آج بتانا تو یہ تھا کہ اُدھر جب نیو کلئیر سپلائرزگروپ کی ممبر شپ کیلئے بھارت کے 38وفد دنیا بھر میں پھیل چکے تھے اور جب نریندر مودی ملک ملک پھر رہا تھا تب اِدھرہمارا حال یہ تھاکہ دو بزرگوں میں فٹبال بنی ہماری خارجہ پالیسی، علاج معالجے کے وقفوں میں لندن میں واکیں اورشاپنگیں کرتے ہمارے وزیر اعظم اورلمحہ بہ لمحہ وزیر اعظم کی صحت کی خبریں دینے اور عمران خان کی خبرلینے میں لگی ہماری حکومت ، آج بتاناتو یہ بھی تھا کہ جب نیوکلئیر سپلائرز گروپ پر حکومت کے مختلف ملکوں کو خط لکھنے کی بات جھوٹ نکلی تو پھر کیسے فوج سر جوڑ کر بیٹھی، کیسے جنرل راحیل شریف unscheduledدورے پر چین پہنچے ،کیسے سب پروٹوکول ایک طر ف کر کے چینی وزیر اعظم نے جنرل راحیل شریف کے ساتھ ایک طویل نشست کی ،چین کے بعدآرمی چیف نے ترکی اور برازیل کو بھارتی مخالفت پرکیسے قائل کیااورپھرآسٹریا اور چیک ریپبلک تک پہنچے آرمی وفود نے آخری لمحوں میں اپنے تمام دوستوں کووہ کیا پیغام پہنچایا کہ امریکی کندھوں پر سوار بھارت جیتی بازی ہا رگیا ۔ یہاں بتانا تویہ بھی تھاکہ اگر بھارت ’’این ایس جی‘‘ کا ممبر بن جاتا توپھر اگلے مرحلے میں اسے اقوام متحدہ کا مستقل ممبر بننے سے کوئی روک نہ پاتا ، آج سنانا تویہ بھی تھا کہ60ہزار پاکستانی مروانے، 5کروڑ افراد کی زندگیاں تباہ کروانے اور 188 ارب ڈالر کا نقصان ہوجانے کے بعد بھی فاٹا کو نظراندازکرنے کی اصل کہانی اور 30لاکھ افغان مہاجرین کے مستقل بوجھ اور 10لاکھ پاکستانی ملازمتوں پر قبضہ جمائے افغانیوں کے معاملے پرحکومتی خاموشی کی اصل وجہ کیا؟ آج بات تویہ بھی کرنی تھی کہ میاں صاحب کے دل کی ایک شریان کی40منٹ کی مرمت کو 4بائی پاسوں کا نام دینے کا آئیڈیا کس کا تھا اور اپنڈکس آپریشن سے بھی کم خطرناک اس Procedureکومرچ مصالحے لگانے اور سنسنی خیز بنانے کا مقصد کیا تھا؟ آج جی تویہ بتانے کو بھی کر رہا تھا کہ مہمند ایجنسی میں پولیٹیکل ایجنٹ لگانے کے لئے 25کروڑکس نے کس بڑے کے بیٹے کو دئیے اور جب کام ہوا اور نہ پیسے واپس ملے توپھرکس نے کسے اغواء کروالیا ، آج خواہش تویہ بھی تھی کہ اس سکیورٹی اور چیکنگ سسٹم کا برقع اتارتاکہ جو دن دیہاڑے ملتان سے خانیوال ، خانیوال سے فیصل آباد اورپھر فیصل آباد سے علاقہ غیر مطلب آدھے پاکستان میں پھرتے پھراتے حیدر گیلانی کو برقعے کے پیچھے دیکھ نہ سکا ، آج آرزو تو یہ قصہ سنانے کی بھی تھی کہ کپتان اورڈاکٹر قادری کو رمضان میں 3بڑے شہر Jamکرنے پر راضی نہ کر سکنے والا 5کا ٹولہ ا ب عید کے بعد لاہور ، کراچی اور اسلام آباد میں کیا کچھ کرنے کے موڈ میں، آج تمنا تو ان رازوں سے پردہ اٹھانے کی بھی تھی کہ حسین حقانی سے لاتعلقی پر پی پی کیوں مجبور ہوئی ، وہ کون سے معاملات کہ جن پر زرداری صاحب اور بلاول اب آمنے سامنے اور شاہوں میں اتنے