ہماری ایک یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا ہوا کرتے تھے ، ان کے گیارہ بچے تھے اورسب کے نام کے آخر میں سنگھا آتا تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں بچہ پیدا ہوا تو اُنہوں نے شوکت تھانوی سے پوچھا کہ کیا نام رکھوں،تھانوی صاحب بولے ’’بارہ سنگھا‘‘ ۔ایک دوست کے ہاں چوتھا بیٹا پیدا ہواتو کہنے لگے بچے کا کیا نام رکھا جائے ۔ ان سے پوچھا گیا کہ پہلے 3بچوں کے نام کیا ہیں، بولے ’’رحمت الہی،محبوب الہی اور برکت الہی ‘‘۔ایک دوست بولا اس کا نام رکھو ’’بس کر الہی ‘‘ ۔ نیوزی لینڈ کا وہ باشندہ جس کا نام 25لفظوں پر مشتمل تھا ، اس کی بیوی سے ایک صحافی نے خاوند کا نام پوچھا تووہ بولی ’’اتنی جلدی نام کیسے یاد ہوگا ابھی تو ہماری شادی کو صرف 6ماہ ہی ہوئے ہیں‘‘ ۔ مغرب کی ایک’’ خوبصورتی‘‘ یہ بھی کہ بچے کو پتا ہی نہیں چل پاتا کہ اسکا والد کون ہے ۔ پچھلے سال لند ن کے ایک سکول میں جب بچوں کو اپنے اپنے والد کا نام لکھنے کو کہا گیا تو 30بچوں کی کلاس میں 15بچے نقل مارتے پکڑے گئے ۔ اسی طرح برطانیہ کی ایک نامی گرامی خاتون اپنی بیٹی کو سکول داخل کروانے آئی ، اس خاتون نے داخلہ ٹیسٹ لینے والی ایشیائی لیڈی ٹیچر سے کہا کہ ’’پلیز میری بیٹی سے کوئی آسان سا سوال پوچھنا‘‘۔لیڈی ٹیچر نے بہت سوچنے کے بعد جب یہ پوچھا کہ ’’بیٹی آپ کے ابو کا کیا نام ہے‘‘ تو خاتون انتہائی غصے سے بولیں ’’میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ بچی سے کوئی آسان سا سوال پوچھنا‘‘۔ دورِجدید میں تو ناموں کے مطلب ہی بدل گئے، ایک وقت تھا کہ جب وائرس فلو(زکام ) ہو ا کرتا تھا مگر آج وائرس کمپیوٹر کا جراثیم ،کبھی ایپل اور بلیک بیری صرف فروٹ تھے ، کبھی ونڈو کمرے کی کھڑکی اورایپلیکیشن کا مطلب کاغذ پر لکھی ہوئی درخواست ،کی بورڈ کا مطلب پیانو اور ماؤس چوہے کوکہا جاتا ، فائل دفترکے کاغذات کا ریکارڈ ،ہارڈ ڈرائیوایک مشکلوں بھرا سفر ،Cut چاقو یا چھری کا زخم اور Pasteکا مطلب گوند سے چپکانا ہوتا۔شکسپیئرکہتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے گلا ب کو جو نام بھی دے دو اس کی خوشبوتو وہی رہے گی ۔لیکن جارج ریڈ ی کا کہنا ہے کہ نام ہی سب کچھ کیونکہ نام بدلنے سے گلاب کی خوشبو تو نہیں بدلے گی مگر جب گلاب کا کوئی اور نام ہو گا تو اس کی قدروقیمت ضرور بدل جائے گی ۔عربی کہاوت ہے کہ جب ہم آئینہ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو اس میں اپنا عکس نہیں دیکھ رہے ہوتے بلکہ عکس ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے اسی طرح بندہ نام کی پہچا ن نہیں ہوتا بلکہ نام بندے کی پہچان بن جاتا ہے ۔یہ بات لگتی بھی سچ ہے کیونکہ جونہی سخاوت کا ذکر آئے تو ذہنوں میں حاتم طائی کا نام آجائے ، جیسے ہی ہوائی منصوبوں ، خیالی پلاؤ اور شیخی خوری کی بات ہو تو شیخ چلی یاد آجائے اور اسی طرح ٹارزن اور سپر مین کو طاقت کا سمبل سمجھا گیا اور سمجھا جاتا ہے ۔ امیتابھ بچن بتایا کرتے ہیں کہ ان کا پہلا نام ’’انقلاب ‘‘تھا جو آزادی ہند کے نعرے ’’ انقلاب زندہ باد ‘‘ سے متاثر ہو کر رکھا گیا لیکن بعد میں اسے تبدیل کر کے امتیابھ کر دیا گیا ۔امیتابھ کا تو خیر فلمی نام بھی امتیابھ مگر پاک وہند میں بہت سارے فلمی ستارے ایسے کہ جن کا اصلی نام کچھ اور جبکہ فلمی نام کچھ اور ۔جیسے دلیپ کمار کا اصلی نام یوسف خان ، مینا کماری کاپیدائشی نام ماہ جبین بانو ، مدھو بالا کا ممتاز جہان دہلوی ،سلمان خان کا عبدالرشید سلمان خان ، پریتی زنٹا کا پریتم زنٹا سنگھ، کترینہ کیف کا کیٹ ٹرکوٹے ،سری دیوی کا سری اماں نیگر ، ملکہ شیراوت کا ریما لامبا، رجنی کانت کا شیوا جی راؤ گائیگ وارڈ ،کمل ہا سن کا پارتھا سارتھی،جان ابراہم کا فرحان ابراہم ،اکشے کمار کا راجیو ہری اوم بھاٹیا ، گوندا کا گوندارن آہوجہ ، بوبی دیول کا وجے سنگھ دیول ، اجے دیوگن کا وشال دیوگن ،ریکھا کا بھانو ریکھا گنشیم، جتندر کا روی کپور،جانی لیور کا جان پرکاش راؤ جانو مالا ، شمی کپورکا شمیشر راج کپور اور تبو کا تبسم ہاشمی ۔ اپنے ہاں ملکہ ترنم نور جہاں کا اصلی نام اللہ رکھی وسائی ، درپن کا سید عشرت عباس ،سنتوش کمار کا موسیٰ رضا ، رانی کا ناصرہ، لہری کا سفیر اللہ صدیقی، ننھا کا رفیع خاور، سلطان راہی کا محمد سلطان خان ، رنگیلا کا محمد سعید خان،نیلی کا نیلوفر،زیبا کا شاہین ،سنگیتا کا پروین رضوی ،شان کا ارمگان شاہد ،عمر شریف کا محمد عمر اور معروف بھارتی نغمہ نگارو ہدایتکار گلزار کا اصلی نام سمپورن سنگھ کالراجبکہ نامور پاکستانی لکھاری اور ’’اداس نسلیں‘‘کے خالق عبداللہ حسین مرحوم کا پیدائشی نام محمد خاں ہے ۔اسی طرح سابق امریکی صدر جمی کارٹر کا پیدائشی نام حیمزارل ،بل کلنٹن کا ولیم جیفر سن کلائتھ ،نیلسن منڈیلا کا رولیھیلا ھلا، سٹالن کا آئی اوسیف ویساآر نوُ یچ ،لینن کا ولادیمیرالنیچ الیانو اور چنگیز خان کا اصلی نام تموجن تھا ۔ جہاں یہ بات بڑی اہم کہ ان سب نے اپنے نام کیوں اور کس کے کہنے پر بدلے وہاں اس سے بھی اہم بات یہ کہ اگر یہ سب اپنے نام نہ بدلتے تو کیا پھر بھی یہ لوگ اتنے ہی کامیاب ہوتے کیونکہ علم الاسماء (ناموں کا علم ) بتائے کہ نام بدلنے سے بندے کے حالات سمیت سب کچھ ہی بدل جائے ۔ علم الاسماء جو اِک علم بھی اور اِک سائنس بھی، علم الاسماء جس کی 14اقسام اور گو کہ ناموں کے علم کے سب سے بڑے ماہر شیخ اکبر محی الدین ؒ ابن عربی نے فتوحات مکیّہ میں نہ صرف ان اقسام کی تفصیل سے وضاحت کی بلکہ علم الاسماء کو الہاتی، ملکوتی اور جناتی تین کیٹگریز میں تقسیم بھی کیا مگر علم الاسماء کی ابتدا ء حضرت آدم ؑ کی تخلیق کے وقت ہی ہو گئی تھی ۔