی چھٹی مل سکتی ہے ‘‘۔ دوزخ میں بہت ساری عورتوں کو موج مستیاں کرتے دیکھ کر پوچھا گیا کہ یہ کون ہیں جو یہاں بھی خوش ہیں تو ڈیوٹی پر مامور فرشتہ بولا’’یہ سب بہوئیں ہیں کمبخت آتے ہی یہاں ایڈ جسٹ ہو جاتی ہیں کہتی ہیں بالکل سسرال جیسا ماحول ہے ‘‘۔ ایک سا س نے کہا بہو خدا نے تمہیں دو آنکھیں دی ہیں چاول چنتے وقت پتھر نکال نہیں سکتی تھی تو بہو بولی ماں جی اُسی خدا نے آپ کو 32دانت بھی دیئے ہیں دو چار پتھر چبا نہیں سکتیں۔ ہمارے ہاں بہوؤں کی 5قِسمیں زیادہ مشہور ہیں ۔پہلے نمبر پر ماڈرن بہوئیں آتی ہیں جنہیں پارلر سے محبت اور کچن سے خدا واسطے کابیر ، جن کے آیا کے ہاتھوں پلتے بچے اور جو خود ہر وقت سوشل ورک میں مصروف، 75فیصد گھروں میں پائی جانے والی بہوؤں کی اس قِسم کا رنگ و روپ ایسا ہوتا ہے کہ کہ ایک مرتبہ ان بہوؤں کی ’’ پارٹی ‘‘ جاری تھی کہ اچانک جِن آگیا ،جِن کو دیکھتے ہی ان سب کی چیخیں نکل گئیں ،وہاں پر موجود ایک بابا جی نے انہیں فوراً وضو کرنے کو کہا اور جب یہ منہ دھو کر آئیں تو ان کو دیکھ کر جِن کی چیخیں نکل گئیں ۔ دوسرے نمبر پر سادہ بہو ئیں آتی ہیں ۔بہو ؤں کی یہ قِسم نصیب والوں کو ہی ملتی ہے ،جی ہاں خراب نصیب والوں کو ،یہ اتنی سادہ ہوتی ہیں کہ سادگی سادگی میں شوگر اور بلڈ پریشر کی مریض ساسوں کو چائے میں چینی اور کھانے میں نمک کھلاتی رہتی ہیں ۔ ایک سادہ بہو کی وجہ سے پور ا محلہ اللہ کا شکر گزار ہو جاتا ہے ،جی با لکل پورا محلہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہتا ہے کہ یہ ان کی بہو نہیں ۔ اگلی قِسم خدمت گزار بہو کی ہے ۔بہوؤں کی یہ وہ قِسم ہے کہ جنہیں بچپن سے ہی یہ سکھا دیا جاتا ہے کہ بیٹا جب کسی کو گُڑ کھلا کر مارا جا سکتا ہے تو پھر زہر ضائع کر نے کی کیا ضرورت ۔ اس قِسم کی بہوؤں کے ہاتھوں لٹنے کے بعد بھی سسرال والوں کواپنے لٹنے کا احساس نہیں ہو پا تا ۔پھر سازشی بہوؤں کا نمبر آتا ہے ،ان بہوؤں کے حوالے سے یہ کہنا ہی کافی ہے کہ ایسی بہوکے ملنے کا مطلب خدا سسرال والوں کو ان کی خطاؤں کی سزا اسی دنیا میں ہی دینا چاہتا ہے ۔بہوؤں کی آخری قِسم ایماندار بہو کی ہے۔ ساس کی زندگی اور اپنی موت سے نفرت کرنیو الی بہوؤں کی یہ قِسم بڑی ایمانداری سے سہاگ رات سے پہلے ہی اپنے سسرالیوں کو اشاروں کنائیوں میں اپنی نفرت کا احساس دلا دیتی ہیں اور پھر بڑی ایمانداری سے خاوند کو سہاگ رات والی رات ہی علیحدہ رہنے کیلئے راضی بھی کر لیتی ہے ۔ہمارے ہاں رشتہ کرتے وقت سسرال والوں کی 5ڈیمانڈ زکہ لڑکی خوبصورت ہو ،خوب سیرت ہو ،پڑھی لکھی ہو ،کم عمر ہو اور مالدار ہو جبکہ یہاں بہو کی ایک ہی دعااور ایک ہی ڈیمانڈ کہ ساس نہ ہو ۔ میرا ایک دوست جس کا یہ کہنا کہ ذہین بیوی اور بے وقوف شوہر ہمیشہ ایکدوسرے کی تعریف کرتے ہیں ۔جس کا فرمان کہ ’’خوبصورت بیوی وہ جسکی شوہر ہر بات سنتا ہو او رخوب سیرت بیوی وہ جو شوہر کی ہر بات سنتی ہو‘‘،پانچ ساسیں بھگتا کر اب سات بہوؤں سے پُور ی ڈالتے میرے اس دوست کا سب کو ایک ہی مشورہ کہ شادی کے بعد ’’زَبر ‘‘ نہیں ’’زِیر ‘‘ ہو جاؤ کیونکہ تمہیں سا س کے سامنے ’’پیش ‘‘ ہونا ہے کہتا ہے کہ اگر ساس چالاک ہو تو پھر عزت اوردانتوں کی حفاظت کا ایک ہی اصول کہ منہ بند رکھو ۔یہ اپنی پانچویں ساس کی چالاکیوں کو ابھی تک نہیں بھولا، خود بتاتا ہے کہ ’’ایکدن پکنک پر جاتے ہوئے جب میں نے اپنی بیگم سے کہا کہ اگر میں سامنے والے کھمبے پر چڑھ جاؤں تو کیامجھے ساتھ والے انجینئر کالج کی لڑکیاں نظر آجائیں گی ‘‘ تو کار کی پچھلی سیٹ پر چیونگم چباتی سا س بولی ’’ بیٹا اگر کھمبے پر چڑھ کر ہاتھ چھوڑ دو گے تو میڈیکل کالج کی لڑکیاں بھی نظر آجائیں گی‘‘۔ اسی طرح ایکدن شام کی چائے پیتے ہوئے اس نے اپنی بیوی سے ایسے ہی پوچھ لیا کہ اگر جنگل میں نماز پڑھتے وقت شیر آجائے تو کیا نماز جاری رکھنی چاہیے تو جھٹ سے یہی سا س بولیں بیٹا شیر کو دیکھ کر بھی اگر تمہارا وضو باقی رہ جائے تو ضرور نماز جاری رکھو ۔ میرے اس دوست کو ساسوں سے اتنی محبت ہے کہ ہر ایک کیلئے اس کایہی پیغام کہ اگر کبھی گھر میں آگ لگ جائے اور تمہارے پاس صرف 10 چیزیں نکالنے کا وقت ہو تو ساس کو گیارہویں نمبر پر رکھو ۔بہوؤں کے حوالے سے کہتا ہے کہ بہوؤں کی تو بات ہی چھوڑ دو میں نے اپنی سب سے اللہ لوک بہو کو ٹیلی فون پر اپنی کنواری سہیلی کو یہ دعا رٹاتے سنا کہ ’’ ربا یا تے سس چنگی ہوؤے یا اودی فوٹو دیوار تے ٹنگی ہوؤے ‘‘۔ دوستو ! اگر ساس بہو کے رشتے کو قومی سطح پر دیکھیں تو امریکہ ہماری وہ ساس کہ جس کے ’’ڈومور ‘‘ پر ناچ ناچ کر ہمارا ستیا ناس ہو گیا مگر پھر بھی ساسو ماں خوش نہیں ،ہماری حکومتوں کا برتاؤ بھی ساسوں جیسا ،ہر قربانی دے کر بھی ا س بہو نما قوم کی ان کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں ،ہماری سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے روئیے اپنی پارٹی کے ساتھ بھی ساسوں جیسے ،مجال ہے کہ انکی مرضی کے بغیر کوئی بہو آنکھ بھی جھپک سکے ،ہمارے بڑے صوبے ساس جیسے اور ہمارے ہر ادارے کا سربراہ ظالم ساس بن چکا ۔قصہ مختصر اوپر سے نیچے دیکھیں یا نیچے سے اوپر ، حالت یہ کہ ہر جگہ ساس اور بہو موجود اورہر جگہ ہی اس رشتے کی حقیقت یہ کہ بہو اس لیئے روئے کہ حالات نے اُسے ظالم ساس کے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیا ہے جبکہ ساس کہے رو مت میں تمہارے ساتھ ہوں