Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

Education Makes a Difference

- Posted in Education by with comments

enter image description here

! کالی چٹی باتیں

- Posted in Amaal Nama by with comments

جیسے بندوں کی پوجا کر کے بھی ہم اللہ کے بندے، جیسے سنتوں کے قاتل ہو کر بھی ہم عاشقِ رسول ؐ ،جیسے طاقتوروں کو سلام اور کمزوروں کو دھکے مار کر بھی ہم انسا ن ،جیسے خالق کے شکوے اور مخلوق کی غیبتیں کر کے بھی ہم مسلمان ، جیسے زندگی فرعون کی گزار کر ہم آخرت موسیٰ ؑ جیسی چاہیں ، جیسے ڈکٹیٹر شپ کی آگ پر ہم جمہوری دیگیں پکائیں ، جیسے ہماری ہر عقیدت بصیرت سے خالی ، جیسے ہماری ہر محبت غلو میں ڈوبی ہوئی ، جیسے اسلام میں ہم اپنا اسلام مِلا چکے ،جیسے سچ کو ہم جھوٹ کا تڑکا لگا چکے یا پھر جیسے ہمارے ہر ا صل میں نقل ،ہر عبادت میں ریاکاری ،اور رشتوں اور رسموں سے دعاؤں اور دواؤں تک ہر شے میں ملاوٹ اور بناوٹ مطلب جیسے ہم خیر اور شر کا Mixtureایسے ہی حاضر ہے آج کالی اورچٹی باتوں کا Mixture۔ پہلے ملاحظہ فرمائیں چند کالی باتیں ۔۔! جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا ہے تو موبائل بند ،سکول بند ،دفتر بند اور سٹرکیں بند،بھائی جان دشمن بھی تو یہی چاہتا ہے، اگر ان بھٹکے ہوئے بزدلوں کی بولتی بند کرنی ہے تو پھر چاہے کچھ بھی ہو جائے ذہنوں سے سٹرکوں تک سب کچھ کھلا رکھیں ، یہ اپنی موت آپ مر جائیں گے ۔ویسے توعورتوں اور بچوں کو مارنے والے زندہ ہو ہی نہیں سکتے یہ تو زندہ لاشے ہیں ! جب وزیراعظم پاکستان کے گھر سے مودی نکلے گا ،جب ملک کی چوتھی بڑی پارٹی کا سربراہ بھارت کی گود میں بیٹھا ملے گا ، جب اپنے سرمایہ کاروں کی سرمایہ کاری چنائی میں ہوگی ، جب بمبئی دھماکوں سے پٹھانکوٹ تک بھارت کا رویہ چوہدریوں اور ہمارا مزارعوں والا ہو گا اور جب ڈالر ہر شے پر بھاری ہوگا تب ملک سے را کے ایجنٹ ہی نکلیں گے ،میجر عزیز بھٹی جیسے نکلنے سے تو رہے ، لیکن ستم ظریفی تو یہ کہ دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہاہے جبکہ ہماری آنیاں جانیاں ہی ختم نہیں ہور ہیں ۔ ساڑھے 20ارب ڈالر کے زرِمبادلہ پر لڈیاں ڈالنے والوں کو کیا پتا نہیں کہ قرضہ 70ارب ڈالر ہوگیا ، کیا انہیں معلوم نہیں کہ جب قرضہ 100بلین ڈالر تک پہنچے گا تب ہمارے آقا ہمیں یہ آپشن دیں گے کہ یا توBankruptcy یا پھر نیوکلیئر رول بیک ۔ خطرناک بات تو یہ کہ ابھی تک جو کچھ ہوا وہ آقا ؤں کے سکرپٹ کے مطابق ہوا ۔۔۔اب آگے ۔۔۔ کہنے کو تو ہم مسلم امہّ کا قلعہ مگر ہمارے پاسپورٹ کی ویلیو افغانستان کے بعد سب سے نیچے، کہنے کو تو اپنے حکمرانوں کو حکمرانیاں کرتے 35سال ہو گئے مگر پھر بھی خود کو سننے اور خود کو دیکھنے کی بھوک کا یہ عالم کہ لائیو سٹا ک اور ڈینگی کے اشتہاروں سے سرکاری سکولوں کے بلیک بورڈوں تک ہر جگہ عزت مآب خود ہی ۔ میں اپنی جمہوریت کو تب مانوں گا جب مسلم لیگ شریف فیملی اور پی پی بھٹوؤں کی قید سے آزاد ہوگی اور میں اپنی جمہوریت کو تب مانوں گا جب کوئی لیگی اپنے قائد اور کوئی جیالا اپنے چیئرمین سے یہ پوچھ سکے کہ حضور جب آپ سیاست میں آئے تو آپکے پاس کیا کچھ تھا ،اب کیا کچھ ہے اوریہ سب کچھ کہاں سے آیا ۔ ایسی جمہوریت کیلئے تو جان بھی حاضرمگر ایسی ہو تو سہی ۔ ’’ آفریدی اینڈ کمپنی‘‘ کا کیا قصور، جب خود چلنے سے قاصر چلے ہوئے بابے پالیسیاں بنائیں گے تو پھر نتیجہ یہی نکلے گا ، ابھی بھی وقت ہے بابے نہیں تو ان کی چڑیوں کا ہی کچھ کر لیں، ورنہ افغانستان سے بھی ہارنا پڑے گا ۔ جب سے حسینہ واجد چُن چُن کر پاکستان نواز لوگوں کو ماررہی ہے تب سے مجھے یہ انتظار کہ وہ پاکستانی جنہوں نے ڈھاکہ جا کر حسینہ واجد سے ایوارڈ لیئے اپنے وطن کی محبت میں کاش ان میں سے کوئی ایک ہی اپنا ایوارڈ واپس کر دے ۔ 1982میں جب سنگا پور میں’’لوک پال بل‘‘ نافذ ہوا تو پھر ایک دن میں 142کرپٹ وزراء اور افسروں کو ہتھکڑیاں لگیں اور یوں وہ سنگا پور جو کبھی کرپشن کا گڑھ تھا اسی سنگاپور میں کرپشن کی شرح ایک فیصد سے بھی نیچے آگئی اور وہ سنگا پور جہاں کبھی 90فیصدمنی بلیک ہوا کرتی تھی اسی سنگاپور میں اب 90فیصد منی وائٹ ،مگر یہاں خراب نیتوں کا نتیجہ دیکھیں کہ ہر قانون اور ہر ادارے کے ہوتے ہوئے بھی روزانہ 22ارب کی کرپشن اور کالے دھن کا حجم 20کھرب اور اوپر سے مزے کی بات یہ کہ یہاں کوئی ایک بھی گناہ گار نہیں ،سب کے سب معصوم ۔ بس کافی ہو گئیں کالی باتیں ۔۔