Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

! جمہوری داغ

- Posted in Amaal Nama by with comments

لڑائی ذاتی اور جدوجہد مفاداتی ہو تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔۔جو نکلا! جب سب حربے ناکام ہوئے تو پرویز مشرف کے گھر والے اور قریبی دوست دبئی میں سر جوڑ کر بیٹھے ،ایک آخری کوشش کرنے پر اتفاق ہوا اور پھر 19مارچ 2013کی شام یہ سب چائے کے بہانے پرویز مشرف کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ ٹریک سوٹ پہنے ٹی وی دیکھ رہے تھے ،سلام دعا،حال احوال اور اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد طے شدہ منصوبے کے تحت مشرف کے ایک لنگوٹیے نے بات شروع کی ’’ میرا خیال ہے کہ ابھی ماحول ایسا نہیں کہ آپ پاکستان جائیں ‘‘ ، دونوں ہاتھوں سے بلیک کافی کا کپ پکڑے مشرف ہنس کر بولے ’’میں بھی تو ماحول بنانے ہی جارہا ہوں ‘‘۔ چکن سینڈ وچ کھا کر گرین ٹی پیتے مشرف کے دوسرے یارِخاص نے بات آگے بڑھائی ’’ ماحول سازگار بنانے کیلئے پبلک سپورٹ چاہیئے اورمیں نہیں سمجھتا کہ اس وقت یہ پبلک سپورٹ ہمیں مل پائے گی ‘‘ یہ سن کر مشرف نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھا اور سگار سلگا کر کہا ’’لوگ نواز حکومت سے مایوس ہیں وہ تبدیلی چاہتے ہیں اوراب عوام نہ صرف میرے دورِحکومت کوMissکر رہی ہے بلکہ انکی خواہش ہے کہ میں واپس آکر ان کیلئے پھر سے کچھ کروں‘‘۔ مشرف بات کرتے کرتے رُکے اور سگار کو گنے کی طرح چوس کر انہوں نے اپنے سامنے ہمہ تن گوش بیٹھے اُس پارٹی رہنما کی طرف دیکھا جو انہیں لینے ایک ہفتہ پہلے ہی دبئی پہنچ چکا تھا ، پرویز مشرف کا اشارہ پاکر ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر یہ رہنما بولا ’’ دو لاکھ سے زیادہ لوگ تو صرف فیس بک پر جنرل صاحب سے درخواست کر چکے کہ وہ پاکستان آئیں ، موبائلز پر ملنے والے ہزاروں پیغامات اسکے علاوہ، میں جنرل صاحب کو پہلے بھی یہ بتا چکا کہ عوامی جذبات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کریں گے تو کم ازکم ایک لاکھ افراد انکو ریسیو کریں گے ‘‘۔ جیالے کی بات مکمل ہوئی تو صدر مشرف کاا یک ہم نوالہ وہم پیالہ تلخ لہجے میں بولا ’’ حضور پہلی بات تو یہ کہ فیس بک اور موبائل میسجز والی عوام کبھی سڑکوں پر نہیںآتی اور پھر یہ بات پلے باندھ لیں کہ آپ کو ٹریپ کیاجارہا ہے ،آپ جونہی پاکستان پہنچیں گے تو پہلے سے تیار حکومت آپکو ایسے پھنسائے گی کہ واپسی کا راستہ تک نہیں ملے گا ‘‘ ۔ اپنے جگری یار کے منہ سے یہ سن کر مشرف اس بار بولے تو انکے لہجے میں غصہ نمایاں تھا ، کہنے لگے ’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ مجھے ڈرایا جارہا ہے اور وہ بھی اُس حکومت سے جوخود مجھ سے خوفزدہ ہے ۔ بہر حال اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں پاکستان نہیں جاؤں گا تو وہ غلطی پر ہے اور میں اتنا بھی اکیلا نہیں ،جتنا آپ سمجھ رہے ہیں ‘‘ ، بات مکمل کرتے وقت مشرف کے چہرے پر ناگواری واضح دیکھی جاسکتی تھی ، تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی اور پھر سکوت تب ٹوٹا جب پرویز مشرف کے ایک کورس میٹ نے یہ بتانا شروع کیا کہ ’’واپس جانے پر مشرف کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔ گو کہ اس شام 3گھنٹے سب دوست مشرف کو واپسی مؤخر کرنے پر قائل کرتے رہے مگر مشرف نے ایک نہ سنی،یہی نہیں 24مارچ کو کراچی ائیر پورٹ پر1 لاکھ لوگوں کی بجائے اڑھائی سو افراد سے ایک مختصر خطاب کے بعد ہوٹل کے رائل سوئیٹ میں کافی پیتے مشرف کو پھر انہی دوستوں نے فون کر کے کہا کہ’’ اب تو خود ہی دیکھ چکے کہ1 لاکھ کیا 1 ہزار لوگ بھی لینے نہ آئے لہذا کراچی سے ہی واپس آجاؤ‘‘ مگر مشرف نے نہ صرف اس بار بھی کسی بات پر کان دھرے بلکہ اسلام آباد سے اوپر نیچے ملنے والے اعلیٰ سطحی 5پیغامات کو بھی کسی قابل نہ سمجھا اور پھر آگے جو ہوا وہ سب کے سامنے ۔ لیکن یہاں دو باتیں بتانا بہت ضروری،پہلی بات یہ کہ ان دنوں سبز باغ دِکھا دِکھا کر مشرف سے ان کے پارٹی رہنماؤں کے مال بٹورنے کا عالم یہ تھا کہ اسلام آباد یا لاہور میں پارٹی کو فعال بنانے کیلئے لیئے گئے پیسوں کو توچھوڑیں صرف کراچی ائیر پورٹ پر آنے والے اڑھائی سو لوگ اتنے قیمتی نکلے کہ ہر بندہ پرویز مشرف کو ڈیڑھ لاکھ میں پڑا اور دوسری بات یہ کہ مشرف کی خوش فہمیوں کے غباروں سے پہلی مرتبہ ہوا تب نکلی کہ جب عدالتی حکم پر ایک شام ایس ایس پی اسلام آباد نے انہیں انکے فارم ہاؤس سے پولیس ریسٹ ہاؤس کے اُس خستہ حال کمرے میں پہنچایا کہ جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ،دیواروں کی سفیدی سیم تھور کی نذر ہوچکی اور دروازے اور کھڑکیاں جا بجا ٹوٹے ہوئے، کمرے میں داخل ہو کر 14 انچ کے ٹی وی اور سنگل بیڈ کے درمیان پڑی ایک میلی سی کرسی پر بیٹھتے ہی پرویز مشرف نے خالی خالی نظروں سے ایس ایس پی کی طرف دیکھتے ہوئے3چار لمبی لمبی سانسیں لے کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔۔‘‘۔ یہ تو تھے اپنے کمانڈو اب دوسری طرف کاحال بھی سن لیں ۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب ہر رابطہ کار کو آئین ،قانون اور اصولوں کے لولی پاپوں سے بہلاتی حکومت کے جال میں پھڑپھڑانے سے بھی قاصر پرویز مشرف راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں پناہ گزین تھے ، انہی دنوں کی ایک شام حکومتی قیادت سے 12ویں مرتبہ رابطہ کر کے انہیں یہ یاد دلایا گیا کہ ’’آپ نے کہا تھا کہ اگر مشرف عدالت میں پیش ہوجائیں تو پھر کسی کو انکے بیرون ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘ ، لیکن جب وہ عدالت میں پیش ہوگئے تو آپ نے کہہ دیا کہ ’’ مشرف پر فردِجرم عائد ہوجائے تو پھر انکا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا‘‘لیکن فردِجرم عائد ہو نے کے باوجود نام ای سی ایل میں موجود، لہذا اپنا وعدہ پورا کریں۔ بڑی توجہ سے یہ سن کراعلیٰ قیادت بولی ’’اگر پرویز مشرف تحریری معافی مانگ کر باہر جانے کی تحریری درخواست کریں توبات آگے بڑھائی جاسکتی ہے ‘‘ ۔ اس شام رابطہ کاروں کے مایوس لوٹتے ہی جہاں بیرونی دوستو ں اور ایک حکومتی دھڑے نے حکومت پر پریشر بڑھادیا ،وہاں مشرف کے خیر خواہوں کے روئیوں میں بھی تلخی آئی اور پھر دن بدن خراب سے خراب ہوتے حالات میں اس سے پہلے کہ کچھ ہوجا تا ،اچانک بیک ڈور رابطے بحال ہوئے اور ایک رات مشرف کے ضمانتی اور حکمران آمنے سامنے بیٹھے ،ضمانتیوں نے پھر یاددلایا کہ ’’ اگر اصولوں کی بات کی جائے تونہ صرف میاں صاحب مشرف کو معاف کر چکے بلکہ آج مشرف کو روکنے والے یہ میاں صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے بینظیر بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکلوا کر انہیں تب باہر جانے دیا کہ جب وہ کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتی تھیں اور اگر آئین اور قانون کی بات کی جائے تو پھر جس جر م کا الزام مشرف پر ،اسی جرم کا سرِعام اقرار کرنے والے چوہدری شجاعت کو کوئی کیوں نہیں پوچھتا مگر دوستو! بات چونکہ اصولوں کی تھی لہذا اصولی حکومت تب تک اپنے اصولوں پر ڈٹی رہی جب تک بات اصولوں تک رہی لیکن جونہی بات اصولوں سے آگے بڑھی تو پھر اصولی حکومت نے بھی ایک اصولی مؤقف چھوڑ کر دوسرا اصولی مؤقف اپنا لیا ،لیکن یہاں دو با تیں بتانا بہت ضروری، پہلی بات یہ کہ بیرونی طاقتیں اور حکومت کا ایک مضبوط دھڑا پہلے دن سے