Non Stop Infotainment By Cyber City Online!
چند کلو فروٹ ،گوشت یا سبزی خریدنی ہو ،کپڑوں کا ایک جوڑا یا جوتے لینے ہوں ہم نہ صرف خود بازار جاتے ہیں بلکہ ہر چیز ٹھوک بجا کر اور مکمل بھاؤ تاؤ کر کے لیتے ہیں۔ہمیں واپڈا ،انکم ٹیکس یا سوئی گیس کا کوئی نوٹس آجائے تو پہلے گھر میں صلاح مشورہ پھر دوستوں سے مدد اور اگرضرورت پڑے تو وکیل بھی حاضر ۔ ہمیں بچوں کے سکول سے بلاوا ہو یا ہماری دفتر میں کوئی میٹنگ یا بریفنگ توہم مکمل تیاری کے ساتھ جائیں ، پھر ہمیں پوری دنیا کی سیاست ،تجارت اور معاشرت اَز بر ،ہمیں ہالی ووڈ سے بالی ووڈ تک کے اداکاروں کا ہر آفیئر یا د اورہمیں کرکٹروں سے فٹبالروں تک سب کھلاڑیوں کی سب باتوں کا پتا، مطلب معاملہ اگر دنیا کا ہو تو ہمارے پاس وقت بھی اور ہماری دلچسپی بھی ۔ مگر دوسری طرف پیدائش سے جنازے تک اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے یا رسول ؐ نے ہمیں کیا سمجھایا ، ہمیں نہ تو اس سے کوئی سروکار ہے اور نہ اس حوالے سے کچھ معلوم، 15سو سال پہلے نازل ہوئے قرآن میں ہمارے لیئے کیا کچھ ہے ہمیں نہ تو اس سے کوئی غرض ہے اور نہ کچھ پتا ۔ قرآن سمجھ کر پڑھنا تو دور کی بات ہمیں تویہ بھی پتا نہیں کہ نماز میں جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں ان آیتوں کا مفہوم کیا ہے یعنی معاملہ دین کا ہو تو نہ تو ہمیں کوئی دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہمارے پاس اس کیلئے کوئی وقت ۔یہی وجہ ہے کہ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ اللہ نے جوبتایا اور نبی ؐ نے جو سمجھایا ہماری عملی زندگیاں اس کے بالکل الٹ ۔ جیسے نبی ؐکا فرمان کہ ’’دین کی بنیاد خوفِ خدا پر ہے ‘‘ مگر ہماری زندگیوں میں ہر خوف موجود سوائے خوفِ خدا کے ۔ اللہ کاکہنا کہ ’’ کافروں کو اپنا سرپرست اور یہود ونصاری کو اپنا دوست مت بناؤ‘‘ مگر ہمارے نہ صرف دوست کافر بلکہ یہود ونصاری ہمارے وہ سرپرست کہ جن کے پاس ہماری اولادیں بھی اور جائیدادیں بھی ۔ قرآن کہے ’’ سود اللہ اور رسولؐ سے جنگ ‘‘ مگر ہمارے ہر کاروبار کی بنیاد سود اور ہمارے پورے نظام کی عمارت سود پر، مطلب پوری قوم اللہ اور رسول ؐکیخلاف میدانِ جنگ میں ۔ حضور ؐ نے کہا’’ رشوت گناہ کبیرہ،رشوت لینے اور دینے والے دونوں جہنمی‘‘۔لیکن ہم دن دیہاڑے بڑے دھڑلے سے رشوت لیں بھی اور رشوت دیں بھی ۔اللہ کہے کہ ’’غیبت کرنے کا مطلب مردہ بھائی کا گوشت کھانا‘‘ جبکہ رسول ؐ بتائے کہ ’’غیبت کرنیو الے کو اللہ تعالیٰ گھر بیٹھے ذلیل کر دے ‘‘۔ مگر ہماری حالت یہ کہ گھروں سے مسجدوں تک غیبت ہی غیبت اور محسو س ایسا ہو کہ آج ہمارا قومی کھیل ہاکی نہیں غیبت ہے ۔حضور ؐ کا کہنا کہ’’ جھوٹ کا انجام جہنم‘‘ جبکہ ہم ایسے عادی جھوٹے کہ اب ضرورتاً نہیں عا دتاً بھی جھوٹ بولیں،پھر آپ ؐ نے ہی فرمایا ’’خدا اور قیامت پر یقین رکھنے والا اپنے پڑوسی کو دکھ نہ دے ،منافق کو سردار نہ بنائے ،بھائی کی مصیبت پر خوشی کا اظہار نہ کرے،قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنائے ،حیاء کا دامن نہ چھوڑے،دنیا میں ایسے رہے کہ جیسے مسافر ‘‘اور آپ ؐ نے ہی بتایا کہ نفس کی بیماریوں کا علاج موت کی یاد ، جہل سے بڑ ھ کر کوئی غریبی نہیں،عقل سے بڑھکر کوئی دولت نہیں اور وحشت سے بڑھکر کوئی تکبر نہیں ، ہر اُمت کا ایک فتنہ جبکہ میری اُمت کا فتنہ مال اور جنت دوقدموں کے فاصلے پر ،پہلا قدم اپنے نفس پر رکھو گے تو دوسرا قدم جنت میں ہوگا‘‘ ۔ بدقسمتی تو یہ بھی کم نہیں کہ ہم قرآن اور سنت بھلا بیٹھے لیکن اس سے بھی بڑی بدنصیبی یہ کہ سب کچھ بھلا کر بھی ہم میں نہ تو احساسِ زیا ں ہے اور نہ پلٹنے اور واپسی کی کوئی خواہش ۔ کبھی کیا وقت تھا اور آج کیا وقت آگیا ۔کبھی مسجدیں کچی اور نمازی پکے تھے ،اب مسجدیں پکی اور نمازی کچے ہیں ۔ آج آدھا گھنٹہ مسجد میں بیٹھنا پڑ جائے تو قیامت لیکن فلم دیکھتے ہوئے ہمیں 3گھنٹوں کا پتا ہی نہیں چلتا ، ہم دن بھر کرکٹ میچ کی کمنٹری سنیں ، ہم موسیقی کیلئے رات بھر جاگیں،لیکن جمعے کا خطبہ تھوڑا سا لمبا ہو جائے تو ہماری پریشانی دیکھنے کے قابل ۔اگر مسجد میں دینا ہو تو ہمیں 100کا نوٹ بہت بڑالگے لیکن شاپنگ کرنی ہو تو ہمیں یہی نوٹ بہت چھوٹا لگے ۔ حالت یہ کہ آج ہمیں فرصت نہیں گھر سے مسجد تک آنے کی مگر خواہش ہے قبر سے سیدھا جنت جانے کی یعنی زندگی فرعون کی اور عاقبت موسیٰ کی ۔ کبھی کیا وقت تھا اور آج کیا وقت آگیا ، کبھی ایک عیسائی عورت کی پکار پر محمد بن قاسم راجہ داہر سے ٹکرا گیا ، لیکن آج 1947ء کے مشکل دنوں میں ہمیں 4750ٹن چاول بھجوانے والے برماکے 5ہزار مسلمان قتل ہوگئے،4ہزارکلمہ گو خواتین کی عزتیں لٹیں،10ہزار مسلمانوں کو گھروں سے نکا ل دیا گیا ،3سو مسجدوں کو تالے لگ گئے اور برمامیں قرآن پڑھنا اور قرآن سننا جرم ٹھہرا مگر نہ تو ایکدوسرے کی جڑیں کاٹتے ہمارے حکمرانوں نے توجہ دی اور نہ شعیب شیخ کی جعلی ڈگریوں، ایان علی کی منی لانڈرنگ اور قبلہ زرداری صاحب کی بیان بازیوں میں الجھی قوم ٹس سے مس ہوئی ۔ غیروں سے کیا گلہ ،ہمارے لیئے تو ہمارے اپنے ہی کافی ہیں ۔ ایک بار سونے نے لوہے سے کہا کہ ہم دونوں ایک ہی ہتھوڑی سے پٹتے ہیں مگر تم اتنا چلاتے کیوں ہو ؟