Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

Al-Humdollilah!

- Posted in Audio/Video Posts by with comments

Al-Humdollilah! A Column By Irshad Bhatti on Daily Jang on 12 April 2016, Voice of Tahir Saddique

حسین نواز کی اقراری الحمد للہ ہو یا بچوں کی محبت میں وزیراعظم کی ا نکاری الحمد للہ ، خود ہی ملزم ،خود ہی وکیل اور خود ہی منصف مطلب شاہ سے زیادہ شاہ کی حکومتی وفاداری الحمد للہ ہو یا دیواروں سے سر پھوڑتی منتشر اپوزیشن کی بے یارومددگاری الحمد للہ ، بھینسوں کے آگے بین بجاتے میڈیا کی آہ و زاری الحمد للہ ہو یا معجزوں کی آس میں دم سادھے بیٹھی تما ش بین قوم کی تابعداری الحمد للہ ۔۔ الحمد للہ جیسے پہلے یہاں کبھی کوئی بڑا معاملہ سِرے نہیں چڑھا الحمد للہ ویسے ہی پاناما لیکس سے بھی کچھ نہیں نکلے گاکیونکہ اس دیس میں اوپر سے نیچے تک بے ایمانی ہی وہ واحد کام رہ گیا جو الحمد للہ بڑی ایمانداری سے ہو۔ جیسے کہا ہونا تو کچھ نہیں مگر پھر بھی کہانی ضرور سناؤں گا ، لیکن کہانی سے پہلے دو سوال ، پہلا سوال یہ کہ حسن اور حسین کا تعلق پاکستان سے اور ان کا کاروبار تھا سعود ی عرب اور برطانیہ میں مگر پیسے پاناما میں۔۔ کیوں ؟ اور دوسرا سوال یہ کہ جن کی کمپنیاں اور پیسے لیگل ہوں وہ بھلا اس طرح کی چھپن چھپائی کھیلتے ہیں ؟ اب ان سوالوں کو ذہن میں رکھ کر کہانی شروع سے شروع کرتے ہیں ، 8دس ماہ پہلے رابطہ کرنے پرا پنی آف شور کمپنیوں پر بات کرنے سے بھی انکاری حسین نواز کو جب یہ یقین ہو گیا کہ رازاب راز نہیں رہے گا تو ایک طویل صلاح مشورے کے بعد اُنہوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پہلی بار دو ٹی وی پروگراموں میں اپنی آف شور کمپنیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ اس طرح کی کہانی سنائی ’’ جب ہم جلاوطن ہوئے تو خالی ہاتھ تھے ،یہ تو میں نے 2005میں چند دوستوں اور کچھ بینکوں سے قرضہ لے کر بند پڑی ایک سٹیل مل خرید ی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس مل نے مجھے اتنا کما کر دید یا کہ نہ صرف دوستوں اور بینکوں کا قرضہ اتارا، برطانیہ میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں 1200ملین ڈالر لگائے بلکہ باقی بچی ڈبل ٹرپل حق حلال کی رقم آف شور کمپنیوں میں بھی رکھ دی ‘‘ اب یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی یہ جاننے کیلئے اِک نظر دنیا کے سٹیل کاروبارپر ، اس وقت60ملکوں میں 2لاکھ10ہزار ملازمین اور 9کروڑ 80لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی سٹیل کمپنی آرسلر متل ہو یا 26ملکوں میں 80ہزار ملازمین اور 2کروڑ 60لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کیساتھ دنیا کی 10ویں بڑی سٹیل کمپنی ٹاٹا ہو، 61700ملازمین اور ایک کروڑ 60لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کے ساتھ دنیا کی 20ویں بڑی روسی سٹیل کمپنی نوو سلیکٹس ہو یا 140ملکوں میں 11400ملازمین اور ایک کروڑ40لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کے ساتھ دنیا کی 30ویں بڑی سٹیل کمپنی جے ایس ڈبلیو ہو ان تمام ٹاپ 30 کمپنیوں میں روسی سٹیل کمپنی نووسلیکٹس وہ کہ جس نے گذشتہ سال سب سے زیادہ 8سو ملین ڈالر منافع کمایا ، اب آتے ہیں حسین نواز کی کہانی کی طرف ، انہوں نے جو اعداد وشمار بتائے اس کے مطابق انکی صرف ایک ملک میں صرف 4سو ملازمین کے ساتھ صرف 5سے 10لاکھ ٹن سالانہ پیداوار دینے والی سٹیل مل کا 6سالہ منافع دنیا کی نمبرایک منافع بخش روسی سٹیل کمپنی کے 10سالہ منافع سے بھی زیادہ ، ظاہر ہے یہ ممکن ہی نہیں تو مطلب حسین نواز کی کہانی بھی سچی نہیں ،اب اگر یہ کہانی سچی نہیں تو پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس یہ پیسہ آیا کہاں سے،تو اس کا جواب بھی سن لیں ۔ معاشی جرائم پر اتھارٹی سمجھے جانے والے نامور امریکی تاجر ،محقق اور ماہر معاشیات ریمنڈ ڈبلیو بیکر کی 2005میں ایک کتاب آئی ، دنیا بھر کے حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار پراس کتاب" "Capitalism's Achilles Heel میں نوازاور بے نظیر حکومتوں کی کرپشن پر بڑی تفصیل سے لکھا گیااور دلچسپ بات یہ کہ اس کتاب کوشائع ہوئے 11سال ہو گئے مگر آج تک کسی نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو پر لگے الزامات کی تردید تک نہیں کی ۔ ریمنڈ بیکرلکھتے ہیں کہ ’’1980کی دہائی میں سیاسی سفر اور سرکاری عہدوں سے پہلے شریف خاندان کے پاس صرف ایک فیکٹری تھی لیکن جونہی شریف برادران نے ضیاء کی چھتری تلے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تو انکے کاروبار کوبھی پرَ لگ گئے اور پھر 1990 تک پہنچتے پہنچتے ایک فیکٹری کی 30فیکٹریا ں ہو گئیں ‘‘ ۔ ریمنڈ بیکر نے لکھا ’’اُن دنوں پیسہ ایسے بنایا جارہا تھا کہ نواز حکومت نے جب سپرہائی وے منصوبہ شروع کیا تو یہ منصوبہ ساڑھے 8ارب کا تھا مگریہ مکمل ہوا 20ارب میں، پھر ایکدن بیٹھے بٹھائے حکومت نے 50ہزار کسٹم فری گاڑیاں منگوا کر پہلے یہ گاڑیاں 10فیصد ڈاؤن پیمنٹ پر زبردستی بینکوں کو دیدیں اور پھر بینکوں سے اپنے من پسند افرادمیں آسان اقساط میں تقسیم کر وادیں ،یہ تو بعد میں پتا چلا کہ اس چکر میں جہاں حکومت کا 700ملین ڈالر کانقصان ہوا وہاں جب 60فیصد لوگ نادہندہ ہوئے تو 500 ملین ڈالر بینکوں کے بھی ڈوب گئے ، ریمنڈ بیکر کے مطابق حکمران خاندان نے تعمیراتی کاموں کیلئے 140ملین ڈالر کے قرضے بھی لیئے اور امریکہ اور کینیڈا گندم درآمد کر کے 58ملین ڈالر بھی کما ئے مگر جب میاں نواز شریف کو پہلی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو اچانک پتا یہ چلا کہ بظاہر اچھا بھلا چلتا اتفاق گروپ نہ صرف 60ملین ڈالر کا ڈیفالٹر تھا بلکہ 5.7ارب کے خسارے میں جا چکے گروپ کے 30یونٹوں میں سے صرف 3یونٹ آپریشنل تھے ، یہ رام کہانی سنا کر ریمنڈ بیکر نے پھر 2005میں ہی یہ بھی بتا دیا کہ ’’اتفاق گروپ اس دیوالیہ پن کے اس لیئے قریب جا پہنچا تھا کیونکہ وہ خفیہ طریقے سے سب سرمایہ باہر بھجوا چکا تھا اور شریف خاندان نے انہی دنوں سمندر پار 3کمپنیاں Nescoll, Nielsonاور Shamrock بنا کر سرمایہ ان کمپنیوں میں رکھنے اور برطانیہ میں پراپرٹی خریدنا شروع کر دی تھی ۔دوستو یہاں یہ بتانابہت ضروری کہ پاناما لیکس میں سامنے آنے والی شریف خاندان کی کمپنیوں میں سے Nescollاور Nielsonوہی 2 کمپنیاں کہ جن کے بارے میں ریمنڈ بیکر نے 2005میں ہی بتا دیا تھا، اس کا مطلب آف شور کمپنیاں بنیں 90کی دہائی میں اور حسین نواز کی سٹیل کہانی شروع ہوئی 2005میں، اب بھی اگر کوئی نہ مانے تو یہ اس کی مرضی ! باقی رہ گیا میاں نواز شریف کا خطاب تو یقین جانیئے اولاد کی محبت میں انہیں قوم سے مخاطب دیکھ کر مجھے بے اختیار جہاں یہ فرمانِ الہی