Non Stop Infotainment By Cyber City Online!
Derja e Charam Ka Inqlaab, A Column by Irshad Bhatti on daily Jang on 6 March 2016. Voice of Tahir Saddique
نریندر مودی پاکستان توڑنے اور مسلمان مارنے پر فخرکرے مگر اپنا وزیراعظم اُسے Happy Birthdayکا کیک کھلا کر اُس کی دی ہوئی پگ پہن لے ،حسینہ واجد پاکستان کے نام سے بھی نفرت کرے مگر ہمارے محبِ وطن اس سے ایوارڈلینے ڈھاکہ پہنچ جائیں اور برطانیہ میں مسلمان مکھی ما ر نے کے شبے میں اندر ہو جائے مگرتمام ثبوتوں کے باوجود الطاف حسین ابھی تک باہر، یہی نہیں میمو گیٹ ہضم ہوا ،ذوالفقار مرزا نے تھک ہار کر قرآن واپس غلاف میں لپیٹ دیا اور بولتا بولتا صولت مرزا اگلے جہان جا پہنچا۔۔۔ کیا ۔۔کچھ ہوا ۔۔کسی بھینس کی سمجھ میں کوئی بین آئی ،کوئی خراٹے مارتا ضمیر جاگا یا کسی کوانقلاب کا ’’الف ‘‘ بھی نظر آیا ۔۔نہیں نا ۔۔تو پھر بھائی جان حوصلہ رکھیں مصطفی کمال کے رونے دھونے سے بھی یہاں کوئی انقلاب نہیں آنے والا ، یقین جانیئ یہاں تو اب درجہ چہارم کا انقلاب بھی نہیں لایا جاسکتا ۔ ہاں البتہ یہ خوشی ضرور کہ وقت بدل رہا ہے اور جب وقت بدلتا ہے تو پھر ہوتا کیا ہے ذرا اپنے ’’پدی اور پدی کے شوربوں ‘‘ سے نکل کر ملاحظہ فرمائیں 3نمونے اُن راج کماروں کے کہ کبھی وقت کی لگام جن کے ہاتھ میں تھی ۔ اپنے کرنل قذافی کو جب کبھی اسکے دوست کہا کرتے کہ ’’ فوج کو مضبوط اوردوگنی کرو ‘‘تو وہ قہقہہ مار کر کہتا ’’ فوج کا کیا کرنا میں اکیلا ہی پوری دنیا کیلئے کافی ہوں ‘‘ ۔ جن دنوں وہ (نعوذ باللہ)بیت اللہ کو کالے پتھروں کا کمرہ کہہ کر طواف کا سرِعام مذاق اڑایا کرتا اور بہانے بہانے اپنے ہم وطن داڑھی والوں کو رسوا کیا کرتا ،ان دنوں اگر کوئی دبے لفظوں اسے ایسا کرنے سے روکتا تو بڑی بے زاری سے کندھے اچکا کر وہ فرمایا کرتا ’’ یہ گمراہ کیڑے ہیں اور کیڑوں سے کیا ہمدردی ‘‘ اور پھر امریکہ کے کہنے پر آہستہ آہستہ جب دنیا لیبیا کو چھوڑنے لگی ،تب دنیا سے تعلقات بہتر کرنے کا مشورہ دینے والوں کو وہ جواب دیتا ’’بزدلوں کی دوستی کیا اور دشمنی کیا ‘‘ مگر جب وقت بدلا تو پھر فوج سے بھی طاقتور اسی قذافی کو اسی بزدل امریکہ نے گھیر کر سڑک کنارے اُس برساتی نا لے میں پہنچا دیا کہ جہاں اسکے اپنے ’’گمراہ کیڑوں‘‘ نے اسے گریبان سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے باہر نکالا اور ایک شرمناک تشدد کے بعد نیم برہنہ کر کے گاڑی کے بونٹ پر گولی ماردی ۔ یہی نہیں یو ٹیوب پر یہ ویڈیو آپ آج بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جس میں چہروں پر ماسک لگائے ، ہاتھ میں پانی کے پائپ پکڑے 3افراد قذافی کی پھولی بدبودار لاش کو پہلے غسل دیتے ہیں پھر لاش کو دو سفید چادروں میں لپیٹ کر اسکے چھوٹے بیٹے متعصم قذافی اور انٹیلی جنس چیف کی لاشوں کے ساتھ رکھ کر جنازہ پڑھتے ہیں اور پتا ہے کہ خود کو بادشاہوں کا بادشاہ کہلوانے والے قذافی کا جنازہ کتنے لوگوں نے پڑھا ،صرف 7لوگ، جی ہاں امام سمیت 7لوگ ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ مصر کے حسنی مبارک نے جب 5ویں بار صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو قاہرہ کے صدارتی محل میں سب مغربی دوست ظّلِ الہی کو اڑھائی گھنٹے تک یہ بات سمجھاتے رہے کہ’’ وقت بدل چکا، آپ کے پاس باعزت جانے کا سنہری موقع ہے، اگرآج آپ ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیں گے تو پھرجا نے کے بعد بھی طاقت آپ کے گرد ہی گھومے گی ‘‘لیکن منہ میں زعفرانی کھجور رکھ کر عربی قہوے کا گھونٹ بھرتے ہوئے حسنی مبارک نے بڑی ہی لاپرواہی سے یہ کہہ کر میٹنگ ختم کر دی کہ ’’ میرے بغیر مصر نہیں چل سکتا ‘‘ مگر جب وقت بدلا تو نہ صرف حسنی مبارک کو بے عزت ہو کر صدارت چھوڑنا پڑی بلکہ ہتھکڑیاں پہنے لوہے کے پنجرے میں وہ آج بھی اُن کی باتیں سننے پر مجبور کہ جو کبھی اس سے بات کرنے کیلئے ترسا کرتے تھے اور یہ بھی کل ہی کی بات لگتی ہے کہ عراق پر امریکی چڑھائی سے 3دن پہلے ایک صبح صدام حسین کے بیٹے اودے حسین کو روسی صدر کا فون آیا ’’ حالات کنڑول سے باہر ہو رہے اور خدشہ ہے کہ کہیں وہ وقت نہ آجائے کہ پھر آپکی کوئی مدد ہی نہ کی جا سکے ،لہذا صدام حسین کو راضی کریں کہ وہ اگلے 24گھنٹوں میں خاندان سمیت روس آجائے ،یوں نہ صرف عراق تباہی سے بچ سکتا ہے بلکہ مناسب وقت پر صدام حسین کو اقتدار دلوانے کیلئے دوبارہ کوشش بھی کی جا سکتی ہے ‘‘ ۔ اسی دوپہر اودے حسین نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ والدِ محترم کی ہر منت سماجت کر ڈالی مگر فیلڈ مارشل کی یونیفارم پہنے اور ہاتھ میں پستول پکڑے صدام حسین کا ایک ہی جواب تھاکہ ’’ امریکہ مجھ سے پنگا لینے کی جرأت ہی نہیں کرسکتا اور اگر غلطی سے اس نے پنگا لے لیا تو پھرمیں عراق کا صحرا امریکیوں کیلئے قبرستان بنا دوں گا ‘‘مگر جب وقت بدلا تو نہ صرف 7دنوں میں ہی پورا عراق امریکہ کا ہو گیا بلکہ 9ماہ بعد امریکی فوجیوں نے بڑھی داڑھی ،سوجی آنکھوں اور میلے کپڑوں والے صدام حسین کو بھی ایک گڑھے نما کمرے سے ڈھونڈ نکالا ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ پرائی باتیں ہیں تو ہم اپنی باتیں کر لیتے ہیں ،ہم تو بدلتے وقتوں میں خود ایسے خود کفیل کہ یہاں وقت یوں بھی بدلا کہ قائداعظم ؒ اور علامہ اقبالؒ کے ملک میں غلام محمد جیسے گورنر جنرل ، یحییٰ خان جیسے آرمی چیف اور زرداری صاحب جیسے صد ربنے ،اگر آپکا خیال ہے کہ یہ گذرے لوگوں کی باتیں ہیں تو ہم آج کی بات کرلیتے ہیں اور مجھے مکمل یقین کہ آج کے حکمران بدلتے موسموں میں لگی ہتھکڑیو ں ،سانپوں والی حوالاتوں اور جلاوطنی نہیں بھولے لیکن فرض کریں کہ اگر وہ یہ بھول چکے تو پھر وہ کراچی میں موجود اُس پرویز مشرف سے سب کچھ پوچھ سکتے ہیں کہ جو خود آج بدلے وقت کی سب سے بڑی زندہ مثال ۔ مگر قارئین کرام !جیسے مجھے اچھی طرح یہ معلو م کہ تیسری بار اقتدار کے گھوڑے پر سوار میاں برادران کیلئے اب یہ سب باتیں بے معنی اور بے مقصد ، ویسے مجھے یہ بھی بخوبی علم کہ 30سالہ اقتدار کے بعدانہیں بھلا کیا بتایا اور کیا سمجھایا جا سکتا ہے لیکن پھر بھی نجانے آج دل کیوں یہ چاہ رہا ہے کہ جان کی امان پا کر میاں برادران سے یہ عرض ضرور کروں کہ حضور والا اگر لاہور کی تاریخی حیثیت مسخ کرنے کی کہانیاں ایک طرف اور کرپشن اور کمیشن کے قصوں کو دوسری طرف رکھ کر بھی دیکھیں تو بھی آپ 6ارب فی کلومیٹر والے دنیاکے مہنگے ترین ٹریک ،14بلین سالانہ خسارے اور 4بلین سالانہ خرچے والی اورنج ٹرین کیسے لے آئے اور وہ بھی لاہور کے صرف 2لاکھ 50ہزار مسافروں کیلئے ،مطلب اڑھائی لاکھ مسافراور خرچہ 165بلین کا یعنی ہر مسافرپڑا 6لاکھ 50ہزارمیں ، اس سے تو کہیں اچھا تھا کہ آپ ہر مسافر کو 6لاکھ 