Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

enter image description here

بیجنگ (ویب ڈیسک) قیمتی گاڑی رکھنا ہر کسی کا خواب ہوتا ہے مگر کیا آُ یقین کریں گے کہ دنیا میں ایک جگہ ایسی بھی ہے جہاں امیر طبقہ کے لوگ “مرسڈیز” ، “بینٹلے” ، “لینڈ روور” اور “او ڈی” کی جدید اور قیمتی گاڑیاں لا کر کھڑی کر دیتے ہیں اور پیدل یا دوسری گاڑی پر واپس چلے جاتے ہیں مگر اس گاڑی کو بھلا دیتے ہیں اور کبھی واپس لینے نہیں آتے ۔ چین کے شہر چینگ ڈو یہ ایک کارپارک ہے جہاں سینکڑوں کی تعداد میں یہ مہنگی ترین لگژری گاڑیاں کھڑی گل سڑ رہی ہیں جنہیں ان کے مالکان نے مختلف وجوہات کی بناء پر لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق چینگ ڈو کے اس کار پارک میں ان گاڑیوں کو لاوارث کھڑے عرصہ ہو گیا ہے اور اب وہاں جھاڑیاں اگ آئی ہیں اور کارپارک کسی جنگل کی طرح نظر آنے لگا ہے۔یہاں2 نئے ماڈل کی بینٹلے، 2لینڈروور اور 3مرسیڈیز سمیت 200سے زائد گاڑیاں کھڑی ہیں جن کی مالیت اربوں روپے ہے۔ یہاں ایک ہیوی بائیک بھی موجود ہے جسے اس کے مالک نے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔رپورٹ کے مطابق یہاں اکثر گاڑیاں 2سال سے ایک ہی جگہ پر کھڑی ہیں اور ارد گرد گھاس اور جھاڑیاں اگ آبنے کی وجہ سے نظر بھی نہیں آتیں یہاں کھڑی صرف ان دو گاڑیوں فلائینگ سپر اور کانٹینیٹل جی ٹی کی قیمت ہی 60لاکھ یوآن (تقریباً 9کروڑ 56لاکھ روپے) ہے۔ ان میں سے اکثر گاڑیاں بالواسطہ یا بلاواسطہ مختلف جرائم میں ملوث ہیں جن کے کیس عدالتوں میں چل رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے مالکان نے انہیں لاوارث چھوڑ دیا ہے۔بعض گاڑیاں کاغذات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یہاں چھوڑ دی گئی ہیں۔یہ لاوارث گاڑیاں مقامی انتظامیہ کے لیے بوجھ بن چکی ہیں اور وہ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پا رہے اگر وہ کچھ گاڑیاں منتخب کرکے نیلام کر دیتے ہیں تو اتنی ہی تعداد میں اور گاڑیاں اس پارک میں پہنچا دی جاتی ہیں ۔

enter image description here

لاہور (ویب ڈیسک) اکثر نہاتے ہوئے یا پانی میں زیادہ دیر تک رہنے سے ہمارے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیاں سکڑ جاتی ہیں اور ان پر جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اگر ہماری جلد پانی میں زیادہ دیر تک رہے تو پانی کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے اور اس کی وجہ سے ہماری جلد سوج جاتی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ دراصل پانی میں زیادہ دیر تک رہنے سے ہماری انگلیوں پر نمودار ہونے والی جھریاں آٹو نومس نروس سسٹم (اے این ایس) کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اگر ہماری انگلیاں زیادہ دیر تک پانی میں رہیں تو ان کا پلپ والیم کم ہو جاتا ہے اور جھریاں نمودار ہو جاتی ہیں۔ آپ کو ان جھریوں سے فکرمند ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی موجودگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ آپ کا اے این ایس سسٹم بالکل درست کام کر رہا ہے۔ اگر ہاتھوں کی انگلیوں پر جھریاں نمودار ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے ہاتھ میں چیزوں کو پکڑنے کی صلاحیت بھی اچھی ہے۔

