Non Stop Infotainment By Cyber City Online!
بلاشبہ خالی تبدیلی کی خواہش اور صرف انقلاب کے خوابوں سے نہ کبھی کچھ بدلا اور نہ اب بدلے گا کیونکہ ’’ ایہہ ہُندا نئیں کرنا پیندا اے،عشق سمندر ترَناں پیندا اے ، سُکھ لئی دُکھ وی جرَناں پیندا اے ،حق دی خاطر لڑنا پیندا اے تے جیون دے لئی مرناں پیندا اے ‘‘۔ مگر پھر بھی وہ تمام صاحب بہادر جو صبح شام یہ سبق پڑھائیں کہ یہاں جمہوریت اوراس جمہوریت کی اصل طاقت عوام تو ان سے کہنا یہی کہ یہ گھُن جو لگ چکا اور یہ دیمک جو چاٹ رہی اسے میں جمہوریت تب مانوں کہ جب بلاول بھٹو میری گلی میں رہے یا مجھے حمزہ شہباز کا محلہ نصیب ہو جائے،اور پھر میں عوام کو اس جمہوریت کی اصل طاقت تب سمجھوں کہ جب عوام اپنی طاقت سے بڑے بڑے پیٹوں اور سوئس بینکوں سے پیسہ واپس لے آئے ، لیکن صاحب بہادر چلو اگر لمحہ بھر کیلئے یہ مان بھی لیا جائے کہ تمہارا مسلط کر دہ مکروہ نظام ہی اصل جمہوریت تو پھر بھی صاحب بہادر پیدا ہونے سے مرنے تک جب مجھ اور تجھ میں کوئی شے مشترک ہی نہیں ، جب ہم دونوں ایک جیسے ہی نہیں مطلب جب ہما ری دنیا ہی الگ الگ تو پھر تمہاری جمہوریت اور میری جمہوریت ایک کیسے ہو سکتی ہے ، ہاں صاحب بہادر تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی کیونکہ تم انسان ،میں کیڑا مکوڑا،تم اشرف المخلوقات میں جانوروں جیسا یا یہ کہہ لو کہ تم لاٹھی اور میں بھینس ۔ تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی ، تم محلات کی مخملی پیداوار ،میں جھونپڑیوں میں اُگی جڑی بوٹی ، تم موسموں سے بالاتر، تم قدرتی آفتوں سے بھی محفوظ ، میں سیلابوں کا مارا ہوااور میں زلزلوں کا ڈسا ہوا ۔ تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی ،تمہاری چھینک اور سر درد کا علاج بھی امریکہ اور برطانیہ میں،مجھے خیراتی اسپتالوں کی سہولت بھی میسر نہیں ، تمہارا سارا زور پیٹ کم کرنے پر ،میرا سارا زور پیٹ بھرنے پر ، تم جتنا دستر خوان پر چھوڑکر اُٹھ جاؤ،اُتنا کبھی میرے گھر میں نہ پکے اور تمہارا ایک دن کا خرچہ میری مہینے بھر کی کمائی ۔ تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی ، تمہارا ہر بچہ آکسفورڈ اور کیمرج میں جائے ، میرے اڑھائی کروڑ بچے سکولوں کو ترسیں، تمہارے کتے بلّے جس ماحول میں پلیں وہ ماحول میری آل اولاد کو نہ ملے ، تمہارے آنگن ہرے بھرے،میرے صحنوں میں بھوک ناچے، تمہارا جیون نعمتوں بھرااور میری زندگی فاقوں، ناکوں اور دھماکوں میں گھری ہوئی۔ تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی ، تم میمو گیٹ سے بھی چھوٹ جاؤ ، مجھے دھنیا چرانے پر جیل ہو جائے، تم ’’را ‘‘ سے مددمانگ کر بھی محبِ وطن، میں سچ کو سچ کہہ کر بھی غدار ٹھہروں ،تم ہر فراڈ کے بعد بھی معززاور میں کچھ نہ کرکے بھی بے عزتا۔ تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی ،مودی تمہارے گھر آئے یا تم بھارت میں فیکٹریاں لگاؤ،سب اوکے ،میں دشمن کو دشمن کہہ دوں تو ہر کوئی مجھے ٹوکے، تم لکشمی متل کے مشیر بنو یا ٹاٹا کے پارٹنر،تمہارے لیئے سب جائز کہلائے، میں ملک توڑنے والوں کی مخالفت کروں تو میرا Characterہی مشکوک ہو جائے، تم فوجی نرسریوں میں پرورش پا کربھی جمہوری کہلاؤاور میں فوج کی تعریف کر دوں تو جمہوریت خطرے میں پڑ جائے ۔ تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی ، فیصلے تم کرو ،قیمت میں بھروں، لڑائیاں تیری، ایندھن میں بنوں،تمہارے سامنے کوئی نہ بولے ، میری کہیں نہ شنوائی ، تمہاری ہر جگہ عزتیں اور میری ہر جگہ رسوائی ۔ تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی ،تمہاری جیلیں گھرجیسی ،میرے گھر جیلوں جیسے،تمہارے تفتیشی تمہارے تنخواہ دار،میرے لیئے ہرکوئی تھانیدار، تمہاری پہلی پیشی پر ضمانت اور میرے کیس کی برسوں باری نہ آئے اور صاحب بہادر تمہاری جمہوریت میری جمہوریت نہیں ہو سکتی ، تمہاری جمہوریت چند سو خاندانوں کی جنت ،میری جمہوریت کروڑوں افرادکا جہنم،تمہاری جمہوریت فرعونیت سے بھری ہوئی ،میری جمہوریت مجھ سے بھی زیادہ ڈری ہوئی،تمہاری جمہوریت زرخیز زمینوں جیسی ،میر ی جمہوریت بنجر وبیاباں اور تمہاری جمہوریت سونے کے انڈے دے اور میری جمہوریت بانجھ اور بیوہ ماں ! صاحب بہاد ر یہ تمہاری جمہوریت کی ہی کرشمہ سازیاں کہ طاقتور خود ہوتے رہے اور طاقتور ہمیں دِکھاتے رہے، جمہوری غباروں میں ہوائیں ہم بھرتے رہے اور ترقیوں پہ ترقیاں تم کرتے رہے ، جمہوریت کیلئے ہم مرتے رہے اور مارشل لاؤں کو بھی انجوائے تم کرتے رہے ،ویسے صاحب بہادر آپس کی بات ہے کیا یہ بتا نا پسند فرمائیں گے کہ آپ کس عوام اورکس اصل طاقت کی بات کرتے ہیں ، وہ عوام کہ جنہیں پتا ہی نہیں کہ وہ ہے کتنی 18،20یا 25کروڑ اور وہ اصل طاقت کہ جو شیعوؤں،سنیوں،وہابیوں ،دیوبندیوں او ربریلویوں میں بٹی ہوئی ، وہ عوام جو وڈیروں سے افسر شاہی تک سب کی غلام اور وہ اصل طاقت کہ جسے محرومیوں اور بے بسیوں کی ڈرپیں لگی ہوئی ، وہ عوام جو جائیدادوں پر قبضے کروا کر بھی چپ اور وہ طاقت جو بہنوں،بیٹیوں کی عزتیں گنوا کر بھی خاموش، وہ عوام جو جوہڑوں سے پانی پیئے ، جو گندگی کے ڈھیروں پر جیئے اور وہ اصل طاقت جسکی روزانہ تھانوں میں چھترول ہو اور جو ہر روز پٹواریوں کے سامنے ہاتھ باندھے ملے ، وہ عوام کہ جو روٹوں اور سیلوٹوں کی عادی ہو چکی اور وہ اصل طاقت جس سے اب مستقبل کا زیرو وولٹ بلب بھی نہ جلے ، وہ عوام جو ہر وقت یو ٹیلٹی سٹورز کی لائنوں میں ہو اور وہ اصل طاقت جسکی پوری طاقت سستا گھی اور آٹا لینے میں لگے اور وہ عوام جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور وہ اصل طاقت جس کاکوئی استعمال نہیں۔