ویسے تو حکیم سعید سے امجد صابری تک ہمارے سب غموں کی وجہ حضرت عمرؓ بہت پہلے ہی بتاچکے کہ ’’ جو ریاست مجرموں پر رحم کرتی ہے وہاں بے گناہ بے رحمی سے مارے جاتے ہیں‘‘ مگر ہر حادثے پر چند دن شور مچا کر پھر اگلے سانحے کی راہ تکتے ہم کمزوریاداشتوں اور مضبوط معدوں والوں پر عذابوں کی وجہ اور بھی ،وہ وجہ کیا، یہ پانچ منظر ملاحظہ فرمالیں ۔ پہلا منظر! گرمیوں کی سہ پہر اور وقفے وقفے سے برستی بارش، وفاقی دارالحکومت کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کے لان میں درخت کے نیچے چارپائی پرتڑپتی وہ حاملہ عورت جسے بارش سے بچانے کیلئے دو خواتین چارپائی پر کمبل تانے خود بھیگتی ہوئیں ، جسے پاس سے رُک رُک کر گذرتے لوگوں کی نظروں سے بچانے کیلئے دو بچیاں چارپائی کے اِردگرد چادرتانے کھڑی اور جسکی درد بھری چیخوں سے چند گز کے فاصلے پر برساتی چھتریاں پکڑے سکیورٹی گارڈز اور پرانی ایمرجنسی کے برآمدے میں کھڑے درجن بھر کے قریب لوگ محظوظ ہوتے ہوئے۔۔۔ اور پھرجب ایک دائی نما نرس اوردو خواتین رشتہ داروں کی مددسے 35منٹوں کی مسلسل کوششوں کے بعد خاتون نے درخت کے نیچے بچہ پید ا کیا تو چادر تانے کھڑی دو نوں بچیاں چادر پھینک کر بے اختیارپہلے اپنی ماں اور پھر اپنے نومولود بھائی کو چومنے لگ گئیں،یہاں جو بات اہم وہ یہ کہ وزیراعظم ہاؤس ،ایوانِ صدر اور پارلیمنٹ ہاؤس سے بمشکل 5کلو میٹر کے فاصلے پر جس اسپتال کے درخت کے نیچے یہ سب کچھ ہوا،اس کا ساڑھے 3ارب کا سالانہ بجٹ،4ہزار ملازمین ،12سو بیڈ اور بیسوؤں وی آئی پی اور پرائیوٹ رومزاور یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ اس سرکاری اسپتال کا سربراہ حکومتی رکنِ اسمبلی کا وہ بھائی کہ جس کا اپنا پرائیوٹ اسپتال ،اپنی دوائیوں کی فیکٹری اور عرب ممالک تک پھیلا اپنا کاروبار۔ دوسرا منظر ! وہ لاہور کہ جہاں پورے صوبے کا آدھا بجٹ خرچ ہوجائے، اسی لاہورکے سب سے بڑے سرکاری اسپتال کا تپتی دوپہر میں تندور بنا برآمدہ اور برآمدے میں زمین پر اخبارات اور اخبارات پر خاکی گتے بچھا کر اپنڈکس کے آپریشن کے بعد لیٹی وہ 4سالہ بچی کہ جس کا تکیہ ماں کا دوپٹا،جس کولگی ڈرپ اس کی 8سالہ بہن ہاتھ میں لیئے کھڑی ہوئی اورجسکی ماں سورج کی طرف کمر کر کے کچھ اس طرح بیٹھی ہوئی کہ وہ خود تو دھوپ میں مگر بیٹی چھاؤں میں ، اس برآمدے میں جہاں اتنی گرمی کہ کھڑا ہونا مشکل وہاں اُس وقت بھی 19مریض اپنے ذاتی گدوں ،دریوں اور چادروں پربے سدھ پڑے ،یہاں جو بات اہم وہ یہ کہ جب جانوروں سے بھی بدتر یہ انسان (گولی ،ٹیکے ،نرس یا ڈاکٹر کو تو چھوڑیں) ، ہسپتال کے ایک بیڈ کیلئے ترس رہے تھے ،تب ٹھیک انہی لمحوں میں انکے ہر دلعزیز قائد اپنے خاندانوں سمیت لند ن کے مہنگے ترین اسپتال میں مہنگے ترین ڈاکٹروں سے مہنگے ترین علاج کروارہے تھے جبکہ ہر دلعزیز عوامی حکومت بکروں کے صدقوں اور دعاؤں کے فوٹو شوٹ میں لگی ہوئی تھی۔ تیسرا منظر!کپتان کا خیبر پختونخواہ ، دوپہر ساڑھے 12بجے کا وقت ، اوپر آگ برساتا سورج اور نیچے 60ستر سال کے وہ 35بابے بابیاں جو صبح 9بجے سے ایک سرکاری عمارت کے احاطے میں کیکر کے درخت اور دیواروں کے سائے میں بیٹھے اُس مہمان خصوصی کے انتظار میں کہ جس نے آناتو 10بجے تھا مگر موصوف سحری کھا کر نتھیا گلی کے ایک ریسٹ ہاؤس میں ایسے سوئے کہ اُٹھے ہی 10بجے ،لہذا ڈیڑھ بجے کے قریب جب صاحب بہادر آئے تو آتے ہی اپنے سٹاف پر برہم ہوئے کہ’’ میں نتھیا گلی سے یہاں آگیا مگر تم لوگ چند کلومیٹر کے فاصلے سے ابھی تک میڈیا نہ لا سکے‘‘ ،خیر کسی نہ کسی طرح صاحب بہادر کو ٹھنڈا کرکے ٹھنڈے کمرے میں بٹھا کر دو تین سرکاری جیالے دھڑا دھڑ ٹیلی فون کرنے لگے جبکہ2افسر گاڑی لے کر صحافیوں کو لینے نکل گئے ، آخرکار پونے 3بجے کے قریب جب چند صحافی آئے تو پھر6گھنٹوں سے انتظار میں پسینو پسینے بابے بابیوں میں 5پانچ ہزار زکوٰۃ کے چیک تقسیم ہوئے ، یہاں جوبات اہم وہ یہ کہ چیک تقسیم کرتے وقت مہمانِ خصوصی ائیر کنڈیشن کمرے میں دروازے کی اند روالی سائیڈ پر کھڑاتھااور دادے دادیوں کی عمروں والے آگ برساتے سورج کے نیچے لائن میں لگے ہوئے، یہ منظر دیکھ کر مجھے حضورؐ کا وہ قول یا د آگیا کہ ’ ’اللہ تعالیٰ فرمائیں کہ جب کوئی بوڑھا دعا کیلئے ہاتھ اُٹھاتا ہے تو مجھے اس کے سفید بالوں کو دیکھ کر حیا آجاتی ہے ‘‘ چوتھا منظر ! سائیں قائم علی شاہ اور بلاول کا سندھ ، گھارو کے ایک نواحی گوٹھ کا وہ خاندان جس کے مال مویشیوں پر قبضہ کر کے ایک وڈے سائیں نے انکی 2جوان بیٹیوں کو بھی اس لیئے یرغمال بنا لیا کہ انہوں نے قرض تو چکا دیا مگر سودکی رقم نہ دے سکے ،2ماہ انصاف کی تلاش میں دربدر رُلنے کے بعدجب یہ خاندان کراچی میں آئی جی کے گھر کے سامنے سڑک پر بیٹھا تو پہلے تو 80سال سے 8ماہ کے عمروں والے ان 14افرادکو زبانی کلامی سمجھایا گیاکہ ’’ اندر قرآن خوانی ہورہی ہے اور صاحب مہمانوں کے ساتھ مصروف ہیں ،لہذا کل دفتر آکر مل لینا ‘‘ لیکن جب یہ ڈھیٹ وہاں سے نہ ہٹے تو پھر اس وقت جب اند ر قرآن خوانی کے بعد دعا اور افطاری کے انتظامات ہورہے تھے تو باہر ان کے ساتھ پولیس نے وہی کچھ کیا کہ جس کے یہ مستحق تھے ، یہاں جو بات اہم وہ یہ کہ 3دنوں کی حوالات کے بعد انہیں پولیس گردی کیخلاف اُسی وڈے سائیں سے انصاف مانگنا پڑا کہ جس کے ظلم وستم کیخلاف یہ انصاف کے دروازے کھٹکھٹا رہے تھے اورجب وڈے سائیں کے کہنے پر ان کی جان چھوٹی تو ناک کی سیدھ یہ واپس سائیں کے قدموں میں جا گرے ۔ پانچواں منظر ! چند گھنٹے بارش برسی اور پھر رائے ونڈ محلات سے چندکلومیٹر کے فاصلے پر اُس بستی کی گلیاں اور گھر پانی سے بھر گئے کہ جس بستی کے مکینو ں نے پچھلے 5انتخابات میں مسلسل میاں برادران کو جتوایا، ابلتے گٹر، بدبودار پانی سے بھری گلیاں ، مکھیوں اور مچھروں سے لبا لب صحن اور 3دنوں میں ہی گھر گھر پھیل چکا ہیضہ مگر یہاں جو بات اہم وہ اس بستی کا وہ منظر کہ گٹروں میں گٹر بن چکے مکین لیکن مکینوں کے گھروں کی دیواروں اور دروازوں پر لگے بینروں پر میاں نواز شریف کی صحتیابی اور شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی درازی عمر کی دعائیں ، یہ منظر دیکھتے ہی یہ سوچ کر کہ ’’ اللہ اس قوم کی حالت بھلا کیوں بدلے گا کہ جو اپنی حالت بدلنا ہی نہیں چاہتی ‘‘ اگلے ہی لمحے ان مکینوں کے دکھوں کو ایک کمینی سی خوشی کے ساتھ انجوائے کرتے ہوئے میں بھی یہ دعا مانگنے لگ گیا کہ ’’اللہ ہمارے محبوب قائدین کو سلامت رکھنا ‘‘ کیونکہ یہ تو صرف چند گھنٹوں کی بارش ، ابھی تو وہ اصلی بارشیں جسکی محکمہ موسمیات والے پیشن گوئی بھی کر چکے وہ برسنا باقی ، اب اگر یہ قائدین ہی نہ رہے تو خدانخواستہ جب یہ بارشیں بر س کر سیلاب کی صورت اختیار کر یں گی توپھر خاکی وردی اور لمبے بوٹ پہن کر ہماری مدد کون کرے گا ، ہیلی کاپٹروں ، بسوں ، ویگنوں اور موٹر سائیکلوں پر بیٹھ کر سیلابی علاقوں کے طوفانی دورے کرتے ہوئے کیمروں کے عین سامنے کسی ننگ دھڑنگ بچے کو گو د میں اُٹھاکر، کسی سیلابی بڑھیا کا ہاتھ چوم کر اور کسی مریل سے بابے کو جھپی ڈال کر بھرائی آواز اور بھیگی آنکھوں میں بیوروکریسی کو جھاڑیں اور عوامی نمائندوں کو خدمتِ خلق کے درس کون دے گا۔ ہم تو خوش نصیب کہ ہمیں ایسے قائد میسر جو Nationalنہیں بلکہ Internationalپائے کے ، یقین جانیئے اگر ڈیوڈکیمرون ہمارے نواز شریف سے مشورہ کر لیتا تو اتنی بھاری اکثریت سے ریفرنڈم جیتتا کہ کئی دن تو خودبھی حیران وپریشان ہی رہتا اور اگر وہ ریفرنڈم ہارکر بھی میاں صاحب سے مل لیتا تو چند دنوں میں ہی انگلینڈ میں ایسی صورتحال پیدا ہوجاتی کہ اس کے مخالفین منہ چھپاتے پھرتے۔بہرحال دوستو! اوپرکے پانچوں منظروں میں عوامی بے حسی نے جہاں یہ بتا دیا کہ ہم پر مسلسل آتے عذابوں کی بڑی وجہ ہم ہی وہاں جانوروں جیسی زندگیاں گذارتے ہم وطنوں کے اطمینان نے یہ بھی سمجھا دیا کہ قوم کا دور دور تک شعوری جہالت ،معاشی غربت اور ذہنی خوشامد سے نکلنے کا کوئی ارادہ نہیں لہذا جلنے کڑھنے کی بجائے میں تو 4بائی پاسوں کے چوتھے دن ہی واکیں اور شاپنگیں کرتے قائدِ محترم کے استقبال کی تیاریاں میں لگ چکا ،