Non Stop Infotainment By Cyber City Online!
حضور دولت کی جستجوتو کوئی برائی نہیں مگر صرف دولت ہی کی جستجو ہزار برائیوں کی جڑ،قبلہ پیسہ زندگی کی ضرورت مگر پیسہ مقصدِ حیات نہیں اور محترم جیسے یہ سچ کہ دولت مند کی تجوری اور طوائف کا پیٹ نہیں بھرتا ویسے ہی یہ بھی اِک حقیقت کہ دوسروں کے حصے کا مال جمع کرنے والے اکثراپنے حصے کا مال بھی خرچ نہیں کر پاتے ۔ باقی باتیں بعد میں ، پہلے یہ کہانی سن لیں ! ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھتا نالائق ،سست اور شرمیلا مارک اگر کسی شے میں تیز تھا تو وہ تھی کمپیوٹر پروگرامنگ ، نیویارک کے نواحی گاؤں میں پیدا ہونے والے بچپن سے ہی کمپیوٹر کے کیڑے 19سالہ مارک نے جنوری 2004 کی ایک رات اپنے تنگ وتاریک کمرے کے گندے فرش پر بیٹھ کر ایک ویب سائٹ کی ڈومین خریدی، پھر سوشل نیٹ ورک کی ویب سائٹ ڈیزائن کی اور فروری 2004میں اسے لانچ کر دیا ، ہارورڈ یونیورسٹی کے طلباء کے درمیان آن لائن رابطے کیلئے بنائی گئی اس ویب سائٹ کیلئے مارک نے طلباء کا ریکارڈ چونکہ یونیورسٹی ریکارڈ سے لیا تھا لہذا یونیورسٹی انتظامیہ کو جب پتا چلا تو اُنہوں نے ہیکنگ کے الزام میں اسے ایک نوٹس تھماتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’ ہو سکتا ہے کہ تمہیں یونیورسٹی سے ہی نکال دیا جائے‘‘، مرحلہ بڑا کھٹن تھا مگر ہمت ہارنے کی بجائے اس وقت جب مارک کے پاس صرف ایک ہزار ڈالر تھے اس نے اپنے دوست سے مزید ہزار ڈا لر ادھار لے کر اپنی ویب سائٹ کو بہتر بنانا شروع کر دیا ، اِدھر مارک نے کام شروع کیا اور اُدھر اگلے چاردنوں میں 650طالبعلموں نے ، تین ہفتوں میں 6ہزار اور حیرت انگیز طور پر 6ہفتوں میں 30ہزار طلباء نے اسکی ویب سائٹ جوائن کرلی ،اب کام بڑھا اور جب سب کچھ اکیلے manageکرنا مارک کے بس میں نہ رہا تو اس نے اپنے روم میٹ ڈسٹن موسکووٹز کو اپنی ویب سائٹ کے 5 فیصد شیئرز دے کرساتھ ملا لیا ، اسی دوران اس نے آن لائن اشتہارات کی Bookingشروع کی تو پہلے مہینے کی کمائی ساڑھے 4سو ڈالرجبکہ اگلے ماہ یہ آمدن ساڑھے 10ہزار ڈالر تک جا پہنچی لیکن اِدھر جب 34امریکی یونیورسٹیوں کے ایک لاکھ طالب علم مارک کی ویب سائٹ جوائن کر چکے تو اُدھراس پر ہارورڈ یونیورسٹی کے دروازے بندہوگئے مگر اب وہ ان چیزوں سے بہت آگے نکل چکا تھا ، اس نے بوریا بستر سمیٹا، یونیورسٹی سے نکل کرسیلیکون ویلی پہنچا، مارک سے مارک زکربرگ ہوا اور پھر اس نے اور اسکی کامیابیوں نے پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ یہ مارک زکر برگ اورفیس بک کی "Success Story"ہے ، وہ کہانی جو جنوری 2004میں شروع ہوکر 12سال بعد آج اس مقام پر کہ اب 145ممالک کے 1ارب59کروڑ لوگ مارک کی فیس بک استعمال کریں اور 12ہزار ملازمین والی یہ کمپنی17ارب ڈالر سالانہ کمائے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ کہ امریکہ کے اس ساتویں ارب پتی اور دنیا کی 100بااثر شخصیات میں سے