enter image description here

سٹاک ہوم (ویب ڈیسک) صبح اور شام قدرت کی طرف سے انسانوں سمیت تمام مکؒوقات کے لیے بہت بڑی نعمت ہیں اور پھر طلوح سحر سے پہلے روزہ رکھنا اور سورج غروب ہوتے ساتھ ہی افطار کرنا ماہ رمضان کا اصل حسن ہے مگر دنیا کے چند علاقے ایسے بھی ہیں جہاں نہ صبح ہوتی ہے نہ شام ہوتی ہے ۔ مثلاًسویڈن کے شمالی علاقہ جات میں مقیم مسلمان جب روزہ رکھتے ہیں تو سورج چمک رہا ہوتا ہے اور جب افطار کرتے ہیں تو بھی سورج چمک رہا ہوتا ہے کیونکہ یہاں نہ صبح ہے نہ شام۔ سویڈن کے انتہائی شمال میں واقع قصبہ کیرونا میں تقریباً 700 مسلمان آباد ہیں، یہ قصبہ قطبی دائرے کے 145 کلو میٹر اندر واقع ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں موسم گرما میں سورج کبھی بھی غروب نہیں ہوتا۔ یہاں مقیم شامی باشندے غسان النکر نے بتایا کہ جب اس نے تین بج کر تیس منٹ پر روزہ رکھا تو سورج اس کے سر پر چمک رہا تھا اور جب وہ افطاری کرے گا اس وقت بھی یہی صورتحال ہو گی ۔ ۔ غسان کا کہنا ہے کہ وہ مکہ کے وقت کے مطابق سحر و افطار کرتا ہے۔ لیکن کان کنوں کے اس قصبہ کے اکثر مسلمان 1240 کلومیٹر جنوب میں واقع دارالحکومت سٹاک ہوم کے وقت کے مطابق سحر و افطار کرتے ہیں کیونکہ اس شہر میں کیرونا کے برعکس صبح اور شام ہوتی ہے اور یورپین کونسل برائے فتویٰ و تحقیق نے بھی کیرونا کے مسلمانوں کو سٹاک ہوم کے وقت کے مطابق روزہ رکھنے کی ہدایت کی ہے۔

enter image description here

نیو یارک (ویب ڈیسک ) مرغیاں پالو اور غربت مٹاؤ۔مائیکروسافٹ کے بانی اور دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس نے غربت سے نمٹنے کے لیے منصوبے کا اعلان کردیا ۔ غریب ممالک کو ایک لاکھ چوزے عطیہ کیے جائیں گے۔ ایک نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق نیویارک شہر میں منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے بل گیٹس نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک میں پانچ ڈالر کا ایک چوزا فروخت ہوتا ہے جو غربت کے شکار خاندانوں کے اسکول فیس اور کھانے کے اخراجات پورے کرکے انہیں غربت سے نکالنے میں معاون ہو سکتا ہے ۔ یہ مرغیاں برکینا فاسو اور نائیجریا سمیت مغربی افریقی ممالک بھیجی جائیں گی ۔ جہاں اس وقت پانچ فیصد گھروں میں مرغیاں پالی جاتی ہیں اور اسے تیس فیصد تک بڑھا دیا جائے گا ۔

Guru Jee!

