لڑائی ذاتی اور جدوجہد مفاداتی ہو تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔۔جو نکلا! جب سب حربے ناکام ہوئے تو پرویز مشرف کے گھر والے اور قریبی دوست دبئی میں سر جوڑ کر بیٹھے ،ایک آخری کوشش کرنے پر اتفاق ہوا اور پھر 19مارچ 2013کی شام یہ سب چائے کے بہانے پرویز مشرف کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ ٹریک سوٹ پہنے ٹی وی دیکھ رہے تھے ،سلام دعا،حال احوال اور اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد طے شدہ منصوبے کے تحت مشرف کے ایک لنگوٹیے نے بات شروع کی ’’ میرا خیال ہے کہ ابھی ماحول ایسا نہیں کہ آپ پاکستان جائیں ‘‘ ، دونوں ہاتھوں سے بلیک کافی کا کپ پکڑے مشرف ہنس کر بولے ’’میں بھی تو ماحول بنانے ہی جارہا ہوں ‘‘۔ چکن سینڈ وچ کھا کر گرین ٹی پیتے مشرف کے دوسرے یارِخاص نے بات آگے بڑھائی ’’ ماحول سازگار بنانے کیلئے پبلک سپورٹ چاہیئے اورمیں نہیں سمجھتا کہ اس وقت یہ پبلک سپورٹ ہمیں مل پائے گی ‘‘ یہ سن کر مشرف نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھا اور سگار سلگا کر کہا ’’لوگ نواز حکومت سے مایوس ہیں وہ تبدیلی چاہتے ہیں اوراب عوام نہ صرف میرے دورِحکومت کوMissکر رہی ہے بلکہ انکی خواہش ہے کہ میں واپس آکر ان کیلئے پھر سے کچھ کروں‘‘۔ مشرف بات کرتے کرتے رُکے اور سگار کو گنے کی طرح چوس کر انہوں نے اپنے سامنے ہمہ تن گوش بیٹھے اُس پارٹی رہنما کی طرف دیکھا جو انہیں لینے ایک ہفتہ پہلے ہی دبئی پہنچ چکا تھا ، پرویز مشرف کا اشارہ پاکر ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر یہ رہنما بولا ’’ دو لاکھ سے زیادہ لوگ تو صرف فیس بک پر جنرل صاحب سے درخواست کر چکے کہ وہ پاکستان آئیں ، موبائلز پر ملنے والے ہزاروں پیغامات اسکے علاوہ، میں جنرل صاحب کو پہلے بھی یہ بتا چکا کہ عوامی جذبات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کریں گے تو کم ازکم ایک لاکھ افراد انکو ریسیو کریں گے ‘‘۔ جیالے کی بات مکمل ہوئی تو صدر مشرف کاا یک ہم نوالہ وہم پیالہ تلخ لہجے میں بولا ’’ حضور پہلی بات تو یہ کہ فیس بک اور موبائل میسجز والی عوام کبھی سڑکوں پر نہیںآتی اور پھر یہ بات پلے باندھ لیں کہ آپ کو ٹریپ کیاجارہا ہے ،آپ جونہی پاکستان پہنچیں گے تو پہلے سے تیار حکومت آپکو ایسے پھنسائے گی کہ واپسی کا راستہ تک نہیں ملے گا ‘‘ ۔ اپنے جگری یار کے منہ سے یہ سن کر مشرف اس بار بولے تو انکے لہجے میں غصہ نمایاں تھا ، کہنے لگے ’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ مجھے ڈرایا جارہا ہے اور وہ بھی اُس حکومت سے جوخود مجھ سے خوفزدہ ہے ۔ بہر حال اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں پاکستان نہیں جاؤں گا تو وہ غلطی پر ہے اور میں اتنا بھی اکیلا نہیں ،جتنا آپ سمجھ رہے ہیں ‘‘ ، بات مکمل کرتے وقت مشرف کے چہرے پر ناگواری واضح دیکھی جاسکتی تھی ، تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی اور پھر سکوت تب ٹوٹا جب پرویز مشرف کے ایک کورس میٹ نے یہ بتانا شروع کیا کہ ’’واپس جانے پر مشرف کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔ گو کہ اس شام 3گھنٹے سب دوست مشرف کو واپسی مؤخر کرنے پر قائل کرتے رہے مگر مشرف نے ایک نہ سنی،یہی نہیں 24مارچ کو کراچی ائیر پورٹ پر1 لاکھ لوگوں کی بجائے اڑھائی سو افراد سے ایک مختصر خطاب کے بعد ہوٹل کے رائل سوئیٹ میں کافی پیتے مشرف کو پھر انہی دوستوں نے فون کر کے کہا کہ’’ اب تو خود ہی دیکھ چکے کہ1 لاکھ کیا 1 ہزار لوگ بھی لینے نہ آئے لہذا کراچی سے ہی واپس آجاؤ‘‘ مگر مشرف نے نہ صرف اس بار بھی کسی بات پر کان دھرے بلکہ اسلام آباد سے اوپر نیچے ملنے والے اعلیٰ سطحی 5پیغامات کو بھی کسی قابل نہ سمجھا اور پھر آگے جو ہوا وہ سب کے سامنے ۔ لیکن یہاں دو باتیں بتانا بہت ضروری،پہلی بات یہ کہ ان دنوں سبز باغ دِکھا دِکھا کر مشرف سے ان کے پارٹی رہنماؤں کے مال بٹورنے کا عالم یہ تھا کہ اسلام آباد یا لاہور میں پارٹی کو فعال بنانے کیلئے لیئے گئے پیسوں کو توچھوڑیں صرف کراچی ائیر پورٹ پر آنے والے اڑھائی سو لوگ اتنے قیمتی نکلے کہ ہر بندہ پرویز مشرف کو ڈیڑھ لاکھ میں پڑا اور دوسری بات یہ کہ مشرف کی خوش فہمیوں کے غباروں سے پہلی مرتبہ ہوا تب نکلی کہ جب عدالتی حکم پر ایک شام ایس ایس پی اسلام آباد نے انہیں انکے فارم ہاؤس سے پولیس ریسٹ ہاؤس کے اُس خستہ حال کمرے میں پہنچایا کہ جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ،دیواروں کی سفیدی سیم تھور کی نذر ہوچکی اور دروازے اور کھڑکیاں جا بجا ٹوٹے ہوئے، کمرے میں داخل ہو کر 14 انچ کے ٹی وی اور سنگل بیڈ کے درمیان پڑی ایک میلی سی کرسی پر بیٹھتے ہی پرویز مشرف نے خالی خالی نظروں سے ایس ایس پی کی طرف دیکھتے ہوئے3چار لمبی لمبی سانسیں لے کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔۔‘‘۔ یہ تو تھے اپنے کمانڈو اب دوسری طرف کاحال بھی سن لیں ۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب ہر رابطہ کار کو آئین ،قانون اور اصولوں کے لولی پاپوں سے بہلاتی حکومت کے جال میں پھڑپھڑانے سے بھی قاصر پرویز مشرف راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں پناہ گزین تھے ، انہی دنوں کی ایک شام حکومتی قیادت سے 12ویں مرتبہ رابطہ کر کے انہیں یہ یاد دلایا گیا کہ ’’آپ نے کہا تھا کہ اگر مشرف عدالت میں پیش ہوجائیں تو پھر کسی کو انکے بیرون ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘ ، لیکن جب وہ عدالت میں پیش ہوگئے تو آپ نے کہہ دیا کہ ’’ مشرف پر فردِجرم عائد ہوجائے تو پھر انکا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا‘‘لیکن فردِجرم عائد ہو نے کے باوجود نام ای سی ایل میں موجود، لہذا اپنا وعدہ پورا کریں۔ بڑی توجہ سے یہ سن کراعلیٰ قیادت بولی ’’اگر پرویز مشرف تحریری معافی مانگ کر باہر جانے کی تحریری درخواست کریں توبات آگے بڑھائی جاسکتی ہے ‘‘ ۔ اس شام رابطہ کاروں کے مایوس لوٹتے ہی جہاں بیرونی دوستو ں اور ایک حکومتی دھڑے نے حکومت پر پریشر بڑھادیا ،وہاں مشرف کے خیر خواہوں کے روئیوں میں بھی تلخی آئی اور پھر دن بدن خراب سے خراب ہوتے حالات میں اس سے پہلے کہ کچھ ہوجا تا ،اچانک بیک ڈور رابطے بحال ہوئے اور ایک رات مشرف کے ضمانتی اور حکمران آمنے سامنے بیٹھے ،ضمانتیوں نے پھر یاددلایا کہ ’’ اگر اصولوں کی بات کی جائے تونہ صرف میاں صاحب مشرف کو معاف کر چکے بلکہ آج مشرف کو روکنے والے یہ میاں صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے بینظیر بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکلوا کر انہیں تب باہر جانے دیا کہ جب وہ کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتی تھیں اور اگر آئین اور قانون کی بات کی جائے تو پھر جس جر م کا الزام مشرف پر ،اسی جرم کا سرِعام اقرار کرنے والے چوہدری شجاعت کو کوئی کیوں نہیں پوچھتا مگر دوستو! بات چونکہ اصولوں کی تھی لہذا اصولی حکومت تب تک اپنے اصولوں پر ڈٹی رہی جب تک بات اصولوں تک رہی لیکن جونہی بات اصولوں سے آگے بڑھی تو پھر اصولی حکومت نے بھی ایک اصولی مؤقف چھوڑ کر دوسرا اصولی مؤقف اپنا لیا ،لیکن یہاں دو با تیں بتانا بہت ضروری، پہلی بات یہ کہ بیرونی طاقتیں اور حکومت کا ایک مضبوط دھڑا پہلے دن سے مشرف کی گلو خلاصی کا حامی تھا اوراب شور شرابا اور چیخنے چلانے کی اداکاریاں کرتے سب اداکاروں کو بھی یہ بخوبی علم کہ ان کے قائدین اپنے قائدین کو مشرف کے حوالے سے یقین دہانی کروا چکے تھے اور دوسری بات یہ کہ جو کچھ بھی ہوا وزیراعظم کے حالیہ سعودی دورے میں ہوا اور یہ ایسے ہو اکہ مشرف کو جیلوں اور حوالاتوں میں دیکھنے کے خواہش مند اُن ’’حکومتی پنج پیاروں‘‘ کو بھنک بھی نہ پڑی کہ جو کل تک بازواور تیوریاں چڑھا کر کہا کرتے کہ ’’اگر مشرف چلے گئے تو پھر حکومت میں ہم بھی نہیں رہیں گے ‘‘۔ مشرف چلا گیا مگر یہ سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتے ہوئے ۔ میں پچھلے ماہ کی وہ ابر آلود سہ پہر زندگی بھر نہیں بھلا پاؤں گا کہ جب وفاقی دارالحکومت کے پوش علاقے میں کافی شاپ پر میرے سامنے بیٹھے انہی’’ پنج پیاروں میں سے ایک پیارے وزیر‘‘نے مشرف کا ذکر چھڑنے پر پہلے قسم اُٹھا کر یہ کہا کہ ’’ میں تو وزیر بنا ہی اس لیئے کہ پرویز مشرف کو کیفرِکردار تک پہنچا سکوں‘‘اور پھر مشرف کے جرائم گنواتے گنواتے وزیر صاحب نے جوشِ جذبات میں اس زور سے میز پر مُکا مارا کہ میز پر پڑا کافی کا کپ اچھل کر میری گو د میں آگرا اور میں سر تا پاؤں کافی میں بھیگ گیا ،گوکہ میں نے اسی وقت ویٹر کی مدد سے گیلے نیپکن سے کافی کے یہ داغ مٹانے کی کوشش کی اور گو کہ میں نے لانڈری سے بھی کپڑے دھلوالیئے مگر آدھے داغ پھر بھی نہ مٹے لیکن میرے لیئے یہ داغ تب قیمتی ہوگئے جب پرویز مشرف کے جانے کے دو دن بعد اسی وزیر کو ٹیلی ویژن پر میں نے ہنستے مسکراتے ایک اجلاس کی صدارت کرتے دیکھا، یہ منظر دیکھ کر جہاں میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ دورخی جمہوریت کے داغوں والے یہ کپڑے اب ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گاوہاں میرا یہ یقین مزید پختہ ہوا کہ جب لڑائی ذاتی اور جدوجہد مفاداتی ہوتو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔۔۔جو نکلا۔ Back to Conversion Tool