ایک مارک زکر برگ دنیا کاوہ واحد شخص جواپنی محنت کے بل بوتے پرصرف 23سال کی عمرمیں ارب پتی بنا مگر اب ملاحظہ ہو اس کہانی کاٹرننگ پوائنٹ، مئی 2012میں یونیورسٹی دور کی دوست ڈاکٹر پریسیلاچین کے ساتھ شادی کرنے کے 3سال بعد جب مارک کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو اچانک ایکدن اس نے اپنی 99فیصد دولت عطیہ کردی ، سننا چاہتے ہیں کہ اس نے 45ارب ڈالر مطلب 45کھرب روپوں سے بھی زیادہ رقم خیرات کیوں کی ، تویہ مارک کی زبانی ہی سن لیں، رقم عطیہ کرتے ہوئے اس نے اپنی بیٹی کے نام ایک خط لکھا ، 2220الفاظ پر مشتمل اس خط میں وہ اپنی بیٹی کو مخاطب کر کے کہتا ہے ’’ میری پیاری بیٹی تم نے دنیا میں آکر جب میری توجہ دنیا کی طرف دلائی تو میں نے سوچا کہ اس دنیا کواتنا تو بہتر بنانا چاہیے کہ تم سمیت ہر بچہ موجودہ دنیا سے بہتر دنیا میں پل بڑھ سکے ‘‘، مطلب مارک نے اپنی 99فیصد دولت اس لیئے عطیہ کر دی کہ دنیا کے ہر محروم بچے کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کی جا سکیں ۔ تو دوستو! اتنی Detailسے یہ کہانی سنا کر آپکو بور کرنے کے دو مقصد ، پہلا یہ کہ آپ کو پتا چل سکے کہ مارک زکر برگ نہ تو امیر باپ کا بیٹا اور نہ وہ منہ میں سونے کا چمچہ لیئے پیدا ہوا، نہ اس نے ٹیکس بچا کر پیسے اکٹھے کیئے اور نہ چوریاں اور ڈاکے مار کر وہ ارب پتی بنا ، نہ اسکی آف شور کمپنیاں اور نہ پاناما لیکس میں اسکا نام ، اس نے ایک ایک پیسہ محنت سے کمایا لہذا محنت سے کمائے گئے 45ارب ڈالر کا صدقہ یا خیرات کر نا واقعی کمال کی بات، یہ کہانی سنا نے کا دوسرا مقصد یہ کہ آپ کومعلوم ہو سکے کہ ایک طرف یہ باپ اور اسکا اپنی بیٹی سے محبت کا یہ انداز جبکہ دوسری طرف اپنے وہ ’’ باپو‘‘ جو اپنی اولادوں کیلئے اتناکچھ جمع کر چکے کہ اگر یہ اور انکی اولادیں ایک جگہ بیٹھ کر صرف نوٹ کھانا شروع کر دیں تو ان کی زندگیاں تو ختم ہوجائیں مگر نوٹ ختم نہ ہوں لیکن پھر بھی ان باپو ؤں کی مال بناؤ مہم جاری ، باقیوں کو چھوڑیں اگر ہم بات کریں صرف اپنی اقتداری حضرات کی تو شریف خاندان کی ظاہری دولت 1.4ارب ڈالر اور ملکہ الزبتھ سے بھی امیر زرداری صاحب 1.8ارب ڈالر کے مالک ،اب جب ایک طرف بیٹی پیدا ہونے پر کافر معاشرے کا کافر مارک اپنی 99فیصد دولت دنیا کے محروم بچوں کو دیدے جبکہ دوسری طر ف ہمارے نانے دادے بن چکے’’ مومن مارکوں‘‘ کی ابھی تک اپنے بچوں کیلئے بچوں کے ساتھ لوٹ مار جاری۔۔ تویہ دیکھ کر دل۔۔ اندر سے۔۔ دُکھے ! گوکہ یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ، اپنے اپنے ضمیر کے فیصلے اور ہر کوئی اپنی قبر اور اپنے حساب کا خود ذمہ دار مگر پھر بھی دکھ ہو اور دکھ کیوں نہ ہو کہ معمولی سی غلطی پر اصلی شہزادے چارلس کا ٹریفک کا نسٹیبل چالان کر دے اور وہ اُف تک نہ کرے جبکہ اپنے نقلی شہزادوں کیلئے آئے روز ٹریفک رک رک کر چلے اور چل چل کر رکے اور قوم اُف تک نہ کرے ، دکھ کیوں نہ ہو کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اپنے معذور بچے کا علاج اپنے سرکاری ہسپتال سے کروائے جبکہ اپنا ہر ’’ ماجا گاما‘‘ بلڈ پریشر چیک کروانے بھی ولائیت جائے اور وہ بھی سرکاری خرچے پر، دکھ کیوں نہ ہوکہ سویڈن کا وزیراعظم بازاروں اور مارکیٹوں میں پیدل پھرے جبکہ اپنے وی آئی پیز کے بلونگڑے بھی بلٹ پروف گاڑیوں میں اور فول پروف سکیورٹیو ں میں ، دکھ کیوں نہ ہوکہ ڈنمارک اور ہالینڈ کی ملکائیں سائیکلوں پر ہوں جبکہ اپنی شہزادیو ں کی خادماؤں کیلئے بھی چارٹرڈ فلائٹیں ، دکھ کیوں نہ ہوکہ جرمن پارلیمنٹ کی سابق ممبرگھر چلانے کیلئے ایک سٹورپر نوکری کرے جبکہ اپنے سابقہ ممبران کے سابقہ نوکر چاکر بھی لندنوں اور دبیوؤں میں ملیں ، دکھ کیوں نہ ہو کہ مارگریٹ تھیچر وزیراعظم ہوکر بھی اتوار کے اتوار اپنے کپڑے خود دھوئے جبکہ اپنے مشیروں کے مشیر بھی اپنے کپڑے فائیو سٹار لانڈریوں سے دھلوائیں ، دکھ کیوں نہ ہو کہ اُس پاکستان کے 200ارب ڈالر سوئس بینکوں میں کہ جو پاکستان 70ارب ڈالر کا مقروض یعنی سوئس بینکوں میں پڑے یہ 200ارب ڈالر اگر واپس آجائیں تو نہ صرف ملکی قرضہ اتر جائے ، 30سال تک بجٹ ٹیکس فری ہو جائے، 6کروڑ پاکستانیوں کو روزگار مل جائے بلکہ 5سو پاور پراجیکٹ لگ جائیں اور پھر دکھ کیوں نہ ہوکہ پشاور حادثے سمیت ملک میں درجنوں سانحات ہوں یا چارسدہ میں دہشت گردی اور قصور میں بچوں سے زیادتی مگر وزیراعظم قوم سے خطاب نہ کریں ، تھر میں بھوک پیاس سے سینکڑوں بچے مر یں یا بلوچستان سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا ’’را ‘‘ کا نیٹ ورک پکڑا جائے مگر وزیراعظم قوم سے مخاطب ہونا پسند نہ فرمائیں لیکن جب معاملہ ہو اپنی اولاد کا تو ایک مہینے میں 2خطاب ہو جائیں اور وہ بھی ایسے لب ولہجے میں کہ خدا کی پناہ ۔ لہذا دکھ تو ہوگا اور آج میں بھی ایسے ہی دکھی کہ جیسے اولاد کی محبت میں وزیراعظم دکھی اور چونکہ ہم دونوں ہی دکھی لہذا اپنے ’’دکھ فیلو‘‘ سے یہ کہنا کہ گو کہ آپ نے الحمد للہ ملک میں ایسا ماحول بنا دیا کہ اگر بین الاقوامی میڈیا کرپشن پر بات کرے تو یہودی سازش، اپنا میڈیا بولے تو جمہوریت کو خطرہ ، سوشل میڈیا کچھ کہے تو سائبر کرائم اور اگر عمران خان کچھ کہہ دے توملکی ترقی پرحملہ اورپھر الحمد للہ آپ نے کمال مہارت سے سب کو کمیشن کی بتی کے پیچھے لگا دیا ، چونکہ نہ یہاں پہلے کوئی کمیٹی اور کوئی کمیشن سِرے چڑھااور نہ یہ سِر ے چڑھے گا ، لہذا’’اللہ کے فضل وکرم‘‘ سے آپ نے پاناما لیکس کا تو مکوٹھپ دیا ۔۔ الحمد للہ۔۔ لیکن پھر بھی نجانے دل کیوں چاہ رہا ہے کہ آپ سے یہ گذارش ضرور کروں کہ حضور دولت کی جستجوتو کوئی برائی نہیں مگر صرف دولت ہی کی جستجو ہزار برائیوں کی جڑ،قبلہ پیسہ زندگی کی ضرورت مگر پیسہ مقصدِ حیات نہیں اور محترم جیسے یہ سچ کہ دولت مند کی تجوری اور طوائف کا پیٹ نہیں بھرتا ویسے ہی یہ بھی اِک حقیقت کہ دوسروں کے حصے کا مال جمع کرنے والے اکثراپنے حصے کا مال بھی خرچ نہیں کر پاتے ۔