یاد آیا کہ ’’ بلاشبہ اولاد اورمال ایک آزمائش‘‘ ، جہاں مجھے نبی ؐ کا یہ قول یاد آگیا کہ ’’ ہر اُمت کا ایک فتنہ اور میری اُمت کا فتنہ مال ‘‘ ، وہاں بے اختیار مجھے یہ بھی یادآیا کہ یہ بھی پاکستان ہی تھا کہ جہاں گورنر جنرل محمد علی جناح ؒ نے مشرقی پاکستان کا دورہ کرناتھا تو مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ چونکہ قائد کا طیارہ چھوٹا تھا لہذا اسے ری فیول کرنے کیلئے ہر صورت بھارت میں رکنا پڑتا ، اب ایک تو قائد کی صحت ایسی نہ تھی کہ راستے میں رکا جائے اورد وسرا قائد خود ہندوستان کی سرزمین پر رکنا نہیں چاہتے تھے لہذا بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ 5سو پاؤنڈ کے کرائے پر برطانوی کمپنی سے طیارہ لے لیا جائے، لیکن جب یہ بات جناح کے علم میں لائی گئی تو اُنہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’یہ فضول خرچی ہے ‘‘ اور پھر چھوٹے طیارے کو تیل کا اضافی ٹینک لگا کر قائد کو مشرقی پاکستان لے جایا گیا،یہ بھی پاکستان ہی تھا کہ جہاں قائد نے خود بیٹھ کر فلیگ ہاؤس کا سٹاف کم کرکے ماہانہ 110روپے اور گورنر جنرل کی رہائش گاہ کا سٹاف کم کرکے ماہانہ 87روپے بچائے اور گاندھی کے قتل کے بعد گورنر جنرل ہاؤس کی حفاظتی دیوار کے منصوبے کو یہ کہہ کررد کر دیا کہ ’’ جب ہر پاکستانی کو رہنے کیلئے چھت مل جائے گی تب میں بھی اپنی حفاظت کیلئے دیوارتعمیر کروالوں گا‘‘ اور یہ بھی پاکستان ہی تھا کہ جسکے پہلے حکمران قائدِاعظم ؒ نے اپنی ساری جائیداد تعلیمی اور فلاحی اداروں کیلئے وقف کردی مگر شائد وہ قائد کا پاکستان تھا اور یہ ہمارا پاکستان ہے ،جی ہاں ہمارا پاکستان جہاں ایک طرف غریبوں کیلئے الحمد للہ ایسا قانون کہ ایک ہزار کا دھنیا چوری کرنے والا ایک سال جیل کاٹ کر بمشکل سپریم کورٹ سے ضمانت کروا سکے جبکہ دوسری طرف الحمد للہ حالت یہ کہ حسین نواز کی اقراری الحمد للہ ہو یا بچوں کی محبت میں وزیراعظم کی ا نکاری الحمد للہ ، خود ہی ملزم،خود ہی وکیل اور خود ہی منصف مطلب شاہ سے زیادہ شاہ کی حکومتی وفاداری الحمد للہ ہو یا دیواروں سے سر پھوڑتی منتشر اپوزیشن کی بے یارومددگاری الحمد للہ ، بھینسوں کے آگے بین بجاتے میڈیا کی آہ و زاری الحمد للہ ہو یا معجزوں کی آس میں دم سادھے بیٹھی تما ش بین قوم کی تابعداری الحمد للہ ۔۔ الحمد للہ جیسے پہلے یہاں کبھی کوئی بڑا معاملہ سِرے نہیں چڑھا الحمد للہ ویسے ہی پاناما لیکس سے بھی کچھ نہیں نکلے گاکیونکہ اس دیس میں اوپر سے نیچے تک بے ایمانی ہی وہ واحد کام رہ گیا جو الحمد للہ بڑی ایمانداری سے ہو۔

! الحمد للہ

- Posted in Amaal Nama by with comments

حسین نواز کی اقراری الحمد للہ ہو یا بچوں کی محبت میں وزیراعظم کی ا نکاری الحمد للہ ، خود ہی ملزم ،خود ہی وکیل اور خود ہی منصف مطلب شاہ سے زیادہ شاہ کی حکومتی وفاداری الحمد للہ ہو یا دیواروں سے سر پھوڑتی منتشر اپوزیشن کی بے یارومددگاری الحمد للہ ، بھینسوں کے آگے بین بجاتے میڈیا کی آہ و زاری الحمد للہ ہو یا معجزوں کی آس میں دم سادھے بیٹھی تما ش بین قوم کی تابعداری الحمد للہ ۔۔ الحمد للہ جیسے پہلے یہاں کبھی کوئی بڑا معاملہ سِرے نہیں چڑھا الحمد للہ ویسے ہی پاناما لیکس سے بھی کچھ نہیں نکلے گاکیونکہ اس دیس میں اوپر سے نیچے تک بے ایمانی ہی وہ واحد کام رہ گیا جو الحمد للہ بڑی ایمانداری سے ہو۔ جیسے کہا ہونا تو کچھ نہیں مگر پھر بھی کہانی ضرور سناؤں گا ، لیکن کہانی سے پہلے دو سوال ، پہلا سوال یہ کہ حسن اور حسین کا تعلق پاکستان سے اور ان کا کاروبار تھا سعود ی عرب اور برطانیہ میں مگر پیسے پاناما میں۔۔ کیوں ؟ اور دوسرا سوال یہ کہ جن کی کمپنیاں اور پیسے لیگل ہوں وہ بھلا اس طرح کی چھپن چھپائی کھیلتے ہیں ؟ اب ان سوالوں کو ذہن میں رکھ کر کہانی شروع سے شروع کرتے ہیں ، 8دس ماہ پہلے رابطہ کرنے پرا پنی آف شور کمپنیوں پر بات کرنے سے بھی انکاری حسین نواز کو جب یہ یقین ہو گیا کہ رازاب راز نہیں رہے گا تو ایک طویل صلاح مشورے کے بعد اُنہوں نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت پہلی بار دو ٹی وی پروگراموں میں اپنی آف شور کمپنیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ اس طرح کی کہانی سنائی ’’ جب ہم جلاوطن ہوئے تو خالی ہاتھ تھے ،یہ تو میں نے 2005میں چند دوستوں اور کچھ بینکوں سے قرضہ لے کر بند پڑی ایک سٹیل مل خرید ی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس مل نے مجھے اتنا کما کر دید یا کہ نہ صرف دوستوں اور بینکوں کا قرضہ اتارا، برطانیہ میں رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں 1200ملین ڈالر لگائے بلکہ باقی بچی ڈبل ٹرپل حق حلال کی رقم آف شور کمپنیوں میں بھی رکھ دی ‘‘ اب یہ کہانی سچی ہے یا جھوٹی یہ جاننے کیلئے اِک نظر دنیا کے سٹیل کاروبارپر ، اس وقت60ملکوں میں 2لاکھ10ہزار ملازمین اور 9کروڑ 80لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی سٹیل کمپنی آرسلر متل ہو یا 26ملکوں میں 80ہزار ملازمین اور 2کروڑ 60لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کیساتھ دنیا کی 10ویں بڑی سٹیل کمپنی ٹاٹا ہو، 61700ملازمین اور ایک کروڑ 60لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کے ساتھ دنیا کی 20ویں بڑی روسی سٹیل کمپنی نوو سلیکٹس ہو یا 140ملکوں میں 11400ملازمین اور ایک کروڑ40لاکھ ٹن سالانہ پیداوار کے ساتھ دنیا کی 30ویں بڑی سٹیل کمپنی جے ایس ڈبلیو ہو ان تمام ٹاپ 30 کمپنیوں میں روسی سٹیل کمپنی نووسلیکٹس وہ کہ جس نے گذشتہ سال سب سے زیادہ 8سو ملین ڈالر منافع کمایا ، اب آتے ہیں حسین نواز کی کہانی کی طرف ، انہوں نے جو اعداد وشمار بتائے اس کے مطابق انکی صرف ایک ملک میں صرف 4سو ملازمین کے ساتھ صرف 5سے 10لاکھ ٹن سالانہ پیداوار دینے والی سٹیل مل کا 6سالہ منافع دنیا کی نمبرایک منافع بخش روسی سٹیل کمپنی کے 10سالہ منافع سے بھی زیادہ ، ظاہر ہے یہ ممکن ہی نہیں تو مطلب حسین نواز کی کہانی بھی سچی نہیں ،اب اگر یہ کہانی سچی نہیں تو پھر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس یہ پیسہ آیا کہاں سے،تو اس کا جواب بھی سن لیں ۔ معاشی جرائم پر اتھارٹی سمجھے جانے والے نامور امریکی تاجر ،محقق اور ماہر معاشیات ریمنڈ ڈبلیو بیکر کی 2005میں ایک کتاب آئی ، دنیا بھر کے حکمرانوں کی کرپشن اور لوٹ مار پراس کتاب" "Capitalism's Achilles Heel میں نوازاور بے نظیر حکومتوں کی کرپشن پر بڑی تفصیل سے لکھا گیااور دلچسپ بات یہ کہ اس کتاب کوشائع ہوئے 11سال ہو گئے مگر آج تک کسی نے نواز شریف اور بے نظیر بھٹو پر لگے الزامات کی تردید تک نہیں کی ۔ ریمنڈ بیکرلکھتے ہیں کہ ’’1980کی دہائی میں سیاسی سفر اور سرکاری عہدوں سے پہلے شریف خاندان کے پاس صرف ایک فیکٹری تھی لیکن جونہی شریف برادران نے ضیاء کی چھتری تلے اپنا سیاسی سفر شروع کیا تو انکے کاروبار کوبھی پرَ لگ گئے اور پھر 1990 تک پہنچتے پہنچتے ایک فیکٹری کی 30فیکٹریا ں ہو گئیں ‘‘ ۔ ریمنڈ بیکر نے لکھا ’’اُن دنوں پیسہ ایسے بنایا جارہا تھا کہ نواز حکومت نے جب سپرہائی وے منصوبہ شروع کیا تو یہ منصوبہ ساڑھے 8ارب کا تھا مگریہ مکمل ہوا 20ارب میں، پھر ایکدن بیٹھے بٹھائے حکومت نے 50ہزار کسٹم فری گاڑیاں منگوا کر پہلے یہ گاڑیاں 10فیصد ڈاؤن پیمنٹ پر زبردستی بینکوں کو دیدیں اور پھر بینکوں سے اپنے من پسند افرادمیں آسان اقساط میں تقسیم کر وادیں ،یہ تو بعد میں پتا چلا کہ اس چکر میں جہاں حکومت کا 700ملین ڈالر کانقصان ہوا وہاں جب 60فیصد لوگ نادہندہ ہوئے تو 500 ملین ڈالر بینکوں کے بھی ڈوب گئے ، ریمنڈ بیکر کے مطابق حکمران خاندان نے تعمیراتی کاموں کیلئے 140ملین ڈالر کے قرضے بھی لیئے اور امریکہ اور کینیڈا گندم درآمد کر کے 58ملین ڈالر بھی کما ئے مگر جب میاں نواز شریف کو پہلی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ سے ہٹایا گیا تو اچانک پتا یہ چلا کہ بظاہر اچھا بھلا چلتا اتفاق گروپ نہ صرف 60ملین ڈالر کا ڈیفالٹر تھا بلکہ 5.7ارب کے خسارے میں جا چکے گروپ کے 30یونٹوں میں سے صرف 3یونٹ آپریشنل تھے ، یہ رام کہانی سنا کر ریمنڈ بیکر نے پھر 2005میں ہی یہ بھی بتا دیا کہ ’’اتفاق گروپ اس دیوالیہ پن کے اس لیئے قریب جا پہنچا تھا کیونکہ وہ خفیہ طریقے سے سب سرمایہ باہر بھجوا چکا تھا اور شریف خاندان نے انہی دنوں سمندر پار 3کمپنیاں Nescoll, Nielsonاور Shamrock بنا کر سرمایہ ان کمپنیوں میں رکھنے اور برطانیہ میں پراپرٹی خریدنا شروع کر دی تھی ۔دوستو یہاں یہ بتانابہت ضروری کہ پاناما لیکس میں سامنے آنے والی شریف خاندان کی کمپنیوں میں سے Nescollاور Nielsonوہی 2 کمپنیاں کہ جن کے بارے میں ریمنڈ بیکر نے 2005میں ہی بتا دیا تھا، اس کا مطلب آف شور کمپنیاں بنیں 90کی دہائی میں اور حسین نواز کی سٹیل کہانی شروع ہوئی 2005میں، اب بھی اگر کوئی نہ مانے تو یہ اس کی مرضی ! باقی رہ گیا میاں نواز شریف کا خطاب تو یقین جانیئے اولاد کی محبت میں انہیں قوم سے مخاطب دیکھ کر مجھے بے اختیار جہاں یہ فرمانِ الہی یاد آیا کہ ’’ بلاشبہ اولاد اورمال ایک آزمائش‘‘ ، جہاں مجھے نبی ؐ کا یہ قول یاد آگیا کہ ’’ ہر اُمت کا ایک فتنہ اور میری اُمت کا فتنہ مال ‘‘ ، وہاں بے اختیار مجھے یہ بھی یادآیا کہ یہ بھی پاکستان ہی تھا کہ جہاں گورنر جنرل محمد علی جناح ؒ نے مشرقی پاکستان کا دورہ کرناتھا تو مسئلہ یہ پیدا ہوگیا کہ چونکہ قائد کا طیارہ چھوٹا تھا لہذا اسے ری فیول کرنے کیلئے ہر صورت بھارت میں رکنا پڑتا ، اب ایک تو قائد کی صحت ایسی نہ تھی کہ راستے میں رکا جائے اورد وسرا قائد خود ہندوستان کی سرزمین پر رکنا نہیں چاہتے تھے لہذا بڑی سوچ بچار کے بعد فیصلہ ہوا کہ 5سو پاؤنڈ کے کرائے پر برطانوی کمپنی سے طیارہ لے لیا جائے، لیکن جب یہ بات جناح کے علم میں لائی گئی تو اُنہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ’’یہ فضول خرچی ہے ‘‘ اور پھر چھوٹے طیارے کو تیل کا اضافی ٹینک لگا کر قائد کو مشرقی پاکستان لے جایا گیا،یہ بھی پاکستان ہی تھا کہ جہاں قائد نے خود بیٹھ کر فلیگ ہاؤس کا سٹاف کم کرکے ماہانہ 110روپے اور گورنر جنرل کی رہائش گاہ کا سٹاف کم کرکے ماہانہ 