صاحب بہادر تمہاری جمہوریت اور اس کی اصل طاقت عوام کو دیکھ کر مجھے بے اختیار منو بھائی کی پنجابی نظم کی یہ سطریں یا د آجائیں کہ ’’ لا الہ الا اللہ نوں منن والے بھکھے ننگے بے گھر لوکی،فٹ پاتھاں تے لیٹے ہوئے سوچ رہے نئیں ،پاکستان دا مطلب کی سی ‘‘۔ ویسے صاحب بہادر تمہاری جمہوریت ہے بڑی عقلوں والی جب معاملہ آیا بادشاہ کی اولاد کا تو پور ی جمہوریت ملکر بھی ٹی اوآرز نہ بنا سکی یعنی ساری کی ساری جمہوریت حسن حسین کی بانہوں میں سمٹ گئی ، لیکن مجھے یہ بھی علم کہ اگر شہزادوں کی جگہ مجرم کوئی غریب ہو تا تو اسے لٹکا کر یہ ڈھونڈا جاتا کہ اس نے کیا جرم کیا ،صاحب بہادر تمہاری جمہوریت ہے بڑی دوراندیش اگر پیسہ اور طاقت ہو تو ایسی بن جائے کہ پھر ذہنی مریض صدر بنے ، بیسوؤں مقدمے والے اسمبلیوں میں ہوں اور مریض اسپتالوں سے حکومتیں چلائیں اوراگر پیسہ، پرچی یا طاقت نہ ہوتو پھر یہ ایسی کہ چاہے ڈگریوں کی روشنی کتنی ہی کیوں نہ ہو مگر اقبال کا کوئی شاہین جمہوری اندھیروں سے کلرکی تک نہ ڈھونڈ پائے اور ایک طرف کروڑوں کے مالک ٹیکس ہزاروں میں بھی نہ دیں جبکہ دوسری طرف 100روپے کے موبائل کارڈ پر مسکینوں کے 25روپے کٹ جائیں اور پھر صاحب بہادر سلام تمہاری جمہوریت کو کہ جس کی بدولت 2فیصد اندھے اور بہرے 98فیصد گونگوں کی قسمتوں کے مالک ٹھہرے ،صاحب بہادر باتیں تو اور بھی بہت مگر سب باتوں کی ایک بات کہ جتنا دکھ اس بات کا کہ نہ تمہاری جمہوریت اصلی اور نہ اس کی اصلی طاقت عوام اس سے ڈبل دکھ اس بات کا کہ صاحب بہادر آئندہ بھی رہیں گی یہی جمہورتیں تمہاری ، ہوں گی ایسی ہی حکومتیں تمہاری اورہوتی رہیں گی اسی طرح خدمتیں تمہاری، کیونکہ ایک طرف تمہاری ڈکشنری میں سب کچھ موجود مگر ریٹائرمنٹ نہیں بلکہ تم تو اپنے بچوں کو بھی’’ جمہوریت جمہوریت‘‘ کھیلنے کیلئے تیار کر چکے جبکہ دوسری طر ف ’’قدم بڑھاؤ ،ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ والے ہجوم نے عملی طور پر کچھ کرنا نہیں اور خالی تبدیلی کی خواہش یا صرف انقلاب کے خوابوں سے نہ کبھی کچھ بدلا اور نہ اب بدلے گا کیونکہ ’’ ایہہ ہندانئیں کرنا پیندا اے،عشق سمندر ترناں پیندا اے ، سُکھ لئی دُکھ وی جرناں پیندا اے،حق دی خاطر لڑنا پیندا اے تے جیون دے لئی مرناں پیندا اے‘‘۔