کوئٹہ : سپریم کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ 39 چاغی سے ق لیگ کے میر امان اللہ کو نا اہل قرار دینے اور دوبارہ الیکشن کرانے کی درخواست خارج کر دی ہے ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس فیصل عرب نے محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنایا ، عام انتخابات میں پی بی 39 چاغی سے ق لیگ کے میر امان اللہ کامیاب ہوئے ، ان کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے رہنما محمد عارف حسنی نے دھاندلی کی بنیاد پر الیکشن ٹربیونل میں دائر کی جسے خارج کر دیا گیا جس کے بعد عارف حسنی نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ حلقے میں دھاندلی ثابت نہیں ہوئی ، اس لئے حلقے میں دوبارہ الیکشن کرانے کا مقدمہ نہیں بنتا ۔ عدالت نے میر امان اللہ کو نا اہل اور حلقے میں دوبارہ انتخاب کی درخواست خارج کردی ۔
واشنگٹن:امریکا کے مشہور تحقیقاتی صحافی سیمور ہرش نے اپنے دعویٰ کو دہرایا ہے کہ القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں پاکستان نے امریکا کی مدد کی تھی۔پولٹزر پرائز جیتنے والے سیمور ہرش نے یہ دعویٰ پہلی بار ایک سال قبل اپنے ایک مضمون میں کیا تھا، جس نے امریکا کو ہلا کر رکھ دیا اور وائٹ ہاو¿س کی جانب سے اس دعوے کو جھوٹا قرار دیا گیا، جبکہ امریکا کے بڑے میڈیا اداروں نے بھی اسے غلط بیانی پر مبنی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔لیکن سیمور ہرش نے رواں ہفتے شائع ہونے والی اپنی نئی کتاب ’دی کلنگ آف اسامہ بن لادن‘ (اسامہ بن لادن کی ہلاکت) میں ایک بار پھر اپنے اس دعوے کو دہراتے ہوئے زور دیا ہے ان کی بات ٹھیک تھی۔’ڈان نیوز‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے سیمور ہرش نے کہا کہ گزشتہ سال جب انہوں نے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے ایک کمپاو¿نڈ میں موجودگی اور ہلاکت کے حوالے سے نئے شواہد دیکھے تو ان کے دعویٰ کو مزید تقویت ملی۔اخبار لکھتا ہے کہ امریکی صحافی نے اپنے دعوے پر ڈٹے رہنے کا اظہار کرتے ہوئے کہا پاکستان نے اسامہ بن لادن کو 2006 میں حراست میں لیا اور سعودی عرب کی مدد سے کئی سالوں تک قید رکھا، جس کے بعد پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک معاہدہ ہوا کہ امریکا اسامہ کے کمپاو¿نڈ میں کارروائی کرے گا لیکن بظاہر ایسا دکھایا جائے گا کہ پاکستان اس کارروائی سے بے خبر رہا۔انہوں نے کہا کہ مجھے اب اس معاملے کے حوالے سے پہلے سے کئی گنازیادہ معلومات ہیں۔سیمور ہرش کا کہنا تھا کہ ہندوستان کی وجہ سے پاکستان مسلسل الرٹ ہے، اس کے ریڈار ہر طرح کی حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہیں، جبکہ اس کے ایف 16 طیارے بھی کسی بھی طرح کی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، ایسے میں امریکی ہیلی کاپٹروں کے لیے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ پاکستان کو الرٹ جاری کیے بغیر ایبٹ آباد میں داخل ہوں۔