87روپے بچائے اور گاندھی کے قتل کے بعد گورنر جنرل ہاؤس کی حفاظتی دیوار کے منصوبے کو یہ کہہ کررد کر دیا کہ ’’ جب ہر پاکستانی کو رہنے کیلئے چھت مل جائے گی تب میں بھی اپنی حفاظت کیلئے دیوارتعمیر کروالوں گا‘‘ اور یہ بھی پاکستان ہی تھا کہ جسکے پہلے حکمران قائدِاعظم ؒ نے اپنی ساری جائیداد تعلیمی اور فلاحی اداروں کیلئے وقف کردی مگر شائد وہ قائد کا پاکستان تھا اور یہ ہمارا پاکستان ہے ،جی ہاں ہمارا پاکستان جہاں ایک طرف غریبوں کیلئے الحمد للہ ایسا قانون کہ ایک ہزار کا دھنیا چوری کرنے والا ایک سال جیل کاٹ کر بمشکل سپریم کورٹ سے ضمانت کروا سکے جبکہ دوسری طرف الحمد للہ حالت یہ کہ حسین نواز کی اقراری الحمد للہ ہو یا بچوں کی محبت میں وزیراعظم کی ا نکاری الحمد للہ ، خود ہی ملزم،خود ہی وکیل اور خود ہی منصف مطلب شاہ سے زیادہ شاہ کی حکومتی وفاداری الحمد للہ ہو یا دیواروں سے سر پھوڑتی منتشر اپوزیشن کی بے یارومددگاری الحمد للہ ، بھینسوں کے آگے بین بجاتے میڈیا کی آہ و زاری الحمد للہ ہو یا معجزوں کی آس میں دم سادھے بیٹھی تما ش بین قوم کی تابعداری الحمد للہ ۔۔ الحمد للہ جیسے پہلے یہاں کبھی کوئی بڑا معاملہ سِرے نہیں چڑھا الحمد للہ ویسے ہی پاناما لیکس سے بھی کچھ نہیں نکلے گاکیونکہ اس دیس میں اوپر سے نیچے تک بے ایمانی ہی وہ واحد کام رہ گیا جو الحمد للہ بڑی ایمانداری سے ہو۔

kalam-e-Iqbal by Rahat Fateh Ali Khan -Apna Muqam paida kar (complete)

Talaq Ki Sab Se Bari Waja Shadi! A Column By Irshad Bhatti on Daily Jang on 7th April 2016, Voice of Tahir Saddique

ایک شوہر نے ملنگ بابا سے کہا ’’حضور بیوی سے بہت تنگ ہوں ،کوئی وظیفہ بتا دیں ‘‘ جواب مِلا’’اگر میرے پاس وظیفہ ہوتا تو میں ملنگ ہوتا‘‘۔بیوی نے انتہائی غصے سے خاوند کو فون کیا’’ ڈرائیور کو نوکری سے نکال رہی ہوں ،اس بیوقوف کی وجہ سے میں آج دوسری بار مرتے مرتے بچی ‘‘ خاوند بولا’’ جانی پلیز اسے ایک موقع اور دو‘‘۔ ایک شخص ڈاکٹر سے کہنے لگا ’’ مجھے عجیب سی بیماری لگ گئی ہے جب بھی میری بیوی بولتی ہے تو مجھے کچھ سنائی ہی نہیں دیتا ‘‘ ڈاکٹر بولا ’’ بیوقوف یہ بیماری نہیں یہ تو اللہ کی رحمت ہے ‘‘ ۔ بیگم نے لاڈ بھرے اندازمیں کہا ’’ دیکھو نا سامنے والے حاجی صاحب صبح دفتر جاتے ہوئے بیوی سے کتنا پیار کرتے ہیں ،تمہارا دل نہیں کرتا ‘‘ شوہر بولا ’’دل تو میرا بھی بہت کرتا ہے مگر حاجی صاحب سے ڈر لگتا ہے ‘‘۔ میکے گئی بیگم کا صبح صبح خاوند کو موبائل میسج آیا’’ اُٹھ بھی جاؤ جانو زیادہ سونا نہیں ، سرف بنا رات کے برتن دھونا نہیں ‘‘ آدھا سویا آدھا جاگا خاوند کچن میں کھڑا ابھی جمائیاں ہی لے رہا تھا کہ بیگم کا دوسرا میسج آگیا ’’ انڈے کچن میں ہی ہیں ڈھونڈ لینا ،پراٹھے کیلئے آٹا اچھی طرح گوندھ لینا ‘‘خاوند ابھی انڈے پکڑے یہی سوچ رہا تھا کہ فرائی یا آملیٹ تو موبائل پھر بجا اور اس بار میسج تھا کہ ’’ لہسن چھیلنے سے پہلے دھو نا نہیں، پیاز کاٹتے وقت بالکل رونا نہیں ‘‘ بہتے آنسوؤں میں پیاز کاٹ کر آملیٹ بناتے خاوند کوپھر میسج آگیا ’’مجھے بھجوا کر موجیں،یہ بہانہ اچھاہے،تھوڑی دیر اور پکاؤ، آملیٹ ابھی کچا ہے ‘‘لیکن گرم گھی کے چھینٹوں سے ہاتھ جلا کر تڑپتے خاوند کو بیگم صاحبہ کا جب یہ میسج ملا کہ ’’جانِ من کیسی لگی میری شاعری بتادینا ، نمک کم ہو انڈے میں تو اور مِلا لینا‘‘تو یہ پڑھتے ہی خاوند کا صبر جواب دے گیا اور پھر اُس نے پہلا اور آخری میسج بھیجا ’’تیری ہر ادا میرے دل کو بھاجاتی ہے، فکر نہ کرو پڑوسن کھانا بنانے آجاتی ہے ‘‘اس کے بعد بیوی کا کوئی اور میسج تو نہ آیا ہاں البتہ چند گھنٹوں کے بعد وہ خود ضرور آگئی۔