ہر کسی کو لاجواب کر دینے والے پطرس بخاری بتایا کرتے کہ ایک بار مجھے ایک دکاندار نے لاجواب کر دیا ۔ میری گھڑی خراب ہوئی تو بازار میں گھڑیوں کی ایک دکان پر جا کر میں نے کہا’’ میری گھڑی ٹھیک کر دیں‘‘ دکاندار بولا’’ میں گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتا‘‘ ،میں نے پوچھا’’ پھر آپ کیا کرتے ہیں‘‘ کہنے لگا ’’ میں ختنے کرتا ہوں ‘‘، میں نے حیران ہو کر کہا’’ تو پھر دکان میں گھڑیاں کیوں لٹکائی ہوئی ہیں‘‘،جواب آیا ’’آپ ہی بتا دیں کہ پھر میں کیا لٹکاؤں‘‘۔ ہمارے ایک خود ساختہ دانشور دوست جو عمر کے اُس حصے میں جہاں بُری بات بُری ہی لگے ، جن کے خدوخال ایسے کہ جیسے آؤٹ آف فوکس تصویر، جو عام آدمی کو ایسے دیکھیں کہ جیسے چھت سے گلی میں جھانک رہے ہوں ،جو ہاتھ یوں ملا ئیں کہ جیسے خیرات دے رہے ہوں ، جو موسلادھار بولیں اور گفتگو ایسی کہ نابالغ لمحوں میں بالغ ہو جائے جبکہ بالغ کو وقفے وقفے سے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنی پڑیں،جن کی رائے انکے لباس کی طرح مطلب کبھی کبھی ہی بدلے ، جن کا دماغ پیازجیسا یعنی پرتیں اتارتے جاؤ اور آخر میں کچھ نہ نکلے ، جن کی حِسّ مزاح ایسی کہ اگران کو اتوار کو ہنسانا ہو تو اِنہیں جمعے کو لطیفہ سنانا پڑے، جو اس لیئے انتہائی قابلِ اعتبار کہ جب بھی بولیں جھوٹ ہی بولیں ،جن کا جسم اتنا کہ ایک دن میں پورا دیکھنا ناممکن ، جن کا چال چلن اپنے قومی چلن جیسا ، جنہیں بچپن سے ہی سلطان راہی بننے کا شوق تھااور بقول شیخو اس شکل کا آدمی اس کے علاوہ کچھ اور بن بھی نہیں سکتا تھا، جو ہائی سکول میں اپنی کلاس فیلو کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کرتے کہ یہ میری ’’ہم درد‘‘ ہے، وہ تو بعد میں پتا چلا کہ دونوں کو گردوں کا درد تھا ، جنہوں نے کالج کے زمانے میں اپنی ایک سابقہ گرل فرینڈکے نئے بوائے فرینڈ سے پوچھا کہ ’’ اس لڑکی سے تمہارا کیا رشتہ ہے‘‘لڑکے نے کہا ’’ میری کز ن ہے‘‘ تو یہ بولے’’ پچھلے سال یہ میری کز ن تھی ‘‘۔ جو بیوی سے اپنے تعلق کو یوں Explainکریں کہ ’’مجھ اور میری بیگم میں ایسا رشتہ کہ نیند کی گولیاں وہ کھائے اور سکون مجھے ملے‘‘۔جنہوں نے اپنی پہلی شادی کے خاتمے کی خبر سناتے ہوئے بس اتنا کہا ’’میں اہل تھا کسی اور کا، میری اہلیہ کوئی اور تھی ‘‘اور جنہیں ان کی دوسری بیگم نے جب کہا کہ ’’میر ی شرافت دیکھو کہ تجھے دیکھے بغیر میں نے تجھ سے شادی کر لی‘‘تو یہ بولے ’’میری شرافت بھی دیکھوکہ تمہیں دیکھنے کے بعد بھی میں نے تجھ سے ہی شادی کی‘‘۔ خود کو ہمیشہ لاجواب سمجھنے والے اسی لاجواب نمونے کے مطابق ’’اقوام متحدہ وہ فورم کہ جہاں جب مألہ دو چھوٹے ملکوں کا پہنچے تو مؤلہ غائب ،معاملہ چھوٹے ملک اور بڑے ملک کاجائے تو چھوٹا ملک غائب اور اگر تنازعہ دوبڑے ملکوں کا ہوتو اقوام متحدہ غائب‘‘۔ یہی بتاتے ہیں کہ’’مولویوں میں 4 باتیں ایسی جو کسی اور میں نہیں دیکھی گئیں۔