Non Stop Infotainment By Cyber City Online!
Phir Kaali Chiti Batain! A Column By Irshad Bhatti on Daily Jang on 21 April 2016, Voice of Tahir Saddique.
جیسے سانپ، بچھو ، چھپکلی سے ڈر کر ہم قوی او رقادر اللہ سے نہ ڈریں ، جیسے ڈاکٹر کے کہنے پرپورا لائف سٹائل بدل کر ہم قرآن اور رسولؐ کے کہنے پر اپنی ایک عادت بھی نہ بدلیں ، جیسے دفتر کے کسی خط یاسرکاری محکمے کے کسی نوٹس کے فل سٹاپ اور کامے تک کو سمجھ جانے والے ہم روزانہ نماز میں کیا پڑھتے ہیں ،کبھی یہ سمجھنے کی کوشش ہی نہ کریں یا پھر جیسے اپنے گھروں کو صاف کرکے ہم اپنی گلیاں اور محلے گندی کردیں، جیسے منہ پر تعریف کر کے ہم پیٹھ پیچھے برائیاں کریں یا جیسے اچھے وقتوں میں سیلوٹ مارکر ہم برے دنو ں میں پلٹ کر خبربھی نہ لیں مطلب جیسے ہماری چٹی زندگیاں کالی ویسے ہی حاضر ہیں آج پھر کالی چٹی باتیں ۔۔پہلے ملاحظہ فرمائیں چند کالی باتیں ۔ کوئی اپنے علاج کیلئے باہر تو کوئی اپنے خاندان کیلئے باہر ،کوئی اپنی جائیداد کیلئے باہر تو کوئی اپنے کاروبار کیلئے باہر ، کسی کے باہر مے فیئر فلیٹس تو کسی کا سرے محل باہر یعنی اولادیں باہر ، جائیدادیں باہراور سب کی خوراکیں باہر کی اور سب کی پوشاکیں باہر کی ، یہ میرے لیڈر تو نہیں،آپکے ہیں تو آپکومبارک ۔ چاردن پہلے لندن میں شاپنگ کر کے برطانوی اسپتا ل میں لیٹے اپنے وزیراعظم کو دیکھاتو مجھے جرمنی کے ایک اسپتا ل میں داخل وہ جرمن بابا یاد آگیا کہ جس نے ایک صبح جب اپنے ساتھ والے کمرے میں غیر معمولی آمدورفت اور سکیورٹی عملے کی بہتات دیکھ کر وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا کہ ساتھ والے کمرے میں صدر حسنی مبارک کا چیک اپ ہو رہا ہے ، چند لمحے سوچنے کے بعدیہ بابا بولا ’’حسنی مبارک کتنے عرصے سے مصر کا صدر ہے‘‘ ، جب اسے بتایا گیا کہ 25سال سے تو بابے نے کہا ’’ اللہ رحم کرے اس شخص پر کہ جو 25سالوں میں اپنے ملک میں ایک بھی ایسا اسپتا ل نہ بنا سکا کہ جہاں وہ اپنا علاج کروا سکے اور اللہ رحم کرے اسکی قوم پر کہ جو اپنا علاج ان اسپتا لوں میں کروا رہی ہے کہ جن پر انکے اپنے صدر کو بھی اعتبار نہیں‘‘ ۔ علاج سے یاد آیا دو ماہ پہلے ایک رات ملک کے ایک بڑے صاحب کی بیٹی کو الٹر ا ساؤنڈ سمیت کچھ ٹیسٹ کروانے پڑ گئے ،فون بجے، ہرکارے دوڑے اور پھر رات گئے اسلام آباد کے سرکاری اسپتا ل پمز (PIMS) سے مشینوں اور ڈاکٹروں سے لدی ایمبولینس بڑے گھر پہنچ گئی اور جب تک دختر نیک اختر اپنے خاندان کیساتھ چاندی کے برتنوں میں کھانا کھا کر فارغ ہوئی ، تب تک ان کے بیڈ روم میں مشینیں لگ گئیں اوریوں اگلے30منٹوں میں لوبان سے مہکتے ماحول میں سب ٹیسٹ ہوگئے۔