کیلی فورنیا(ویب ڈیسک ) دنیا تک اپنی سروسز کو مزید تیزی سے پہنچانے کے لیے مائیکروسافٹ اور فیس بک نے مل کر ایک نئے پروجیکٹ کا اعلان کیا ہے جس کے تحت امریکا سے یورپ تک ڈیٹا کی تیز رفتار ترسیل کے لیے زیرسمندر 4 ہزار میل طویل فائبر آپٹک کیبل بچھائی جائے گی۔ اپنی سروسز کو تیز رفتار اور زیادہ قابل بھروسا ذرائع سے دنیا تک پہنچانے کے لیے مائیکروسافٹ اور فیس بک نے اس مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا ہے جس میں بحراوقیانوس میں 4 ہزار میل لمبی تار کے ذریعے امریکا کو یورپ سے جوڑا جائے گا۔ اس فائبر آپٹک میں 160 ٹیرا بٹس فی سیکنڈ ڈیٹا منتقل کرنے کی طاقت ہو گی۔ اس کا سفر امریکی ریاست ورجینیا شروع ہوتے ہوئے بلباؤ اسپین میں ختم ہو گا۔ مائیکروسافٹ کا کہنا ہے کہ یہ پہلے موجود نظام سے بہتر اور زیادہ قابل اعتماد فائبر کیبل ہو گی۔ امریکا اور یورپ جیسے 2 بڑے نیٹ ورک ہب کو آپس میں جوڑنے کے بعد یہ کیبل آگے افریقہ، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کو بھی جوڑ سکے گی۔ اس کو اس طرز پر ڈیزائن کیا جائے گا کہ مستقبل میں مزید نیٹ ورکنگ آلات بھی اس سے جوڑے جا سکیں۔ ویسے تو دنیا بھر میں یہ کام ٹیلی کمیونی کیشن کمپنیاں انجام دیتی ہیں لیکن فیس بک اور مائیکروسافٹ جیسی ٹیکنالوجی کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں کی مواصلاتی ضروریات انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہیں جس کے لیے مزید بہتر اور قابل بھروسا ذرائع کی ضرورت ہے۔ اسی صورت حال کے پیش نظر دونوں نے اپنے اشتراکی منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے پر کیا لاگت آئے گی اور دونوں کمپنیاں کو دوران معاہدے کی کیا شرائط ہیں اس حوالے سے فی الحال کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی۔ اس سے قبل 2014 میں گوگل بھی امریکہ تا جاپان زیرسمندر رابطہ جوڑنے کے لیے مواصلاتی کمپنیوں کو 300 ملین ڈالر کی مدد دے چکا ہے۔ مائیکروسافٹ اور فیس بک کے اس مشترکہ منصوبے کو ماریا کا نام دیا ہے جو رواں سال اگست میں شروع ہو کر اکتوبر 2017 تک مکمل کیا جائے گا۔
لاہور (ویب ڈیسک) اگر آپ کے پاس انٹر نیٹ کی سہولت موجود نہیں اور آپ فیس بک استعمال کرنا چاہتے ہیں تو اب آپ کو پریشان ہوننے کی بلکل بھی ضرورت نہیں ہے ۔کیوں کے ہم آپ کے لیے ایسا طریقہ لے کر آئے ہیں کہ آپ بغیر انٹر نیٹ کے بھی فیس بک استعمال کرنے کے قابل ہو جائیں گے ۔ انٹرنیٹ کے بغیر فیس بُک کے استعمال کا طریقہ کار کچھ اس طرح ہے کہ آپ ڈیسک ٹاپ پر فیس بک لاگ اِن کریں اور سیٹنگز میں جائیں، وہاں موبائل کا آپشن موجود ہوگا اس پر کلک کریں۔ اب وہاں پر اپنا موبائل نمبر درج کریں اور ٹیکسٹ میسجز کو ایکٹیویٹ کر دیں۔ اب اپنے ملک اور موبائل سروس پرووائیڈر کا اندراج کریں۔ اس کے بعد اپنے فون پر ایس ایم ایس کے فنکشن میں جائیں اور F لکھ کر 32665 پر ارسال کریں۔ اس کے بعد آپ کو فیس بُک کی جانب سے کنفرمیشن کوڈ موصول ہوگا، اب براؤزر پر واپس جا کر وہ کوڈ ڈالیں اور بس، اب آپ 32665 پر جو بھی لکھ کر بهیجیں گے وہ فیس بُک پر آپ کے سٹیٹس کے طور پر پوسٹ ہو جائے گا۔