لندن (ویب ڈیسک)برطانیہ کی شاہی جاگیر کے ریکارڈ 28 کروڑ 50 لاکھ پاؤنڈ کے منافعے کی خبروں کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ آئندہ سال ملکہِ برطانیہ مزید 20 لاکھ پاؤنڈ عوامی فنڈنگ سے حاصل کریں گی۔اس امر سے قطعہ نظر کہ ملکہ کی آمدن کی بہت ساری تفصیلات منظرعام پر لائی جاتی ہیں، ملکہ کی اصل دولت نامعلوم ہے۔سنڈے ٹائمز کی امیر ترین کی افراد کی سنہ2015 میں شائع ہونے والی فہرست کے مطابق ان کی اندازاً دولت 34 کروڑ پاؤنڈ ہے جو گذشتہ برس سے ایک کروڑ پاؤنڈ زیادہ ہے۔ملکہ کے مال و دولت کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان کی ذاتی آمدن اور حکومت کی جانب سے بادشاہت کو دیے جانے والے فنڈز۔ملکہ کی عوامی آمدن کا بڑا حصہ ساورن گرانٹ سے آتا ہے جو شاہی جاگیر کے منافعے کے ایک متعین حصے پر مشتمل ہوتی ہے۔شاہی جاگیر کے حوالے سے جارج سوم اور حکومت کے درمیان معاہدہ سنہ 1760 میں طے پایا تھا جس کے مطابق شاہی املاک سے حاصل ہونے والی اضافی آمدن خزانے میں جائے گی۔اس کے بدلے میں بادشاہ سول حکومت کا خرچ برداشت نہیں کرے گا اور نہ ہی سابقہ بادشاہوں کی جانب سے لیاگیا قرض ادا کرے گا، اور ایک متعین کردہ سالانہ آمدن حاصل کرے گا۔ اس وقت سے آنے والے بادشاہوں نے اس معاہدے کی تجدید کی ہے۔آج شاہی جاگیر ایک خودمختار کمرشل پراپرٹی بزنس ہے جس کا شمار برطانیہ کی بڑی جائیدادوں میں ہوتا ہے۔ بیشتر جائیداد و اثاثے لندن میں ہیں لیکن اس کے علاوہ سکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ میں بھی جائیدادیں ہے۔ان میں گریٹ وِنزر پارک اور ایسکوٹ ریس کورس بھی شامل ہیں، تاہم جائیداد کا بیشتر حصہ رہائشی مکانات، کمرشل دفاتر، دکانوں، کاروبار اور ریٹیل پارکوں پر مشتمل ہے، جن میں لندن کے ویسٹ اینڈ میں واقع ریجنٹ سٹریٹ بھی شامل ہے۔فنڈنگ کے حوالے سے موجودہ انتظامات کے مطابق جاگیر سے جاصل ہونے والا تمام منافع خزانے کو ادا کیا جاتا ہے اور اس کا 15 فی صد ملکہ کو دیا جاتا ہے۔اس سال ساورن گرانٹ تین کروڑ 79 لاکھ پاؤنڈ تھی جس میں سے ملکہ نے تین کروڑ 57 لاکھ پاؤنڈ خرچ کیے۔ یہ رقم کی تنخواہوں، جائیداد کی دیکھ بھال و مرمت، سفر اخراجات اور دیگر امور پر خرچ کی گئی۔تکنیکی طور پر شاہی جاگیر حکمران بادشاہ کے دور بادشاہت تک اس کی ملکیت ہوتی ہے لیکن عملی طور پر وہ اسے فروخت نہیں کر سکتے۔پریوی پرس ملکہ کی ذاتی آمدن ہے جو بیشتر طور پر شاہی خاندان کے دیگر افراد کے اخراجات کے لیے استعمال ہوتی ہے۔پریوی پرس کے لیے آمدن ڈچی آف لنکاسٹر، ملکہ کی ملکیت جائیداد اور اثاثوں سے حاصل ہوتی ہے جس کی دیکھ بھال شاہی جاگیر سے الگ کی جاتی ہے۔اس میں انگلینڈ اور ویلز میں 18,454 ہیکٹروں پر مشتمل کمرشل، زرعی اور رہائشی جائیداد شامل ہے۔اگرچہ یہ جائیداد ملکہ کو وراثت میں ملی ہے اور ان کی ذاتی جائیداد تصور کی جاتی ہے تاہم وہ انھیں فروخت نہیں کر سکتیں۔شاہی جاگیر کی طرح ڈچی آف لنکاسٹر کا منافع بھی خزانے میں جاتا ہے، جو ملکہ کو ان اخراجات کے لیے مہیا کیے جاتے ہیں جو ساورن گرانٹ سے ادا نہیں ہوتے۔اس سال ملکہ کی ذاتی آمدن ایک کروڑ 22 لاکھ پاؤنڈ رہی جس میں سے بیشتر حصہ ڈچی آف لنکاسٹر کی جائیداد سے حاصل ہوا۔ اس میں حکومت کا بھی کردار ہوتا ہے، ڈچی آف لنکاسٹر کے چانسلر کی ذمہ داریوں میں جائیداد اور اس کے کرائے کا انتظامات سنبھالنا شامل ہیں۔اس کے علاوہ ڈچی آف کورنوال کی آمدن پرنس آف ویلز اور ڈچز آف کورنوال کے ذاتی اور سرکاری خرچ کے لیے اخراجات فراہم کرتا ہے۔ملکہ کی ذاتی آمدن کے بارے میں بہت کم معلومات حاصل ہیں۔سنڈے ٹائمز کے مطابق انھوں نے برطانوی کمپنیوں کے حصص میں بھی سرمایہ کاری کی ہے جس کی مالیت 11 کروڑ پاؤنڈ ہے۔ملکہ کی ذاتی جائیداد میں نورفولک میں سنڈرینگھم ہاؤس، ابرڈینشائر میں بالمورل کیسل اور دیگر چھوٹے گھر شامل ہیں۔اس کے علاوہ ذاتی ملکیت میں شاہی ٹکٹوں کا ذخیرہ، فن پارے، زیورات، گاڑیاں، گھوڑے اور ملکہ کی والدہ کی وراثت شامل ہیں جو سب کی سب ان کی ذاتی مال و دولت میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ شاہی ذخائر میں شامل شاہی زیورات اور فن کے نمونے بھی ملکہ کی ملکیت ہیں۔ ان میں دس لاکھ سے زائد اشیا شامل ہیں ان کی مالیت دس ارب پاؤنڈ سے زیادہ ہے، تاہم ان کا شمار ملکہ کی مال و دولت میں نہیں کیا جاتا۔ان میں قدیم شاہکار تصاویر، تاریخی تصاویر، فرنیچر، کتابیں اور فن کے دیگر نمونے شامل ہیں۔ یہ اشیا متعدد جگہوں مثلا ہیمپٹن کورٹ پیلس اور ونزر کیسل میں رکھی گئی ہیں۔