مگردوستو یہ سب ماضی کی باتیں، مطلب تب کی باتیں جب اپنے ہاں خاوند بیویوں کی 10زبان درازیوں کے بعد جان پر کھیل کر ایک آدھ زبان درازی کا جواب دیدیا کرتے تھے مگر اب وہ وقت کہاں ،اب تو اپنے ملک میں ہوچکی قانون سازی کے بعد خاوند ایسے ہوگئے کہ جیسے ایک بیگم کا چہتا طوطا خاوند کو دیکھتے ہی جھڈو ،جھڈو کہنے لگ جاتا ، ایک دن تنگ آکر خاوند نے بیگم کو شکائیت لگائی تو بیگم نے طوطے کو ایسا کہنے سے منع کر دیا ،اگلے دن خاوند آیا تو طوطا خاموش رہا ، چند منٹ بعد سکھ کا سانس لے کر صوفے پر بیٹھے خاوند کی نظر طوطے پر پڑی تو زیرِِ لب مسکرا تا طوطا بولا ’’خودہی سمجھ جا ‘‘ ۔ پچھلے ہفتے ازلی وابدی کنوارے اُس شیخو سے ملنے گیا کہ جس کی زندگی کا سب سے بڑا اصول یہی کہ کوئی اصول نہیں ، جس نے سب کچھ کیا مگر شادی نہ کی اور جو خود کہے کہ اگر میں عورت ذات کو جانتا نہ ہوتا تو میں بھی کب کا شادی کر چکا ہوتا ، مجھے دیکھتے ہی اپنے بھتیجے کو پڑھاتا شیخو سلام دعا سے پہلے ہی کہنے لگا ’’تمہاری جمہوریت نے جتنا نقصان خاوند اور صدر کو پہنچایا اتنا تو وہ مارشل لاء کو بھی نہ پہنچا سکی ،اب تو نکاح کرتے ہی بندے کی حالت وہی ہوجائے جو آٹھویں ترمیم کے بعد صدر کی ہو چکی ، اللہ کا شکر کہ میں زن مریدی سے بچ گیا ‘‘ یہ سن کر میں نے خاوندوں کی سائیڈیں لیتے شیخوکو یاددلایا کہ حضور آپ ہی کہا کرتے تھے کہ’’ ہمارے ہاں تو خاوند اور صدر بننے کیلئے بس یہی کوالیفکیشن رہ گئی کہ نبض چل رہی ہو ‘‘اور یہ بھی آپ نے ہی کہا تھا کہ’’ ہمارے خاوند جس نظر سے پرائی بہو بیٹیوں کو دیکھیں ،اس نظر کیلئے انکی اپنی بیگمیں عمر بھر ترستی رہیں‘‘ اور غالباً یہ جملہ بھی آپ کا ہی کہ ’’ ذہانت اور حماقت میں وہی فرق جو فرق گرل فرینڈ اور بیگم میں ‘‘ میری بات کاٹ کر بولا’’تم شائد یہ بھول گئے کہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارا مردتو بے چارا آلو بن چکا یعنی ہر کوئی اسے ہر جگہ فٹ کر کے بھی شکائیتیں کرتا پھرے ، جبکہ عورت سے برتاؤ بھنڈیوں جیسا ،لاکھ لیس دار ہوں پھر بھی کوئی گلہ شکوہ نہیں ‘‘ ۔ اس سے پہلے کہ شیخو کچھ اور کہتا ، میں نے موضوع بدلا ’’ قبلہ چھوڑیں ان باتوں کو یہ بتائیں کہ بھتیجے کو کیا پڑھا رہے تھے ‘‘ اپنے سامنے پڑی کاپی مجھے پکڑا کر بڑی بے زاری سے بولا ’’ خو دہی دیکھ لو کہ کیا پڑھا رہا تھا ‘‘اورپھر کاپی کے پہلے صفحے پر انگریزی حروف کے اردو میں بنائے گئے شیخو کے جملے دیکھے تو چودہ طبق روشن ہوگئے ، گو کہ زیادہ ترجملے تو ایسے کہ لکھے بھی نہ جا سکیں ،لیکن پھر بھی کانٹ چھانٹ کے بعد نمونے کے طور پر چند جملے حاضرِخدمت ہیں۔He؛ اعظم تو ہر وقت He Heکرتا رہتا ہے They؛کا ر نے سائیکل والے کو تھلے theyدیا Kill؛دھیان سے killٹھونکو Bull؛ ٹھنڈ سے پپو کے Bullپھٹ گئے What؛ تمہارے ماتھے پر what کیوں پڑ گئے it؛ مزدو ر کے سر پر itوج گئی Lion؛ سب Lionبنا کر چلو Key*؛ ایہہ keyکیتا جے۔۔ یہ پڑھ کر نہ مجھ میں کاپی کا اگلا صفحہ پلٹنے کی ہمت تھی اور نہ مزید بیٹھنے کا حوصلہ ، لہذا کاپی شیخو کو پکڑا کر میں نے وہاں سے کھسکنے میں ہی عافیت سمجھی ۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ جیسے کوئی غریب کبھی اتنا غریب نہیں ہوتا کہ اپنے سسرال کو افورڈ نہ کر سکے ،ویسے ہی کوئی خاوند کبھی اتنا جی دار بھی نہیں ہوتا کہ بیوی کو تھلے لگا لے ، جیسے ابھی تک سائنس سمندری طوفان اور بیوی پر قابو نہ پاسکی ویسے ہی ٹیکنالوجی نے ثابت کر دیا کہ بیوی وہ ’’ سکروڈرائیور ‘‘ جو ہر وقت خاوند کے پیچ ڈھیلے کرتی رہے ، جیسے ہر کامیاب مر دکے پیچھے ایک عورت ،ویسے ہی ان کامیابیوں کا مزا کرکرا کرنے کے لیئے ہر وقت خاوند کے سر پر سوار ایک بیوی بھی ، جیسے اگر کرکٹ سے کوڑا کرکٹ نکال دیں تو کرکٹ بہتر ہو جائے گی ویسے ہی اگر بیویوں کی زبان کو بجلی پید ا کرنے پر لگا دیا جائے تو لوڈ شیڈنگ کا سرے سے ہی خاتمہ ہوجائے اور مشاہدہ یہ بھی بتائے کہ جیسے جمہوریت کے اصلی دشمن خود جمہوری رہنما ایسے ہی شادی کے سب حقیقی مخالف خود شادی شدہ ، ہمارا ایک بڑا ہی سیانا خاوند نما دوست جس کی گفتگو سن کر بندہ متاثر ہو نہ ہو بالغ ضرور ہوجائے ،جو بچپن سے ہی ایسا کائیاں کہ ایک بار سکول میں استاد نے جب پو چھا’’ ٹیپو سلطان کس جنگ میں شہید ہوئے‘‘ تو جواب دیا’’ اپنی آخری جنگ میں‘‘ ، سوال ہوا ’’دریائے سندھ کہاں بہتا ہے ‘‘ جواب آیا ’’ زمین پر ‘‘پوچھا گیا کہ ’’ آٹھ لوگوں میں 3آم کس طرح تقسیم کر و گے ‘‘ توبولا ’’ ملک شیک بناکر ‘‘اور جب کہا گیا کہ شمشیر زن کو جملے میں استعمال کرو تو کہنے لگا ’’میری امی وہ زن جسکی زبان شمشیر کی طرح ‘‘، جس کا کہنا ہے کہ ’’ خاوند کی زندگی تو ایسی کہ جیسے دو کنال کی کوٹھی پانچ مرلے پر ‘‘، جس کاماننا ہے کہ ’’ عورت کی سب سے بڑی محافظ اسکی بدصورتی اور طلاق کی سب سے بڑی وجہ شادی ‘‘ ،جس کا تجربہ بتائے کہ ’’بہت کم عورتیں اپنی شکل اور بہت کم مرد اپنی حرکتوں سے اپنی اصلی عمر کے لگتے ہیں اور عورت کو پہلا مرد اور مرد کو آخری عورت ہمیشہ یاد رہتی ہے ‘‘ ، جس کامشاہدہ کہ’’ شادی تو عورتوں کو مردوں میں برابر تقسیم کرنے کا نام مگر مسلمان اب اس میں بھی ڈنڈی مارنے لگ گئے ‘‘ ،جو بڑے یقین سے کہے کہ’’اگر چاند پر چہل قدمی کرتے ہوئے نیل آرمسٹرانگ نیچے غور سے دیکھ لیتے تو اُنہیں دیوارِ چین کیساتھ مولانا طاہر اشرفی اور عابدہ پروین بھی ضرور نظرآ جاتے‘‘اور جسکی تحقیق کا نچوڑ یہ کہ ’’ مرد عورت کا پشتو ترجمہ‘‘، ہمارے اسی سیانے خاونددوست کی خواہش کہ ’’ کاش خاوندوں کیخلاف قانون سازی کرنے والوں کے والدین شادی ہی نہ کرتے ‘‘ چند دن پہلے ملا تو کہنے لگا ’’میری بیوی پیداہونے کے دو سال بعد جب نہ بولی تو پھر میری ساس اسے ایک پیر کے پاس لے گئی اور پھر اس پیر کی دعا سے یہ بولنے لگ گئی‘‘ یہ کہہ کر وہ رکا اور پھر دھمکی آمیز لہجے میں بولا ’’پہلے تو میں صرف اس پیر کی تلاش میں تھا لیکن اب میں ان خواتین و حضرات کو بھی ڈھونڈ رہا ہوں کہ جنہوں نے حکومتِ پنجاب کی قانون سازی میں یہ شقیں بھی شامل کروا دیں کہ بیوی پر ہاتھ اُٹھانے والے خاوند کو نہ صرف 2 دن گھرسے باہر رہنا پڑیگا بلکہ اسے ٹریکروالا کڑا بھی پہننا ہوگا‘‘ ۔ ہمارے اسی دوست کی پاکستان کے ہر مرد وزن سے یہ درخواست کہ چونکہ ان شقوں کا خالق خاوندوں اور بیویوں کا مشترکہ دشمن ہے، لہذ ا سب خاوند اور تمام بیویاں مولانا فضل الرحمن کے کندھے سے کندھا ملا کر اس چھپے دشمن کو تلاش کریں۔۔ مگر یاد رہے۔۔ صرف کندھے سے کندھا ملا کر۔