مشرف کی گلو خلاصی کا حامی تھا اوراب شور شرابا اور چیخنے چلانے کی اداکاریاں کرتے سب اداکاروں کو بھی یہ بخوبی علم کہ ان کے قائدین اپنے قائدین کو مشرف کے حوالے سے یقین دہانی کروا چکے تھے اور دوسری بات یہ کہ جو کچھ بھی ہوا وزیراعظم کے حالیہ سعودی دورے میں ہوا اور یہ ایسے ہو اکہ مشرف کو جیلوں اور حوالاتوں میں دیکھنے کے خواہش مند اُن ’’حکومتی پنج پیاروں‘‘ کو بھنک بھی نہ پڑی کہ جو کل تک بازواور تیوریاں چڑھا کر کہا کرتے کہ ’’اگر مشرف چلے گئے تو پھر حکومت میں ہم بھی نہیں رہیں گے ‘‘۔ مشرف چلا گیا مگر یہ سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتے ہوئے ۔ میں پچھلے ماہ کی وہ ابر آلود سہ پہر زندگی بھر نہیں بھلا پاؤں گا کہ جب وفاقی دارالحکومت کے پوش علاقے میں کافی شاپ پر میرے سامنے بیٹھے انہی’’ پنج پیاروں میں سے ایک پیارے وزیر‘‘نے مشرف کا ذکر چھڑنے پر پہلے قسم اُٹھا کر یہ کہا کہ ’’ میں تو وزیر بنا ہی اس لیئے کہ پرویز مشرف کو کیفرِکردار تک پہنچا سکوں‘‘اور پھر مشرف کے جرائم گنواتے گنواتے وزیر صاحب نے جوشِ جذبات میں اس زور سے میز پر مُکا مارا کہ میز پر پڑا کافی کا کپ اچھل کر میری گو د میں آگرا اور میں سر تا پاؤں کافی میں بھیگ گیا ،گوکہ میں نے اسی وقت ویٹر کی مدد سے گیلے نیپکن سے کافی کے یہ داغ مٹانے کی کوشش کی اور گو کہ میں نے لانڈری سے بھی کپڑے دھلوالیئے مگر آدھے داغ پھر بھی نہ مٹے لیکن میرے لیئے یہ داغ تب قیمتی ہوگئے جب پرویز مشرف کے جانے کے دو دن بعد اسی وزیر کو ٹیلی ویژن پر میں نے ہنستے مسکراتے ایک اجلاس کی صدارت کرتے دیکھا، یہ منظر دیکھ کر جہاں میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ دورخی جمہوریت کے داغوں والے یہ کپڑے اب ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گاوہاں میرا یہ یقین مزید پختہ ہوا کہ جب لڑائی ذاتی اور جدوجہد مفاداتی ہوتو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔۔۔جو نکلا۔ Back to Conversion Tool

! جمہوری داغ

- Posted in Amaal Nama by with comments

لڑائی ذاتی اور جدوجہد مفاداتی ہو تو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔۔جو نکلا! جب سب حربے ناکام ہوئے تو پرویز مشرف کے گھر والے اور قریبی دوست دبئی میں سر جوڑ کر بیٹھے ،ایک آخری کوشش کرنے پر اتفاق ہوا اور پھر 19مارچ 2013کی شام یہ سب چائے کے بہانے پرویز مشرف کی رہائش گاہ پر پہنچے تو وہ ٹریک سوٹ پہنے ٹی وی دیکھ رہے تھے ،سلام دعا،حال احوال اور اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد طے شدہ منصوبے کے تحت مشرف کے ایک لنگوٹیے نے بات شروع کی ’’ میرا خیال ہے کہ ابھی ماحول ایسا نہیں کہ آپ پاکستان جائیں ‘‘ ، دونوں ہاتھوں سے بلیک کافی کا کپ پکڑے مشرف ہنس کر بولے ’’میں بھی تو ماحول بنانے ہی جارہا ہوں ‘‘۔ چکن سینڈ وچ کھا کر گرین ٹی پیتے مشرف کے دوسرے یارِخاص نے بات آگے بڑھائی ’’ ماحول سازگار بنانے کیلئے پبلک سپورٹ چاہیئے اورمیں نہیں سمجھتا کہ اس وقت یہ پبلک سپورٹ ہمیں مل پائے گی ‘‘ یہ سن کر مشرف نے کافی کا کپ ٹیبل پر رکھا اور سگار سلگا کر کہا ’’لوگ نواز حکومت سے مایوس ہیں وہ تبدیلی چاہتے ہیں اوراب عوام نہ صرف میرے دورِحکومت کوMissکر رہی ہے بلکہ انکی خواہش ہے کہ میں واپس آکر ان کیلئے پھر سے کچھ کروں‘‘۔ مشرف بات کرتے کرتے رُکے اور سگار کو گنے کی طرح چوس کر انہوں نے اپنے سامنے ہمہ تن گوش بیٹھے اُس پارٹی رہنما کی طرف دیکھا جو انہیں لینے ایک ہفتہ پہلے ہی دبئی پہنچ چکا تھا ، پرویز مشرف کا اشارہ پاکر ایک لمحہ ضائع کیئے بغیر یہ رہنما بولا ’’ دو لاکھ سے زیادہ لوگ تو صرف فیس بک پر جنرل صاحب سے درخواست کر چکے کہ وہ پاکستان آئیں ، موبائلز پر ملنے والے ہزاروں پیغامات اسکے علاوہ، میں جنرل صاحب کو پہلے بھی یہ بتا چکا کہ عوامی جذبات کا تو یہ حال ہے کہ جب وہ کراچی ائیر پورٹ پر لینڈ کریں گے تو کم ازکم ایک لاکھ افراد انکو ریسیو کریں گے ‘‘۔ جیالے کی بات مکمل ہوئی تو صدر مشرف کاا یک ہم نوالہ وہم پیالہ تلخ لہجے میں بولا ’’ حضور پہلی بات تو یہ کہ فیس بک اور موبائل میسجز والی عوام کبھی سڑکوں پر نہیںآتی اور پھر یہ بات پلے باندھ لیں کہ آپ کو ٹریپ کیاجارہا ہے ،آپ جونہی پاکستان پہنچیں گے تو پہلے سے تیار حکومت آپکو ایسے پھنسائے گی کہ واپسی کا راستہ تک نہیں ملے گا ‘‘ ۔ اپنے جگری یار کے منہ سے یہ سن کر مشرف اس بار بولے تو انکے لہجے میں غصہ نمایاں تھا ، کہنے لگے ’’بڑے افسوس کی بات ہے کہ مجھے ڈرایا جارہا ہے اور وہ بھی اُس حکومت سے جوخود مجھ سے خوفزدہ ہے ۔ بہر حال اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ میں پاکستان نہیں جاؤں گا تو وہ غلطی پر ہے اور میں اتنا بھی اکیلا نہیں ،جتنا آپ سمجھ رہے ہیں ‘‘ ، بات مکمل کرتے وقت مشرف کے چہرے پر ناگواری واضح دیکھی جاسکتی تھی ، تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی اور پھر سکوت تب ٹوٹا جب پرویز مشرف کے ایک کورس میٹ نے یہ بتانا شروع کیا کہ ’’واپس جانے پر مشرف کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے‘‘۔ گو کہ اس شام 3گھنٹے سب دوست مشرف کو واپسی مؤخر کرنے پر قائل کرتے رہے مگر مشرف نے ایک نہ سنی،یہی نہیں 24مارچ کو کراچی ائیر پورٹ پر1 لاکھ لوگوں کی بجائے اڑھائی سو افراد سے ایک مختصر خطاب کے بعد ہوٹل کے رائل سوئیٹ میں کافی پیتے مشرف کو پھر انہی دوستوں نے فون کر کے کہا کہ’’ اب تو خود ہی دیکھ چکے کہ1 لاکھ کیا 1 ہزار لوگ بھی لینے نہ آئے لہذا کراچی سے ہی واپس آجاؤ‘‘ مگر مشرف نے نہ صرف اس بار بھی کسی بات پر کان دھرے بلکہ اسلام آباد سے اوپر نیچے ملنے والے اعلیٰ سطحی 5پیغامات کو بھی کسی قابل نہ سمجھا اور پھر آگے جو ہوا وہ سب کے سامنے ۔ لیکن یہاں دو باتیں بتانا بہت ضروری،پہلی بات یہ کہ ان دنوں سبز باغ دِکھا دِکھا کر مشرف سے ان کے پارٹی رہنماؤں کے مال بٹورنے کا عالم یہ تھا کہ اسلام آباد یا لاہور میں پارٹی کو فعال بنانے کیلئے لیئے گئے پیسوں کو توچھوڑیں صرف کراچی ائیر پورٹ پر آنے والے اڑھائی سو لوگ اتنے قیمتی نکلے کہ ہر بندہ پرویز مشرف کو ڈیڑھ لاکھ میں پڑا اور دوسری بات یہ کہ مشرف کی خوش فہمیوں کے غباروں سے پہلی مرتبہ ہوا تب نکلی کہ جب عدالتی حکم پر ایک شام ایس ایس پی اسلام آباد نے انہیں انکے فارم ہاؤس سے پولیس ریسٹ ہاؤس کے اُس خستہ حال کمرے میں پہنچایا کہ جس کا فرش جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ،دیواروں کی سفیدی سیم تھور کی نذر ہوچکی اور دروازے اور کھڑکیاں جا بجا ٹوٹے ہوئے، کمرے میں داخل ہو کر 14 انچ کے ٹی وی اور سنگل بیڈ کے درمیان پڑی ایک میلی سی کرسی پر بیٹھتے ہی پرویز مشرف نے خالی خالی نظروں سے ایس ایس پی کی طرف دیکھتے ہوئے3چار لمبی لمبی سانسیں لے کر بھرائی ہوئی آواز میں کہا ’’ میرے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔۔‘‘۔ یہ تو تھے اپنے کمانڈو اب دوسری طرف کاحال بھی سن لیں ۔ یہ تب کی بات ہے کہ جب ہر رابطہ کار کو آئین ،قانون اور اصولوں کے لولی پاپوں سے بہلاتی حکومت کے جال میں پھڑپھڑانے سے بھی قاصر پرویز مشرف راولپنڈی کے فوجی ہسپتال میں پناہ گزین تھے ، انہی دنوں کی ایک شام حکومتی قیادت سے 12ویں مرتبہ رابطہ کر کے انہیں یہ یاد دلایا گیا کہ ’’آپ نے کہا تھا کہ اگر مشرف عدالت میں پیش ہوجائیں تو پھر کسی کو انکے بیرون ملک جانے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘‘ ، لیکن جب وہ عدالت میں پیش ہوگئے تو آپ نے کہہ دیا کہ ’’ مشرف پر فردِجرم عائد ہوجائے تو پھر انکا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا‘‘لیکن فردِجرم عائد ہو نے کے باوجود نام ای سی ایل میں موجود، لہذا اپنا وعدہ پورا کریں۔ بڑی توجہ سے یہ سن کراعلیٰ قیادت بولی ’’اگر پرویز مشرف تحریری معافی مانگ کر باہر جانے کی تحریری درخواست کریں توبات آگے بڑھائی جاسکتی ہے ‘‘ ۔ اس شام رابطہ کاروں کے مایوس لوٹتے ہی جہاں بیرونی دوستو ں اور ایک حکومتی دھڑے نے حکومت پر پریشر بڑھادیا ،وہاں مشرف کے خیر خواہوں کے روئیوں میں بھی تلخی آئی اور پھر دن بدن خراب سے خراب ہوتے حالات میں اس سے پہلے کہ کچھ ہوجا تا ،اچانک بیک ڈور رابطے بحال ہوئے اور ایک رات مشرف کے ضمانتی اور حکمران آمنے سامنے بیٹھے ،ضمانتیوں نے پھر یاددلایا کہ ’’ اگر اصولوں کی بات کی جائے تونہ صرف میاں صاحب مشرف کو معاف کر چکے بلکہ آج مشرف کو روکنے والے یہ میاں صاحب ہی تھے کہ جنہوں نے بینظیر بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکلوا کر انہیں تب باہر جانے دیا کہ جب وہ کسی وقت بھی گرفتار ہو سکتی تھیں اور اگر آئین اور قانون کی بات کی جائے تو پھر جس جر م کا الزام مشرف پر ،اسی جرم کا سرِعام اقرار کرنے والے چوہدری شجاعت کو کوئی کیوں نہیں پوچھتا مگر دوستو! بات چونکہ اصولوں کی تھی لہذا اصولی حکومت تب تک اپنے اصولوں پر ڈٹی رہی جب تک بات اصولوں تک رہی لیکن جونہی بات اصولوں سے آگے بڑھی تو پھر اصولی حکومت نے بھی ایک اصولی مؤقف چھوڑ کر دوسرا اصولی مؤقف اپنا لیا ،لیکن یہاں دو با تیں بتانا بہت ضروری، پہلی بات یہ کہ بیرونی طاقتیں اور حکومت کا ایک مضبوط دھڑا پہلے دن سے مشرف کی گلو خلاصی کا حامی تھا اوراب شور شرابا اور چیخنے چلانے کی اداکاریاں کرتے سب اداکاروں کو بھی یہ بخوبی علم کہ ان کے قائدین اپنے قائدین کو مشرف کے حوالے سے یقین دہانی کروا چکے تھے اور دوسری بات یہ کہ جو کچھ بھی ہوا وزیراعظم کے حالیہ سعودی دورے میں ہوا اور یہ ایسے ہو اکہ مشرف کو جیلوں اور حوالاتوں میں دیکھنے کے خواہش مند اُن ’’حکومتی پنج پیاروں‘‘ کو بھنک بھی نہ پڑی کہ جو کل تک بازواور تیوریاں چڑھا کر کہا کرتے کہ ’’اگر مشرف چلے گئے تو پھر حکومت میں ہم بھی نہیں رہیں گے ‘‘۔ مشرف چلا گیا مگر یہ سب پرانی تنخواہ پر ہی کام کرتے ہوئے ۔ میں پچھلے ماہ کی وہ ابر آلود سہ پہر زندگی بھر نہیں بھلا پاؤں گا کہ جب وفاقی دارالحکومت کے پوش علاقے میں کافی شاپ پر میرے سامنے بیٹھے انہی’’ پنج پیاروں میں سے ایک پیارے وزیر‘‘نے مشرف کا ذکر چھڑنے پر پہلے قسم اُٹھا کر یہ کہا کہ ’’ میں تو وزیر بنا ہی اس لیئے کہ پرویز مشرف کو کیفرِکردار تک پہنچا سکوں‘‘اور پھر مشرف کے جرائم گنواتے گنواتے وزیر صاحب نے جوشِ جذبات میں اس زور سے میز پر مُکا مارا کہ میز پر پڑا کافی کا کپ اچھل کر میری گو د میں آگرا اور میں سر تا پاؤں کافی میں بھیگ گیا ،گوکہ میں نے اسی وقت ویٹر کی مدد سے گیلے نیپکن سے کافی کے یہ داغ مٹانے کی کوشش کی اور گو کہ میں نے لانڈری سے بھی کپڑے دھلوالیئے مگر آدھے داغ پھر بھی نہ مٹے لیکن میرے لیئے یہ داغ تب قیمتی ہوگئے جب پرویز مشرف کے جانے کے دو دن بعد اسی وزیر کو ٹیلی ویژن پر میں نے ہنستے مسکراتے ایک اجلاس کی صدارت کرتے دیکھا، یہ منظر دیکھ کر جہاں میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ دورخی جمہوریت کے داغوں والے یہ کپڑے اب ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گاوہاں میرا یہ یقین مزید پختہ ہوا کہ جب لڑائی ذاتی اور جدوجہد مفاداتی ہوتو پھر نتیجہ یہی نکلتا ہے ۔۔۔جو نکلا۔ Back to Conversion Tool

Education Makes a Difference!

