Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

enter image description here گھر کے وائی فائی روٹر سے کبھی کبھی انٹرنیٹ بہت اچھی رفتار پر کنیکٹ ہوتا ہے اور کبھی کبھی انٹرنیٹ کی سپیڈ بہت خراب ہوتی ہے۔ لیکن انٹرنیٹ کی سست رفتار کو آپ کبھی کبھی گھر بیٹھے ہی درست کر سکتے ہیں۔ جب گھر کے ایک راؤٹر سے بہت ساری ڈیوائسز مربوط ہوں تب بھی اس کی رفتار پر بہت زیادہ فرق نہیں آنا چاہیے۔ لیکن یہ سب کو معلوم ہے کہ ایسا اکثر ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایسے ڈیوائسز سے جو انٹرنیٹ سے رابطہ قائم ہوتا ہے وہ کمزور ہوتا ہے۔ اس کی جو بھی وجوہات ہوں لیکن مصیبت اس کی ہوتی ہے جو USB dongle کا استعمال کر رہا ہو۔ آس پاس کی ڈیوائس اگر ایک ہی فریکوئنسی پر ڈیٹا ٹرانزٹ کر رہی ہوں تو ایسی پریشانی ہونا عام سی بات ہے۔ لیکن 2.4 گیگاہرٹز کی حد میں فریکوئینسیز بہت کم ہوتی ہے جبکہ ڈیوائسز بہت زیادہ۔ جب بھی دو فریکوئینسیز ایک دوسرے کے چینل میں ڈیٹا ٹرانسمیٹ کریں گی تو یہ پریشانی تو ہوگی ہی۔ پھر بھی آپ کو اس حالت میں کام تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے اب ڈوؤل بند راؤٹر ملنے لگے ہیں۔ چونکہ 2.4 گیگاہرٹز کی ڈیوائس کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم ہے اس لیے ان پر کام کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے آپ کو پیسے بھی زیادہ خرچ کرنے ہوں گے۔ گھر پر اس طرح کی پریشانی کو دور کرنے کے تین طریقے ہیں۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔ وائی فائی راؤٹر کے ساتھ USB ایكسٹنڈر اگر استعمال کریں گے تو تھوڑے وقت کے لیے یہ پریشانی دور ہو جائے گی۔ ایسے ایكسٹنڈر کی وجہ سے وائرلیس راؤٹر کو آپ دوسری جگہ پر بھی رکھ سکتے ہیں اور آپ کا کام چلتا رہے گا۔ وائی فائی کے چینل کو تبدیل کرنے سے بھی آپ کو تمام ڈیوائسز پر انٹرنیٹ کی رفتار بہتر دکھائی دے گی۔ اس کے لیے آپ کو ایک وائی فائی اینالائزر اپلیکیشن ڈاؤن لوڈ کرنا ہوگا تاکہ جس بھی چینل میں پریشانی ہو اسے آپ سمجھ سکیں۔ گوگل پلے سٹور سے ایسے وائی فائی اینالائزر اپلیکیشن آسانی سے ڈاؤن لوڈ کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد وائی فائی راؤٹر کے چینل 1، 6 اور 11 استعمال کیجیے کیونکہ عام طور پر یہ سب سے کم استعمال کیے جاتے ہیں۔ ڈبل بینڈ راؤٹر اس پریشانی کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ لیکن یہ تھوڑا سا مہنگا ہے تو فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ 2.4 گیگاہرٹز میں تین چینل ایسے ہوتے ہیں جن سے کافی کم ڈیوائسز کنیکٹ ہوتی ہیں۔ لیکن ڈبل بینڈ راؤٹر میں ایسے 23 چینل ہوتے ہیں۔اس لیے اس سے شاید ہی کبھی آپ کو رفتار میں کوئی مشکل پیش آئے گی۔

