Non Stop Infotainment By Cyber City Online!
ایک مولوی گاؤں کی مسجد میں درس دے رہا تھا کہ روزوں کے بدلے جنت میں آپ کو اپنی ہی بیوی حوروں کی سردار بن کر ملے گی ۔ یہ سن کر ایک دیہاتی نے ساتھ بیٹھے اپنے دوست کو کہنی مار کر کہا’’ پتر ہو ر روزے رکھ ‘‘۔ ایک سرائیکی نے زندگی میں پہلا روزہ رکھا اور وہ بھی گرمیوں کا ،افطاری کے وقت اُ س نے کچھ یوں دعا مانگی ’’نیت کر ینداں روزہ کھولن دی تے توبہ کر ینداں وت روزہ رکھن دی ‘‘۔ پٹھان کا روزہ تھا اور اوپر سے سخت پیاس بھی لگی ہوئی، لیکن ساتھ بیٹھے شخص نے جب پانی پینا شروع کر دیا تو پٹھان آسمان کی طرف منہ کر کے بولا ’’اللہ اگر اس کو ہم نے جنت میں دیکھا تو اس کا خیر نہیں ‘‘۔ دعوتِ افطار پر مولانا صاحب نے دیکھا کہ بریانی میں دونوں بڑے لیگ پیس دوسری طرف ہیں تو انہوں نے فوراً بریانی کا تھال گھما کر دونوں لیگ پیس اپنی طرف کر لیئے ، ساتھ بیٹھے شخص نے کہا مولانا یہ کیا ،مولانا بولے ’’مرغے کے پاؤں قبلہ کی طرف تھے،سیدھے کیئے ہیں ‘‘۔ شہنشاہ بابر نے اپنی بائیو گرافی میں لکھا کہ ’’ ہندوستان پر حکومت کرنے کوتو میں نے کبھی کچھ سمجھا ہی نہیں ، میں نے تو زندگی میں صرف2 بڑے کام کیئے، ایک فرغا نہ سے بھاگ کر ہندوستان آتے ہوئے راستے میں خود کو اژدہے سے بچانا اور دوسرا ایک بار دربار میں چینی وفد کی موجودگی میں خارش محسوس ہوئی تو خود کو خارش کرنے سے روکنا ، اس کوشش میں مجھے اتنا زور لگانا پڑا کہ پسینہ آگیا‘‘،پاکستان میں صرف روزہ رکھنا تو شہنشاہ بابر کے ہندوستان پر حکومت کرنے جتنا ہی معمولی کام ہے ،یہاں پہلا بڑا کام ہے لوڈشیڈنگ میں گرمیوں کا روزہ رکھنا اور اُس سے بھی بڑا کام یہ کہ روزہ رکھ کربڑو ں کی موجوں اور اپنی محرومیو ں پر خود کو سار ادن بے ہو دہ اور گالم گلوچ والے جذبات سے روکنا ،شہنشاہ بابر کو یہ کرنا پڑتا تو اسے لگ پتا جاتا، پھر چند سالوں سے پاکستانیوں کو رمضان میں اپنے فنکار حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان فنکاراؤں کو بھی بھگتنا پڑ رہا ہے کہ جنہیں سارا سال ہر کام کر کے بھی کام نہیں ملتا مگر رمضان میں انکو سر سے ڈوپٹہ اتارنے کی بھی فرصت نہیں ہوتی اوراب تو حال یہ ہو چکا کہ سوائے اداکارہ میرا اور ایان علی کے، سب کی سب ٹی وی چینلز پر قوم کی تربیت کرنے اور انہیں دین سکھا نے میں مصروف ۔ اب ایک طرف شہنشاہ بابر کے اژدہے سے زیادہ خطرناک ہو چکا ہمارا یہ الیکٹرانک میڈیا اور اوپر سے قوم کو بادشاہ بابرکی خارش سے بڑی خارش کی طرح لگ چکا ہمارا سوشل میڈیا۔ ابھی تین دن پہلے موبائل پر ایک میسج آیا ’’بے شک یہ ہم ہی ہیں جو تمہیں قبر کا اندھیرا اور حشر کی گرمی یاد دلاتے ہیں،ورنہ تم تو قبر اور حشر کو بھول ہی چکے تھے،منجانب واپڈا‘‘ ۔دو روز پہلے واپڈا کے حوالے سے ہی یہ پیغام ملا ’’ اے مومنو تم پر روضے فرض کیئے گئے جیسے تم سے پہلی امتوں پر اور مومنویاد رکھو پہلی امتوں کو بھی بجلی میسر نہیں تھی ‘‘۔ گذشتہ روز ملنے والے ایک اور موبائل مسیج میں ملک کے تمام بڑے قائدین کی مسکراتے چہروں والی گروپ فوٹو تھی اور نیچے لکھا ہوا تھا کہ ’’ ذرا خیال سے ۔۔ دل میں گالی دینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے‘‘ ۔ افطاری سے ذرا پہلے ایک فقیر نے صدا لگائی ’’روزہ کھولن والیو بابے نوں وی فروٹ چاٹ تے دہی بھلے کھوا دیو ، بابا بریانی وی کھا لیندا اے ، بابا چکن برگر تے آئس کریم وی کھا لیندا اے ‘‘ گھر سے آواز آئی کہ ’’بابا جتیاں وی کھا لوے گا ‘‘تو بابا بولا ’’ نہیں پتر بابے نوں سخت غذا منع اے ‘‘۔ افطاری کے وقت ایک لڑکی نے اپنی شادی کی دعا کچھ اس طرح مانگی ’’یااللہ میرے والدین کو ایک امیر اور خوبصورت داماد دیدے ۔ آناً فاناً دعا قبول ہوئی اور اک دولتمند لڑکے سے اس کی چھوٹی بہن کی شادی ہوگئی ۔ مطلب کنفیوژن اور اوور ایکٹنگ دعا میں بھی نقصان دہ ہوتی ہے ۔ میرا ایک دوست جو روزے کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے ہر دوپہر پانی میں ستو ڈال کر نہائے جو لسی ڈال کر ائیر کولر چلائے جو رمضان شروع ہوتے ہی یہ کہہ کر بیوی کو میکے بھجوا دے کہ اسے دیکھ کر مجھے روزہ لگتا ہے ،جو تنہائی پسند ایسا کہ جسے پسند کرنا ہو ،تنہائی میں ہی کرے، جو مذہبی ا س قدر کہ اگر دائیں بائیں لڑکیاں بیٹھی ہوں توان کو ایسے دیکھے کہ جیسے بار بار سلام پھیر رہاہو جسکی گفتگو ایسی کہ بندہ دو چار منٹ بعد ہی اس کی خاموشی کی دعائیں کرے ۔ جس کی تحقیق کہ کھیوڑہ نمک کی کان انسانوں نے نہیں بکریوں نے اور کافی ایتھوپیا کے ایک چرواہے نے دریافت کی۔جس کا ماننا کہ دنیا میں گورے اور کالے کا فرق اُس وقت تک رہے گا جب تک ڈیفالٹرز کو بلیک لسٹڈ کی بجائے وائٹ لسٹڈ نہیں کہا جائے گا، جب تک سفید کاروں میں کالے ٹائر لگائے جاتے رہیں گے اور جب تک سفید رنگ امن، خوشی اور کالا رنگ سوگ اور بدقسمتی کیلئے استعمال ہوتا رہے گا اور جس نے پچھلے رمضان میں روزہ نہ لگنے کی یہ نایاب دعا بتائی ’’ یا اللہ مینوں روزہ نہ لگے‘‘ ۔ یہی دوست دو دن پہلے روزے سے بے حال ملا تو میں نے کہا ’’شکر کرو کہ پاکستان میں ہو اگر ناروے یا سویڈن میں ہوتے تو 21گھنٹے کا روزہ بھی رکھنا پڑتااور باقی 3گھنٹوں میں افطار کرکے مغرب اور عشاء کی نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ سحری اور فجر کی نماز بھی پڑھنا پڑھتی تو جل کر بولا ’’ میں ارجنٹائن میں کیوں نہ ہوتا جہاں 9گھنٹوں کا روزہ ہوتا اور 15 گھنٹے میں کھاتا پیتا رہتا ۔ اس کے باپ کی بھی سن لیں ، ائیر فورس سے ریٹائر اس کے والدِ محترم نے پچھلے سال جہاز سے شوقیہ چھلانگ لگا ئی اور پھر اپنا پیرا شوٹ ہی نہ کھولا،ہر ہڈی تو ٹوٹی مگر جان بچ گئی۔ ہم عیادت کیلئے گئے تو انکل نے پیرا شوٹ نہ کھولنے کی وجہ یہ بتائی ’’بیٹا دو ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاتے وقت ہی میں نے سوچ لیا تھا کہ ایک ہزار فٹ پر پہنچ کر پیرا شوٹ کھولوں گا لیکن جب ایک ہزار فٹ پر پہنچا تو سوچا کہ زمین ابھی کافی دور ہے کچھ اور انتظار کر لیتا ہوں پھر جب تقریباً سوفٹ کا فاصلہ رہ گیا تو میں نے سوچا کہ اب پیرا شوٹ کھولتے کھولتے 20پچیس فٹ باقی رہ جائیں گے اور اتنی اونچائی سے تو میں آئے روز ہی کودتا رہتا ہوں ‘‘۔ رمضان رمض سے نکلا ا ور رمض کا مطلب گرمی کی شدت جیسے پتھروں اور ریت پر سورج کی تپش ۔ یہ واحد مہینہ جس کا نام قرآن مجید میں آیا۔ تاریخ بتائے کہ ہر مذہب اور تہذیب میں روزہ موجود جیسے ’’ حضرت نوح ؑ نے روزہ رکھا ، حضرت موسیٰ ؑ نے کوہ طور پر 40دن کا روزہ رکھا ،حضرت عیسیٰ ؑ نے 20دن کا روزہ رکھا ‘‘، نینوا اور بابل کی قدیم تہذیب میں آشوری قوم جس کے نبی حضرت یونس ؑ تھے اس قوم نے پہلے حضرت یونس ؑ کو جھٹلایا مگر پھر توبہ کر لی۔ بائبل کے صحیفہ یونس ؑ میں اس قوم کی توبہ اور رجوع کاذکر کچھ اس طرح بیان ہوا ’’ خد ا پر ایمان لا کر نینوا کے ہر اعلیٰ وادنیٰ باشندے نے ٹاٹ اوڑھا اور روزہ رکھا ‘‘ ۔ ایک روایت ہے کہ’’ اسلام سے قبل قریش یومِ عاشورکا روزہ رکھ کر اکھٹے ہوتے ، بیت اللہ کو غلاف پہناتے اور اس دن عید کا سماں ہوتا ‘‘۔ مورخین یہ بھی بتائیں کہ ’’قریش زمانہ جاہلیت میں کوئی ایسا گناہ کر بیٹھے کہ جس کے کفارے کیلئے وہ یومِ عاشور کا روزہ رکھتے ‘‘ ۔یہ روزہ رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی کہ’’ قریش کو ایک زمانے میں قحط نے آلیا پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دلائی تو وہ شکر انے کے طور پر ہر سال یومِ عاشور کا روزہ رکھاکرتے اِدھر مدینہ کے یہودی یومِ عاشورکو اس لیئے روزہ رکھتے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دن فرعون سے نجات دلائی تھی‘‘۔ حضور ؐ سے پوچھا گیا کہ’’ آپ ؐ کی امت کیلئے صرف 30روزے کیوں حالانکہ باقی امتوں پر زیادہ روزے فرض کیئے گئے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا ’’آدم ؑ نے جب شجرِ ممنوع کا پھل کھایا تو اس کا اثر 30دن تک انکی شکم میں باقی رہا، اسی لیئے اللہ نے نسلِ آدم ؑ پر 30دن کی بھوک پیاس فرض کر دی‘‘ ۔ آپؐ نے ہی بتایا کہ ماہِ رمضان میں پہلے پورا قرآن بیت المعمور پر اتارا گیا پھر وہاں سے ضرورت کے تحت تھوڑا تھوڑا نازل ہو کر بالآخر 23رمضان کو مکمل ہوا اور پھر اسی طرح ’’صحیفہ ابراہیم ‘‘ یکم رمضان کو نازل ہوئے، تو رات 6رمضان کو، انجیل 13رمضان کو اور زبور 18رمضان کو نازل ہوئی۔ آج سب مہینوں کے اسی سردار مہینے رمضان کا آخری عشر ہ شروع ہو چکا ، ان بابرکت گھڑیوں میں یادر کھنے کی بات یہ ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز کا نام نہیں بلکہ آنکھ،زبان،دل اور دماغ پر مکمل کنٹرول کا نام روزہ اور جسم کے ساتھ ساتھ روح کی انوالومنٹ روزہ کیونکہ وہ عبادت جو اللہ کہے کہ میرے لیئے ہے اور وہ عبادت جس کا اجر بھی اللہ خود دینے کا وعدہ کرے ، وہ عبادت کم ازکم ڈائٹنگ تو ہرگز نہیں ہو سکتی ۔