- Posted in Education by with comments

enter image description here

Sadi Polis Te Serdar Ji

- Posted in Audio/Video Posts by with comments

Sadi Polis Te Serdar Ji, A Column by Irshad Bhatti, On Daily Jang on 17 MArch 2016, Voice of Tahir Saddique.

خوب بے عزتی کرنے کے بعد انسپکٹر نے حوالدار سے کہا ’’ عجیب انسان ہو تمہارے سامنے سے ملزم بھاگ گیا اور تم کھڑے منہ تکتے رہے ‘‘ حوالدار غمگین لہجے میں بولا ’’ سرمیں کیا کرتا میرے ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں ہتھکڑی تھی ، میراایک ہاتھ بھی فارغ ہوتا تو پھر میں دیکھتا کہ وہ کیسے جاتا‘‘۔ ایک تھانیدار نے پولیس مقابلے کے بعد نامی گرامی ڈاکو کا ہاتھ کاٹ کر افسر کے سامنے پیش کیا تو افسر نے شاباش دیتے ہوئے ایسے ہی پوچھ لیا ’’ تم نے ڈاکو کی گردن کیوں نہیں کاٹی ‘‘ تھانیدار بولا ’’ سر وہ تو میرے پہنچنے سے پہلے ہی کوئی کاٹ کر لے گیا تھا ‘‘ ۔ ایک سپاہی نے دوسرے سپاہی کے کان میں سرگوشی کی ’’ میں یہاں خفیہ مشن پر آیا ہوں ‘‘ جب پوچھا گیا کہ کس مشن پر تو جواب ملا ’’ مشن اتنا خفیہ ہے کہ ابھی تک ایس پی صاحب نے مجھے بھی نہیں بتایا ‘‘۔ ایک پولیس اہلکار شربت کا گلاس رکھ کر بیٹھا تھا کہ اسکا دوست آیا اور آتے ہی بنا پوچھے شربت پی گیا ،یہ دیکھ کر پولیس اہلکار بولا ’’ تمہارا کوئی قصور نہیں ،آج میرادن ہی خراب چل رہا ہے، پہلے صبح مجھے معطل کر دیا گیا ، پھر میری موٹر سائیکل چوری ہوگئی،ویگن میں بیٹھا تو کسی نے جیب کاٹ لی ،دو گھنٹے پہلے بیوی سے لڑائی ہوئی تو وہ بچوں کو لیکر میکے چلی گی اور اب شربت میں زہر ملا کر خودکشی کرنے والا تھا کہ شربت تم پی گئے مگر تمہارا کیا قصور، آج میرا دن ہی خراب چل رہا ہے ‘‘۔ گذشتہ سال برطانیہ میں ہوئے ایک سروے سے پتا چلا کہ دنیا کی سب سے اچھی پولیس آئس لینڈ کی جو 1778میں وجود میں آئی اوریہ پولیس ہوکر بھی ایسی معصوم کہ بندوق تک نہ چلا سکے لہذا مشکل وقت میں اس کا سب سے بڑا ہتھیار ڈنڈا اور سرخ مرچیں ،دوسرے نمبر پر آئرلینڈ کی پولیس ، آسٹریا کی تیسرے ،نیوزی لینڈ کی چوتھے اور چین کی پولیس پانچویں نمبر پر ،اسی سروے نے بتایا کہ 16لاکھ فورس کے ساتھ چین کی پولیس سب سے بڑی ،15لاکھ 85ہزار ملازمین پر مشتمل بھارت کی پولیس کا نمبر دوسرا جبکہ 8لاکھ پولیس کے ساتھ امریکہ تیسرے نمبر پر اور اس فہرست میں پاکستان کا دسواں نمبراور اسی سروے کے مطابق دنیا کی کرپٹ ترین پولیس ہیٹی کی ، میکسیکو کی دوسری اورکینیا کی پولیس کی تیسری پوزیشن اور گو کہ کرپشن میں پاکستانی پولیس دسویں نمبر پر مگر یہ آگے ایسے بڑھتی ہوئی کہ اب تو یوں لگے کہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘‘ ، ویسے اپنی پولیس کے کیا کہنے ،باہر کی پولیس تو وہ چیزیں ڈھونڈے جو کھوئی ہوتی ہیں لیکن ہماری پولیس تو وہ چیزیں بھی ڈھونڈ لے جو ابھی کھونا ہوتی ہیں، اپنی پولیس