چھوڑیں۔۔ کیا دل جلانا۔۔ ان باتوں سے یہاں کسی کو بھلا کیا فرق پڑے گا لہذا حاضر ہیں اب دل ودماغ کو روشن کر دینے والی چٹی باتیں ۔۔! حضورؐ سے پوچھا گیا ’’اللہ کے دل میں ہمار ا کیا مقام ہے ‘‘ جواب ملا’’جوتمہا رے دل میں اللہ کا مقام ہے ‘‘ ( اپنے دلوں میں جھانکیئے گا ) ۔ حضرت علیؓ سے سوال ہوا ’’بندہ پریشان کب ہوتا ہے ‘‘ فرمایا ’’ بندہ پریشان تب ہوتا ہے جب وہ نصیب سے زیادہ چاہے اور وقت سے پہلے چاہے (کاش بات سمجھ میں آجائے ) اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کااصل طریقہ یہی کہ اللہ کی نعمتیں شیئر کریں ( یاد رکھیں آج تک کوئی دینے والاکنگال نہیں ہوا )۔ اشیا ء کا حصول ،مال کی تمنا اور مرتبوں کی حسرت صحرا کی ویرانیو ں کے سوا کچھ نہیں ۔جب گھر سامان سے ،دل تمناؤں سے اور پیٹ خوراک سے بھرا ہوگا توپھر ذہن کا خالی ہونا لازمی ، بھلا پیسے گننے والاخیال کی بلندیوں کو کیا جانے ۔ ایک ملک کی سچائی کبھی دوسرے ملک کی سچائی نہیں ہوتی،جیسے ہندو ستان میں جو سچ ،پاکستان میں وہی جھوٹ، ہندو گائے کو پوجیں، ہمارے ہاں گائے کا مقصد پیٹ پوجا،اپنے ہاں کتے بلیاں نجس مگر کروڑوں افراد کی یہ مرغوب غذا اور پھر جیسے ایک زمانے کا جھوٹ دوسرے زمانے کا سچ بھی ہو سکتا ہے ایسے ہی فاصلوں سے سچ نظرآنے والی شے قریب پہنچنے پر جھوٹ ، فریب یا نظر کا دھوکا بھی ہوسکتی ہے ۔جیسے زمین پر تو چاند کی چاندنی ہے لیکن چاند پر چاند کی چاندنی نہیں۔ برے دن آجائیں توپھر سب تدبیریں الٹی ہو جائیں (خود کو دیکھ لیں ) ۔ کبھی کسی کے احسان کو اپنا حق نہ سمجھ لینا ( اپنے اعمال اور اللہ کی مہربانیوں کا سوچ کر اسے ایک بار پھر پڑھیں )۔ بزرگوں کی یاد یں منانے سے بزرگوں کا فیض نہیں مِلا کرتا (اورہم۔۔۔ہم تو بزرگوں کے دن بھی اس بھونڈے انداز سے منائیں کہ اب ہم سے تو خود بزرگ بھی تنگ )۔ جو یہ جان گیا کہ دولت اور مال میں سکون نہیں ، وہ ہر راز پاگیا ( تاریخ بتائے کہ بادشاہوں نے بادشاہی چھوڑ کر درویشی تو اختیار کی مگر کبھی کسی درویش نے درویشی چھوڑ کر بادشاہت نہیں چنی )۔ اگر ایک انسان دوسرے انسان کی صرف بات ہی توجہ سے سن لے تو عقائد کا آدھا تضاد تو خود بخود ہی ختم ہوجائے (مگر وہ کیا کریں کہ جنہیں صرف اپنی آواز پسند )۔ ان حضرات کو کیانام دیا جائے کہ جن کے سر پر تو کتابوں کی گٹھریاں مگر دل و دماغ خالی ( انہی حضرات نے تو تباہی پھیلا رکھی ہے ) ۔ ہر صاحبِ عمل جنت میں نہیں جاتا اور ہر گناہ جہنم میں نہیں پہنچاتا (اصل شے مالک کا فضل ) ۔ ہم گھروں میں پنجابی ،دفتروں میں اُردو، میٹنگوں اور سمینارز میں انگریزی بول کر عبادت عربی میں کریں ( ویسے ہم بڑے ہو کر بنیں گے کیا ) ظلم کرنا گناہ اور ظلم سہنا گناہِ کبیرہ (ظالم حکمرانوں اورمظلوم قوم کے نام )۔ پروفسیر صاحب نے پانی سے بھر اگلاس اٹھا کر طلباء سے پوچھا ’’ گلاس کا وزن کیا ہوگا؟ ‘‘ایک بولا 150گرام ، دوسرے نے کہا 200گرام،تیسری آوازآئی 250گرام ، یہ سن کر پروفیسر صاحب بولے’’ اگر میں اس گلا س کو چند منٹوں کیلئے اُٹھائے رکھوں تو کچھ ہوگا‘‘ ، جواب آیا ’’نہیں سر کچھ نہیں ہوگا‘‘، پروفیسر کا اگلا سوال تھا کہ’’ اگر میں گلا س کو ایک گھنٹے تک اُٹھائے رکھوں تو پھر‘‘ ،جواب ملا ’’سر آپکے بازو میں درد شروع ہو جائے گا ‘‘ اور اگر میں اسے یونہی سارا دن اُٹھائے رکھوں تو ،پروفیسر کے اس سوال پر ایک طالبعلم بولا ’’ تو پھر سر آپکا بازو شل ہو سکتا ہے ، آپکا پٹھا اکڑ سکتا ہے اور سر یہ بھی ممکن ہے کہ آپکو اپنے چہیتے گلاس سمیت ہسپتال جانا پڑے ‘‘ ، پوری کلاس ہنسی مگر پروفیسر صاحب کی سنجیدگی برقرار رہی وہ بولے’’ جب گلا س کاو زن صرف دو اڑھائی سو گرام ہے تو پھر اسکے اُٹھانے سے بھلا میں ہسپتال کیسے جا سکتا ہوں ؟‘‘ کلاس میں خاموشی چھا گئی اور کافی دیر تک جب کوئی جواب نہ آیا توپھر پروفیسر کی آوازگونجی ’’ بات بڑی سادہ سی ہے کہ میں گلا س اُٹھانے سے نہیں بلکہ گلاس مسلسل اُٹھانے سے ہسپتال پہنچوں گا ‘‘ اور میں آج یہی بتانا اور سمجھانا بھی چاہتا ہوں کہ’’ جب ہم اپنی زندگیوں میں اس گلاس جتنی معمولی پریشانیاں بھی مسلسل اُٹھائے رکھتے ہیں تو پھر ایکدن ہمارے دل کا کوئی بازو شل ہو جاتا ہے ،دماغ کا کوئی پٹھا اکڑ جاتا ہے اور آخرکار ہم ہسپتال کے ہی ہو کر رہ جاتے ہیں ‘‘ ، لہذا آپ سب سے کہنا یہی کہ زندگی میں کبھی کوئی گلاس مسلسل نہیں اُٹھانا۔ تو دوستو! کیوں کیا خیال ہے ، کیا تھوڑی دیر کیلئے ہم بھی اپنے اپنے گلاس رکھ نہ دیں۔