حالت یہ کہ ایک طرف15دنوں میں گرمی اور لوڈشیڈنگ سے 1300 لوگ مر گئے جبکہ دوسری طرف اسی ملک میں اربوں کا فراڈ کرچکے ایک بزنس مین کی جائیدادیں ضبط کرتے ہوئے نیب لاہور کی ٹیم اس کے دوکنال کے ایک گھر پہنچ کر حیران رہ گئی ،چاروں طرف سے مکمل کورڈ گھر، اُس میں لگے 50 ائیر کنڈیشنرز اور گھر کا درجہ حرارت 20سینٹی گریڈ۔۔ لیکن سننے والی بات یہ ہے کہ فرنچ ٹائلوں والے چمکتے دمکتے جدید طرز کے اس گھر کے مکین تھے صرف 5ولایتی کتے ۔ ملک کی حالت یہ ہوئی کہ ایک طرف پچھلے 6ماہ میں بھوک اور مہنگائی سے تنگ 25ماؤں نے بچوں سمیت خود کشیاں کر لیں جبکہ دوسری طرف گذشتہ 2ماہ میں جس بڑے کے گھر چھاپہ پڑا وہاں سے اربوں روپے وہ نکلے کہ جن کا کہیں کوئی حساب کتاب ہی نہیں ۔ ذرا قوم کو بھی دیکھ لیں ، قوم جیب کترے کو پکڑے تو مار مار لہو لہان کر دے مگر ڈکیٹ اور قاتل نہ صرف قوم کے کندھوں پر بلکہ ضرورت پڑے تو ان کی موجوں کیلئے قوم جان پر بھی کھیل جائے ۔قوم کا یہ حال کہ وہ بھیڑیوں کو اختیار دے کرخوش ، لومٹری کو مال خانہ سونپ کرپر سکون اور سگ کو شملے پہنا کر مطمئن ۔قوم کا یہ حال کہ وہ قلم کونالے پانی ، ڈرائیور کو استاد اور استاد کو ماسٹر بنا چکی،نجومی کو پروفیسر اور زبان دراز کو دانشور مان چکی ، دہشت گرد کو مجاہد اور فتنہ پرور کو حق پرست تسلیم کر چکی ،دولت کو عزت دے چکی اور جھوٹ اور چالباز ی کو سیاست بنا چکی۔باقی رہ گئے اپنے قائدین ،تو کیا کہنے ان کے، ان کی باقی باتیں تو پھر کبھی سہی آج ملاحظہ ہوں ان کی آنیوں جانیوں اور جی حضوری کی چند جھلکیاں ۔ میاں نواز شریف کی جلا وطنی کا دوسرا دن اور اسلام آباد میں چوہدری برادران کے گھر ڈرائنگ روم میں میر ظفر اللہ جمالی سمیت لیگی رہنماؤں کی بیٹھک جاری ۔ ایک رہنما بولا ’’سنا ہے کہ میاں نواز شریف کو شاہی محل میں ٹھہرایا گیا ہے اور وہ ہیں بادشاہ کے مہمان ، بھئی یہ تو ماننا پڑے گا کہ میاں صاحب ہیں تو قسمت کے دھنی ‘‘ بچ کر نکل بھی گئے اور اوپر سے شاہی مہمان ، اب میاں صاحب کے عمرے بھی شاہی اورحج بھی شاہی ، بس بھی کریں ۔۔۔ کیا میاں صاحب ، میاں صاحب کی رٹ لگا رکھی ہے۔آپ جیسوں نے ہی اُسے لیڈر بنا دیا تھا ۔ Now he is a past، ایک دوسرے لیگی رہنما نے انتہائی غصے بھری نفرت میں خود سے سنیئر رہنما کو اس طرح شٹ اپ کال دی کہ جمالی صاحب بھی حیران رہ گئے ۔ میاں نواز شریف کو جلا وطنی کے دوسرے دن ہی ماضی کا حصہ بنا چکے اس صاحب نے بعد میں مشرف کی قربت میں بڑے مزے لوٹے ، پھر وقت بدلا تویہ زرداری دسترخوان کے پکے ممبرتھے اور مزے کی بات تو یہ کہ جس دن شریف برادران کی واپسی ہوئی تو ائیر پورٹ پر استقبال کیلئے نہ صرف یہ پہلی صف میں کھڑے تھے بلکہ آج کل یہی موصوف ن لیگ کے تھنک ٹینک بھی ہیں ۔ آج نواز حکومت کے مشیرِ ہوابازی شجاعت عظیم جن کا پاکستان ائیر فورس سے نکلنا بھی اک کہانی ، جو کبھی لبنان کے رفیق الحریری کے پائلٹ ہوا کرتے تھے جو چند سال پہلے وفاقی دارالحکومت کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ہر دوسرے دن وزیراعظم شوکت عزیز کے ساتھ بیٹھے سرگوشیاں کرتے نظر آتے اور جو بڑی محنتوں کے بعد پرویز مشرف کے قریب ہوئے ، آج ان کا شمار میاں نواز شریف کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے اور ان کے بھائی طارق عظیم جو مشرف دور میں وزیر تھے ، اب ن لیگ کا سیکرٹریٹ چلا رہے ہیں ۔ مشرف دور میں وزارت عظمیٰ سے بال بال بچ جانے والے ہمایوں اختر خود تو بڑی خاموشی سے مرحلہ وار ن لیگ میں واپس آرہے ہیں مگر ایڈوانس پارٹی کے طور پران کے بھائی ہارون اختر نے وزیراعظم کی مشاورت سنبھال لی ہے ۔ ق لیگ کے جلسوں میں پرویز مشرف زندہ باد کے نعرے مارتی ماروی میمن جو تحریک انصاف جوائن کرتے کرتے بھی رہ گئیں، آج مسلم لیگ (ن ) کی ایسی ترجمان کہ اللہ کی پناہ۔مشرف دور کے قومی تعمیرِ نو بیورو کے چیئرمین دانیال عزیز اب ن لیگ کے رکنِ اسمبلی بن کر نواز شریف کے گن گاتے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان جو ق لیگ حکومت کا حصہ بھی رہے ،جو زرداری حکومت کے پارٹنر بھی تھے وہ آج نواز حکومت کے اتحادی ہیں ۔ مشرف کیمپ کے پکے ممبر آفتاب شیر پاؤ نے دوسال پہلے ن لیگ کے قریب آنے کی بڑی کوششیں کیں مگر بات نہ بنی اب وہ’’ کے پی کے‘‘ میں عمران خان کے دوسری بار پارٹنر بننے جارہے ہیں ۔ کل پی پی کے کٹر مخالف منظور وٹو آج پی پی پنجاب کے صدر ہیں۔اسی طرح سکندر بوسن اور ریاض پیر زادہ کل بھی وزیر تھے اور آج بھی ہیں اور مشرف حکومت کے وزیر زاہد حامد اب نواز شریف کی کچن کیبنٹ کے اہم رکن ہیں ۔ کل ہی کی بات لگتی ہے کہ گرمیوں کی ایک رات میں اُس وقت کے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد سے ملنے لال حویلی پہنچا تو خوش اور پرجوش شیخ رشید علیک سلیک سے پہلے ہی بتانے لگے ’’ ابھی آدھا گھنٹہ پہلے بلال صاحب (صدر مشرف کا بیٹا ) میرے ساتھ ڈنر کر کے گئے ہیں ،پوری لال حویلی گھومی اُنہوں نے ۔ ہم نے چھت پر اکٹھے واک بھی کی اور یہ جو سامنے سگار کا ڈبہ پڑا ہے ،یہ گفٹ بلال صاحب نے ہی دیا ‘‘۔ یہ بتاتے ہوئے شیخ صاحب کا سرخ و سفید چہرہ مزید سرخ وسفید ہو چکا تھا ، صدر مشرف کو میرا قائد ، میرا کمانڈو ، میرا سید بادشاہ اور پیر سائیں کہنے والے شیخ صاحب اب صدر مشرف کا نام لینا تو چھوڑیں ، نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہر دور میں ہرے بھرے درخت کی طرح لہلہاتے اپنے ایک بیوروکریٹ دوست کے گھر پہلی دفعہ جانا ہوا تو ڈرائنگ روم میں لٹکی تصویر میں وہ ظفر اللہ جمالی اور چوہدری شجاعت کے ساتھ مسکراتے ہوئے کھڑے تھے ، شوکت عزیز وزیراعظم بنے تو پرانی جگہ پرنئی تصویرلگی ، جس میں وہ شوکت عزیز کے پہلو میں بیٹھے تھے ۔ پی پی اقتدار میں آئی تو تصویر پھر بدلی اور اب ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر میں وہ محبت بھری نظروں سے بے نظیر بھٹو کو دیکھ رہے تھے اور چنددن پہلے اُسی ڈرائنگ روم میں ایک بالکل تازہ تصویر دیکھی جس میں میرے یہی دوست وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں ۔ اپنے ایک بزنس مین پلس سیاستدان کے اسلام آباد میں سر سبز فارم ہاؤس پرجمالی صاحب نے لنچ بھی کیا ، یہاں شوکت عزیز نے چائے بھی پی ،پرویز مشرف نے یہاں محفل موسیقی میں شرکت بھی کی اور اب اسی فارم ہاؤس پر میاں نواز شریف کیلئے پرتکلف ڈنر کی تیاریاں عروج پر ہیں ۔یہ تو چند جھلکیاں ہیں جی حضوری اور خوشامد کی اُس فلم کی کہ جس کی شوٹنگ جاری ہے لیکن یہ انوکھی باتیں نہیں یہاں یہ سب معمول کی کاروائی ہے ، یہ تو ایسا ملک کہ جہا ں الطاف حسین کے ’’را‘‘ سے رابطوں کا سن کر بھی قوم کی وطن پرستی سوئی رہے ،جہا ں ہمارے خرچے پر ہمیں چھتر مارنے والے ہمارے آئیڈیل ، جہا ں وہ قومی رہنما کہ جس کے حلقے میں سینکڑوں بچے بھوک ،پیاس اور علاج نہ ہونے پر سسک سسک کر مرجائیں اوروہ ایک بار پلٹ کر خبر تک نہ لے لیکن خود کو کینسر ہونے پر اسے اللہ سائیں بھی یاد آگیا اور اللہ سائیں کی رحمت بھی،جہا ں شوکت عزیز لکشمی متل کا ایڈوائزر بن کراور اپنے درجنوں محب وطن پاکستانی بھارت میں سرمایہ کاری کر کے خود بھی زندہ اور انکے ضمیر بھی زندہ اور یہاں آج کے وہ3 بڑے کہ جن کے سکولوں کا ریکارڈ بتائے کہ ان کی فیسیں زکوٰۃ فنڈسے دی جاتی تھیں اب 15پندر ہ ارب کی جائیدادوں کے مالک ، یہ تووہ ملک کہ جہاں تحریک انصاف کو جوائن کرنے کیلئے بنی گالہ پہنچا ارباب غلام رحیم صرف اس وجہ سے آنسو بہاتا واپس چلا جائے کہ کپتان پہلے اُسے باہر بیٹھا کر خود اندر ایکسر سائزکرتا رہا اور پھر اسے ملے بغیر اپنے کتوں کو سیر کروانے چلا گیا ،اپنی اتنی سی ذلت برداشت نہ کرنے والے یہی ارباب صاحب جب وزیر اعلیٰ سندھ تھے تو جانوروں جیسی زندگیاں گذارتے ان کے ووٹرز مہینوں کراچی کے فٹ پاتھوں پر بھوکے پیاسے رلتے رہتے مگر انہیں ارباب صاحب کا دیدار نصیب نہ ہوتا۔باقی چھوڑیں کبھی آپ نے سنا کہ کسی ملک کا وزیراعظم دوسرے ملک کے وزیراعظم کی بیگم کا غریبوں کی مدد کیلئے دیا گیا ہار لے اڑے اور شور پڑنے پر 5سال بعد کمال ڈھٹائی سے واپس کرے ، ذرا سوچیئے یوسف گیلانی کی بجائے یہ حرکت میں نے یا آپ نے کی ہوتی تو کیا ہم جیل میں نہ ہوتے، لیکن یقین مانیئے مجھے دکھ یہ نہیں کہ یہاں یہ سب کچھ ہو رہا ہے مجھے تو دکھ یہ ہے کہ سب کچھ ہو رہاہے اور ہم چپ ہیں ۔ حضرت امام زین العابدین ؒ نے ایک بار کہا تھا کہ ’’مجھے اتنی تکلیف کربلا میں نہیں ہوئی جتنی کوفہ والوں کے خاموش رہنے پر ہوئی‘‘ ۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ کربلا کے ماننے والے ہم سب کی عملی زندگیاں کوفیوں سے بھی بدتر ہو چکیں ۔