Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

enter image description here

ماسکو(نیوز ڈیسک) روسی خلائی ایجنسی ’’روس کاسموس‘‘ نے سال 2030 تک چاند پر مستقل اڈے بنا کر وہاں اپنے 12 خلانوردوں کو دیرتک بسانے کا منصوبہ پیش کیا ہے۔enter image description here تفصیلات کے مطابق روسی خبررساں اداروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے لیے لیونا 25 نامی ایک خلائی جہاز بھی تیارکرلیا گیا ہے جو چاند پر بسنے کی راہ ہموار کرے گا۔ اس کے علاوہ چاند تک بھاری سامان بھیجنے کے لیے انگرا اے 5 وی نامی طاقتور ترین راکٹ کی تیاری کا کام بھی جاری ہے۔ منصوبے کے تحت چاند کے قطبین پر بجلی کا اسٹیشن بنا کر وہاں رہائشی کالونی کو توانائی فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ خلانوردوں کو ریڈی ایشن اور دیگر مضر اشیا سے محفوظ رکھنے کے لیے خاص حفاظتی اسٹرکچر بھی تعمیر کئے جائیں گے۔ اس سے قبل روسی خلائی ایجنسی نے کہا تھا کہ وہ چاند پر 2024 تک ایک خلائی جہاز روانہ کرے گی تاکہ اگلے 6 برس میں انسانوں کو وہاں بسانے کا کام شروع کیا جاسکے۔ ناقدین کے مطابق روس وہاں عسکری اڈہ بنانا چاہتا ہے جب کہ بعض ممالک کے مطابق روسیوں کی نظر چاند کی قیمتی معدنیات پر ہے۔

enter image description here

واشنگٹن(ویب ڈیسک) ناسا کی جانب سے نظامِ شمسی کے سب سے بڑے سیارے مشتری (جوپیٹر) پر بھیجا گیا خلائی جہاز ’جونو‘ تاریخی لحاظ سے اس کے انتہائی قریب جا پہنچے گا۔

enter image description here جونو مشن پر ایک ارب ڈالر سے زائد کی لاگت آئی ہے اور اب تک یہ مشتری کے قریب ترین پہنچنے والا انتہائی جدید خلائی جہاز بھی ہے۔ سیارہ مشتری کے مدار میں داخل ہوکر وہاں کی حیرت انگیز تصاویراور معلومات زمین کی جانب بھیجے گا۔ناسا کے ماہراور جونو پروگرام پر کام کرنے والے مرکزی سائنسداں کے مطابق اسے مشتری کے اندر کی معلومات کے لیے تیار کیا گیا ہے کیونکہ سیارہ ہماری زمین کی طرح ٹھوس نہیں اور مختلف گیسوں سے بنا ہے اور اسی بنا پر اسے ’ گیسی دیو‘ کہا جاتا ہے۔ پہلی مرتبہ ماہرین اس کے دبیز بادلوں کی اندر جھانک کر دیکھ سکیں گے کہ مشتری اصل میں کیسا ہے۔یہ سیارہ زمین سے 11 گنا بڑا ہے اور بعض ماہرین کے مطابق یہ ایک ناکام ستارہ ہے جو گیسوں میں لپٹا ہوا ہے اوراس کے اندر کی خبر جونو فراہم کرے گا۔ جونو مشتری کے بارے میں کئی نظریات تبدیل کرسکے گا اور اس کی تشکیل کے بارے میں بہت کچھ جاننے میں مدد ملے گی۔ جونو مشتری کی سطح پانی کی ممکنہ موجودگی کی چھان بین بھی کرے گا۔