کبھی شک کی بنا پر پکڑا کرتی تھی مگر اب تو بنا شک کے بھی دھرلے ،پہلے یہ بالغوں پر ہاتھ ڈالا کرتی تھی لیکن اب تو بچے بھی اس سے محفوظ نہیں اور پھر اس کی تفتیش ایسی کہ اگر اسے چند گھنٹے مل جائیں تو اوبامہ بھی کہہ اٹھے کہ’’ میرا نام اسامہ اور نائن الیون کا ماسٹر مائنڈ میں ہی ‘‘ ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار ہٹلر کی گھڑی گم ہونے پر جب تفتیش شروع ہوئی تو شام تک 20افراد یہ اقرار کر چکے تھے کہ گھڑی اُنہوں نے چرائی ،یقین جانیئے اگریہ تفتیش اپنی پولیس کومل جاتی تو شام سے پہلے ہٹلر خود کہہ رہا ہوتا کہ ’’ حضور معاف کر دیں ، میں نے اپنی گھڑی خود ہی چرالی تھی ‘‘ ۔ ہمارا ایک پولیس افسر دوست جو بڑا ہی مادہ پرست یہاں مادہ سے مراد وہی ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں ، جس کی نظر سکول کے زمانے سے ہی خراب لہذا جس کو بھی دیکھے خراب نظر سے ہی دیکھے ،جسے کالج دور میں جب پروفیسر صاحب نے پوچھا کہ ’’اگر تمہیں کہیں تنہا لڑکی مل جائے تو کیا کرو گے ‘‘ تو یہ بولا ’’ سر لڑکی کی تصویر دکھائیں ‘‘ ، جسکی طبیعت ایسی کہ اگر یہ ٹیپو سلطان ہوتاتو ’’گید ڑکی 100سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر کہہ کرپھر 100سال زندہ رہتا اور اگر یہ سلطان محمود غزنوی ہوتا تو سترہواں حملہ پہلے کرتا جبکہ باقی 16حملے بعد میں ، جو بولتے وقت کان ،لفظ اور غصہ بہت کھائے ، جسکی باتوں میں اتنا وزن کہ چند منٹوں میں ہی بندے کو اپنا سر بھاری لگنے لگے ، جو دو منٹ میں بندے کو قائل کرلے جیسے اگر وہ آپ کو وقت ضائع ہونے پر لیکچر دے رہا ہو تو 2منٹ میں ہی آپ قائل ہوجائیں گے کہ آپ کا وقت ضائع ہو رہا ہے،جسے پرندے بہت اچھے لگتے ہیں بشرطیکہ وہ بھُنے ہوئے ہوں ،جسے اسکے مرشد نے جب کہا کہ وزن کم کرو زندگی سکھی ہو جائے گی تو اس نے اگلے ہی دن بیوی کو طلاق دیدی،جوشکی ایسا کہ اکثر کہے ’’ جوتم دیکھتے ہو اس پر بھی فوراً یقین نہ کر لیا کرو کیونکہ نمک چکھنے سے پہلے چینی کی طرح ہی دکھائی دیتا ہے‘‘، اور جو جب لاہور کا ٹریفک انچارج تھا تو کہا کرتا ’’ لوگوں کی ڈرائیونگ دیکھ کر ایسے لگتا ہے کہ سٹرک تو انکی اپنی ہے مگر گاڑی اپنی نہیں ‘‘ ، ہمارے اسی پولیس افسر دوست کا کہنا ہے کہ ’’اپنے ہاں وہ کام برا جودوسرا کرے اور وہ کام بڑا جو بندہ خود کرے ‘‘، اسی کا ماننا ہے کہ پاکستان میں ایماندار دو قسم کے ایک وہ جنہیں کچھ کرنے کا موقع نہیں ملا اور دوسرے وہ جو بے وقوف ہیں ، یہی سب کو مشورہ دے کہ’’ ملزم ہو یا مجرم اسکا دل مت توڑنا کیونکہ بند ے کے پاس دل ایک ہی، ہاں البتہ ہڈیاں چاہے جتنی توڑدوکیونکہ کسی جسم میں کم سے کم ہڈیاں بھی 206 اور ہمارا یہی دوست اپنی 25سالہ سروس کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ’’ پولیس سے کرپشن کا خاتمہ اسی صورت ممکن ہے کہ حکومت کسی اچھے مترجم سے لفظ ’’کرپشن ‘‘ کا ارد و میں ترجمہ کر وادے ‘‘۔ ابھی پچھلے ماہ ہوئے اک سروے کے مطابق 97فیصد پاکستانیوں نے اپنی پولیس کوبُرا بھلا کہا ،یہاں پولیس کا امیج ایسا کہ پولیس والامر تا مر جائے تو بھی کسی منہ سے خیر کا ایک لفظ تک نہ نکلے حالانکہ سوچنے کی بات تو یہ کہ وی آئی پیز کی ذاتی ملازم بن چکی پولیس کو ہم نے دیا کیا ، وہ جن گھروں کی ڈیوٹیاں کر یں ان گھروں کے ایک دن کا ناشتہ انکی پورے مہینے کی تنخواہ سے زیادہ ، انکی گاڑیاں وہ جو دھکا سٹارٹ ، اسلحہ وہ جو فلموں میں بھی نہ چلے ، زیادہ تر تھانوں کی حالت ابھی بھی ایسی کہ بھوتوں کی ماڈرن نسل تک ان ویران وبیابان جگہوں پر رہنا پسند نہ کرے اور اوپر سے مسلسل سیاسی اور غیر سیاسی مداخلت نے محکمے کا وہ حال کر دیا جو حال کل تک تحریکِ انصاف کا تھا یا جو حال آج پیپلز پارٹی کا ہے ،اور پھر اپنی پولیس اُس ملک میں کام کررہی کہ جہاں کا میڈیا اپنے بچپن میں بھی ایسا دوراندیش تھا کہ بہت پہلے ایک اخبار نے اداکار مظہر شاہ کی وفات کی خبر چھاپ دی،اگلے دن پتا چلا کہ وہ بیمار ضرور مگر ابھی زندہ ہیں، خیر چند ہفتوں بعد جب واقعی ان کا انتقال ہو گیا تو اسی اخبار نے یہ خبر چھاپی کہ ’’ دوسرے اخبارات تو مظہر شاہ کی موت کی خبر آج شائع کر رہے ہیں ہمیں تو یہ اعزاز حاصل کہ ہم نے 22روز قبل ہی یہ خبر شائع کر دی تھی‘‘،اورتو اور لیڈ ی ڈیانا کو بھی پہلی بار ہمارے ہی ایک اخبار نے یہ اطلاع دی تھی کہ ’’بی بی آپ امید سے ہیں‘‘، اورپھر یہ وہ ملک کہ جہاں ہرشخص کی جیب میں سفارش، جہاں بجلی کا بل جمع کروانے والا بھی شارٹ کٹ ڈھونڈے اورجہا ں 95فیصد لوگوں کی ذہنی حالت ایسی کہ ایک مریض کی تازہ رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر نے جب کہا کہ’’ اللہ کا اپنا نظام ہے مگر لگتا یہی ہے کہ اب آپ کے پاس تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے ‘‘ تو پانچ ہزار کا نوٹ ڈاکٹر کی جیب میں ڈال کر یہ مریض بولا ’’ڈاکٹر صاحب یہ تھوڑا وقت کم ازکم 5سال ضرور ہونا چاہیے ‘‘ ۔ اب ان حالات میں اگر باہر کی پولیس کو یہاں کام کرنا پڑتا تو اسکا بھی ق لیگ کی طرح کام تمام ہو چکا ہوتا ، یہ تو ہماری پولیس ہی کہ جو نہ صرف ان حالات میں بھی ہر وقت کام کرتی اور ہرگھڑی کام ڈالتی ہوئی بلکہ اوپرسے اسکی دن بدن بہتر ہوتی کارکردگی بھی ایسی کہ بے اختیار وہ سردار جی یاد آجائیں کہ جنہوں نے جب اپنے بیٹے سے پوچھا کہ ’’9کو 8سے ضرب دی جائے تو کیا جواب آئے گا‘‘ ،لڑکا بولا76تو سردار نے خوش ہو کر پہلے بیٹے کی کمر تھپکائی اور پھر انعام کے طورپر اسے چاکلیٹ دیدی ،مگر پاس کھڑے سردار جی کے دوست نے یہ سب دیکھ کر حیران وپریشان ہو کر کہا’’ 9کو 8سے ضرب دی جائے تو جواب 72 آتا ہے اور تم غلط جواب دینے پر بیٹے کو شاباشیاں دے رہے ہو ‘‘، سردار جی بڑے اطمینان سے بولے ’’ میرا بیٹا دن بدن بہتر ہو رہا ہے ،ابھی کل ہی اس نے 9کو 8سے ضرب دے کر جواب 80 بتایا تھا ‘‘۔