30ہزار کی زیرومیٹر کار ہی خرید کر دیدیتے ، یقیناًکچھ پیسے پھر بھی بچ بھی جاتے ،پھر عزت مآب آپکے 101ملین رعایا والے پنجاب میں جہاں صحت کے 2461بنیادی مرکز ڈاکٹروں کا منہ تکتے تکتے بوڑھے ہو چکے،جہاں ہیپاٹائٹس کے 70لاکھ مریض دھکے کھارہے ، جہاں لاکڑاکاکڑ اکے 30لاکھ مریض رُلتے ہوئے، جہاں ٹی بی کے 34لاکھ مریض خون تھوکتے پھریں اور جہاں 1700مریضوں کیلئے ایک ڈاکٹر (اگر وہ ہڑتال یا چھٹی پر نہ ہو )، پھرعالی جاہ آپکا وہ پنجاب کہ جہاں دل کے آپریشن کیلئے 6ماہ سے ایک سال جبکہ بچوں کے آپریشن کیلئے 2دو سال لائنوں میں لگنا پڑے،جہاں بر وقت آپریشن نہ ہونے پر 100میں سے 10مریض اور صحت کی سہولتیں نہ ملنے پر 115مائیں ماہانہ مر جائیں وہاں اگریہ 165بلین صحت پر لگا دیئے جاتے تو نہ صرف یہ سب بنیادی مسائل حل ہوجاتے بلکہ صوبے میں شوکت خانم جیسے 41ہسپتال اور بھی قائم ہو جاتے ،حضور ! خالی ہیلتھ انشورنس سے کام نہیں چلے گا کیونکہ ہم غریبوں کیلئے شروع کی گئی آپکی ہیلتھ انشورنس سکیم تبھی کامیاب ہوگی جب حمزہ شہباز سے مریم نواز تک یہ سب بھی اپنی انشورنس کروا کر ہیلتھ کارڈ سے انہی ہسپتالوں میں علاج کروائیں جہاں ہم اپنا علاج کرواتے ہیں اور پھر عالی مرتبت اگر اورنج ٹرین کے 165ارب صوبے کی تعلیم پر لگا دیئے جاتے تو نہ صرف 10ہزار اعلیٰ معیار کے پرائمری سکول قائم کیئے جا سکتے تھے بلکہ پنجاب کے 29لاکھ وہ بچے جو غربت کی وجہ سے سکول نہیں جا رہے انہیں انہی پیسوں سے 5سال تک مفت تعلیم بھی دی جا سکتی تھی ، پھر قبلہ ! یہ کیسا منصوبہ کہ جس کے شروع ہوتے ہی پنجاب کاہر شہری چین کا 1600 روپے کا مقروض ہو گیا اور منصوبہ مکمل ہونے کے 25سال بعد تک روزانہ 30ملین روپے قرض بھی لوٹاناپڑے گا ۔مگر بات پھر وہی کہ وہاں یہ سب کون سنے گا اور وہاں یہ سب کسے سنائیں کہ جہاں پاکستان توڑنے اور مسلمان مارنے پر فخرکرنے والے نریندر مودی کو اپنا وزیراعظم Happy Birthdayکا کیک کھلا کر اُس کی دی ہوئی پگ پہن لے ، جہاں پاکستان کے نام سے بھی نفرت کرنے والی حسینہ واجدسے ہمارے محبِ وطن ایوارڈلینے ڈھاکہ پہنچ جائیں اور جہاں ذوالفقار مرزا سے مصطفی کمال تک سب تھک ہار گئے مگر کسی بھینس کی سمجھ میں کوئی بین نہ آئی،کوئی خراٹے مارتا ضمیر نہ جاگااورانقلاب کا ’’الف ‘‘ تک بھی نظر نہ آ یا۔۔ ہاں البتہ یہ خوشی ضرور کہ وقت بدل رہا ہے۔
ہر وقت دل ودماغ میں بجتا یہ بیک گراؤنڈ میوزک آج اس امید کیساتھ آپ کے دل ودماغ کی نذر کہ شائد وہاں بھی کوئی ساز بج اُٹھے ۔ نبی ؐ نے فرمایا کہ ’’ ایسا اشارہ بھی حرام کہ جس سے کسی کو رنج ہو ،دین کی بنیاد خوفِ خدا پر اور انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی ‘‘ (کیوں کیا خیال ہے ) حضرت عمرؓ کہا کرتے ’’خلیفہ اُس وقت گہیوں کی روٹی کھا سکتا ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ رعایا کا ہرفرد بھی گہیوں کی روٹی کھارہا ہے‘‘ (اپنے خلیفوں کو یہ کون بتائے) حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ مجھے اس دنیا سے کیا لینا کہ جس کے حلال میں حساب ہے اور حرام میں عذاب‘‘(جب تک بات سمجھ نہ آئے ،اسے پڑھتے رہیں ) حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ وہ واحد نبی کہ جن کا قبیلہ نسبتاً کمزور تھا ۔