- Posted in Amaal Nama by with comments

اچانک کمرے میں خاموشی چھا گئی، گُرو جی آنکھیں موند کر صوفے پر نیم دراز ہوئے اور میں کرسی سے قالین پر بیٹھ کر انگڑائیاں لینے لگا ، شام ہورہی تھی اور ہماری بیٹھک دوپہرسے جاری تھی ، کہیں دور سے آتی پرندوں کی آوازوں اور گھر کے سامنے سے گذرتی اِکا دُکا گاڑیوں کے شور کے علاوہ اگر کمرے میں اُس وقت کچھ سنائی دے رہا تھا تو وہ تھی وال کلاک کی ٹک ٹک ،میں قالین سے اُٹھ کر دوبارہ کرسی پربیٹھ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور گُرو جی کا ملازمِ خاص بے آواز قدموں سے چلتا ہوا آیا اوران کے سامنے دوسری مرتبہ تازہ حُقہ رکھ کر اس نے جیسے ہی مجھے چائے کا گرم کپ پکڑایا تو میں بے خیالی میں گُرو جی سے پوچھ بیٹھا ’’ کبھی کسی حسینہ سے محبت بھی ہوئی ‘‘ مگر اس بے تکے سوال پر گُرو جی کے ردِ عمل نے حیران کر دیا ، وہ جوانوں سی پھُرتی سے اُٹھ کر صوفے پر سیدھے بیٹھے ، ان کے تھکے ماندے چہرے پر تازگی دوڑگئی ، ان کی نیند غائب،آنکھیں چمکنے لگیں اور پھر مستی بھرے انداز میں حقے کے 3چار لمبے لمبے کش مار کروہ بولے ’’ چیلا جی کبھی کیا ،ہمارا دل تو آج بھی کسی کے قبضے میں ہے ‘‘ یہ کہہ کر کنکھیوں سے اِدھر اُدھر دیکھنے کی اداکاری کرکے وہ آگے جھکے اور بڑے رازدارانہ اندا ز میں کہا ’’ چیلا جی محبت کرنے کیلئے ہوتی ہے ،سنبھال کر رکھنے کیلئے نہیں‘‘ ۔ اُنہوں نے حقے کے 2کش اور مارے اور پھر صوفے سے ٹیک لگاکر بولے ’’ لیکن چیلا جی کیاہمیں یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ جنہیں ہم روزانہ نان چھولے کھلائیں،وہی ہماری محبت کی ٹوہ میں لگ جائیں ، یہ کہہ کر وہ کھلکھلاکر ہنسے مگر نجانے کیوں اس وقت ہنستے ہوئے گُرو جی بہت اُداس اور تنہالگے ۔ اس شام بڑی چالاکی سے محبت کا ذکر گول کر جانے والے جنہیں میں گُرو جی کہہ کر بلایا کرتا وہ کوئی اور نہیں نوابزادہ نصر اللہ خان تھے ، وہ نوابزادہ نصر ا للہ جن سے بے شمار ملاقاتیں ، جن کے ساتھ ان گنت یادیں ، جن سے بیسوؤں بار نان چھولے کھائے ، جن کے فریج کی ٹھنڈی برفی اور گرم قہوے کا ذائقہ آج بھی نہیں بھولتا اور جن کے ہمراہ بے شمار ’’ٹاکوں بھری واکیں ‘‘اور چہل قدمیاں کیں ، وہ نوابزادہ نصراللہ جو لطیفوں اور شاعری کی ڈکشنری،جو انتہا کے فقرے باز اورکمال کے جُگتی ، جنہیں پودینے کی خوشبو، حقے کی آواز اور اپنی آنکھیں بہت پسندتھیں ، جنہیں چائے میں پکوڑے بھگو کر کھانے اور آدھی دھوپ اور آدھی چھاؤں میں بیٹھ کر حُقہ یا سگار پینا بہت اچھا لگتا تھا ، جو خوبصورت چہرہ دیکھتے ہی آہ بھر کر کہا کرتے ’’ کاش ہماری سیاست ایسی ہوتی ‘‘ اور جنہیں بھٹو کے وڈیرہ اِزم ، ضیاء کی دوعملی ،بے نظیر بھٹو کے یوٹرن اور نوازشریف کی مفاداتی سیاست ایک آنکھ نہ بھاتی ، وہ نوابزادہ نصراللہ جو اپنی زندگی کے قابلِ فخر