سورۃ بقرہ کی اکتسویں آیت میں ہے کہ ’’ اور اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ کو تمام نام سکھا کر ان چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا اگر تم سچے ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ‘‘فرشتوں نے جواب دیا ’’اے اللہ ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے ہمیں سکھا رکھا ہے ،پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ سے فرمایا کہ تم نام بتاؤاور اُنہوں نے( سب کے نام ) بتاد یئے‘‘۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ ویسے تو اللہ کے 99 نام مگر اسمِ اعظم رحمن ،رحیم ،حیی اور قیوم ۔ حضور ؐ بھی ناموں کو بہت اہمیت دیا کرتے، آپؐ اکثر صحابہ سے فرمایا کرتے کہ’’ اپنے بچوں کے زیادہ مقدس نام نہ رکھا کرو‘ ‘۔ جب امام حسن ؑ پیدا ہوئے تو آپؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ بچے کا کیا نام رکھا ہے ،حضرت علیؓ نے بتایا ’’حرب ‘‘تونبی ؐ نے فرمایا نہیں اسکا نام حسن ؑ رکھو پھر جب امام حسین ؑ کی پیدائش ہوئی تو آپ ؐ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ نومولو دکا کیا نام رکھو گئے تو اُنہوں نے کہا ’’حرب ‘‘ حضور ؐنے فرمایا نہیں حسین ؑ رکھو۔ ایک مرتبہ سفر کے دوران آپؐ کو دوپہاڑوں کے درمیان سے گذرنا تھا۔آپ ؐ نے مقامی لوگوں سے ان پہاڑوں کے نام پوچھے تو پتا چلا کہ ان پہاڑوں کے ناموں کا مفہوم رسوا اور ذلیل کرنیوالا ہے تو آپؐ ایک طویل چکر کاٹ کر ان پہاڑوں کی ایک طرف سے گذر کر آگے نکل گئے ۔ ایک بار بکری کا دودھ دوہنا تھا،آپ ؐ نے ایک لڑکے کو بلاکر اُس کا نام پوچھا اس نے اپنا نام حرب (جنگ ) بتایا تو آپ ؐ نے اُسے اپنے پاس بٹھا کر دوسرے لڑکے کو بلا کر نام پوچھا اُس نے اپنا نام مُرّہ (کڑوا ) بتایا تو آپ ؐ نے اُسے بھی اپنے پاس بٹھا لیا اور پھر تیسرے لڑکے کو بلا کر نام پوچھا اور جب اُس نے اپنا نام العیش (زندگی والا ) بتایا تو آپ ؐ نے اُسے حکم دیاکہ تم بکری کا دودھ دوہو۔ عرب کلچر میں انسانوں کیساتھ ساتھ چیزوں کے بھی نام رکھے جاتے، جیسے حضور ؐ کی اونٹنی کا نام قصو ٰی اور آپ ؐ کی ہر تلوار کا الگ الگ نام تھا اور حضرت علیؓ کی شمشیر کا نام ذوالفقار تو سب کو معلوم ۔ دورِ حاضر میں علم الاسماء کے استاد پروفیسر احمد رفیق اختر بتایا کرتے ہیں کہ ایک ہی کیمسٹری میں رہتے کائنات کے تمام انسانوں کو جہاں یہ نام ہی ہیں جو ایک انسان کو دوسرے انسان سے الگ کریں وہاں نام کمپیوٹر کی اس Chipکی طرح کہ جس میں بندے کی تمام بنیادی معلومات Storeہوں۔ایک مرتبہ پروفیسر صاحب سے جب پوچھا گیا کہ آپ لوگوں سے ان کا نام پوچھ کر اِنہیں صرف اللہ کے ناموں کی ہی تسبیحات پڑھنے کیلئے دیتے ہیں ، کوئی اور وظیفہ کیوں نہیں ؟ تو بولے اسمائے الحسنٰی کی تسبیحات اللہ تعالیٰ سے ڈائریکٹ ڈائلنگ ہے اور جسکی اللہ سے ڈائریکٹ ڈائلنگ شروع ہو جائے اُسے اور کیا چاہیے اور پھر کسی انسان کے دکھ،غم اور بیماریاں ،اس کا فتنہ اور آزمائش سمیت سب کچھ اگر کسی نام سے ٹھیک ہوسکتا ہے تو بلاشبہ وہ صرف اللہ کا نام ہی ہوتا ہے اور پھر پروفیسر صاحب کی یہ بات تو پلے باندھنے والی ہے کہ ’’جب کوئی بندہ اللہ کے نام کو اپنی پہچان بنالیتا ہے توپھر اُس بندے کے نام اور مقام کی ذمہ داری اللہ کی ہوجاتی ہے ‘‘۔