گو کہ یہاں دکھ اس خصوصی سلوک اور وی آئی پی برتاؤ کا بھی مگر اصل تکلیف یہ کہ جس اسپتا ل سے رات گئے اس ’’ ٹویٹ ماسٹر موصوفہ‘‘ کو گھر بیٹھے مشینیں اور ڈاکٹر مل گئے ، اُسی سرکاری اسپتا ل کے برآمدوں،راہداریوں اور لانز میں پڑے سینکڑوں انسان نما جانوروں کو دن دیہاڑے ڈاکٹر ہی نہ ملے ،اگر ڈاکٹر مل جائے تو پھر معمولی معمولی ٹیسٹوں کیلئے ہفتوں رُلنا پڑے اور اگر کسی طرح ٹیسٹ ہو جائیں تو پھر دوائی اک مسئلہ اور جب تک مریض کی رسائی دوائی تک ہو تب تک مرض لا علاج ہو جائے ، عوام کو یہ اسپتال کیسی سہولتیں فراہم کر رہا ہے اسکا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ دو ہفتے پہلے ڈاکٹر کی قطار میں لگے دو بچے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے ہی مر گئے ، 10دن پہلے ایک حاملہ خاتون ایمرجنسی کے باہر 3گھنٹے اسٹریچر پر ایسے تڑپتی رہی کہ بچہ پیٹ میں ہی مرگیا اور ابھی چند دن پہلے اسی اسپتا ل کے آئی سی یومیں معذور مریضہ کی عزت لٹ گئی ( کیوں کیسا لگا اپنا اسلامی جمہوری پاکستان)۔ بادشاہ سلامت نے ایک بزنس ٹائیکون کو کھانے پر بلایا ( وہی بزنس ٹائیکون کہ جس کے صرف 3سال کے واجب الادا ٹیکس کا عدالت نے جب حساب لگایا تھا تو وہ 119ارب نکلا ) ہنستے مسکراتے بادشاہ سلامت نے کھانے کے عین دوران اچانک سنجیدہ ہو کر بزنس ٹائیکون کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرکہا ’’ ہن تے مَن جاؤ کہ دھرنے تُسی سپانسر کیتے سن ‘‘ (اب تو مان جائیں کہ دھرنوں کے سپانسر آپ تھے )یہاں جو بتانا وہ یہ کہ جس وقت بادشاہ سلامت یہ فرما رہے تھے ،اُس وقت ان کی ٹیم دھرنوں کے روح رواں ڈھونڈے میں لگی ہوئی تھی ، ہے نا مزے کی بات کہ جسے جو کچھ پہلے سے معلوم اُسی نے سب کووہی کچھ معلوم کرنے پر لگایا ہوا ( یہی ہے سیاست باس ) ۔ ہمارے ایک جمہوری صدر صدارت کا حلف اٹھانے کے 15دنوں بعد اپنے پہلے امریکی دورے پر جب یہ تاریخی بیان دیتے ہیں کہ ’’ امریکہ ہمیں قرضہ نہیں گرانٹ دے اور وہ بھی ایک بلین ڈالر کی ،تبھی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ہمارا نقصان پورا ہوگا ‘‘ تواس حریت پسندانہ بیان پر بڑی واہ واہ ہوئی ، خیر جس دن صدر مملکت واپس لوٹے اُس سے اگلی شام ایوانِ صدر میں اپنے 5سات مصاحبوں کے ساتھ بیٹھے صدر صاحب کے بیان کو جب ایک مصاحب نے جمہوریت کی طاقت اور قومی امنگوں کی ترجمانی کا شاہکار جیسے القاب سے نواز کر کہا ’’ سر آپکے بیان کے بعد امریکہ دباؤ میں ہے اور یہی موقع ہے کہ آپ امریکہ پر مزید دباؤڈال کرملکی قرضے معاف کروالیں یوں نہ صرف پاکستانی عوام سکھی ہوجائے گی بلکہ تاریخ میں آپکانام بھی سنہری حروف میں لکھا جائے گا ‘‘ یہ سن کر صدر صاحب نے اپنی مخصوص مسکراہٹ بکھیر تے ہوئے کہا ’’ بھائی جان ایک تو میں اپنا نام سنہری حروف میں لکھوانے کیلئے صدر نہیں بنا اور دوسرایہ عوام اس قابل نہیں کہ اسے زیادہ سکھی کیا جائے ‘‘ ۔ بات ساری منصوبہ بندی اور ترجیحات کی ہے اگر لاہور اور اسلام آباد کی سٹرکوں کو سگنل فری بنا نے کیلئے 2سے 5ارب کے بنتے درجنوں پلوں میں سے ایک پل کے پیسے اُس تھر میں پینے کے پانی پر لگا دیئے جاتے کہ جہاں پانی کا کنواں 50ہزار سے ایک لاکھ تک کا تو ایک لاکھ 75ہزار خاندانوں کی اگلے 5سالوں تک پیاس بجھ جاتی اور اگر صرف ایک پل کے پیسوں سے گندم خرید کر تھر کے13لاکھ مکینوں میں تقسیم کر دی جاتی تو کم ازکم ایک سال تک کوئی بھوکا نہ سوتا ،لیکن شائد جمہوری راج یہی کہ ایک طرف VIPجانوروں کیلئے منرل واٹر جبکہ دوسری طرف انسان پیاسے اور ایک طرف سرکاری گوداموں میں 2013کی پڑی گندم کو پڑے پڑے کیڑا لگ جائے اور دوسری طرف جمہوربھوکی مرتی ر ہے ۔ اکثر دعا مانگوں کہ ہماری زندگیاں پچھلے حکمرانوں کے گھوڑوں اور موجودہ حکمرانوں کی بھینسوں جیسی ہی ہو جائیں ۔ تالیاں بجانے والے کچھ تالیاں سنبھال کر رکھیں ابھی کئی مصطفےٰ کمال اور آ ئیں گے ۔ اپنے ملک میں مجرم نا معلوم ہوں یا معلوم ،پکڑے دونوں ہی نہیں جاتے ۔ آج کیلئے اتنا ڈیپریشن ہی کافی لہذا حاضرِ ہیں اب کچھ چٹی باتیں ! حضر ت علیؓ کا فرمان ’’ اگر لوگوں کو عزت دینا اور معاف کر دینا آپکی کمزوری ہے تو آپ دنیا کے سب سے طاقتور انسان ہیں ‘‘(بات وہی کہ اللہ تک پہنچنے کا شارٹ کٹ مخلوقِ خدا کی بھلائی) ۔ امام غزالی ؒ کہتے ہیں ’’ اگر رزق عقل اور دانش سے ملتا تو پھر بے وقوف اور جانور تو بھوکے مرجاتے ‘‘، آپؒ کا ہی کہنا کہ ’’ دنیا نصیب سے ملتی اور آخرت محنت سے لیکن لوگ محنت دنیا کیلئے کرتے ہیں اور آخرت کو نصیب پر چھوڑ دیتے ہیں ‘‘۔ (سجان اللہ) ابوجہل کے پاس علم تھا لیکن نظر نہ تھی اگر نظر نہ ہوتو علم جہالت سے بھی بدتر(علم اور عالموں سے بھری ہماری دنیا اس لیئے مسائل میں گھری ہوئی کہ یہاں ابو جہلوں کی بھرمار ہوچکی ) ۔ افلاطون نے کہا ’’ طبیب کی غلطی تو ایک یاد و انسان مارتی ہے مگر حکمران کی غلطی پوری قوم مار دیتی ہے ‘‘ (لگتا ہے کہ ارسطو نے ہمیں دیکھ کر ہی یہ کہا)۔ پیسہ انسان کو اوپر لے جا سکتا ہے مگر پیسہ اوپر نہیں لے جایا جا سکتا ، انسان زندگی بھر اڑنے میں لگا رہے جبکہ پرندے عمر بھر گھونسلے بناتے رہیں (کوئی بھی مطمئن نہیں جہاں اسی کا نام دنیا)۔ چورکو مال کھاتے نہیں مار کھاتے دیکھو(پانامہ لیکس والے تیار رہیں )۔ نیت کتنی ہی اچھی کیوں نہ ہو،دنیا تمہیں تمہارے دکھاوے سے جانتی ہے اور دکھاوا کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو اللہ تمہیں تمہاری نیت سے جانتا ہے (اب یہ آپ پر منحصر کہ دنیا کو راضی کر نا ہے یا اللہ کو )۔ میں یہ دعا نہیں کرتا کہ دشمن مر جائیں میری تو یہ خواہش کہ دوست زندہ ہو جائیں ( یہی تو مسئلہ ہے )۔ ہماری جمہوریت کی تو بس یہی تعریف کہ لوگوں کے ڈنڈے لوگوں کیلئے ( لیکن شاباش ہمت نہیں ہارنی آپ اپنے من پسند ڈنڈے کھاتے ر ہیں)۔ بابا جی سے ملاقات ہوئی توعرض کی حضور کوئی نصیحت ،کہنے لگے ’’ تم نے کبھی برتن دھوئے ‘‘ حیران ہو کرکہا ’’ جی دھوئے ‘‘ پوچھنے لگے ’’ کیا سیکھا‘‘ میں نے کہا’’ برتن دھونے میں بھلا سیکھنے والی کیا بات ‘‘ مسکرا کر بولے ’’یہی کہ برتن دھوتے وقت باہر کی نسبت اندر سے دھونے پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ‘‘بلاشبہ دوستو ! ظاہری ٹپ ٹاپ اپنی جگہ مگر اصل صفائی باطن کی ،اگر ہو سکے تو کبھی کبھی آپ بھی اپنے برتن کو اندر سے دھو لیا کریں ۔