روسی کہاوت ہے کہ بیوی،ساس اور سیاستدان کی چپ نیک شگون نہیں ۔چینی سیانے کہیں کہ دولت ،سیاست کی زبان اور یہ زبان ہمیشہ بے لگام رہے ۔ پرتگالی دانشور وں کا تجربہ کہ سیاستدان، ٹیکسی ڈرائیور اور جیب کترے ہر جگہ ایک جیسے ہی ۔جاپانیوں کا کہنا کہ شیطان اور سیاستدان کے کھاتے میں وہ کچھ بھی ڈال دیا جائے جو ابھی وہ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں ۔ سری لنکن بڑو ں کے مطابق سٹرک پر چلتے ہوئے اگر گاڑی آجائے تو سٹرک کے کنارے کی طرف آجاؤ،گھوڑا گاڑی آئے تو 5گز اور پیچھے ہٹ جاؤ، کوئی جانور دیکھ لو تو کم ازکم فاصلہ 50گز کر لو اور اگر کوئی سیاستدان آتا دکھائی دے تو پہلی فرصت میں ہی غائب ہو جاؤ۔جیسے محبت نبھانے کیلئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ایک وقت،دوسرا پیسہ اور تیسرا کمزور نظر،ایسے ہی کامیاب سیاست کیلئے بھی 3چیزیں ضروری ۔پتھر دل ،کمزور یادداشت اور ان پڑھ ووٹرزاور جیسے وقت نے ثابت کیا کہ رانگ نمبر کبھیBusy نہیں ملتا، ایسے ہی سیاست بتائے کہ وقت پڑنے پر کبھی سیاستدان نہیں ملتا ۔ ماوزئے تنگ کہتا ہے کہ سیاست خونریز ی کے بغیر جنگ ہے جبکہ جنگ خونریز سیاست ،ابراہم لنکن کے خیال میں اصولو ں کے بغیر سیاست گناہ اور اپنے شیخو کے مطابق خامیوں کی مفت تشہیر کا سب سے بڑا ذریعہ سیاست ۔ ہمار ی 68سالہ سیاست کا سب سے بڑا سبق جو کسی نے یاد نہ رکھا وہ یہی کہ د و کی لڑائی میں جیت ہمیشہ تیسرے کی ہوئی،ہماری سیاست نے ہی ڈارون کا نظریہ ارتقاء بھی غلط ثابت کردیامطلب پہلے ہمارے رہنما قائداعظم اور لیاقت علی خان تھے اور اب آصف زرداری اور الطاف حسین ہیں ۔ ہمارے سیاستدانوں کی ظاہری شکلیں تو الگ الگ مگر باطنی مشکلیں ایک جیسی، سب کا’’ جنرل نالج ‘‘ کمزوراور سونے کے بعد اور اٹھنے سے پہلے ان سے اچھا کوئی نہیں ،یہ خود کو عوام کا خادم کہیں لیکن کوئی دوسرا ایسا سمجھے تو برا مان جائیں اور جب تک یہ خاموش رہیں مدبرّ اور محبِ وطن لگیں۔ جان سمتھ نے کہا تھا کہ اگر آپ عجیب وغریب باتیں کر رہے ہوں اور لوگ آپ پر ہنس بھی نہ رہے ہوں تو سمجھ جاؤ یہ آپکو سیاستدان سمجھ رہے ہیں اور اپنے شیخو کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو کچھ معلوم نہیں لیکن آپ سمجھتے ہیں کہ آپ سب کچھ جانتے ہیں تو فوراًسیاست جوائن کرلیں ۔ ایک سروے کے مطابق 40فیصد لوگ سیاستدانوں کو اچھا نہیں سمجھتے ،25فیصد سیاستدانوں کو بالکل نہیں سمجھتے اور باقی جو 35فیصد بچتے ہیں وہ خود سیاست میں ہیں۔ کچھ سیاستدان اپنی لمبی لمبی تقریروں سے بور کریں مگرکچھ ایسے بھی جو چھوٹی چھوٹی تقریروں سے بھی بور کرد یں ۔ ایک بار ہم اپنے ایک سیاسی رہنما کی تقریر سننے گئے مگر بڑی شرمندگی ہوئی کیونکہ ہمیں تقریر کی سمجھ ہی نہ آئی، کچھ عرصہ بعد جب انہیں دوبارہ سنا تو پھر شرمندگی ہوئی کیونکہ اس بار تقریر سمجھ آگئی تھی، ہمارے سیاستدان تو اپنے گھروں میں بھی اس طرح چاہے جائیں کہ ایک سیاسی رہنما اغواء ہوگئے ،ایک ہفتے بعد ڈاکوؤں نے انکے گھر کال کر کے کہا کہ اگر اگلے دو دنوں میں 20لاکھ نہ بجھوائے تو ہم انہیں واپس گھر چھوڑ جائیں گے ،گھر والوں نے اسی شام تاوان کی رقم بھجوا دی ۔جیسے ایک انجینئر نے کیل ٹھونکنے کا وہ طریقہ ایجاد کیا کہ کچھ بھی ہوجائے ہتھوڑی آپ کی انگلی پر نہیں لگتی ، انجینئر صاحب کے مطابق وہ طریقہ یہ کہ کیل ٹھونکتے وقت کیل کسی اور کو پکڑا دو، ا یسے ہی یہاں ہر کامیاب سیاستدان کا تجربہ یہی بتائے کہ جب کیل ٹھکنے کا وقت آئے تو اپنے کیل بھی کسی اور کی جھولی میں ڈال دو ۔ ہمارے پاس تو ایسے ایسے ماہر سیاسی ڈاکٹرجو بغیر درد کے دانت نکال لیں مطلب دانت نکال لیں،درد رہنے دیں ۔ الیکشن لڑ لڑ کر یہاں سیاستدانوں کا یہ حال کہ اب الیکشن نہ بھی ہوں تو یہ لڑ ہی رہے ہوتے ہیں اور پھر جب سے ٹی وی چینلوں کی بھرمار ہوئی تو شام ڈھلتے ہی ہر چینل پر سیاسی دنگل سجے اور ایسی ایسی جعلی لڑائیاں اور نقلی بڑھکیں دیکھنے اور سننے کو ملیں کہ بے اختیار سلطان راہی اورانکی فلمیں یاد آجائیں ، جیسے دو موقعوں پر بندے کے خواب ٹوٹتے ہیں ایک جب اسکی اپنی محبت سے شادی نہیں ہوپا تی اور دوسرا جب اسکی اپنی محبت سے شا دی ہو جاتی ہے،ایسے ہی ہمارے ہاں اُس وقت دو طرح کی فلمیں بنتی تھیں ،ایک وہ جو اچھی نہیں ہوتیں تھیں اور دوسری وہ جو بری ہوتی تھیں۔ اُس زمانے میں جتنی جتنی بڑی ہیرو ئنیں ہوا کرتی تھیں اتنی بڑی تو ہماری فلم انڈسٹری بھی نہ تھی، اسی دور کی ایک قد کاٹھ والی ہیروئن تو اتنی رومانٹک تھی کہ رومانٹک سین میں ایسی گم ہوجایا کرتی کہ پھر اگلے سین کیلئے ہدایت کار کو اسے ڈھونڈکر لانا پڑتا ۔ ہماری بعض ہیروئنیں تو ایسی تھیں کہ ان اور سلطان راہی میں بمشکل مونچھ برابر فرق تھا اور جہاں تک بات تھی سلطان راہی کی تو اداکاری اس کے خون میں تھی اور خون اسکی اداکاری میں۔یہ فلم میں جب انتقام لے رہا ہوتا تو لگتا کہ دیکھنے والوں سے انتقام لے رہا ہے ۔ ایک مرتبہ شیخو سے پوچھا گیا کہ اگر ہماری فلموں سے بڑھکیں نکال دی جائیں تو باقی کیا بچے گا ،بولا ٹائم بچے گا ۔ اسی دور کی ایک فلم کے سین میں جب ہیرو نے ہیروئن کا ہاتھ پکڑ کر اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا کہ’’ کیا ہم اکیلے ہیں‘‘تو ہال میں بیٹھا اکلوتا شخص بولا’’ آج تو نہیں مگر کل آپ اکیلے ہی ہوں گے‘‘ ۔خیر یہ تو پرانی باتیں ہیں ،اب تو میڈیا کازمانہ اور آج کے طاقتور میڈیا کا نتیجہ بھی فوری نکلے،جیسے ہمارے پڑوسی نے دو دن پہلے چوکیدار کیلئے اشتہار دیا اور گذشتہ رات اُس کے گھر چوری ہوگئی ، مگر ٹیلی ویژن کے اس زمانہ عروج میں بھی ہمیں توابھی بھی اخبارہی پسند کیونکہ ٹی وی جتنا بھی ترقی کر جائے اس میں تندور سے گرم روٹیاں تولپیٹ کر نہیں لائی جاسکتیں۔ اپنے ایک مشہور سیاستدان جنہوں نے ایک عرصے تک مشہور کیئے رکھا کہ وہ خود ایف ایس سی ، بیٹا بی ایس سی اور اہلیہ ایم ایس سی ہیں ، وہ تو بہت بعد میں پتا چلا کہ ایف ایس سی سے ان کی مراد فادر آف سیون چلڈرن ،بی ایس سی سے برادر آف سیون چلڈرن اور ایم ایس سی مطلب مدر آف سیون چلڈرن ہے ۔ جو اپنے ڈھیر سارے بچوں کی وجہ یہ بتائیں کہ چونکہ ان کا گھر ریلوے لائن کے قریب تھا اور رات دو بجے آنے والی ٹرین کے شور سے دونوں میاں بیوی جاگ جاتے اور پھر ۔۔!جو بچپن میں بھی ا تنے تیز کہ ایک مرتبہ سیڑھی کے اوپر والے ڈنڈے پر کھڑے تھے کہ ان کے ہاتھ سے چوّنی گر گئی اور یہ اس تیز ی سے نیچے اترے کہ جب یہ زمین پر آکر کھڑے ہوئے تو چوّنی انکے سر پرگری،جن کا کہنا ہے کہ جونیجو کی کیا جرأت تھی کہ وہ ملک میں جمہوریت لاتے یہ تو C-130جہاز کی قربانی کی وجہ سے ملک میں جمہوریت آئی اور جن کا ماننا کہ مولوی اور تھانیدار موٹے اور سیاستدان خوشحال نہ ہو ں تو سمجھو یہ اپنے پیشے سے مخلص نہیں ۔ 25 سالہ سیاسی تجربہ رکھنے والے ہمارے یہی سیاستدان کہیں کہ پاکستان وہ ملک کہ جہاں مارشل لاء میں کوئی سچی بات کرتا نہیں اور جمہوریت میں کوئی سچی بات سنتا نہیں اور انہی کا فرمان کہ اگر دنیا کا حال دیکھنا ہے تو پاکستان آجائیں،مستقبل دیکھنا ہے تو شام یا عراق چلے جائیں اور اگر ماضی کی سیر کرنی ہے تو ایتھوپیا یا سوڈان سے ہوآئیں ۔ پچھلے ہفتے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے ماشاء اللہ اتنے زیادہ بچے ہیں مگر آپ کسی کو بھی سیاست میں نہیں لائے کیوں ؟ تو اُن کا جواب یہ تھا ’’ ایک پوسٹ ماسٹر جنرل کی ریٹائرمنٹ پر الوداعی پارٹی جاری تھی کہ ایک جونیئر نے عقیدت بھری محبت سے اپنے ریٹائر ہونے والے باس سے کہا کہ سر آپ اپنے تجربے کی روشنی میں ہمیں کوئی نصیحت یا ہدایت کرنا چاہیں گے تو پوسٹ ماسٹر جنرل بولے میری پنشن بذریعہ ڈاک نہ بھجوانا ‘‘۔ ڈاکٹر نے خاوند سے پوچھا ’’کیا آپ اور آپ کی بیوی کا بلڈ گروپ ایک ہی ہے ؟‘‘ خاوند بولا ’’ ہونا تو چاہیے کیونکہ پچھلے 15سالوں سے یہ میرا ہی خون پی رہی ہے‘‘ ۔ ایک عاشق نے اپنے محبوبہ سے کہا کہ’’ مجھے اپنا ایڈریس بتاؤ میں تمہارے گھر آنا چاہتا ہوں‘‘ ، محبوبہ بولی ’’جس گھر کی چھت پر کوا بیٹھا ملے وہاں آجانا ‘‘،عاشق نے حیران ہو کر کہا کہ’’ کوا تو کسی گھر پر بھی بیٹھا مل سکتا ہے‘‘ ، محبوبہ بولی’’ تمہیں اس سے کیا تم نے تو جوتیاں ہی کھانی ہیں ،کسی گھر سے بھی کھا لینا ‘‘۔ تو صاحبو! بالکل اسی طرح سیاستدان بھی ہمارا اتنا خون پی چکے کہ اب ہماری حیثیت ان کے جسموں میں بلڈپریشر جیسی اوران کی سیاست ایسی کہ ہم جس پارٹی میں بھی گئے ’’جُتیاں‘‘ ہی پڑیں مگر پھر بھی سارا قصور ان کا نہیں کیونکہ جس معاشرے میں سب چلتا ہو،وہ معاشرہ ایسے ہی چلتا ہے اور لوگ دھوکہ تب ہی دیتے ہیں جب آپ انہیں موقع دیتے ہیں۔