لوہا بولا’’ جب اپنا ہی اپنے کو مارتا ہے تو بہت درد ہوتا ہے ‘‘۔ لیکن یہ وقت ایسے ہی نہیں آگیا ، بے عمل عقیدتوں اورمطلبی محبتوں کے غلافوں میں لپٹے اب صرف قرآن خوانیوں کیلئے رہ گئے اپنے قرآن کو ہی پڑھ لیں تو پتا چل جائے گا کہ اس شرمندگی ،اس رسوائی اور اس جگ ہنسائی کا سبب کیا ہے ۔ اپنے گریبانوں میں جھانکتے ہوئے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں کہ’’ قرآن مجید میں اللہ نے 20مرتبہ کہا کہ مجھ پر توکل کرو، 24مرتبہ اپنی اور رسول ؐ کی اطاعت اور 16مرتبہ عدل کی تلقین کی ، 38مرتبہ توبہ اور استغفار کا کہا ،42مرتبہ زکوٰۃ اور خیرات کا حکم دیا ،17مرتبہ بخل کی مذمت ،3مرتبہ فضول خرچی کی ممانعت اور 8مرتبہ ناپ تول کے معیار بتائے۔اپنی اس کتاب میں اللہ نے 5مرتبہ سود سے باز رہنے کی ہدایت کی ، 9مرتبہ امانت اور خیانت کے حوالے سے سمجھایا ،20دفعہ تہذیب،اخلاق اور پرہیزگاری،30مرتبہ صبر اور درگذر اور 14مرتبہ شکرپر بات کی ، اللہ تعالیٰ نے 11جگہوں پر حصول معاش کے طریقے بتائے،20مرتبہ منافقین کا تذکرہ کیا،5دفعہ پردے کا حکم ،5دفعہ کفار اور منافقین سے دو ری اختیار کرنے کا کہا اور 5بار یہ کہہ کر کہ خدا کا کوئی ایک کام بھی بے فائدہ نہیں ہوتا،16مرتبہ یہ بھی کہا کہ بندے اپنے کاموں میں خود مختار ہیں خدا کسی کو مجبور نہیں کرتا‘‘۔ اب ایک طرف وہ اللہ کہ جس نے سب کچھ واضح کر دیا اور وہ رسول ؐ کہ جس نے سب کچھ سمجھایا اور کر کے دکھایا اور دوسری طرف ہم لوگ ۔ مگرٹھہرئیے ابھی مایوسی نہیں، وقت ابھی بھی ہے اور مہلت ابھی بھی باقی اور پھر اس اللہ کے ہوتے ہوئے مایوسی کہ جس نے کبھی مایوس نہیں کیا ۔ مجھے اس وقت سورۃ الذمر کی وہ آیت یاد آرہی ہے کہ جس کے مکہ مکرمہ میں نازل ہونے پر حضوراکرم ؐ نے فرمایا’’مجھے ساری دنیا اور اسکی ہر چیز کے ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوتی جتنی اس آیت کے نازل ہونے پر ہوئی‘‘ ۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ رسول ؐ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ ’’ کہہ دو میرے بندوں سے جو زیادتی کر بیٹھے اپنی جانوں پر ،اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں بیشک اللہ ان کے سارے گناہوں کو معاف کر دے گا،بے شک وہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے ‘‘۔تو دوستو ! ایک طرف رمضان المبارک کی وہ گھڑیا ں کہ جب شیطان قید ، دوزخ کے دروازے بند اور جب پوری کائنات رحمتوں کے گھیرے میں اوردوسری طرف بخشنے اور معاف کرنے کیلئے تیار بیٹھا رب ، تو سوچ کیا رہے ہو ،ایک سچی تو بہ تو بنتی ہے باس ۔