enter image description here

اگرچہ تربوز 92 فیصد پانی پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اس میں کئی طرح کے وٹامن، اینٹی آکسیڈنٹس اور امائنو ایسڈ موجود ہوتے ہیں جس کی بنا پر ماہر غذائیات اسے جادوئی سپر پھل قرار دیتے ہیں۔150 گرام تربوز کے ٹکڑوں میں 43 کیلوریز، صفر چکنائی، 2 ملی گرام سوڈیم، 9 گرام چینی، ایک گرام فائر، روزانہ ضروریات کے وٹامن اے کی 17 اور وٹامن سی کی 21 فیصد مقدار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ تھایامن، ربوفلیون، نیاسن، وٹامن بی 6، فولیٹ، پینٹوتھینک ایسڈ، میگنیشیئم، فاسفورس، پوٹاشیئم ، زنک، مینگنیز، کولائن، لائسوپین، بیٹین، اور دیگر اہم اجزا موجود ہوتے ہیں۔ماہرین کے مطابق تربوز نہ صرف پیاس بجھاتا ہے، لُو سے بچاتا ہے ، وزن کم کرنے کے علاوہ نظامِ ہاضمہ بہتر کرتا ہے اور دل کے افعال کو مضبوط و منظم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی تربوز کے ایسے بے شمار فوائد ہیں جس سے ہم لا علم ہیں۔ دمے سے بچاؤ: وٹامن سی کی بڑی مقدار کی وجہ سے تربوز کا باقاعدہ استعمال تکلیف دہ دمے سے بچاتا ہے اور سانس کے نظام کو بہتر کرتا ہے۔ بلڈ پریشر میں کمی: امریکن جرنل آف ہائپرٹینشن میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق تربوز درمیانے درجے کے فربہ افراد میں بلڈ پریشر کو معمول پر رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کینسر کو روکتا ہے: تربوز میں ایک اہم جزو لائسوپین پایا جاتا ہے جو کئی طرح کے کینسر کو روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جن میں مردوں میں پروسٹیٹ کینسر سرِ فہرست ہے۔ جب کہ اس میں اینٹی آکسیڈنٹ اجزا کی وسیع مقدار موجود ہوتی ہے جو خلیات میں کینسر بننے کو روکتی ہے۔ تربوز نظام ہاضمہ کے لیے بہتر: تربوز میں پانی اور فائبر (ریشوں) کی وسیع مقدار کی وجہ سے یہ قبض ختم کرتا ہے اور ہاضمے کے معمولات کو بحال رکھتا ہے۔ نیند اور دماغی صلاحیت: تربوز میں پایا جانے والا ایک اہم مرکب کولائن بھی ہے۔ یہ نیند کو بہتر بناتا ہے، سیکھنے اور یادداشت کے عمل کو اچھا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جلن اور پٹھوں کی اینٹھن کو بھی ختم کرتا ہے۔ تربوز جلد کا دوست: تربوز میں وٹامن اے کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو بالوں اور جلد کے لیے ایک ضروری جزو ہے۔ اگر آپ ایک کپ تربوز کھاتے ہیں تو جلد کے بیرونی پٹھوں ( کولاجن) کی مرمت کی 21 فیصد ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ واضح رہے کہ جلد کے لئے کاسمیٹکس میں تربوز کے اجزا شامل کیے جاتے ہیں۔ تربوز اور صحتِ قلب: تربوز میں اسٹرولائن جزو پایا جاتا ہے جو خون کے بہاؤ کو بہتر بناتا ہے۔ اس سے خون کی شریانوں میں چربی جمع نہیں ہوتی اور کئی مطالعوں میں یہ دل کے لیے مفید ثابت ہوا ہے۔

enter image description here

کمپیوٹر صارفین اکثر معلومات کے حصول کیلئے انٹرنیٹ کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں مطلوبہ معلومات کے حصول کیلئے بہت سے سرچ انجن دستیاب ہوتے ہیں۔ ان سرچ انجنز میں سے سرفہرست گوگل ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ تحقیق کیلئے کمپیوٹر اور سرچ انجن پر زیادہ انحصار کرنے والوں کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق محققین کا کہنا ہے کہ معلومات کے حصول کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لینے والوں میں طویل مدتی حافظے کی نشوونما پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر تیسرا شخص معلومات دوبارہ یاد کرنے کے لیے کمپیوٹر کا سہارا لیتا ہے جبکہ اب یہ رحجان ترقی پذیر ممالک میں بھی عام ہو رہا ہے۔بیشتر لوگ اطلاعات کے حصول کے لیے گوگل کو ہی موثر ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس طرح یہ سرچ انجن ان کی زندگی پر حاوی ہو چکا ہے۔ جب ہم کوئی بات یاد کرتے ہیں توہمارا دماغ اس یاد کو مزید پختہ کر کے اس یاد میں رکاوٹ بننے والی غیرمتعلقہ باتیں بھلا دیتا ہے۔انٹرنیٹ کی بدولت لوگ کمپیوٹر والے آلات اپنے اضافی دماغ کے طور پر استعمال کرنے کے عادی ہوگئے ہیں جس سے ان کے حافظے پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ اس رحجان نے ڈیجیٹل ایمنیڑیا (بھولنے کی بیماری) کو جنم دیا ہے۔اس بیماری کا شکار لوگ وہ اہم ترین معلومات بھی بھول جاتے ہیں جس کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ ڈیجیٹل آلات کے ذریعے فوری حاصل کی جاسکتی ہیں۔