اختلافات کیوں ہوگئے کہ برطانیہ میں بھائی بھائی کے گھر نہ ٹھہرا، بھتیجے چاچے کو سلام نہ کریں، ایک بھائی کی 3ذاتی گاڑیاں گیراج میں مگردوسرابھائی اپنی بیوی اور بیٹے سمیت ٹیکسیوں پر اور پاکستان پرحکومتیں کرتی شہزادی اپنے خاوند کے ترقیاتی فنڈز صرف اس لئے جاری کردے کہ کہیں اس کا خاوند اس کے کزن کے ساتھ ہاتھ نہ ملالے ،آج دل تو یہ بتانے کو بھی کر رہا تھا کہ سپہ سالار کے ساتھ ایک میٹنگ کے بعد کس بڑے صاحب کو دل کی تکلیف ہونے پر 3گھنٹے کس ہسپتال میں گذارنا پڑے، آج من تو یہ بھی چاہ رہا تھا کہ قوم کو’’ٹی اوآر تماشے ‘‘میں الجھا کر اقتدار کیلئے کہیں گھٹنے چھوتی تو کہیں گریبان پھاڑتی حکومت کی اصل کہانی ان کے اپنے ٹی اوآر کمیٹی ممبر کی زبانی سناؤں کہ جس کا خلاصہ یہ کہ عمران خان کے علاوہ سب کے سب ملے ہوئے اور سب کے سب جو کچھ بھی کر رہے ،ایک دوسرے کی مرضی کے مطابق کر رہے ،آج (ن )لیگ کے اس فارورڈ بلاک کابھی بتانا تھا کہ جو’’ تبدیلی‘‘ کیلئے اپنی راہیں تبدیل کر چکا ،آج حکومت کے ان 3رہنماؤں کا قصہ بھی سنانا تھا کہ جو حقیقی جمہوریت کیلئے حقیقی کھیل شروع کر چکے ،آج دکھ یہ بھی بیان کرنا تھے کہ پاکستان کو مسلم دنیا میں تنہا کرنے کیلئے نریندری مودی کا ہاتھ بٹاتا ہمارا مسلم برادر ملک کون،امریکہ کی بلوچستان کہانی اور افغانستان کا اصل پیٹ دردکیا ، محمود اچکزئی کی کابل محبتوں کا راز کیا اوریہ راز جان کر بھی نواز حکومت ابھی تک اچکزئی صاحب کی چادر کی بُکل میں کیو ں اور امجد صابری کے قتل کا کراچی کے6سے 7ارب رمضان کی زکوٰۃ اور فطرانے سے کیا تعلق یعنی ایک غیر سیاسی شخص کا قتل سیاسی کیوں ہونے جارہا،آج اس بات پر بھی افسوس کرنا تھا کہ60کی دہائی میں سعودی عرب کا بجٹ بنانے والے پاکستانی آج اپنا بجٹ بھی کیوں بنا نہ پائیں اور1963میں جرمنی کو 12کروڑ قرضہ دینے والا پاکستان آج 70ارب ڈالر کا خود مقروض کیوں ؟ اور آج سمجھانا یہ بھی تھاکہ شریف خاندان کی باقی جائیداد کو تو چھوڑدیں ، اگر حسن اور حسین نواز کے لندن والے گھر کو ہی لے لیں اب اگرسپر پاور کا سپر مین باراک اوبامہ یہ گھر خریدنا چاہے تو وہ امریکی صد ر جس کی سالانہ تنخواہ ٹیکس کٹنے کے بعد3لاکھ 95ہزار ڈالر رہ جائے وہ اپنی صدارت کی تمام تنخواہ اورسب الاؤنسز بچا کربھی یہ 650کروڑ کا گھر خرید نہ سکے ،یقین جانیئے آج یہ سب بتانا اورآج یہ سب سنانا چاہتا تھا مگر پھرجب دل نے دماغ سے یہ کہہ دیا کہ’’ قبلہ وہ ملک کہ جہاں ایک طرف 5فیصد باپ اس عید پراس لئے چھٹی لے کر گھر نہ آئیں کہ وہ بچوں کی عید فرمائشیں پوری نہیں کر سکتے جبکہ دوسری طرف اس عید پر وہ12چارٹرڈ فلائٹس تیار کہ جن پردو شہروں کی ایلیٹ کلاس ایک بھارتی فلم کا’’ عید شو‘‘دیکھنے دبئی جائے گی اور ان فلائٹس پر دو بیگمات تو ایسی بھی کہ جنہوں نے اپنی بلیوں