Rich Vs Poor Thinking

- Posted in Images by with comments

enter image description here

Jamhori Dagh!

- Posted in Audio/Video Posts by with comments

Jamhori Dagh, A Column By Irshad Bhatti on Daily Janj on 24 March 2016, Voice of Tahir Saddique

لڑائی ذاتی اور جدوجہد مفاداتی ہو تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔۔جو نکلا! جب سب حربے ناکام ہوئے تو پرویز مشرف کے گھر والے اور قریبی دوست دبئی میں سر جوڑ کر بیٹھے ،ایک آخری کوشش کرنے پر اتفاق ہوا اور پھر 19مارچ 2013کی شام یہ سب چائے کے بہانے پرویز مشرف کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ ٹریک سوٹ پہنے ٹی وی دیکھ رہے تھے ،سلام دعا،حال احوال اور اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد طے شدہ منصوبے کے تحت مشرف کے ایک لنگوٹیے نے بات شروع کی ’’ میرا خیال ہے کہ ابھی ماحول ایسا نہیں کہ آپ پاکستان جائیں ‘‘ ، دونوں ہاتھوں سے بلیک کافی کا کپ پکڑے مشرف ہنس کر بولے ’’میں بھی تو ماحول بنانے ہی جارہا ہوں ‘‘۔ چکن سینڈ وچ کھا کر گرین ٹی پیتے مشرف کے دوسرے یارِخاص نے بات آگے بڑھائی ’’ ماحول سازگار بنانے کیلئے پبلک سپورٹ چاہیئے اورمیں نہیں سمجھتا کہ اس وقت یہ پبلک سپورٹ ہمیں مل پائے گی ‘‘ یہ سن کر مشرف نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھا اور سگار سلگا کر کہا ’’لوگ نواز حکومت سے مایوس ہیں وہ تبدیلی چاہتے ہیں اوراب عوام نہ صرف میرے دورِحکومت کوMissکر رہی ہے بلکہ انکی خواہش ہے کہ میں واپس آکر ان کیلئے پھر سے کچھ کروں‘‘۔ مشرف بات کرتے کرتے رُکے اور سگار کو گنے کی طرح چوس کر انہوں نے اپنے سامنے ہمہ تن گوش بیٹھے اُس پارٹی رہنما کی طرف دیکھا جو انہیں لینے ایک ہفتہ پہلے ہی دبئی پہنچ چکا تھا ، پرویز مشرف کا اشارہ پاکر ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر یہ رہنما بولا ’’ دو لاکھ سے زیادہ لوگ تو صرف فیس بک پر جنرل صاحب سے درخواست کر چکے کہ وہ پاکستان آئیں ، موبائلز پر ملنے والے ہزاروں پیغامات اسکے علاوہ، میں جنرل صاحب کو پہلے بھی یہ بتا چکا کہ عوامی جذبات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کریں گے تو کم ازکم ایک لاکھ افراد انکو ریسیو کریں گے ‘‘۔ جیالے کی بات مکمل ہوئی تو صدر مشرف کاا یک ہم نوالہ وہم پیالہ تلخ لہجے میں بولا ’’ حضور پہلی بات تو یہ کہ فیس بک اور موبائل میسجز والی عوام کبھی سڑکوں پر نہیںآتی اور پھر یہ بات پلے باندھ لیں کہ آپ کو ٹریپ کیاجارہا ہے ،آپ جونہی پاکستان پہنچیں گے تو پہلے سے تیار حکومت آپکو ایسے پھنسائے گی کہ واپسی کا راستہ تک نہیں ملے گا ‘‘ ۔ اپنے جگری یار کے منہ سے یہ سن کر مشرف اس بار بولے تو انکے لہجے میں غصہ نمایاں تھا ، کہنے لگے ’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ مجھے ڈرایا جارہا ہے اور وہ بھی اُس حکومت سے جوخود مجھ سے خوفزدہ ہے ۔ بہر حال اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں پاکستان نہیں جاؤں گا تو وہ غلطی پر ہے اور میں اتنا بھی اکیلا نہیں ،جتنا آپ سمجھ رہے ہیں ‘‘ ، بات مکمل کرتے وقت مشرف کے چہرے پر ناگواری واضح دیکھی جاسکتی تھی ، تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی اور پھر سکوت تب ٹوٹا جب پرویز مشرف کے ایک کورس میٹ نے یہ بتانا شروع کیا کہ ’’واپس جانے پر مشرف کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔ گو کہ اس شام 3گھنٹے سب دوست مشرف کو واپسی مؤخر کرنے پر قائل کرتے رہے مگر مشرف نے ایک نہ سنی،یہی نہیں 24مارچ کو کراچی ائیر پورٹ پر1 لاکھ لوگوں کی بجائے اڑھائی سو افراد سے ایک مختصر خطاب کے بعد ہوٹل کے رائل سوئیٹ میں کافی پیتے مشرف کو پھر انہی دوستوں نے فون کر کے کہا کہ’’ اب تو خود ہی دیکھ چکے کہ1 لاکھ کیا 1 ہزار لوگ بھی لینے نہ آئے لہذا کراچی سے ہی واپس آجاؤ‘‘ مگر مشرف نے نہ صرف اس بار بھی کسی بات پر کان دھرے بلکہ اسلام آباد سے اوپر نیچے ملنے والے اعلیٰ سطحی 5پیغامات کو بھی کسی قابل نہ سمجھا اور پھر آگے جو ہوا وہ سب کے سامنے ۔ لیکن یہاں دو باتیں بتانا بہت ضروری،پہلی بات یہ کہ ان دنوں سبز باغ دِکھا دِکھا کر مشرف سے ان کے پارٹی رہنماؤں کے مال بٹورنے کا عالم یہ تھا کہ اسلام آباد یا لاہور میں پارٹی کو فعال بنانے کیلئے لیئے گئے پیسوں کو توچھوڑیں صرف کراچی ائیر پورٹ پر آنے والے اڑھائی سو لوگ اتنے قیمتی نکلے کہ ہر بندہ پرویز مشرف کو ڈیڑھ لاکھ میں پڑا اور دوسری بات یہ کہ مشرف کی خوش فہمیوں کے غباروں سے پہلی مرتبہ ہوا تب نکلی کہ جب عدالتی حکم پر ایک شام ایس ایس پی اسلام آباد نے انہیں انکے فارم ہاؤس سے پولیس ریسٹ ہاؤس کے اُس خستہ حال کمرے میں پہنچایا کہ جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ،دیواروں کی سفیدی سیم تھور کی نذر ہوچکی اور دروازے اور کھڑکیاں جا بجا ٹوٹے ہوئے، کمرے میں داخل ہو کر 14 انچ کے ٹی وی اور سنگل بیڈ کے درمیان پڑی ایک میلی سی کرسی پر بیٹھتے ہی پرویز مشرف نے خالی خالی نظروں سے ایس ایس پی کی طرف دیکھتے ہوئے3چار لمبی لمبی سانسیں لے کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔۔‘‘۔ یہ تو تھے اپنے کمانڈو اب دوسری طرف کاحال بھی سن لیں ۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب ہر رابطہ کار کو آئین ،قانون اور اصولوں کے لولی پاپوں سے بہلاتی حکومت کے جال میں پھڑپھڑانے سے بھی قاصر پرویز مشرف راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں پناہ گزین تھے ، انہی دنوں کی ایک شام حکومتی قیادت سے 12ویں مرتبہ رابطہ کر کے انہیں یہ یاد دلایا گیا کہ ’’آپ نے کہا تھا کہ اگر مشرف عدالت میں پیش ہوجائیں تو پھر کسی کو انکے بیرون ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘ ، لیکن جب وہ عدالت میں پیش ہوگئے تو آپ نے کہہ دیا کہ ’’ مشرف پر فردِجرم عائد ہوجائے تو پھر انکا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا‘‘لیکن فردِجرم عائد ہو نے کے باوجود نام ای سی ایل میں موجود، لہذا اپنا وعدہ پورا کریں۔ بڑی توجہ سے یہ سن کراعلیٰ قیادت بولی ’’اگر پرویز مشرف تحریری معافی مانگ کر باہر جانے کی تحریری درخواست کریں توبات آگے بڑھائی جاسکتی ہے ‘‘ ۔ اس شام رابطہ کاروں کے مایوس لوٹتے ہی جہاں بیرونی دوستو ں اور ایک حکومتی دھڑے نے حکومت پر پریشر بڑھادیا ،وہاں مشرف کے خیر خواہوں کے روئیوں میں بھی تلخی آئی اور پھر دن بدن خراب سے خراب ہوتے حالات میں اس سے پہلے کہ کچھ ہوجا تا ،اچانک بیک ڈور رابطے بحال ہوئے اور ایک رات مشرف کے ضمانتی اور حکمران آمنے سامنے بیٹھے ،ضمانتیوں نے پھر یاددلایا کہ ’’ اگر اصولوں کی بات کی جائے تونہ صرف میاں صاحب مشرف کو معاف کر چکے بلکہ آج مشرف کو روکنے والے یہ میاں صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے بینظیر بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکلوا کر انہیں تب باہر جانے دیا کہ جب وہ کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتی تھیں اور اگر آئین اور قانون کی بات کی جائے تو پھر جس جر م کا الزام مشرف پر ،اسی جرم کا سرِعام اقرار کرنے والے چوہدری شجاعت کو کوئی کیوں نہیں پوچھتا مگر دوستو! بات چونکہ اصولوں کی تھی لہذا اصولی حکومت تب تک اپنے اصولوں پر ڈٹی رہی جب تک بات اصولوں تک رہی لیکن جونہی بات اصولوں سے آگے بڑھی تو پھر اصولی حکومت نے بھی ایک اصولی مؤقف چھوڑ کر دوسرا اصولی مؤقف اپنا لیا ،لیکن یہاں دو با تیں بتانا بہت ضروری، پہلی بات یہ کہ بیرونی طاقتیں اور حکومت کا ایک مضبوط دھڑا پہلے دن سے مشرف کی گلو خلاصی کا حامی تھا اوراب شور شرابا اور چیخنے چلانے کی اداکاریاں کرتے سب اداکاروں کو بھی یہ بخوبی علم کہ ان کے قائدین اپنے قائدین کو مشرف کے حوالے سے یقین دہانی کروا چکے تھے اور دوسری بات یہ کہ جو کچھ بھی ہوا وزیراعظم کے حالیہ سعودی دورے میں ہوا اور یہ ایسے ہو اکہ مشرف کو جیلوں اور حوالاتوں میں دیکھنے کے خواہش مند اُن ’’حکومتی پنج پیاروں‘‘ کو بھنک بھی نہ پڑی کہ جو کل تک بازواور تیوریاں چڑھا کر کہا کرتے کہ ’’اگر مشرف چلے گئے تو پھر حکومت میں ہم بھی نہیں رہیں گے ‘‘۔ مشرف چلا گیا مگر یہ سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتے ہوئے ۔ میں پچھلے ماہ کی وہ ابر آلود سہ پہر زندگی بھر نہیں بھلا پاؤں گا کہ جب وفاقی دارالحکومت کے پوش علاقے میں کافی شاپ پر میرے سامنے بیٹھے انہی’’ پنج پیاروں میں سے ایک پیارے وزیر‘‘نے مشرف کا ذکر چھڑنے پر پہلے قسم اُٹھا کر یہ کہا کہ ’’ میں تو وزیر بنا ہی اس لیئے کہ پرویز مشرف کو کیفرِکردار تک پہنچا سکوں‘‘اور پھر مشرف کے جرائم گنواتے گنواتے وزیر صاحب نے جوشِ جذبات میں اس زور سے میز پر مُکا مارا کہ میز پر پڑا کافی کا کپ اچھل کر میری گو د میں آگرا اور میں سر تا پاؤں کافی میں بھیگ گیا ،گوکہ میں نے اسی وقت ویٹر کی مدد سے گیلے نیپکن سے کافی کے یہ داغ مٹانے کی کوشش کی اور گو کہ میں نے لانڈری سے بھی کپڑے دھلوالیئے مگر آدھے داغ پھر بھی نہ مٹے لیکن میرے لیئے یہ داغ تب قیمتی ہوگئے جب پرویز مشرف کے جانے کے دو دن بعد اسی وزیر کو ٹیلی ویژن پر میں نے ہنستے مسکراتے ایک اجلاس کی صدارت کرتے دیکھا، یہ منظر دیکھ کر جہاں میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ دورخی جمہوریت کے داغوں والے یہ کپڑے اب ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گاوہاں میرا یہ یقین مزید پختہ ہوا کہ جب لڑائی ذاتی اور جدوجہد مفاداتی ہوتو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔۔۔جو نکلا۔ Back to Conversion Tool