( 1) مولوی کبھی خودکشی نہیں کرتا ۔(2) مولوی کو نیند کیلئے نیند کی گولیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ (3) کبھی کوئی مولوی بھوکا نہیں مرتا اور مولوی کی ازدواجی زندگی ہمیشہ کامیاب‘‘ ۔انہی کافرمان کہ ’’ جو کہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ کھاتے ہوئے پانچوں انگلیاں برابر ہو جا تی ہیں ‘‘۔ انہی کاقول کہ ’’جس خاوند کو اس کی بیگم’’ عظیم‘‘ کہے یقین کر لیں اس کا نام ہی’’ عظیم‘‘ ہو گا‘‘۔ انہی کاویژن بتائے کہ ’’جب ٹانگیں کھینچنے والے ٹانگیں دبانے لگیں تو سمجھو معاملہ گڑ بڑ ہے‘‘۔ انہی کاتجربہ کہ ’’آنسو بہنے کی دو بڑی وجوہات میں ایک پیار اور دوسرا پیاز‘‘۔ انہی کاخیال کہ ’’سچی عورت وہی جو اپنی عمر،وزن اور خاوند کی تنخواہ کے علاوہ کوئی اور جھوٹ نہ بولے‘‘ اور انہی کی تحقیق کہ ’’برطانوی غسل خانے کو واش روم ،امریکی ریسٹ روم ،عربی بیت الخلا،پنجابی لیٹرین اور پٹھان جائے واردات کہیں لیکن سکھ کچھ کہنے کی بجائے، بس اسے استعمال کریں‘‘ ۔ سکھوں سے یاد آیا تقسیمِ ہند سے پہلے کی بات ہے کہ 5سکھوں پر مشتمل ڈاکوؤں کے ’’ لاجواب گینگ‘‘نے پہلا ڈاکہ مارا مگر اُنہیں اس وقت بڑی حیرانگی ہوئی جب بینک کے لاکر سے رقم کی بجائے شربت کی بوتلیں نکلیں،خیر سرداروں نے پہلے جی بھر کر شربت پیا اور پھر باقی بوتلیں لے کر چلتے بنے لیکن اگلی صبح خبر یہ عام تھی کہ گذشتہ رات ڈاکوؤں نے بینک لوٹنے کی بجائے بینک کے ساتھ ہسپتال کی لیبارٹری لوٹ لی اور ڈاکومریضوں کے پیشاپ کے نمونے تک لے گئے ۔ اپنے ایک سنیئر بیوروکریٹ جن کی گفتگو سننے کے بعد بندہ پریشان ہو کر یہ سوچے کہ جب یہ نہیں ہوں گے تو کام کیسے چلے گا مگرا ن کی کارکردگی دیکھ کر بندہ حیران ہو کہ جہاں یہ ہوتے ہیں وہاں کام کیسے چلتا ہے ،جو ہر ایک سے گلہ کریں کہ حکومت ان کے دماغ سے فائدہ نہیں اٹھارہی حالانکہ ان کی دماغی حالت ایسی کہ ایک بار کابینہ اجلاس سے باتھ روم جانے کیلئے باہر آئے اور باہر آکر یہی بھول گئے کہ باہر کیوں آئے ، اپنے باہر آنے کی وجہ پر غور فرما تے ہوئے اِنہیں باتھ روم جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور ابھی یہ باتھ روم کی طرف چلے ہی تھے کہ اچانک انکی نظر گھڑی پر پڑی اور یہ خیال آتے ہی کہ کابینہ کا اجلاس شروع ہو چکا ہے اورمیں باہر گھوم رہا ہوں ،یہ عالمِ گبھراہٹ میں باتھ روم کی بجائے بھاگم بھاگ کابینہ کے اجلاس میں جا پہنچے ۔ اسی طرح اپنے آئیڈیل خود ہی ہمارے وہ سیاستدان دوست جنہوں نے یہ کہہ کہہ کر ہماری مت ماررکھی تھی کہ National Interestکے علاوہ لیڈر اگر کچھ چُھپائے تو اِسے چوک میں لٹکا دینا چاہیے۔ مگر دوسال پہلے نہ صرف ان کا ایک خفیہ فارم ہاؤس نکل آیا بلکہ مزید کھوج کے بعد پتا چلا کہ اِسی فارم ہاؤس پر ایک عرصے سے National Interestمیں انہوں نے ایک خفیہ بیوی بھی رکھی ہوئی ہے اورآجکل پھر سے سُنا جا رہا ہے کہ National Interestکی خاطر ہی پھر سے وہ ملک کی ایک نامی گرامی خاتون کے ساتھ خفیہ نکاح کھڑکاچکے ہیں اور پھر اپنے وہ نامورٹی وی میزبان جن کے اخلاقیات پر بھاشن سن سن کر اِک دنیابہر ی ہو چکی یہ اڑھائی ماہ قبل دبئی میں اپنے بے ہوش والد کا ہاتھ پکڑ کر خاندانی جائیداد کے کاغذوں پر انگوٹھے لگواتے دھر لیئے گئے،مقدمہ دبئی میں زیرِ سماعت ہے۔ ایک شخص تبلیغی جماعت کیساتھ 40دن لگا کر واپس آیا اور اگلے دن ہی بیوی کو مارنے پیٹنے لگا ،محلے داروں نے بیچ بچاؤ کرواکر وجہ پوچھی تو کہنے لگا’’یہ داڑھی نہیں رکھتی ‘‘سب نے کہا کہ ’’ بے حیا انسان عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی ‘‘بولا ’’مگر یہ ارادہ تو کرے، ارادے کا بھی ثواب ہے‘‘۔ ہاتھ میں تلوار پکڑے ایک شخص نے مسجد میں آکر آواز لگائی ’’ یہاں کوئی پکا نمازی ہے ،ایک بزرگ بولے ’’میں ہوں ‘‘ بزرگ کو باہر بٹھا کر اور اپنی تلوار پر سرخ رنگ لگا کر یہ شخص دوبارہ مسجد میں جا کر بولا’’کوئی اور پکا نمازی ہے ‘‘ ایک آدمی کہنے لگا ’’ وہ سامنے بیٹھے خان صاحب بڑے پکے نمازی ہیں‘‘ سرخ تلوار کو دیکھتے ہوئے خان صاحب خوفزدہ لہجے میں بولے ’’ بھائی یہ نماز کیا ہوتا ہے ، ہم تو یہاں یہ اعلان کروانے آیا تھا کہ ہمارے علاقے کا کیبل نہیں آرہا‘‘۔ ایک ماڈرن خاتون کو جب ڈاکٹر انجکشن لگانے لگا تو یہ بولیں ’’ ڈاکٹرصاحب انجکشن وہاں لگائیں جہاں نظر نہ آئے‘‘ ڈاکٹر نے ایک نظر اُس کے لباس پر ماری اور پھر انجکشن چمچ میں ڈال کر دیدیا۔ یہ لاجواب رنگ ہمارے معاشرے کے اور بقول شیخو انہی رنگوں سے سجا ہمارا معاشرہ بھی ایسا لاجواب کہ جہا ں اگر لڑکی زور سے ہنسے تو ’’خوبصورتی‘‘ ،لڑکا زور سے ہنسے تو’’ ڈنگر‘‘۔ لڑکی میٹھا بولے تو’’ پیاری‘‘،لڑکا میٹھا بولے تو ’’فراڈیا‘‘۔ لڑکی شاپنگ کرے تو ’’رواج‘‘ ،لڑکا شاپنگ کرے تو’’ حرام کے پیسے جو ہیں‘‘۔ لڑکی خاموش ہو تو’’ بے چاری‘‘ ،لڑکا خاموش ہو تو’’تینوں کی موت پے گئی اے‘‘ اور لڑکیاں مل کر چلیں تو ’’فرینڈز گروپ‘‘ اور اگر لڑکے مل کر کھڑے ہو ں تو’’ بے غیرتاں دا ٹولہ‘‘۔ مولارومی ؒ کا کہنا ہے کہ اُس سے بڑا خوش نصیب کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ جس نے ’’مَیں مَیں ‘‘ پر قابو پالیا ۔ شیخ سعدیؒ کا قول کہ ’’لاجواب ہونے کی خواہش نے تو ابلیس کو بھی مروا دیا ‘‘۔ ارسطو کہے کہ ’’چاہے اور سراہے جانے کی تمنا میں عذاب ہی عذاب ‘‘اور حکیم لقمان ؒ کے مطابق ’’ عقلمندوں کی نظر آئینوں کی بجائے ہمیشہ اپنی خامیوں پر‘‘ ۔لیکن ہمیں کیا لگے ان باتوں سے ،ہم تو اشتہار ہیں اپنی ٰخوبیوں اوردوسروں کی خامیوں کے ۔ ہمیں اپنی شکل پسند ،اپنی عقل پسنداور ہمیں اپنے قصیدے پسند، ہم اپنے عاشق بھی اور ہم اپنے محبوب بھی اور ہم ہی کہ جنہوں نے ’’مَیں مَیں ‘‘ میں اپنی ہر منزل کھوٹی کر لی مگر مجال ہے جو دلوں سے چاہے اور سراہے جانے کا شوق ختم ہویا لاجواب کہلوانے کی خواہش مرَے ۔