enter image description here

لندن (ویب ڈیسک)محققین نے پہلی مرتبہ ایک ایپ کی مدد سے دنیا کی مختلف اقوام کی سونے کی عادات سے متعلق اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ اس دوران ہر منٹ اور سیکنڈ تک کا حساب رکھا گیا ہے۔اس تحقیقاتی رپورٹ کی تیاری میں ہزاروں رضاکاروں نے حصہ لیا۔ نتیجے کے مطابق جاپان اور سنگاپور کے شہریوں کی رات کی نیند سب سے زیادہ ہے اور یہ لوگ اوسطاً سات گھنٹے اور چوبیس منٹ سوتے ہیں۔ تاہم ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ہالینڈ کے شہری خواب خرگوش کے سب سے زیادہ مزے لوٹتے ہیں۔ ولندیزی شہریوں کی رات کی نیند آٹھ گھنٹے اور بارہ منٹ ہے۔ جرمن شہری سات گھنٹے اور پینتالیس منٹ کے ساتھ اُن دیگر بیس ممالک کے شہریوں سے کم سوتے ہیں، جن کا اس رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا۔بتایا گیا ہے کہ سونے کی عادات جاننے کے لیے یونیورسٹی مشیگن کے محققین نے خود ایک ایپ تیار کی، جسے ’انٹرٹین‘ کا نام دیا گیا۔ یہ نتائج ’سائنس ایڈوانس‘ نامی جریدے میں شائع ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں سونے کی عادات کے حوالے سے دنیا بھر کی اقوام میں کوئی بہت واضح فرق سامنے نہیں آیا ہے۔ امریکی محقق اولیویا والش کہتی ہیں کہ ہر آدھے گھنٹے کی نیند کا انسانی دماغ کی کارکردگی پر بہتر اثر پڑتا ہے جبکہ اس کے صحت پر بھی انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس رپورٹ کی تیاری میں تقریباً ساڑھے پانچ ہزار رضاکاروں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ اس دوران یہ بات نمایاں طور پر سامنے آئی کہ نیند کا تعلق صرف تھکاوٹ سے نہیں ہوتا بلکہ ماحول اور سماجی معیارات سے بھی ہے۔ اس کے علاوہ نوکری اور بچوں کو اسکول کے لیے جگانے جیسی ذمہ داریاں بہرحال صبح اٹھنے کی وجوہات میں شامل ہیں تاہم کسی شخص کی بائیولوجیکل کلاک یا حیاتیاتی گھڑی بھی نیند سے اٹھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

enter image description here

کھانے پینے کی اکثر اشیاءکی پیکنگ پر ان کی استعمال کی مدت لکھی ہوتی ہے۔لیکن کبھی آپ نے سوچا ہے کہ پانی تو کبھی خراب نہیں ہوتا۔ پھر منرل واٹر کی بوتلوں پر بھی اس پانی کے زائد المعیاد ہونے کی تاریخ کیوں درج کی جاتی ہے؟ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ”یہ پانی پلاسٹک کی بوتلوں میں پیک ہونے اور اپنے اردگرد موجود اشیاءکی وجہ سے اپنا معیار کھو بیٹھتا ہے۔ اگر پلاسٹک کی بوتلوں میں پیک اس پانی کو براہ راست دھوپ میں رکھ دیں تو اس میں Bisphenol-Aنامی کیمیکل پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ کیمیکل انسانی جسم کے ہارمونز میں بگاڑ پیدا کرتا ہے جس سے خواتین میں چھاتی کا کینسر، مردوں میں بانجھ پن، دل اور دماغ کی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔“ بھارتی اخبار انڈیا ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ”پلاسٹک فطری طور پر مسام دار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک کی بوتلوں میں محفوظ کیا گیا پانی اپنے ماحول میں موجود گیسوں، بدبو، حتیٰ کہ بیکٹیریا کو بھی اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔“ سائنسدانوں کے مطابق بوتلوں میں محفوظ پانی 15سے 20دن میں استعمال کر لینا چاہیے۔ اس کے بعد بچ جانے والی بوتلیں ضائع کر دینی چاہییں۔ اگر آپ گھر میں منرل واٹر کی بوتلیں سٹور کرتے ہیں تو انہیں کم روشنی والی اور ٹھنڈی جگہ پر رکھیں اور سورج کی روشنی سے بچائیں۔ اس بات کا بھی دھیان رکھیں کہ بوتل باہر سے بھی صاف رہے اوراس پر گرد وغیرہ نہ جمنے پائے۔کیونکہ یہ گرد اور اس میں موجود جراثیم بوتل کے مساموں میں سے پانی میں جذب ہو سکتے ہیں۔