لمحے 2ہی بتایا کرتے ’’ ایک 23مارچ کو اُس تاریخی اجتماع میں شرکت کرنا کہ جہاں قراردادِ پاکستان منظور ہوئی اور دوسرا ہر دباؤ برداشت کر کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کا ساتھ دینا‘‘اور وہ نوابزادہ نصر اللہ جو 60سال تک پاکستانی سیاست کے اہم کردار رہے ، جو جوڑ توڑ کے ورلڈچیمپئن ، جو کنگ میکر ،جو فل ٹائم سیاستدان ، جنہوں نے سیاست میں پیسہ لگایا ، کمایا نہیں اور جنہیں سیاست کے علاوہ واقعی کچھ نہیں آتا تھا۔ وہ میرے گُرو جی کیسے ہوئے پہلے یہ سن لیں ، یہ صدر مشر ف کا زمانہ ، ایک سہ پہر وفاقی دارالحکومت کے سیکٹر جی ایٹ میں انکے گھر آل پارٹیز اجلاس میں ایک نامی گرامی رہنما نے مارشل لاء کیخلاف ایسی جذباتی تقریر کی کہ یوں لگنے لگا کہ تقریر ختم کرتے ہی یہ صاحب یہاں سے بم باندھ کر سید ھا جا کر پرویز مشرف کو اُڑا دیں گے او رپھر اپنی تقریر کے اختتام پر جب موصوف باقاعدہ روپڑے تو اِک عجیب سا سماں بندھ گیا ، خیر اجلاس ختم ہوا اور جب سب لوگ جا چکے تو ایک کونے میں حُقہ پیتے نوابزادہ صاحب سے میں نے کہا کہ ’’دیکھا یہ ہوتی ہے جمہوریت پسندی اور دلیری‘‘ نوابزادہ صاحب زیرِ لب مسکرا کر بولے ’’ یہ مارشل لاء کی چاہت اور اس کے اندرکی Guilty Feelingsتھیں ‘‘ ، میں نے حیران ہو کر کہا’’ کیا مطلب‘‘، کہنے لگے ’’ یہ بہت جلد مشرف سے مل جائے گا ‘‘ میں بے یقینی سے بولا ’’ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، یہ ہو ہی نہیں سکتا‘‘ ،وہ بڑے اعتماد سے بولے ’’ ایسا ہی ہوگا‘‘یہ سن کر میں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا ’’اگر ایسا ہو گیا تو میں آپکو گُرو مان جاؤں گا ‘‘ اور پھر دوستو ٹھیک 22دنوں کے بعد مجھے ایک دوپہرحُقہ پیتے اور معنی خیز مسکراہٹیں پھینکتے نوابزادہ صاحب کو گُرو جی کہنا ہی پڑ گیا کیونکہ 3ہفتے قبل ہر خرابی مشرف کے کھاتے میں ڈال کر مارشل لا ء کیخلاف سیاستدانوں کی بے بسی پر روپڑنے والا وہ رہنما اُس دن ایک اہم وزارت کا حلف اُٹھا کر ہنستے مسکراتے مشرف کو مسیحا اور مارشل لاء کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے رہا تھا ۔مجھے اچھی طرح یا د کہ اُس دن گھٹنے چھو کر جب میں نے ان سے پوچھا ’’ گُرو جی ہماری جمہوریت فیل نہیں ہوگئی ‘‘تو چند لمحے سوچ کر بولے ’’چیلا جی جمہوریت نہیں ہم فیل ہو گئے ،یہاں کے تو ڈکٹیٹر ز بھی دو نمبر ہی نکلے لیکن سیاستدانوں نے تو حدہی کر دی،جمہوریت کبھی کسی امتحان میں پاس بھی ہوگی؟ میرے اس سوال پر وہ بولے ’’ جب سیاستدانوں کی نیتیں ٹھیک ہو جائیں گی ، جب پارٹیاں فیملی نہیں سیاسی پارٹیاں بن جائیں گی اور جب سیاست سیاست سے نکلے گی تب پھر جمہوریت کسی امتحان میں فیل نہیں ہوگی ‘‘۔ مجھے گُرو جی کی دُکھتی رگوں کا علم تھا اور میں اکثر یہ رگیں دباتا رہتا ، جیسے میرے اس سوال پر وہ ہمیشہ زچ ہو جاتے کہ ’’ اگر قومی اتحاد کی طر ف سے آپ ہی کچھ کر دیتے تو ضیاء الحق کا مارشل لاء نہ بھی ٹلتا کم ازکم بھٹو ضرور بچ جاتا ، میری اس بات پر بھی وہ جھنجھلاجاتے کہ ’’ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بننا اور پھر سرکار کے خرچے پر لاتعداد دورے ، اندر سے تو آپ بھی اقتدار پسند ہی نکلے ‘‘ اور میرا یہ کہنا بھی انہیں اچھا نہ لگتا کہ ’’ یہ کیسی جمہوریت کہ جسے آئے روز آپکا ٹانگہ Rescueکرے ‘‘۔ گُرو جی کے ساتھ بیٹھنا مطلب وقت کوپہیئے لگ جانا ، وہ ایک کہانی شروع کرتے اور پھر اس کہانی سے کہانیاں نکلتی رہتیں ، اگریہ لکھنے بیٹھوں تو کتاب بن جائے ، ان کی بچپن کی محرومیاں ،لڑکپن کے خواب اور مجلسِ احرار کے پلیٹ فارم سے قیامِ پاکستان کی تحریک میں حصہ لینا ، انہیں نواب آف کالا باغ نے کیا دھمکی دی ،ایوب خان نے کیا پیغام بھجوایا ، فاطمہ جناح کی آنکھوں میں آنسو کیوں آئے ، وہ ضیاء الحق کو بیٹھا چھوڑ کر کمرے سے کیوں نکل گئے ، بے نظیر بھٹو نے انکے پاؤں کیوں پکڑے ،نو از شریف انہیں روزانہ فون کیوں کرتے ، وہ4 افراد کس نے بھجوائے کہ جنہوں نے رات 12بجے سے 4بجے تک بندوق کی نوک پر انہیں یر غمال بنائے رکھا اور پھر وہ حسینہ کون تھی کہ جسے یہ دل ہی دے بیٹھے ۔ گو کہ گُرو جی کی شخصیت ایسی کہ اسے بھلانا مشکل اور گو کہ نان چھولوں ،سگار ،حُقے اور چائے سے واکوں اور ہر قسم کی ٹاکوں تک ان کی یاد کبھی پیچھا ہی نہ چھوڑے مگر خراب نیتوں ، فیملی پارٹیوں اور سیاست میں پھنسی سیاست دیکھ کر، قوم کے ہر دوسرے چہرے پر بے بسی ، ہر دوسری آنکھ میں محرومی ، ہر دوسرے خالی پیٹ پر نظر مار کرمطلب وڈّے سائیں کو بھُلا چکے اپنے وڈّوں کا سوچ کر مجھے آجکل گُر وجی اوروڈّے سائیں کے خوف میں جکڑی گُرو جی کی وہ شام بہت یاد آئے کہ جب مہمانوں کو گیٹ تک چھوڑکر وہ قدرے دیر سے آنسو پونچھتے کمرے میں داخل ہوئے تو انہیں یوں دیکھ کر ویسے تو ہم سب ہی پریشان ہوگئے مگر ان کا ایک بے تکلف دوست گھبرا کر اُٹھا اور ان کے دونوں ہاتھ تھا م کر بولا’’ سائیں کیہہ تھیا‘‘ وہ کچھ نہیں بولے، چپ چاپ صوفے پر بیٹھے اور پھر چند لمحے ہمیں خالی خالی نظروں سے دیکھ کر مریل سی آواز میں کہا ’’ باہر گیٹ پر ایک ضعیف بی بی بیٹھی تھی، اس نے کچھ کھانے کو مانگا مگر میں اسے نظر انداز کر کے مہمانوں کو رخصت کرنے میں لگا رہااور پھر جب سب مہمانوں کو رخصت کرکے میں واپسی کیلئے مڑا تو یہ بوڑھی عجیب سے لہجے میں بولی ’’ وے وڈّیا صاحبا توں وڈّے سائیں نوں اپنے رَجے پیٹ تے میری بھُک دا کی حساب دیویں گا‘‘۔ نوابزادہ صاحب بمشکل اتنا ہی بتا پائے کیونکہ اب ان کے آنسو تیز اور جسم کانپ رہا تھا ، مجھے اچھی طرح یاد کہ صوفے سے ٹیک لگا کر وقفے وقفے سے پانی پیتے پھر وہ اگلے 2گھنٹے بس یہی دہراتے رہے ’’جے وڈّے سائیں نیں پُچھ لیا تے فیر ۔۔!