اخبار کے مطابق انہوں نے دعویٰ کیا کہ امریکیوں سے یہ معاہدہ اس وقت کے آرمی چیف اور آئی ایس آئی سربراہ نے کیا، جس سے دیگر پاکستانی جرنیلوں کو پریشانی ہوئی۔اخبار کے مطابق امریکی صحافی کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے اس وقت کے پاکستان کے ایئر ڈیفنس کمانڈ کے سربراہ بہت پریشان اور برہم ہوئے، وہ عوام کے سامنے جانا چاہتے تھے لیکن انہیں خاموش رہنے کی تلافی کے طور پر ریٹائرمنٹ کے بعد پی آئی اے کا چیئرمین بنا دیا گیا۔ایک ہزار 400 سے زائد ریڈیو اور ٹی وی چینلز چلانے والے ’ڈیموکریسی ناو¿‘ کو انٹرویو کے دوران سیمور ہرش کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا نے مل کر اسامہ کے حوالے سے ’ہم نے دریافت‘ کیا کی داستان تخلیق کی۔اخبار کے مطابق انہوں نے کہا کہ اگست 2010 میں ایک پاکستانی کرنل، امریکی سفارت خانے میں آئے اور پھر اس وقت کے سی آئی اے سٹیشن چیف جوناتھن بینک سے ملاقات میں کہا کہ ’اسامہ بن لادن ہمارے پاس 4 سال سے ہے۔‘سیمور ہرش نے ڈان کو بتایا کہ مذکورہ کرنل کو بعد ازاں امریکا منتقل کردیا گیا اور آج وہ واشنگٹن کے قریب کسی علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی انٹیلی جنس نے اسامہ بن لادن کو ہندوکش کے علاقے سے گرفتار کیا، جس کے بعد ایبٹ آباد میں ایک کمپاو¿نڈ تعمیر کیا گیا جہاں اسامہ کو رکھا گیا، پاکستانی حکام نے ایساسعودی عرب کے کہنے پر کیاتھاکیونکہ سعودی عرب یہ نہیں چاہتا تھا کہ امریکا اسامہ سے کسی طرح کی تفتیش کرے۔انہوں نے کہا جب سی آئی اے نے پاکستانی حکام کو، اسامہ کے کمپاو¿نڈ میں 2 مئی 2011 کے سرپرائز آپریشن کا کہا تو وہ راضی ہوگئے، کیونکہ انہوں نے ہمیں بتائے بغیر اسامہ کو حراست میں لیے رکھا تھا، امریکی حکام پہلے ہی بہت پریشان تھے اور پاکستانی حکام اس معاملے کو مزید طول نہیں دینا چاہتے تھے۔سیمور ہرش سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کی یہ کہانی پاکستان انٹیلی جنس ذرائع سے معلوم ہونے والی معلومات پر مبنی ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’بالکل نہیں، میرے امریکا میں بھی کئی ذرائع ہیں جن سے مجھے معلومات ملیں۔‘
لندن: تفتیشی افسران نے عمران فاروق قتل کیس کے حوالے سے ایم کیو ایم قائد سے ملاقات کر کے پوچھ گچھ کی۔ برطانوی حکام نے پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ مواد پرایم کیوایم قائد سے سوال بھی پوچھے۔ ذرائع کے مطابق تین برطانوی تفتیشی افسروں نے تقریباً دو گھنٹے تک سوال جواب کئے۔ پاکستان کی طرف سے کیس کے حوالے سے مکمل فائل برطانوی حکام کو دی گئی تھی۔ پاکستان میں گرفتارملزموں کے اعترافی بیان پر بھی بات چیت ہوئی۔ دوسری جانب ترجمان اسکاٹ لینڈ یارڈ کا کہنا ہے منی لانڈرنگ اور عمران فاروق کیس پر پیشرفت ہوئی تاہم میڈیا کو اس سے آگاہ نہیں کیا جاسکتا۔