enter image description here

لندن (ویب ڈیسک)ہر سال لندن میں رائل سوسائٹی کچھ ایسی ہی جدید ٹیکنالوجیزاور سائنسی کمالات پیش کرتی ہے جو ہماری عام استعمال کی چیزیں بننے کے قریب ہوتی ہیں۔سنہ 2016 کی فہرست میں ایسی ہی پانچ ایجادات پیش کی جارہی ہیں جو لیبارٹری میں تیار کی جاچکی ہیں اور انھیں حقیقی زندگی میں استعمال کیا جائے گا۔ 1۔راکٹوں کے خالی خول، مردہ سیٹیلائٹ، شیشے کے ٹکڑے اور پینٹ کے ذرات خلا میں تیر رہے ہیں، خلا میں موجود یہ کوڑا تقریباً 7000 ٹن وزن ہے اور خلائی دور کے آغاز سے اب تک پھیل رہا ہے۔زمین کے گرد گھومنے والی بہت ساری سیٹیلائٹس کا ان میں سے کسی چیز کے ساتھ ٹکرانے کا خطرہ ہے جو ہمارے انٹرنیٹ اور موبائل کے مواصلاتی نظام کے لیے اہم ہیں۔بین الاقوامی خلائی سٹیشن باقاعدگی کے ساتھ اس ملبے سے ٹکراؤ سے بچنے کے لیے اپنی پوزیشن درست کرتا ہے۔ اب ’ریموو ڈربس مشن‘ یعنی ملبہ ہٹانے کا مشن یہ کام سرانجام دے گا۔ یہ منصوبہ سنہ 2017 کے اوائل میں شروع کیا جائے، جس میں ملبہ پکڑنے والی ٹیکنالوجیزکا تجربہ کیا جائے گا جو زمین کے فضا کے گرد موجود اس ملبے کو دوبارہ زمین پر لائے گا۔ 2۔ کئی دہائیوں سے سائنسدان انوفیلس مچھر سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مچھر کی یہ قسم ملیریا پھیلانے کا باعث بنتی ہے جس سے سالانہ چار لاکھ 38 ہزار اموات واقع ہوتی ہیں۔مچھروں کو مارنے والی دواؤں کے استعمال سے مچھروں میں اس کے خلاف قوت مدافعت بھی بڑھ رہی ہے۔ساٹھ ممالک میں مچھروں میں کیڑے مار ادویات کا مقابلہ کرنے کی اطلاعات ہیں اور مغربی اور شمالی افریقہ میں اس کی سطح پریشان کن حد تک ہے۔مچھروں کے خلاف اس لڑائی میں کامیابی کے لیے اس کے برتاؤ کو سمجھنا انتہائی اہم ہے۔لیورپول سکول آف ٹراپیکل میڈیسن کے محقق جوزی پارکر نے بتایا: ’ہم مچھر دانیوں کے گرد اڑنے والے مچھروں کی پرواز دیکھنے کے لیے انفرا ریڈ کیمرے استعمال کر رہے ہیں۔‘ ’دی ماسکیٹو ڈائریز‘ پراجیکٹ اس بات کا جائزہ لے گا کہ یہ کیڑے مچھر دانیوں سے کتنی دیر تک چھوتے ہیں اور مچھر مار دوا انھیں کتنی دیر تک سوتے ہوئے فرد کو کاٹنے سے محفوظ رکھتی ہے۔ 3۔یہ ایک پیچیدہ مشین ہے جس کا نام 4ڈی ایکس رے سنچروٹرون ہے۔ اور اس کی مدد سے سائنسدان چیزوں کے اندر تک دیکھ سکتے ہیں۔ یہ زمین کے تہہ کے اندر موجود مادے کو دیکھ سکتے ہیں تاکہ آتش فشاں کے پھٹنے کے بارے میں جان سکیں یا برف کے ٹکڑوں کی جانچ کی جا سکتی ہے کہ کچھ آئس کریموں کا ذائقہ زیادہ بہتر کیوں ہوتا ہے۔سنچروٹون کی شعاع سورج سے دس ارب گنا زیادہ روشن ہوتی ہے اور اس کے ذریعے کسی بھی چیز کو کاٹے بغیر اس کے اندر تک داخل ہو سکتی ہے۔ 4۔مکڑیوں کے بنائے ہوئے جالے حیاتیاتی ٹشو کے ساتھ مطابقت رکھنے اور مستحکم اشیا کی نئی نسل کی اہم کڑی ہیں۔یونیورسٹی آف آکسفرڈ کے آکسفورڈ سلک گروپ کے ماہر حیاتیات بیتھ مورٹیمر کہتے ہیں: ’مکڑیوں کا ریشم 30 کروڑ برسوں سے موجود ہے اور مکڑیاں کم سے کم مواد کو استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرتی ہیں۔‘ مکڑیاں جال بننے کے لیے پروٹین کا استعمال کرتی ہیں جو عام طور پر شکار پکڑنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم تحقیق ریشم کے مالیکیول کے ڈھانچے اور اس کے استعمال کے لیے ہر سال نئی دریافت کرنے میں مدد کر رہی ہے۔سائسندانوں نے بتایا ہے کہ قدرت میں چند عناصر ایسے ہیں جو توانائی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جیسا کہ مکڑی کا ریشم کرتا ہے۔‘ 5۔سائنسدانوں نے لیبارٹری میں ایسی ٹیکنالوجی بنائی ہے جس سے کیمیکل اور ادویات کے بغیر مصنوعی ہڈی صرف لرزش سے تیار کی جا سکتی ہے۔انھوں نے اسے ’نینوککنگ‘ کا نام دیا ہے، یہ ٹیکنالوجی ہڈی کے گودے سے سٹیم سیلز لیتی ہے جنھیں مختلف قسم کے خصوصی خلیوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور ہائی فریکوئنسی پر ’زور‘ لگا کر انھیں ہڈیوں کے خلیوں میں تبدیل کر سکتی ہے۔چنانچہ مریض کے خلیوں سے ہڈیوں کے نئے ٹکڑے کیمیکل کے بغیر اور بغیر کسی نقصان کے بنائے جا سکتے ہیں۔ اس میں جسم کے دوسرے حصے نکالنے والی تکلیف دہ سرجری شامل نہیں ہے اور ٹشو کی مماثلت نہ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔

Edhi calls for the Pak Army to take over