enter image description here

انیس سالہ ارسلان کی ایکسیڈنٹ میں اچانک موت سے اس کے دوست اور رشتہ دار بہت افسردہ ہوئے اور ارسلان کے ساتھ اپنی یادیں، تصاویر اور ویڈیوز ارسلان کی فیس بک وال پر شیئر کرنے لگے۔ انہیں دیکھ کر ارسلان کی والدہ نے سوچا کہ ارسلان کا فیس بک اکاؤنٹ بند کر دینا چاہیے، مگر ارسلان کے فیس بک کا پاسورڈ نا ہونے کی وجہ سے وہ ایسا نا کرسکیں۔ فیس بک انتظامیہ سے رابطہ کرنے پر انہیں بتایا گیا کہ کسی اکاؤنٹ ہولڈر کی موت کی صورت میں اس کا پاسورڈ کسی سے بھی شیئر نہیں کیا جاتا۔ البتہ اکاؤنٹ ہولڈر کی وفات کی صورت میں ثبوت مہیا کرنے اور درخواست کرنے پر مرحوم کے اکاؤنٹ کو یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے، جہاں اس کے دوست، مرحوم کے ساتھ اپنی یادیں، تصاویر اور ویڈیوز شیئر کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ہم ڈیجیٹل اثاثوں یا آن لائن اکاؤنٹس تو دور، بینک اکاؤنٹس اور دیگر اثاثوں کے بارے میں بھی وصیت نہیں کرتے جس کی وجہ سے اچانک موت کی صورت میں لواحقین مسائل سے دوچار ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو خاندانوں میں دوریاں پڑ جاتی ہیں۔ ہم ڈیجیٹل اثاثوں کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں مگر ٹیکنالوجی میں جدت اور پیشرفت کے باوجود ابھی تک ہم اپنے ڈیجیٹل اثاثوں یا آن لائن اکاؤنٹس کی وصیت کی اہمیت سے واقف نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اب جائیداد کے اثاثوں کے علاوہ ڈیجیٹل اثاثوں کی وصیت بھی لکھی جانے لگی ہے اور اثاثوں کی وصیت کرنے والی قانونی فرمز کی طرز پر ڈیجیٹل اثاثوں کی وصیت کرنے والی فرمز بھی کام کر رہی ہیں، جو کہ اپنے کلائنٹس کی زندگی میں ہی ان کے فیس بُک اور ٹویٹر اکاؤنٹس کے علاوہ آن لائن بینکنگ، ای میل اکاؤنٹس اور دیگر اکاؤنٹس کے بارے میں بھی وصیت تیار کرتی ہیں۔ یہ کمپنیاں اپنی کلائنٹس کی وصیت کے مطابق لواحقین کو مرحوم کے ڈیجیٹل اثاثے یا اکاؤنٹس کچھ عرصے یا ہمیشہ کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کرتی ہیں، یہاں تک کہ یہ فرمز اپنے کلائنٹس کی وصیت کے مطابق موصول ہونے والے پیغامات اور پوسٹوں کے جوابات دینے کا اختیار بھی لواحقین کو دیتی ہیں۔ پہلے وفات پا جانے والے اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے فیس بک یہ آپشن دیتا تھا کہ مرحوم کے لواحقین کی جانب سے ثبوت مہیا کرنے پر مرحوم کے اکاؤنٹ کو یادگار کے طور پر محفوظ کردیا جاتا تھا تاکہ مرحوم کے دوست احباب اپنی اپنی یاداشتیں شیئر کرسکیں۔ تاہم فیس بُک کی جانب سے 2015 میں ایک نیا فیچر “Legacy Contact” متعارف کروایا گیا، جس کے ذریعے اکاؤنٹ ہولڈر اپنی وفات کی صورت میں اپنا جانشین مقرر کر سکتا ہے۔ تاہم جانشین کو صرف یادگاری صفحے پر کوئی پیغام لکھنے، دوستی کی نئی درخواستیں قبول یا رد کرنے اور پروفائل اور کور فوٹو تبدیل کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یقیناً ہم بہت سارے ایسے لوگوں کے جانتے ہوں گے جو وفات پاگئے مگر ان کے فیس بُک یا ٹوئٹر اکاؤنٹس ابھی تک ہیں اور چونکہ ان کے پاس ورڈز کسی کے پاس نہیں ہوتے اور فیس بُک کی جانب سے متعارف کروائے جانے والے فیچر سے لوگ ابھی آگاہ بھی نہیں، اس لیے کسی کی موت واقع ہونے کے بعد بھی لوگ اسے پیغامات بھیج سکتے ہیں، مگر ان کا کبھی بھی جواب موصول نہیں ہوتا۔ چونکہ فیس بک ایک ڈائری کی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ کی آنے والی نسلیں اپنے والدین کی یادوں اور ان کی زندگی کے قیمتی لمحات جو انہوں نے فیس بُک پر بذریعہ تصاویر اور ویڈیوز شیئر کیے تھے، وہ بالکل ویسے ہی دیکھ سکیں جس طرح ہم لوگ پرانے فوٹو البمز کھول کر دیکھا کرتے تھے، یا اپنے دادا دادی کی ڈائریاں اور خطوط کھول کر پڑھا کرتے تھے۔ مگر اس تیز تر زندگی میں ہم لوگ نہ جانے یہ کیوں بھول گئے ہیں کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنی یادیں محفوظ کرنی چاہیئں۔ ہم تو اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے ڈھیر ساری جائیدادیں چھوڑیں، مگر کبھی بھی ان کے لیے وصیت چھوڑنے کا اہتمام نہیں کرتے۔ ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی میں جائیداد کے حصے کیے بغیر وفات پا جاتے ہیں، جس کی وجہ سے بعد میں بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے۔ کیا ہم اپنی زندگی میں ہی یہ فیصلے کر کے نہیں جا سکتے تاکہ انہیں زندگی گزارنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نا کرنا پڑے۔ جائیداد کی وصیت چھوڑنے پر ہماری نسلیں بنا فیس بُک پروفائلز دیکھے ہی ہمیں یاد کرلیا کریں گی، اور کیونکہ آپس میں جھگڑے نہیں ہوا کریں گے، تو ساتھ مل کر بیٹھا تو کریں گی۔ اور اب کیونکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا دور ہے، تو ہماری ای میلز اور ہمارے پیغامات میں کئی ایسی ضروری چیزیں ہو سکتی ہیں جن کی ہمارے بعد والوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے۔ یہ کسی قانونی مسئلے کی دستاویزات بھی ہوسکتی ہیں، تو کسی سرمایہ کاری کی تفصیلات بھی۔ تو کیا ہم یہی چاہتے ہیں کہ جس چیز پر ساری زندگی اتنی محنت کر رہے ہیں، ان کے پاسورڈ اپنے ساتھ لیے دنیا سے چلے جائیں؟ پاکستان میں ابھی ڈیجیٹل اثاثوں کی وصیت لکھنے والے فرمز تو نہیں مگر ہم خود اپنے پاسورڈز گھر والوں کے ساتھ شیئر کرکے ان اثاثوں کے غلط استعمال سے بچ سکتے ہیں۔ کیا یہ چھوٹا سا کام کرنا بہت مشکل ہے؟