کیلئے جہاز کی ٹکٹ اور ہوٹل کی بکنگ بھی کروائی ہو اور ایک طرف وہ ملک کہ جہاں بلاول اس بات پر پھولے نہ سمارہا کہ اس کے بھیجے گئے آم ملکہ برطانیہ اور اس کے خاندان کو پسند آئے جب دوسری طرف بلاول کے تھرپارکرکے 75فیصد لوگ غیر ملکی میڈیا کو بتائیں کہ انہوں نے اس پورے رمضان میں فروٹ کا منہ ہی نہیں دیکھا تو اس ملک میں عیدپر تمہاری یہ محرّم والی باتیں بھلاکون سنے گا،اس لئے اس بک بک جھک جھک کی بجائے اچھی اچھی باتیں کرو‘‘ لہذا دوستو! دل کی ما ن کرآج دکھی باتوں اور کالے قولوں کی بجائے حاضرِ خدمت ہیں چند چٹی مطلب چنداچھی باتیں ! بات ساری نیت کی ورنہ وقت تو سارے ہی دعا کے ، نیت ٹھیک نہ ہو تو نیک عمل نیک نہیں رہتا کیونکہ انسان اندر سے صاف نہ ہو تو اس کا کلمہ توحید بھی کلمہ توحید نہیں ہوگا ۔ مذہب کیلئے جانیں دینے اور جانیں لینے والے اگر مذہب کے مطابق زندگیاں بسر کر لیں تو مذہب اور دنیا دونوں کی حالت بہتر ہوجائے۔ ہمارے پاس ہر آسائش مگر سکون نہیں ، مال ومتاع کے ڈھیر مگر اطمینان نہیں ، ہم ایک ساتھ چل رہے مگر ہماری منزل ایک نہیں اور ہم وہ ہجوم کہ جس ہجوم کو ہجوم سے بھی کوئی واسطہ نہیں ،ہم دوسروں کی نگاہ میں بلند ہونے کی خواہش میں اپنی نگاہ سے بھی گرتے جار ہے اورہم دیوتا بننے کی آرزو میں انسان بھی نہ رہے ۔ اپنے منصوبوں میں موت شامل رکھو، کبھی خسارہ نہیں ہو گا ۔ ایک دن حضرت موسیٰ ؑ نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ ’’ آپ نے چھپکلی کو کیوں پیدا کیا ‘‘ جواب ملا’’ موسیٰ چھپکلی بھی آج یہی پوچھ رہی تھی کہ اے رب تم نے موسیٰ ؑ کو کیوں پیدا کیا‘‘(مطلب کوئی غیر اہم نہیں ) ۔ حضرت علیؓ کہا کرتے ’’ میرے مالک میرے لیئے بس یہی عزت کافی کہ میں تیرا بندہ اور تو میرا رب ‘‘( بات سمجھ میں آجائے توپھرجھوٹی عزتوں اور وقتی پھوں پھاں کی دوڑیں رک جائیں ) ۔ ایک عبادت گذار دعا مانگ رہا تھاکہ ایک فرشتے کا وہاں سے گزر ہوا ،عابدیہ پہچان کر فرشتہ ہے، بولا’’ میری چند خواہشیں تو اللہ کے ہاں پہنچا دینا، فرشتہ بولا ’’کونسی خواہشیں ‘‘ اور پھر عبادت گذار نے جیسے ہی اپنی آرزوئیں گنوانا شروع کیں تو فرشتے نے کہا ’’ بس بس میں سمجھ گیا تمہیں اللہ کے علاوہ سب کچھ چاہیے ‘‘ (کاش ہمیں یہ یاد رہے کہ جسے اللہ مل گیا اُسے سب کچھ مل گیا )۔ اور آخر میں کہنا یہی کہ گذرے رمضان میں جو سحری اورجو افطاری آپ نے کی اگر وہی سحری اور وہی افطاری آپکے غریب رشتہ داروں ، سفید پوش دوستوں ،آپ کے پڑوسیوں اور ملازمین نے بھی کی، اگر’’ منہ بندی ‘‘کے ساتھ ساتھ آپکی آنکھوں ،کانوں ، دل اور دماغ نے بھی روزے رکھے اور اگر اس عید پر آپکی وجہ سے کسی ایک شخص کی عیدبھی واقعی عید ہوگئی تو پھر آپکو تہہ دل سے رمضان اور عید مبارک ، یاد رکھیں آسانیاں بانٹنے والوں کو ہی آسانیاں ملتی ہیں۔