ایک بار جب انکی قوم نے ان کے مہمانوں کو بے عزت کر دیا تو اُنہوں نے بڑے دکھی ہو کر کہا’’ اگر میرے پیچھے بھی مضبوط قبیلہ ہوتا تو میری یہ بے عزتی نہ ہوتی ‘‘اب ایک طرف یہ حال کہ ایک نبی کہے کہ کاش وہ مضبوط قبیلے سے ہوتا جبکہ دوسری طرف عید کی نمازاور جمعہ کے خطبے سے اذان دینے اور نکاح پڑھانے تک آج ہمارے کتنے مذہبی پیشواایسے کہ جن کا تعلق مضبوط قبیلوں سے یا پھر کتنے وڈیرے ،جاگیردار اور صنعتکار ایسے جو اپنی اولادوں کو عالم ،حافظ یا امام مسجد بنانے کے خواہشمند اور پھر ہم نے مذہب جن کے حوالے کر رکھا ہے ،کیا انکے حوالے ہم اپنی فیکٹری یا کاروبار کر سکتے ہیں لہذا بھائی جان مولوی کوکو سنا چھوڑکر مان لیں کہ اس زوال میں ہم سب برابر کے شریک۔ مولانا رومی ؒ اکثر دعا کیا کرتے ’’ یااللہ مجھے وہ طاقت نہ دینا جو دوسروں کو کمزورکر دے ، وہ دولت نہ دینا جو دوسروں کو غریب کر دے ،وہ علم نہ دینا جو میرے سینے میں ہی دفن رہے اورایسی بلندی عطا نہ کرنا کہ مجھے اپنے سوا کچھ نظر ہی نہ آئے (اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکیے گا ) لوگ بیماری کے خوف سے غذا تو چھوڑ دیتے ہیں مگر اللہ کے خوف سے گناہ نہیں چھوڑتے( یہاں بھی کہہ دیں اللہ غفور ورحیم ہے ) ایک سیاح ایک درویش کو ملنے اس کے گھر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ پورے گھر میں ایک بستر ،لیمپ اور ضرورت کی چند چیزیں ، یہ بے سروسامانی دیکھ کر سیاح نے طنز کیا ’’آ پ کا سامان کدھر ہے ‘‘ درویش بڑی محبت سے بولا ’’ آپکا سامان کدھر ہے ‘‘ سیاح حیران ہو کر’’ میرا سامان ۔۔۔ میں تو مسافرہوں، چند دن کا مہمان ہوں یہاں ‘‘ ،درویش کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی کہا’’ میں بھی تو مسافر ہوں اور وہ بھی چند دن کا ‘‘ ۔ ایک بار اداکا ررنگیلا نے کہا کہ ’’ میں تو صدر اور وزیراعظم بن سکتا ہوں مگر صدر اور وزیراعظم چاہیں بھی تو رنگیلا نہیں بن سکتے ‘‘ (معصوم ومرحوم رنگیلے کوپتا ہی نہ چلا کہ قوم نے کیسے کیسے رنگیلے بھگتے ) کسی کو احمق سمجھنے سے پہلے یہ یقین کر لیں کہ کہیں وہ بھی تو یہی کچھ نہیں کر رہا ۔(اپنے تمام اینکرز کیلئے ) یہ تو میاں صاحب کی اعلیٰ ظرفی کہ اُنہوں نے اپنے رشتہ داروں کو اہم عہدوں پر لگادیا ورنہ اچھے وقتوں میں رشتہ داروں کو کون پوچھتا ہے (کاش پوری قوم میاں صاحب کی رشتے دار ہوتی ) اگر عمر 60سال ہو تو بچپن ،بڑھاپا اور بیماری کے دن نکال کرپھر 20سال نیند کے بھی نکال دیں تو سوچیں باقی کیا رہ جائے گا ( یہ جیون کہانی تو بس اتنی سی کہ مٹی سے مٹی پر اور مٹی میں ) وقت کی کتاب میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی ،خوابوں کی کوئی Expiry dateنہیں اور زندگی میں کوئی Pauseبٹن نہیں ہوتا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رہ جانے سے بڑے بڑے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں اور پیٹھ پیچھے بات ہونے پر گھبرائیں نہ کیونکہ بات انہی کی ہوتی ہے کہ جن میں کوئی بات ہوتی ہے ۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ہمیں یہود سے یہ توقع کہ وہ ہنو د کے مقابلے میں ہمیں ترجیح دیں گے،مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ سچے دین کے پرچارک خود سچے نہیں اور مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہاں اندھے پردوں کے پیچھے دشمن دیکھ رہے ہیں ،بہروں کو دشمنوں کے قدموں کی چاپیں سنائی دے رہی ہیں اور ننگے اپنے لباس کی فکرمیں ۔ جلال الدین اکبر کے زمانے میں ملکہ الزبتھ کے ایلچیوں نے ہندوستان آکر جب اپنے ملک اور ملکہ کی لمبی چوڑی داستانیں بیان کیں تو اکبر بادشاہ نے حیرت سے اپنے وزیر ابوالفضل سے پوچھا’’ ایں جزیرہ نماچرا است‘‘ مطلب اتنی بڑی ملکہ رہتی کہاں ہے ( کبھی وہ وقت تھا اور آج ۔۔۔ ) ایک ہندو خاندان کو دہشت گردوں نے روک کر پوچھا ’’ تم لوگوں کا مذہب کیا ہے ‘‘ ہندو بولا ’’ہم مسلمان ہیں ‘‘ ایک دہشت گرد بولا ’’ مسلمان ہو تو قرآن سناؤ ‘‘ ہندو نے جب قرآن پڑھا تو دہشت گردوں نے انہیں چھوڑ دیا ،تھوڑی دور جا کر ہندو کی بیوی بولی ’’ اُنہوں نے قرآن سنانے کوکہا اور تم نے گیتا سنادی ، تمہیں ڈر نہیں لگا‘‘ ہندو بولا’’ نہیں میں بالکل نہیں ڈرا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اگر انہوں نے قرآن پڑھا ہوتا تو وہ دہشت گرد نہ ہوتے‘‘۔ جیسے ہی مقرر خاموش ہوا تو پھر 50 لوگوں کو ایک ایک غبارہ دے کر اس پر اپنا اپنا نام لکھ کر اسے ہال میں رکھنے کو کہا گیا ،جب سب یہ کر چکے تو کہا گیا کہ جو 2منٹ کے اندر اندر اپنے نام کا غبارہ ڈھونڈ لے گا ، وہ پاس باقی فیل ،اب بدحواسی کے عالم میں سب یوں اپنے اپنے نام کے غباروں کی تلاش میں لگے کہ کئی غبارے ہاتھوں میں پھٹے اور کئی پاؤں کے نیچے آکر اور پھر جب دومنٹ ختم ہوئے تو 10لوگ بھی ایسے نہ تھے کہ جن کے پاس ان کے اپنے ناموں کے غبارے تھے ،اب ایک مرتبہ پھر ہر شخص کو ایک ایک غبارہ دے کر اس پر اپنا نام لکھ کر اُسی ہال میں رکھنے کو کہاگیا ،جب دوسری مرتبہ سب لوگ غبا رے رکھ چکے تو اس بار کہا گیا کہ اپنے نام کا غبارہ ضرور تلاش کریں لیکن کسی کو اگر کسی اور کے نام کا غبارہ ملے اور وہ اس شخص کوپکڑا دے تو وہ بھی پاس تصور کیا جائے گا اور اس بار حیرت انگیز طور پر ڈیڑھ منٹ میں ہی ہر شخص کے ہاتھ میں اپنا اپنا غبارہ تھا،اب مقرر بولا’’ یہی کچھ ہماری زندگیوں میں بھی ہوتا ہے جب ہم اپنی خوشیوں کی خاطر دوسروں کی خوشیاں روند ڈالتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی خوشیاں بھی نصیب نہیں ہو پاتیں لیکن جب ہم دوسروں کے حصے کی خوشیاں انکی جھولیوں میں ڈال دیتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے حصے کی خوشیاں خود بخود ہی مل جاتی ہیں ۔ کشتی ہچکولے کھا رہی ہو تو اللہ کی رحمت کو پکارا جاتا ہے ۔ جب کشتی کنارے لگ جائے تو اپنی قوتِّ بازو کے قصید ے ۔ بہت کم انسان ایسے جو اپنے حاصل کو رحمتِ پروردگار کی عطا سمجھتے ہیں ۔ کفن بھی کیا چیز ہے ،جس نے بنایا ،اس نے بیچ دیا ، جس نے خریدااس نے استعمال نہ کیا اور جس نے استعمال کیا اسے معلوم ہی نہیں ۔ سپنے وہ نہیں ہوتے جو سونے پر آتے ہیں بلکہ سپنے وہ ہوتے ہیں جو سونے نہیں دیتے ،اپنے وہ نہیں ہوتے جو رونے پر آتے ہیں بلکہ اپنے وہ ہوتے ہیں جو رونے نہیں دیتے ۔ جب اینٹ کا اینٹ سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے تو پھر دیوار یں اپنے بوجھ سے ہی گرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ کاذب ماحول میں سچے کی زندگی کسی کر بلا سے کم نہیں ہوتی ۔ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب سے خوش ہو ۔ اسلام کا بیان بہت ہو چکا اب وقت ہے عمل کا ۔ دو انسانوں سے ملنا مشکل ،ایک وہ جو خود کو پہچان لے اور دوسرا وہ جو خود سے بچھڑ جائے ۔ جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو چھوٹے آدمیوں کے سائے بھی بڑے ہو جاتے ہیں ۔ جو صرف ایک سنت توڑ دے وہ بھی ولی اللہ نہیں ہوسکتا ۔ غریب کے بچے اور امیر کے رشتہ دار بہت ہوتے ہیں ۔ وقت پڑنے پر لوگ ساتھ کم اور مشورے زیادہ دیتے ہیں ۔ عمر اور تجربے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ جھوٹ بولنے کی دو ہی وجوہات ایک خوف اور دوسرا لالچ ۔ ہم بچاتے رہے دیمک سے گھر اپنا اور کرسیوں کے کیڑے ملک چاٹ گئے ۔ جو سائیکل نہیں چلا سکتے تھے ، وہ آج ملک چلا رہے ہیں ۔ یہاں انصاف کیلئے عمر نوح ؑ کی ، صبر ایوب ؑ کا اور دولت قارون کی چاہیے ۔ کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ مرنے پر جو سینکڑوں ،ہزاروں کندھا دینے آجاتے ہیں ،وہ زندگی میں کہاں ہوتے ہیں ، کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہم ہر بار جھوٹوں پر اعتبار کیسے کر لیتے ہیں ،ہم ایک ہی مداری کا ایک ہی تماشا بار بار کیسے دیکھ لیتے ہیں اور جن کے اور ہمارے دکھ سکھ ایک نہیں ،انہیں ہم اپنے دُکھ سُکھ کا ساتھی کیوں سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ اور آخر میں اپنے تمام رہنماؤں کی خدمت میں یہی کہ ’’ ہم اس لیئے رور ہے ہیں کہ حالات نے ہمیں تمہارے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیا ہے اور تم کہتے ہو کہ رو مت ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔
ہر وقت دل ودماغ میں بجتا یہ بیک گراؤنڈ میوزک آج اس امید کیساتھ آپ کے دل ودماغ کی نذر کہ شائد وہاں بھی کوئی ساز بج اُٹھے ۔ نبی ؐ نے فرمایا کہ ’’ ایسا اشارہ بھی حرام کہ جس سے کسی کو رنج ہو ،دین کی بنیاد خوفِ خدا پر اور انسان کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی ‘‘ (کیوں کیا خیال ہے ) حضرت عمرؓ کہا کرتے ’’خلیفہ اُس وقت گہیوں کی روٹی کھا سکتا ہے جب اسے یقین ہو جائے کہ رعایا کا ہرفرد بھی گہیوں کی روٹی کھارہا ہے‘‘ (اپنے خلیفوں کو یہ کون بتائے) حضرت علیؓ نے فرمایا ’’ مجھے اس دنیا سے کیا لینا کہ جس کے حلال میں حساب ہے اور حرام میں عذاب‘‘(جب تک بات سمجھ نہ آئے ،اسے پڑھتے رہیں ) حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ وہ واحد نبی کہ جن کا قبیلہ نسبتاً کمزور تھا ۔ایک بار جب انکی قوم نے ان کے مہمانوں کو بے عزت کر دیا تو اُنہوں نے بڑے دکھی ہو کر کہا’’ اگر میرے پیچھے بھی مضبوط قبیلہ ہوتا تو میری یہ بے عزتی نہ ہوتی ‘‘اب ایک طرف یہ حال کہ ایک نبی کہے کہ کاش وہ مضبوط قبیلے سے ہوتا جبکہ دوسری طرف عید کی نمازاور جمعہ کے خطبے سے اذان دینے اور نکاح پڑھانے تک آج ہمارے کتنے مذہبی پیشواایسے کہ جن کا تعلق مضبوط قبیلوں سے یا پھر کتنے وڈیرے ،جاگیردار اور صنعتکار ایسے جو اپنی اولادوں کو عالم ،حافظ یا امام مسجد بنانے کے خواہشمند اور پھر ہم نے مذہب جن کے حوالے کر رکھا ہے ،کیا انکے حوالے ہم اپنی فیکٹری یا کاروبار کر سکتے ہیں لہذا بھائی جان مولوی کوکو سنا چھوڑکر مان لیں کہ اس زوال میں ہم سب برابر کے شریک۔ مولانا رومی ؒ اکثر دعا کیا کرتے ’’ یااللہ مجھے وہ طاقت نہ دینا جو دوسروں کو کمزورکر دے ، وہ دولت نہ دینا جو دوسروں کو غریب کر دے ،وہ علم نہ دینا جو میرے سینے میں ہی دفن رہے اورایسی بلندی عطا نہ کرنا کہ مجھے اپنے سوا کچھ نظر ہی نہ آئے (اپنے گریبانوں میں ضرور جھانکیے گا ) لوگ بیماری کے خوف سے غذا تو چھوڑ دیتے ہیں مگر اللہ کے خوف سے گناہ نہیں چھوڑتے( یہاں بھی کہہ دیں اللہ غفور ورحیم ہے ) ایک سیاح ایک درویش کو ملنے اس کے گھر پہنچ کر دیکھتا ہے کہ پورے گھر میں ایک بستر ،لیمپ اور ضرورت کی چند چیزیں ، یہ بے سروسامانی دیکھ کر سیاح نے طنز کیا ’’آ پ کا سامان کدھر ہے ‘‘ درویش بڑی محبت سے بولا ’’ آپکا سامان کدھر ہے ‘‘ سیاح حیران ہو کر’’ میرا سامان ۔۔۔ میں تو مسافرہوں، چند دن کا مہمان ہوں یہاں ‘‘ ،درویش کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی کہا’’ میں بھی تو مسافر ہوں اور وہ بھی چند دن کا ‘‘ ۔ ایک بار اداکا ررنگیلا نے کہا کہ ’’ میں تو صدر اور وزیراعظم بن سکتا ہوں مگر صدر اور وزیراعظم چاہیں بھی تو رنگیلا نہیں بن سکتے ‘‘ (معصوم ومرحوم رنگیلے کوپتا ہی نہ چلا کہ قوم نے کیسے کیسے رنگیلے بھگتے ) کسی کو احمق سمجھنے سے پہلے یہ یقین کر لیں کہ کہیں وہ بھی تو یہی کچھ نہیں کر رہا ۔(اپنے تمام اینکرز کیلئے ) یہ تو میاں صاحب کی اعلیٰ ظرفی کہ اُنہوں نے اپنے رشتہ داروں کو اہم عہدوں پر لگادیا ورنہ اچھے وقتوں میں رشتہ داروں کو کون پوچھتا ہے (کاش پوری قوم میاں صاحب کی رشتے دار ہوتی ) اگر عمر 60سال ہو تو بچپن ،بڑھاپا اور بیماری کے دن نکال کرپھر 20سال نیند کے بھی نکال دیں تو سوچیں باقی کیا رہ جائے گا ( یہ جیون کہانی تو بس اتنی سی کہ مٹی سے مٹی پر اور مٹی میں ) وقت کی کتاب میں کوئی چھٹی نہیں ہوتی ،خوابوں کی کوئی Expiry dateنہیں اور زندگی میں کوئی Pauseبٹن نہیں ہوتا۔ چھوٹی چھوٹی باتیں دل میں رہ جانے سے بڑے بڑے رشتے کمزور پڑ جاتے ہیں اور پیٹھ پیچھے بات ہونے پر گھبرائیں نہ کیونکہ بات انہی کی ہوتی ہے کہ جن میں کوئی بات ہوتی ہے ۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ہمیں یہود سے یہ توقع کہ وہ ہنو د کے مقابلے میں ہمیں ترجیح دیں گے،مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ سچے دین کے پرچارک خود سچے نہیں اور مسئلہ صرف یہ ہے کہ یہاں اندھے پردوں کے پیچھے دشمن دیکھ رہے ہیں ،بہروں کو دشمنوں کے قدموں کی چاپیں سنائی دے رہی ہیں اور ننگے اپنے لباس کی فکرمیں ۔ جلال الدین اکبر کے زمانے میں ملکہ الزبتھ کے ایلچیوں نے ہندوستان آکر جب اپنے ملک اور ملکہ کی لمبی چوڑی داستانیں بیان کیں تو اکبر بادشاہ نے حیرت سے اپنے وزیر ابوالفضل سے پوچھا’’ ایں جزیرہ نماچرا است‘‘ مطلب اتنی بڑی ملکہ رہتی کہاں ہے ( کبھی وہ وقت تھا اور آج ۔۔۔ ) ایک ہندو خاندان کو دہشت گردوں نے روک کر پوچھا ’’ تم لوگوں کا مذہب کیا ہے ‘‘ ہندو بولا ’’ہم مسلمان ہیں ‘‘ ایک دہشت گرد بولا ’’ مسلمان ہو تو قرآن سناؤ ‘‘ ہندو نے جب قرآن پڑھا تو دہشت گردوں نے انہیں چھوڑ دیا ،تھوڑی دور جا کر ہندو کی بیوی بولی ’’ اُنہوں نے قرآن سنانے کوکہا اور تم نے گیتا سنادی ، تمہیں ڈر نہیں لگا‘‘ ہندو بولا’’ نہیں میں بالکل نہیں ڈرا کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اگر انہوں نے قرآن پڑھا ہوتا تو وہ دہشت گرد نہ ہوتے‘‘۔ جیسے ہی مقرر خاموش ہوا تو پھر 50 لوگوں کو ایک ایک غبارہ دے کر اس پر اپنا اپنا نام لکھ کر اسے ہال میں رکھنے کو کہا گیا ،جب سب یہ کر چکے تو کہا گیا کہ جو 2منٹ کے اندر اندر اپنے نام کا غبارہ ڈھونڈ لے گا ، وہ پاس باقی فیل ،اب بدحواسی کے عالم میں سب یوں اپنے اپنے نام کے غباروں کی تلاش میں لگے کہ کئی غبارے ہاتھوں میں پھٹے اور کئی پاؤں کے نیچے آکر اور پھر جب دومنٹ ختم ہوئے تو 10لوگ بھی ایسے نہ تھے کہ جن کے پاس ان کے اپنے ناموں کے غبارے تھے ،اب ایک مرتبہ پھر ہر شخص کو ایک ایک غبارہ دے کر اس پر اپنا نام لکھ کر اُسی ہال میں رکھنے کو کہاگیا ،جب دوسری مرتبہ سب لوگ غبا رے رکھ چکے تو اس بار کہا گیا کہ اپنے نام کا غبارہ ضرور تلاش کریں لیکن کسی کو اگر کسی اور کے نام کا غبارہ ملے اور وہ اس شخص کوپکڑا دے تو وہ بھی پاس تصور کیا جائے گا اور اس بار حیرت انگیز طور پر ڈیڑھ منٹ میں ہی ہر شخص کے ہاتھ میں اپنا اپنا غبارہ تھا،اب مقرر بولا’’ یہی کچھ ہماری زندگیوں میں بھی ہوتا ہے جب ہم اپنی خوشیوں کی خاطر دوسروں کی خوشیاں روند ڈالتے ہیں تو پھر ہمیں اپنی خوشیاں بھی نصیب نہیں ہو پاتیں لیکن جب ہم دوسروں کے حصے کی خوشیاں انکی جھولیوں میں ڈال دیتے ہیں تو پھر ہمیں اپنے حصے کی خوشیاں خود بخود ہی مل جاتی ہیں ۔ کشتی ہچکولے کھا رہی ہو تو اللہ کی رحمت کو پکارا جاتا ہے ۔ جب کشتی کنارے لگ جائے تو اپنی قوتِّ بازو کے قصید ے ۔ بہت کم انسان ایسے جو اپنے حاصل کو رحمتِ پروردگار کی عطا سمجھتے ہیں ۔ کفن بھی کیا چیز ہے ،جس نے بنایا ،اس نے بیچ دیا ، جس نے خریدااس نے استعمال نہ کیا اور جس نے استعمال کیا اسے معلوم ہی نہیں ۔ سپنے وہ نہیں ہوتے جو سونے پر آتے ہیں بلکہ سپنے وہ ہوتے ہیں جو سونے نہیں دیتے ،اپنے وہ نہیں ہوتے جو رونے پر آتے ہیں بلکہ اپنے وہ ہوتے ہیں جو رونے نہیں دیتے ۔ جب اینٹ کا اینٹ سے رابطہ ختم ہو جاتا ہے تو پھر دیوار یں اپنے بوجھ سے ہی گرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ کاذب ماحول میں سچے کی زندگی کسی کر بلا سے کم نہیں ہوتی ۔ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب سے خوش ہو ۔ اسلام کا بیان بہت ہو چکا اب وقت ہے عمل کا ۔ دو انسانوں سے ملنا مشکل ،ایک وہ جو خود کو پہچان لے اور دوسرا وہ جو خود سے بچھڑ جائے ۔ جب سورج غروب ہونے لگتا ہے تو چھوٹے آدمیوں کے سائے بھی بڑے ہو جاتے ہیں ۔ جو صرف ایک سنت توڑ دے وہ بھی ولی اللہ نہیں ہوسکتا ۔ غریب کے بچے اور امیر کے رشتہ دار بہت ہوتے ہیں ۔ وقت پڑنے پر لوگ ساتھ کم اور مشورے زیادہ دیتے ہیں ۔ عمر اور تجربے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ۔ جھوٹ بولنے کی دو ہی وجوہات ایک خوف اور دوسرا لالچ ۔ ہم بچاتے رہے دیمک سے گھر اپنا اور کرسیوں کے کیڑے ملک چاٹ گئے ۔ جو سائیکل نہیں چلا سکتے تھے ، وہ آج ملک چلا رہے ہیں ۔ یہاں انصاف کیلئے عمر نوح ؑ کی ، صبر ایوب ؑ کا اور دولت قارون کی چاہیے ۔ کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ مرنے پر جو سینکڑوں ،ہزاروں کندھا دینے آجاتے ہیں ،وہ زندگی میں کہاں ہوتے ہیں ، کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ ہم ہر بار جھوٹوں پر اعتبار کیسے کر لیتے ہیں ،ہم ایک ہی مداری کا ایک ہی تماشا بار بار کیسے دیکھ لیتے ہیں اور جن کے اور ہمارے دکھ سکھ ایک نہیں ،انہیں ہم اپنے دُکھ سُکھ کا ساتھی کیوں سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ اور آخر میں اپنے تمام رہنماؤں کی خدمت میں یہی کہ ’’ ہم اس لیئے رور ہے ہیں کہ حالات نے ہمیں تمہارے ساتھ رہنے پر مجبور کر دیا ہے اور تم کہتے ہو کہ رو مت ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘۔