Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

’’لاجواب نمونے ‘‘

- Posted in Amaal Nama by with comments

ہر کسی کو لاجواب کر دینے والے پطرس بخاری بتایا کرتے کہ ایک بار مجھے ایک دکاندار نے لاجواب کر دیا ۔ میری گھڑی خراب ہوئی تو بازار میں گھڑیوں کی ایک دکان پر جا کر میں نے کہا’’ میری گھڑی ٹھیک کر دیں‘‘ دکاندار بولا’’ میں گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتا‘‘ ،میں نے پوچھا’’ پھر آپ کیا کرتے ہیں‘‘ کہنے لگا ’’ میں ختنے کرتا ہوں ‘‘، میں نے حیران ہو کر کہا’’ تو پھر دکان میں گھڑیاں کیوں لٹکائی ہوئی ہیں‘‘،جواب آیا ’’آپ ہی بتا دیں کہ پھر میں کیا لٹکاؤں‘‘۔ ہمارے ایک خود ساختہ دانشور دوست جو عمر کے اُس حصے میں جہاں بُری بات بُری ہی لگے ، جن کے خدوخال ایسے کہ جیسے آؤٹ آف فوکس تصویر، جو عام آدمی کو ایسے دیکھیں کہ جیسے چھت سے گلی میں جھانک رہے ہوں ،جو ہاتھ یوں ملا ئیں کہ جیسے خیرات دے رہے ہوں ، جو موسلادھار بولیں اور گفتگو ایسی کہ نابالغ لمحوں میں بالغ ہو جائے جبکہ بالغ کو وقفے وقفے سے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنی پڑیں،جن کی رائے انکے لباس کی طرح مطلب کبھی کبھی ہی بدلے ، جن کا دماغ پیازجیسا یعنی پرتیں اتارتے جاؤ اور آخر میں کچھ نہ نکلے ، جن کی حِسّ مزاح ایسی کہ اگران کو اتوار کو ہنسانا ہو تو اِنہیں جمعے کو لطیفہ سنانا پڑے، جو اس لیئے انتہائی قابلِ اعتبار کہ جب بھی بولیں جھوٹ ہی بولیں ،جن کا جسم اتنا کہ ایک دن میں پورا دیکھنا ناممکن ، جن کا چال چلن اپنے قومی چلن جیسا ، جنہیں بچپن سے ہی سلطان راہی بننے کا شوق تھااور بقول شیخو اس شکل کا آدمی اس کے علاوہ کچھ اور بن بھی نہیں سکتا تھا، جو ہائی سکول میں اپنی کلاس فیلو کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کرتے کہ یہ میری ’’ہم درد‘‘ ہے، وہ تو بعد میں پتا چلا کہ دونوں کو گردوں کا درد تھا ، جنہوں نے کالج کے زمانے میں اپنی ایک سابقہ گرل فرینڈکے نئے بوائے فرینڈ سے پوچھا کہ ’’ اس لڑکی سے تمہارا کیا رشتہ ہے‘‘لڑکے نے کہا ’’ میری کز ن ہے‘‘ تو یہ بولے’’ پچھلے سال یہ میری کز ن تھی ‘‘۔ جو بیوی سے اپنے تعلق کو یوں Explainکریں کہ ’’مجھ اور میری بیگم میں ایسا رشتہ کہ نیند کی گولیاں وہ کھائے اور سکون مجھے ملے‘‘۔جنہوں نے اپنی پہلی شادی کے خاتمے کی خبر سناتے ہوئے بس اتنا کہا ’’میں اہل تھا کسی اور کا، میری اہلیہ کوئی اور تھی ‘‘اور جنہیں ان کی دوسری بیگم نے جب کہا کہ ’’میر ی شرافت دیکھو کہ تجھے دیکھے بغیر میں نے تجھ سے شادی کر لی‘‘تو یہ بولے ’’میری شرافت بھی دیکھوکہ تمہیں دیکھنے کے بعد بھی میں نے تجھ سے ہی شادی کی‘‘۔ خود کو ہمیشہ لاجواب سمجھنے والے اسی لاجواب نمونے کے مطابق ’’اقوام متحدہ وہ فورم کہ جہاں جب مألہ دو چھوٹے ملکوں کا پہنچے تو مؤلہ غائب ،معاملہ چھوٹے ملک اور بڑے ملک کاجائے تو چھوٹا ملک غائب اور اگر تنازعہ دوبڑے ملکوں کا ہوتو اقوام متحدہ غائب‘‘۔ یہی بتاتے ہیں کہ’’مولویوں میں 4 باتیں ایسی جو کسی اور میں نہیں دیکھی گئیں۔( 1) مولوی کبھی خودکشی نہیں کرتا ۔(2) مولوی کو نیند کیلئے نیند کی گولیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ (3) کبھی کوئی مولوی بھوکا نہیں مرتا اور مولوی کی ازدواجی زندگی ہمیشہ کامیاب‘‘ ۔انہی کافرمان کہ ’’ جو کہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ کھاتے ہوئے پانچوں انگلیاں برابر ہو جا تی ہیں ‘‘۔ انہی کاقول کہ ’’جس خاوند کو اس کی بیگم’’ عظیم‘‘ کہے یقین کر لیں اس کا نام ہی’’ عظیم‘‘ ہو گا‘‘۔ انہی کاویژن بتائے کہ ’’جب ٹانگیں کھینچنے والے ٹانگیں دبانے لگیں تو سمجھو معاملہ گڑ بڑ ہے‘‘۔ انہی کاتجربہ کہ ’’آنسو بہنے کی دو بڑی وجوہات میں ایک پیار اور دوسرا پیاز‘‘۔ انہی کاخیال کہ ’’سچی عورت وہی جو اپنی عمر،وزن اور خاوند کی تنخواہ کے علاوہ کوئی اور جھوٹ نہ بولے‘‘ اور انہی کی تحقیق کہ ’’برطانوی غسل خانے کو واش روم ،امریکی ریسٹ روم ،عربی بیت الخلا،پنجابی لیٹرین اور پٹھان جائے واردات کہیں لیکن سکھ کچھ کہنے کی بجائے، بس اسے استعمال کریں‘‘ ۔ سکھوں سے یاد آیا تقسیمِ ہند سے پہلے کی بات ہے کہ 5سکھوں پر مشتمل ڈاکوؤں کے ’’ لاجواب گینگ‘‘نے پہلا ڈاکہ مارا مگر اُنہیں اس وقت بڑی حیرانگی ہوئی جب بینک کے لاکر سے رقم کی بجائے شربت کی بوتلیں نکلیں،خیر سرداروں نے پہلے جی بھر کر شربت پیا اور پھر باقی بوتلیں لے کر چلتے بنے لیکن اگلی صبح خبر یہ عام تھی کہ گذشتہ رات ڈاکوؤں نے بینک لوٹنے کی بجائے بینک کے ساتھ ہسپتال کی لیبارٹری لوٹ لی اور ڈاکومریضوں کے پیشاپ کے نمونے تک لے گئے ۔ اپنے ایک سنیئر بیوروکریٹ جن کی گفتگو سننے کے بعد بندہ پریشان ہو کر یہ سوچے کہ جب یہ نہیں ہوں گے تو کام کیسے چلے گا مگرا ن کی کارکردگی دیکھ کر بندہ حیران ہو کہ جہاں یہ ہوتے ہیں وہاں کام کیسے چلتا ہے ،جو ہر ایک سے گلہ کریں کہ حکومت ان کے دماغ سے فائدہ نہیں اٹھارہی حالانکہ ان کی دماغی حالت ایسی کہ ایک بار کابینہ اجلاس سے باتھ روم جانے کیلئے باہر آئے اور باہر آکر یہی بھول گئے کہ باہر کیوں آئے ، اپنے باہر آنے کی وجہ پر غور فرما تے ہوئے اِنہیں باتھ روم جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور ابھی یہ باتھ روم کی طرف چلے ہی تھے کہ اچانک انکی نظر گھڑی پر پڑی اور یہ خیال آتے ہی کہ کابینہ کا اجلاس شروع ہو چکا ہے اورمیں باہر گھوم رہا ہوں ،یہ عالمِ گبھراہٹ میں باتھ روم کی بجائے بھاگم بھاگ کابینہ کے اجلاس میں جا پہنچے ۔ اسی طرح اپنے آئیڈیل خود ہی ہمارے وہ سیاستدان دوست جنہوں نے یہ کہہ کہہ کر ہماری مت ماررکھی تھی کہ National Interestکے علاوہ لیڈر اگر کچھ چُھپائے تو اِسے چوک میں لٹکا دینا چاہیے۔ مگر دوسال پہلے نہ صرف ان کا ایک خفیہ فارم ہاؤس نکل آیا بلکہ مزید کھوج کے بعد پتا چلا کہ اِسی فارم ہاؤس پر ایک عرصے سے National Interestمیں انہوں نے ایک خفیہ بیوی بھی رکھی ہوئی ہے اورآجکل پھر سے سُنا جا رہا ہے کہ National Interestکی خاطر ہی پھر سے وہ ملک کی ایک نامی گرامی خاتون کے ساتھ خفیہ نکاح کھڑکاچکے ہیں اور پھر اپنے وہ نامورٹی وی میزبان جن کے اخلاقیات پر بھاشن سن سن کر اِک دنیابہر ی ہو چکی یہ اڑھائی ماہ قبل دبئی میں اپنے بے ہوش والد کا ہاتھ پکڑ کر خاندانی جائیداد کے کاغذوں پر انگوٹھے لگواتے دھر لیئے گئے،مقدمہ دبئی میں زیرِ سماعت ہے۔ ایک شخص تبلیغی جماعت کیساتھ 40دن لگا کر واپس آیا اور اگلے دن ہی بیوی کو مارنے پیٹنے لگا ،محلے داروں نے بیچ بچاؤ کرواکر وجہ پوچھی تو کہنے لگا’’یہ داڑھی نہیں رکھتی ‘‘سب نے کہا کہ ’’ بے حیا انسان عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی ‘‘بولا ’’مگر یہ ارادہ تو کرے، ارادے کا بھی ثواب ہے‘‘۔ ہاتھ میں تلوار پکڑے ایک شخص نے مسجد میں آکر آواز لگائی ’’ یہاں کوئی پکا نمازی ہے ،ایک بزرگ بولے ’’میں ہوں ‘‘ بزرگ کو باہر بٹھا کر اور اپنی تلوار پر سرخ رنگ لگا کر یہ شخص دوبارہ مسجد میں جا کر بولا’’کوئی اور پکا نمازی ہے ‘‘ ایک آدمی کہنے لگا ’’ وہ سامنے بیٹھے خان صاحب بڑے پکے نمازی ہیں‘‘ سرخ تلوار کو دیکھتے ہوئے خان صاحب خوفزدہ لہجے میں بولے ’’ بھائی یہ نماز کیا ہوتا ہے ، ہم تو یہاں یہ اعلان کروانے آیا تھا کہ ہمارے علاقے کا کیبل نہیں آرہا‘‘۔ ایک ماڈرن خاتون کو جب ڈاکٹر انجکشن لگانے لگا تو یہ بولیں ’’ ڈاکٹرصاحب انجکشن وہاں لگائیں جہاں نظر نہ آئے‘‘ ڈاکٹر نے ایک نظر اُس کے لباس پر ماری اور پھر انجکشن چمچ میں ڈال کر دیدیا۔ یہ لاجواب رنگ ہمارے معاشرے کے اور بقول شیخو انہی رنگوں سے سجا ہمارا معاشرہ بھی ایسا لاجواب کہ جہا ں اگر لڑکی زور سے ہنسے تو ’’خوبصورتی‘‘ ،لڑکا زور سے ہنسے تو’’ ڈنگر‘‘۔ لڑکی میٹھا بولے تو’’ پیاری‘‘،لڑکا میٹھا بولے تو ’’فراڈیا‘‘۔ لڑکی شاپنگ کرے تو ’’رواج‘‘ ،لڑکا شاپنگ کرے تو’’ حرام کے پیسے جو ہیں‘‘۔ لڑکی خاموش ہو تو’’ بے چاری‘‘ ،لڑکا خاموش ہو تو’’تینوں کی موت پے گئی اے‘‘ اور لڑکیاں مل کر چلیں تو ’’فرینڈز گروپ‘‘ اور اگر لڑکے مل کر کھڑے ہو ں تو’’ بے غیرتاں دا ٹولہ‘‘۔ مولارومی ؒ کا کہنا ہے کہ اُس سے بڑا خوش نصیب کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ جس نے ’’مَیں مَیں ‘‘ پر قابو پالیا ۔ شیخ سعدیؒ کا قول کہ ’’لاجواب ہونے کی خواہش نے تو ابلیس کو بھی مروا دیا ‘‘۔ ارسطو کہے کہ ’’چاہے اور سراہے جانے کی تمنا میں عذاب ہی عذاب ‘‘اور حکیم لقمان ؒ کے مطابق ’’ عقلمندوں کی نظر آئینوں کی بجائے ہمیشہ اپنی خامیوں پر‘‘ ۔لیکن ہمیں کیا لگے ان باتوں سے ،ہم تو اشتہار ہیں اپنی ٰخوبیوں اوردوسروں کی خامیوں کے ۔ ہمیں اپنی شکل پسند ،اپنی عقل پسنداور ہمیں اپنے قصیدے پسند، ہم اپنے عاشق بھی اور ہم اپنے محبوب بھی اور ہم ہی کہ جنہوں نے ’’مَیں مَیں ‘‘ میں اپنی ہر منزل کھوٹی کر لی مگر مجال ہے جو دلوں سے چاہے اور سراہے جانے کا شوق ختم ہویا لاجواب کہلوانے کی خواہش مرَے ۔

’’لاجواب نمونے ‘‘

- Posted in Amaal Nama by with comments

ہر کسی کو لاجواب کر دینے والے پطرس بخاری بتایا کرتے کہ ایک بار مجھے ایک دکاندار نے لاجواب کر دیا ۔ میری گھڑی خراب ہوئی تو بازار میں گھڑیوں کی ایک دکان پر جا کر میں نے کہا’’ میری گھڑی ٹھیک کر دیں‘‘ دکاندار بولا’’ میں گھڑیاں ٹھیک نہیں کرتا‘‘ ،میں نے پوچھا’’ پھر آپ کیا کرتے ہیں‘‘ کہنے لگا ’’ میں ختنے کرتا ہوں ‘‘، میں نے حیران ہو کر کہا’’ تو پھر دکان میں گھڑیاں کیوں لٹکائی ہوئی ہیں‘‘،جواب آیا ’’آپ ہی بتا دیں کہ پھر میں کیا لٹکاؤں‘‘۔ ہمارے ایک خود ساختہ دانشور دوست جو عمر کے اُس حصے میں جہاں بُری بات بُری ہی لگے ، جن کے خدوخال ایسے کہ جیسے آؤٹ آف فوکس تصویر، جو عام آدمی کو ایسے دیکھیں کہ جیسے چھت سے گلی میں جھانک رہے ہوں ،جو ہاتھ یوں ملا ئیں کہ جیسے خیرات دے رہے ہوں ، جو موسلادھار بولیں اور گفتگو ایسی کہ نابالغ لمحوں میں بالغ ہو جائے جبکہ بالغ کو وقفے وقفے سے ٹھنڈے پانی کی پٹیاں کرنی پڑیں،جن کی رائے انکے لباس کی طرح مطلب کبھی کبھی ہی بدلے ، جن کا دماغ پیازجیسا یعنی پرتیں اتارتے جاؤ اور آخر میں کچھ نہ نکلے ، جن کی حِسّ مزاح ایسی کہ اگران کو اتوار کو ہنسانا ہو تو اِنہیں جمعے کو لطیفہ سنانا پڑے، جو اس لیئے انتہائی قابلِ اعتبار کہ جب بھی بولیں جھوٹ ہی بولیں ،جن کا جسم اتنا کہ ایک دن میں پورا دیکھنا ناممکن ، جن کا چال چلن اپنے قومی چلن جیسا ، جنہیں بچپن سے ہی سلطان راہی بننے کا شوق تھااور بقول شیخو اس شکل کا آدمی اس کے علاوہ کچھ اور بن بھی نہیں سکتا تھا، جو ہائی سکول میں اپنی کلاس فیلو کا تعارف کرواتے ہوئے کہا کرتے کہ یہ میری ’’ہم درد‘‘ ہے، وہ تو بعد میں پتا چلا کہ دونوں کو گردوں کا درد تھا ، جنہوں نے کالج کے زمانے میں اپنی ایک سابقہ گرل فرینڈکے نئے بوائے فرینڈ سے پوچھا کہ ’’ اس لڑکی سے تمہارا کیا رشتہ ہے‘‘لڑکے نے کہا ’’ میری کز ن ہے‘‘ تو یہ بولے’’ پچھلے سال یہ میری کز ن تھی ‘‘۔ جو بیوی سے اپنے تعلق کو یوں Explainکریں کہ ’’مجھ اور میری بیگم میں ایسا رشتہ کہ نیند کی گولیاں وہ کھائے اور سکون مجھے ملے‘‘۔جنہوں نے اپنی پہلی شادی کے خاتمے کی خبر سناتے ہوئے بس اتنا کہا ’’میں اہل تھا کسی اور کا، میری اہلیہ کوئی اور تھی ‘‘اور جنہیں ان کی دوسری بیگم نے جب کہا کہ ’’میر ی شرافت دیکھو کہ تجھے دیکھے بغیر میں نے تجھ سے شادی کر لی‘‘تو یہ بولے ’’میری شرافت بھی دیکھوکہ تمہیں دیکھنے کے بعد بھی میں نے تجھ سے ہی شادی کی‘‘۔ خود کو ہمیشہ لاجواب سمجھنے والے اسی لاجواب نمونے کے مطابق ’’اقوام متحدہ وہ فورم کہ جہاں جب مألہ دو چھوٹے ملکوں کا پہنچے تو مؤلہ غائب ،معاملہ چھوٹے ملک اور بڑے ملک کاجائے تو چھوٹا ملک غائب اور اگر تنازعہ دوبڑے ملکوں کا ہوتو اقوام متحدہ غائب‘‘۔ یہی بتاتے ہیں کہ’’مولویوں میں 4 باتیں ایسی جو کسی اور میں نہیں دیکھی گئیں۔( 1) مولوی کبھی خودکشی نہیں کرتا ۔(2) مولوی کو نیند کیلئے نیند کی گولیوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ (3) کبھی کوئی مولوی بھوکا نہیں مرتا اور مولوی کی ازدواجی زندگی ہمیشہ کامیاب‘‘ ۔انہی کافرمان کہ ’’ جو کہیں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں ان کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ کھاتے ہوئے پانچوں انگلیاں برابر ہو جا تی ہیں ‘‘۔ انہی کاقول کہ ’’جس خاوند کو اس کی بیگم’’ عظیم‘‘ کہے یقین کر لیں اس کا نام ہی’’ عظیم‘‘ ہو گا‘‘۔ انہی کاویژن بتائے کہ ’’جب ٹانگیں کھینچنے والے ٹانگیں دبانے لگیں تو سمجھو معاملہ گڑ بڑ ہے‘‘۔ انہی کاتجربہ کہ ’’آنسو بہنے کی دو بڑی وجوہات میں ایک پیار اور دوسرا پیاز‘‘۔ انہی کاخیال کہ ’’سچی عورت وہی جو اپنی عمر،وزن اور خاوند کی تنخواہ کے علاوہ کوئی اور جھوٹ نہ بولے‘‘ اور انہی کی تحقیق کہ ’’برطانوی غسل خانے کو واش روم ،امریکی ریسٹ روم ،عربی بیت الخلا،پنجابی لیٹرین اور پٹھان جائے واردات کہیں لیکن سکھ کچھ کہنے کی بجائے، بس اسے استعمال کریں‘‘ ۔ سکھوں سے یاد آیا تقسیمِ ہند سے پہلے کی بات ہے کہ 5سکھوں پر مشتمل ڈاکوؤں کے ’’ لاجواب گینگ‘‘نے پہلا ڈاکہ مارا مگر اُنہیں اس وقت بڑی حیرانگی ہوئی جب بینک کے لاکر سے رقم کی بجائے شربت کی بوتلیں نکلیں،خیر سرداروں نے پہلے جی بھر کر شربت پیا اور پھر باقی بوتلیں لے کر چلتے بنے لیکن اگلی صبح خبر یہ عام تھی کہ گذشتہ رات ڈاکوؤں نے بینک لوٹنے کی بجائے بینک کے ساتھ ہسپتال کی لیبارٹری لوٹ لی اور ڈاکومریضوں کے پیشاپ کے نمونے تک لے گئے ۔ اپنے ایک سنیئر بیوروکریٹ جن کی گفتگو سننے کے بعد بندہ پریشان ہو کر یہ سوچے کہ جب یہ نہیں ہوں گے تو کام کیسے چلے گا مگرا ن کی کارکردگی دیکھ کر بندہ حیران ہو کہ جہاں یہ ہوتے ہیں وہاں کام کیسے چلتا ہے ،جو ہر ایک سے گلہ کریں کہ حکومت ان کے دماغ سے فائدہ نہیں اٹھارہی حالانکہ ان کی دماغی حالت ایسی کہ ایک بار کابینہ اجلاس سے باتھ روم جانے کیلئے باہر آئے اور باہر آکر یہی بھول گئے کہ باہر کیوں آئے ، اپنے باہر آنے کی وجہ پر غور فرما تے ہوئے اِنہیں باتھ روم جانے کی حاجت محسوس ہوئی اور ابھی یہ باتھ روم کی طرف چلے ہی تھے کہ اچانک انکی نظر گھڑی پر پڑی اور یہ خیال آتے ہی کہ کابینہ کا اجلاس شروع ہو چکا ہے اورمیں باہر گھوم رہا ہوں ،یہ عالمِ گبھراہٹ میں باتھ روم کی بجائے بھاگم بھاگ کابینہ کے اجلاس میں جا پہنچے ۔ اسی طرح اپنے آئیڈیل خود ہی ہمارے وہ سیاستدان دوست جنہوں نے یہ کہہ کہہ کر ہماری مت ماررکھی تھی کہ National Interestکے علاوہ لیڈر اگر کچھ چُھپائے تو اِسے چوک میں لٹکا دینا چاہیے۔ مگر دوسال پہلے نہ صرف ان کا ایک خفیہ فارم ہاؤس نکل آیا بلکہ مزید کھوج کے بعد پتا چلا کہ اِسی فارم ہاؤس پر ایک عرصے سے National Interestمیں انہوں نے ایک خفیہ بیوی بھی رکھی ہوئی ہے اورآجکل پھر سے سُنا جا رہا ہے کہ National Interestکی خاطر ہی پھر سے وہ ملک کی ایک نامی گرامی خاتون کے ساتھ خفیہ نکاح کھڑکاچکے ہیں اور پھر اپنے وہ نامورٹی وی میزبان جن کے اخلاقیات پر بھاشن سن سن کر اِک دنیابہر ی ہو چکی یہ اڑھائی ماہ قبل دبئی میں اپنے بے ہوش والد کا ہاتھ پکڑ کر خاندانی جائیداد کے کاغذوں پر انگوٹھے لگواتے دھر لیئے گئے،مقدمہ دبئی میں زیرِ سماعت ہے۔ ایک شخص تبلیغی جماعت کیساتھ 40دن لگا کر واپس آیا اور اگلے دن ہی بیوی کو مارنے پیٹنے لگا ،محلے داروں نے بیچ بچاؤ کرواکر وجہ پوچھی تو کہنے لگا’’یہ داڑھی نہیں رکھتی ‘‘سب نے کہا کہ ’’ بے حیا انسان عورتوں کی داڑھی نہیں ہوتی ‘‘بولا ’’مگر یہ ارادہ تو کرے، ارادے کا بھی ثواب ہے‘‘۔ ہاتھ میں تلوار پکڑے ایک شخص نے مسجد میں آکر آواز لگائی ’’ یہاں کوئی پکا نمازی ہے ،ایک بزرگ بولے ’’میں ہوں ‘‘ بزرگ کو باہر بٹھا کر اور اپنی تلوار پر سرخ رنگ لگا کر یہ شخص دوبارہ مسجد میں جا کر بولا’’کوئی اور پکا نمازی ہے ‘‘ ایک آدمی کہنے لگا ’’ وہ سامنے بیٹھے خان صاحب بڑے پکے نمازی ہیں‘‘ سرخ تلوار کو دیکھتے ہوئے خان صاحب خوفزدہ لہجے میں بولے ’’ بھائی یہ نماز کیا ہوتا ہے ، ہم تو یہاں یہ اعلان کروانے آیا تھا کہ ہمارے علاقے کا کیبل نہیں آرہا‘‘۔ ایک ماڈرن خاتون کو جب ڈاکٹر انجکشن لگانے لگا تو یہ بولیں ’’ ڈاکٹرصاحب انجکشن وہاں لگائیں جہاں نظر نہ آئے‘‘ ڈاکٹر نے ایک نظر اُس کے لباس پر ماری اور پھر انجکشن چمچ میں ڈال کر دیدیا۔ یہ لاجواب رنگ ہمارے معاشرے کے اور بقول شیخو انہی رنگوں سے سجا ہمارا معاشرہ بھی ایسا لاجواب کہ جہا ں اگر لڑکی زور سے ہنسے تو ’’خوبصورتی‘‘ ،لڑکا زور سے ہنسے تو’’ ڈنگر‘‘۔ لڑکی میٹھا بولے تو’’ پیاری‘‘،لڑکا میٹھا بولے تو ’’فراڈیا‘‘۔ لڑکی شاپنگ کرے تو ’’رواج‘‘ ،لڑکا شاپنگ کرے تو’’ حرام کے پیسے جو ہیں‘‘۔ لڑکی خاموش ہو تو’’ بے چاری‘‘ ،لڑکا خاموش ہو تو’’تینوں کی موت پے گئی اے‘‘ اور لڑکیاں مل کر چلیں تو ’’فرینڈز گروپ‘‘ اور اگر لڑکے مل کر کھڑے ہو ں تو’’ بے غیرتاں دا ٹولہ‘‘۔ مولارومی ؒ کا کہنا ہے کہ اُس سے بڑا خوش نصیب کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ جس نے ’’مَیں مَیں ‘‘ پر قابو پالیا ۔ شیخ سعدیؒ کا قول کہ ’’لاجواب ہونے کی خواہش نے تو ابلیس کو بھی مروا دیا ‘‘۔ ارسطو کہے کہ ’’چاہے اور سراہے جانے کی تمنا میں عذاب ہی عذاب ‘‘اور حکیم لقمان ؒ کے مطابق ’’ عقلمندوں کی نظر آئینوں کی بجائے ہمیشہ اپنی خامیوں پر‘‘ ۔لیکن ہمیں کیا لگے ان باتوں سے ،ہم تو اشتہار ہیں اپنی ٰخوبیوں اوردوسروں کی خامیوں کے ۔ ہمیں اپنی شکل پسند ،اپنی عقل پسنداور ہمیں اپنے قصیدے پسند، ہم اپنے عاشق بھی اور ہم اپنے محبوب بھی اور ہم ہی کہ جنہوں نے ’’مَیں مَیں ‘‘ میں اپنی ہر منزل کھوٹی کر لی مگر مجال ہے جو دلوں سے چاہے اور سراہے جانے کا شوق ختم ہویا لاجواب کہلوانے کی خواہش مرَے ۔

Pakistani Economist's Shocking Response on Pakistan take over indian Economy

!نیب کہانی

- Posted in Amaal Nama by with comments

رات کے ساڑھے آٹھ بجے تو قمرزمان چوہدری کے ساتھ بیٹھے مجھے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا تھا لیکن ان 90 منٹوں میں ہی ایک تو میری یہ خوش فہمی دور ہو چکی تھی کہ موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے کرپشن یا کرپٹ مگرمچھوں پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں اتنے چوردروازے کہ ایک قدم آگے بڑھنے کا مطلب تین قدم پیچھے ہٹنا اور دوسرا مجھے یہ یقین بھی ہو گیا تھا کہ پاکستان میں اب صرف غریبی ہی وہ جرم کہ جس کی سز ا ملتی ہے ۔ہمیشہ دوسروں کی سننے مگر آج مسلسل بولنے والے قمر زمان چوہدری بولتے بولتے رکے اورپھر پانی کے چند گھونٹ چائے کی طرح چسکیوں میں پی کربولے ’’ پچھلے سال اکتوبر میں ایک دن اخبار پڑھتے ہوئے میں نے یہ خبر دیکھی کہ ’’ سبط الحسن المعروف ڈبل شاہ جیل سے رہائی کے بعد جب اپنے علاقے میں پہنچا تو عمائدین شہر اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا استقبال کیا ، اس پر پھول کی پتیاں نچھاور کیں اور اسے جلوس کی شکل میں اس کی رہائش گاہ تک پہنچایا ‘‘ اگلے دن میں نے ڈبل شاہ کی فائل منگوائی تو پتہ چلا کہ موصوف نے 12 ارب سے زیادہ کا فراڈ کیا تھا اور تقریباً ساڑھے 9 ارب واپس کرنے کے بعد وہ نیب قوانین کے تحت سب سے بڑی 14 سال کی سزا بھگت کر نکلا تھا ۔ پھر ابھی کل ہی وہ قاسم ضیاء جویہ لکھ کر دیتا ہے کہ میں اپناجرم تسلیم کرتے ہوئے اپنے حصے کے2 کروڑ 40 لاکھ واپس کرونگا اور پہلی قسط کے طور پر80 لاکھ کا چیک حاضر ہے اسی قاسم ضیاء کی جب مشروط ضمانت ہوتی ہے تواس کا ایسے استقبال ہوتا ہے اور اس پر ایسے پھول پھینکے جاتے ہیں کہ جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہو ۔ یہ ہے ہمارا معاشرہ اوریہ ہے ہماری قوم ۔ آگے سنیں،چند ہفتے پہلے یہاں ایک طرف یوسف رضا گیلانی کی میگا کرپشن سکینڈل سمیت11کیسوں میں پہلی پیشی پر ہی ضمانت ہو جاتی ہے جبکہ دوسری طرف ایک قیدی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکاتا ہے کہ حضورمیں 5 سال سے جیل میں ہوں لیکن میری پہلی پیشی ہی نہیں ہو رہی۔خود ہی دیکھ لیں ایک طرف یہ جانوروں جیسا سلوک اور دوسری طرف ایسیhandling VIP کہ درجنوں بااثر ملزمان کوعدالتی پیشیوں سے ہی استثنیٰ حاصل ۔ آپ نیب کی کارکردگی سے مطمئن ہیں ؟ باتیں کرتے کرتے رک کر ایک بار پھر پانی پیتے چئیر مین نیب سے میں نے پوچھاتوانہوں نے کہا ’’ میرے آنے سے پہلے زمین میں دھنسے نیب کو وہ شخص چلا رہا تھا جسے ایک بزنس ٹائیکون نے چئیر مین بنوایا تھا اور جو روز اس بزنس مین کے گھر حاضری دیتا اور اگلے دن کی ہدایات لے کر لوٹتا ۔مگریہی نیب جو مذاق بن چکا تھا اور جسے لوگوں نے سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا تھا ، اسی نیب کی اب دوسالہ کارکردگی یہ ہے کہ 2014میں 585 انکوائریاں مکمل کی گئیں جبکہ 2013 میں یہ تعداد 243 تھی ، پچھلے سال 188 کیسز نمٹائے گئے جبکہ 2013 میں یہ تعداد 129 تھی اور گزشتہ سال احتساب عدالتوں میں 208 ریفرنسز فائل کئے گئے جبکہ 2013 میں یہ تعداد 135تھی۔جہاںیہی کارکردگی مجھے اطمینان بخشتی ہے وہاں مجھے یہ سوچ کر دکھ بھی ہوتا ہے کہ یہ کارکردگی اوربھی بہتر ہوتی اگر ایک جج صاحب خواہ مخواہ ہمیں سولی پر نہ لٹکائے رکھتے۔ ان کی عدالت میں ہمارے ساتھ ہوتا کیا تھا یہ بھی سن لیں میرے آنے سے پہلے نیب میں پتوکی کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا کیس پڑا ہوا تھا جس میں 4 افراد نے 12کروڑ کا فراڈ کیا تھا ہم نے یہ کیس دوبارہ کھول کر ایک ملزم فیاض غوری ولد منشی خان کو پکڑا تو اس نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی

درخواست دیدی اور پھر پہلی پیشی پر ہی یہ جج صاحب برس پڑے ’’ نیب سے بڑے ملزم تو پکڑے نہیں جاتے ، بے چارے منشیوں کو گرفتار کر رکھا ہے‘‘۔ بس پھر کیا اس پوری پیشی کا ماحول یہ تھاکہ ہمارے وکیل کو یہ بتانے کی بھی اجازت نہ ملی کہ جناب عالی ہم نے کسی منشی کو نہیں بلکہ اس ملزم کو پکڑا ہے کہ جس کے والد کا نام منشی خان ہے اور جونہ صرف ہاؤسنگ سوسائٹی کا ڈائریکٹر تھا بلکہ پچھلے انتخابات میں قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکا ہے ۔ نیب کی اوگرا سکینڈل میں پہلی انکوئری ہوئی تو’’ دو بڑے‘‘ قصوروار نکلے مگرپھر دوسری انکوائری ہوگئی اور یہی دونوں بے قصور ٹھہرے ۔ یہ کیوں ہوااور پھر یہ تاثر کیوں ہے کہ نیب (ن) لیگ کے حوالے سے بڑا فرینڈلی ہے ۔میرے اس سوال پر قمر زمان چوہدری ایک قہقہہ مار کر بولے ’’جب پہلی انکوائری ہوئی تو میں دو ماہ کی چھٹیوں پر تھا۔میں واپس آیا تو مجھے تحریری درخواست ملی کہ یہ انکوائری دفتر میں بیٹھ کر کی گئی ہے اور اس میں Site Inspectionسمیت بہت سارے حقائق نظرانداز ہوئے ہیں لہٰذا دوبارہ انکوائری کی جائے ۔میں نے اس درخواست پر دوبارہ انکوائری کرادی لیکن دونوں انکوائریاں ایک ہی افسر نے کیں ۔باقی بحیثیت چئیر مین نیب نہ تومیں کبھی کسی انکوائری میں شامل ہوتا ہوں اور نہ کسی انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔اور دوسری بات کہ نیب (ن) لیگ سے فرینڈلی ہے تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ نواز شریف خاندان کے کیسز جب احتساب عدالتوں سے خارج ہوئے تو یہ نیب ہی تھاکہ جس نے ان فیصلوں کیخلاف اپیل کی لیکن اب تو ایسا لگتاہے کہ ایک دن مجھ پر یہ الزام بھی لگے گا کہ این آر او بھی میری وجہ سے ہی ہوا ہے ۔ اس رات قمرزمان چوہدری ہر موضوع پر بولے اور کھل کر بولے ۔انہوں نے جہاں ہمیشہ انہیں پسند کرنے اور برے وقتوں میں ساتھ دینے والے جسٹس افتخار چوہدری کی آخری دنوں میں ناراضگی کی وجہ بتائی وہاں اپنی 6 مہینے تک ہوئی انکوائری کا قصہ بھی سنایا ۔ انہوں نے یہ بھی برملا کہا کہ’’ پرویز مشرف نے بہت مایوس کیا اور زرداری صاحب نے ملک کو ریورس گئیر میں ڈال دیا ۔چئیر مین نیب نے یہ بھی بتایا کہ آج تک نواز شریف نے نہ کسی کی سفارش کی اور نہ کبھی ناجائز دباؤ ڈالا‘‘۔ اس رات قمر زمان چوہدری نے پیسے اور کرسی کی خاطر اپنے چند بھگوانوں کا وہ کچھا چٹھابھی کھولا کہ جسے سنتے ہوئے بھی شرم آرہی تھی ۔اُس رات قمرزمان چوہدری کے گھر سے نکلتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جہاں ہمیں یہ حق حاصل کہ نیب اگر ڈنڈی مارے یا کہیں’’ ہتھ ہولا ‘‘رکھے تو اس ’’ملی بھگت ‘‘ کو ہم بے نقاب کریں ،وہاں ہمارا یہ فرض بھی کہ ہم نیب کو اتنا کریڈٹ تو دیں کہ 175کرپٹ ممالک میں 126 ویں نمبر والے پاکستان میں گزشتہ دو سالوں سے 74فیصد کیس نمٹا کرنہ صرف 30ارب کی ریکور ی ہوئی بلکہ 2014کا ’’پلڈاٹ سروے‘‘ بتائے کہ حکومتی اداروں سے 26 فیصد عوام مطمئن جبکہ نیب پر اعتماد 42 فیصد لوگوں کا اور یہ سب کچھ ان حالا ت میں کہ چیئرمین نیب ’’ 16ویں بین الااقوامی کانفرنس برائے انسداد کرپشن ‘‘ میں شرکت کیلئے ملائشیاجاتے ہیں مگر یہاں مشہور یہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس کے خوف سے باہر چلے گئے۔ واپس جاتے ہوئے مجھے یہ خیال بھی آ رہا تھا کہ یا تو ہم سب ہی صحافی ہو گئے مطلب جس کی جب بھی نظر پڑی کسی بری چیز پر ہی پڑی یا پھرہم سب وہ مکھیاں کہ جوپورا جسم چھوڑ کر زخم پر ہی بیٹھیں کیونکہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر نیب کسی کو پکڑ لے تو شور مچے ، کسی کو نہ پکڑے تو واویلا ، کسی سے کچھ نکلوایا اگلوا نہ سکے تو پراپیگنڈا اورتو اور اگرنیب کسی ’’بڑے پیٹ‘‘ کو چیر کر کچھ نکالنے میں کامیاب ہو جائے تو بھی یہ شکایت کہ ’’ لوجی چند کروڑ لے کر کلین چٹ دے دی گئی ‘‘۔ یقین جانئے مجھے تواب اپنا حال دیکھ کر اکثر وہ خاوند یاد آجاتا ہے کہ جس نے ایک دن بیوی کو انڈا بناکر لانے کو کہا ،جب بیگم انڈا لے کر آئی تو خوب ڈانٹ ڈپٹ کے بعدخاوند نے کہا ’’ میں آملیٹ کھانا چاہتا تھا اور تم فرائی انڈا لے آئی ہو ‘‘۔ تھوڑی دیر بعدبیگم آملیٹ لے آئی توانتہائی غصے میں خاوند بولا’ ’ جب میں آملیٹ کھانا چاہتا تھا ، تم فرائی لے آئی اور جب میں نے فرائی انڈے کا موڈ بنایا تو تم آملیٹ اٹھا لائی ہو ، پتا نہیں کب سدھروگی ۔ پھر آدھے گھنٹے بعدجب ڈری ہوئی بیگم فرائی اور آملیٹ دونوں طرح کے انڈے بنا کر حاضر ہوئی تو لمحہ بھر کیلئے انڈوں کو دیکھنے کے بعد خاوند چیخا ’’ پاگل عورت جس انڈے کو فرائی کرنا تھا اس کا تم نے آملیٹ بنا دیا اور جس کا آملیٹ بنانا تھا اسے تم نے فرائی کر دیا ، تمہاراواقعی کچھ نہیں ہو سکتا ‘‘۔

!نیب کہانی

- Posted in Amaal Nama by with comments

رات کے ساڑھے آٹھ بجے تو قمرزمان چوہدری کے ساتھ بیٹھے مجھے ڈیڑھ گھنٹہ ہو چکا تھا لیکن ان 90 منٹوں میں ہی ایک تو میری یہ خوش فہمی دور ہو چکی تھی کہ موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے کرپشن یا کرپٹ مگرمچھوں پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں اتنے چوردروازے کہ ایک قدم آگے بڑھنے کا مطلب تین قدم پیچھے ہٹنا اور دوسرا مجھے یہ یقین بھی ہو گیا تھا کہ پاکستان میں اب صرف غریبی ہی وہ جرم کہ جس کی سز ا ملتی ہے ۔ہمیشہ دوسروں کی سننے مگر آج مسلسل بولنے والے قمر زمان چوہدری بولتے بولتے رکے اورپھر پانی کے چند گھونٹ چائے کی طرح چسکیوں میں پی کربولے ’’ پچھلے سال اکتوبر میں ایک دن اخبار پڑھتے ہوئے میں نے یہ خبر دیکھی کہ ’’ سبط الحسن المعروف ڈبل شاہ جیل سے رہائی کے بعد جب اپنے علاقے میں پہنچا تو عمائدین شہر اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کا استقبال کیا ، اس پر پھول کی پتیاں نچھاور کیں اور اسے جلوس کی شکل میں اس کی رہائش گاہ تک پہنچایا ‘‘ اگلے دن میں نے ڈبل شاہ کی فائل منگوائی تو پتہ چلا کہ موصوف نے 12 ارب سے زیادہ کا فراڈ کیا تھا اور تقریباً ساڑھے 9 ارب واپس کرنے کے بعد وہ نیب قوانین کے تحت سب سے بڑی 14 سال کی سزا بھگت کر نکلا تھا ۔ پھر ابھی کل ہی وہ قاسم ضیاء جویہ لکھ کر دیتا ہے کہ میں اپناجرم تسلیم کرتے ہوئے اپنے حصے کے2 کروڑ 40 لاکھ واپس کرونگا اور پہلی قسط کے طور پر80 لاکھ کا چیک حاضر ہے اسی قاسم ضیاء کی جب مشروط ضمانت ہوتی ہے تواس کا ایسے استقبال ہوتا ہے اور اس پر ایسے پھول پھینکے جاتے ہیں کہ جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر آیا ہو ۔ یہ ہے ہمارا معاشرہ اوریہ ہے ہماری قوم ۔ آگے سنیں،چند ہفتے پہلے یہاں ایک طرف یوسف رضا گیلانی کی میگا کرپشن سکینڈل سمیت11کیسوں میں پہلی پیشی پر ہی ضمانت ہو جاتی ہے جبکہ دوسری طرف ایک قیدی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکاتا ہے کہ حضورمیں 5 سال سے جیل میں ہوں لیکن میری پہلی پیشی ہی نہیں ہو رہی۔خود ہی دیکھ لیں ایک طرف یہ جانوروں جیسا سلوک اور دوسری طرف ایسیhandling VIP کہ درجنوں بااثر ملزمان کوعدالتی پیشیوں سے ہی استثنیٰ حاصل ۔ آپ نیب کی کارکردگی سے مطمئن ہیں ؟ باتیں کرتے کرتے رک کر ایک بار پھر پانی پیتے چئیر مین نیب سے میں نے پوچھاتوانہوں نے کہا ’’ میرے آنے سے پہلے زمین میں دھنسے نیب کو وہ شخص چلا رہا تھا جسے ایک بزنس ٹائیکون نے چئیر مین بنوایا تھا اور جو روز اس بزنس مین کے گھر حاضری دیتا اور اگلے دن کی ہدایات لے کر لوٹتا ۔مگریہی نیب جو مذاق بن چکا تھا اور جسے لوگوں نے سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا تھا ، اسی نیب کی اب دوسالہ کارکردگی یہ ہے کہ 2014میں 585 انکوائریاں مکمل کی گئیں جبکہ 2013 میں یہ تعداد 243 تھی ، پچھلے سال 188 کیسز نمٹائے گئے جبکہ 2013 میں یہ تعداد 129 تھی اور گزشتہ سال احتساب عدالتوں میں 208 ریفرنسز فائل کئے گئے جبکہ 2013 میں یہ تعداد 135تھی۔جہاںیہی کارکردگی مجھے اطمینان بخشتی ہے وہاں مجھے یہ سوچ کر دکھ بھی ہوتا ہے کہ یہ کارکردگی اوربھی بہتر ہوتی اگر ایک جج صاحب خواہ مخواہ ہمیں سولی پر نہ لٹکائے رکھتے۔ ان کی عدالت میں ہمارے ساتھ ہوتا کیا تھا یہ بھی سن لیں میرے آنے سے پہلے نیب میں پتوکی کی ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا کیس پڑا ہوا تھا جس میں 4 افراد نے 12کروڑ کا فراڈ کیا تھا ہم نے یہ کیس دوبارہ کھول کر ایک ملزم فیاض غوری ولد منشی خان کو پکڑا تو اس نے سپریم کورٹ میں ضمانت کی

درخواست دیدی اور پھر پہلی پیشی پر ہی یہ جج صاحب برس پڑے ’’ نیب سے بڑے ملزم تو پکڑے نہیں جاتے ، بے چارے منشیوں کو گرفتار کر رکھا ہے‘‘۔ بس پھر کیا اس پوری پیشی کا ماحول یہ تھاکہ ہمارے وکیل کو یہ بتانے کی بھی اجازت نہ ملی کہ جناب عالی ہم نے کسی منشی کو نہیں بلکہ اس ملزم کو پکڑا ہے کہ جس کے والد کا نام منشی خان ہے اور جونہ صرف ہاؤسنگ سوسائٹی کا ڈائریکٹر تھا بلکہ پچھلے انتخابات میں قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑ چکا ہے ۔ نیب کی اوگرا سکینڈل میں پہلی انکوئری ہوئی تو’’ دو بڑے‘‘ قصوروار نکلے مگرپھر دوسری انکوائری ہوگئی اور یہی دونوں بے قصور ٹھہرے ۔ یہ کیوں ہوااور پھر یہ تاثر کیوں ہے کہ نیب (ن) لیگ کے حوالے سے بڑا فرینڈلی ہے ۔میرے اس سوال پر قمر زمان چوہدری ایک قہقہہ مار کر بولے ’’جب پہلی انکوائری ہوئی تو میں دو ماہ کی چھٹیوں پر تھا۔میں واپس آیا تو مجھے تحریری درخواست ملی کہ یہ انکوائری دفتر میں بیٹھ کر کی گئی ہے اور اس میں Site Inspectionسمیت بہت سارے حقائق نظرانداز ہوئے ہیں لہٰذا دوبارہ انکوائری کی جائے ۔میں نے اس درخواست پر دوبارہ انکوائری کرادی لیکن دونوں انکوائریاں ایک ہی افسر نے کیں ۔باقی بحیثیت چئیر مین نیب نہ تومیں کبھی کسی انکوائری میں شامل ہوتا ہوں اور نہ کسی انکوائری پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔اور دوسری بات کہ نیب (ن) لیگ سے فرینڈلی ہے تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ نواز شریف خاندان کے کیسز جب احتساب عدالتوں سے خارج ہوئے تو یہ نیب ہی تھاکہ جس نے ان فیصلوں کیخلاف اپیل کی لیکن اب تو ایسا لگتاہے کہ ایک دن مجھ پر یہ الزام بھی لگے گا کہ این آر او بھی میری وجہ سے ہی ہوا ہے ۔ اس رات قمرزمان چوہدری ہر موضوع پر بولے اور کھل کر بولے ۔انہوں نے جہاں ہمیشہ انہیں پسند کرنے اور برے وقتوں میں ساتھ دینے والے جسٹس افتخار چوہدری کی آخری دنوں میں ناراضگی کی وجہ بتائی وہاں اپنی 6 مہینے تک ہوئی انکوائری کا قصہ بھی سنایا ۔ انہوں نے یہ بھی برملا کہا کہ’’ پرویز مشرف نے بہت مایوس کیا اور زرداری صاحب نے ملک کو ریورس گئیر میں ڈال دیا ۔چئیر مین نیب نے یہ بھی بتایا کہ آج تک نواز شریف نے نہ کسی کی سفارش کی اور نہ کبھی ناجائز دباؤ ڈالا‘‘۔ اس رات قمر زمان چوہدری نے پیسے اور کرسی کی خاطر اپنے چند بھگوانوں کا وہ کچھا چٹھابھی کھولا کہ جسے سنتے ہوئے بھی شرم آرہی تھی ۔اُس رات قمرزمان چوہدری کے گھر سے نکلتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ جہاں ہمیں یہ حق حاصل کہ نیب اگر ڈنڈی مارے یا کہیں’’ ہتھ ہولا ‘‘رکھے تو اس ’’ملی بھگت ‘‘ کو ہم بے نقاب کریں ،وہاں ہمارا یہ فرض بھی کہ ہم نیب کو اتنا کریڈٹ تو دیں کہ 175کرپٹ ممالک میں 126 ویں نمبر والے پاکستان میں گزشتہ دو سالوں سے 74فیصد کیس نمٹا کرنہ صرف 30ارب کی ریکور ی ہوئی بلکہ 2014کا ’’پلڈاٹ سروے‘‘ بتائے کہ حکومتی اداروں سے 26 فیصد عوام مطمئن جبکہ نیب پر اعتماد 42 فیصد لوگوں کا اور یہ سب کچھ ان حالا ت میں کہ چیئرمین نیب ’’ 16ویں بین الااقوامی کانفرنس برائے انسداد کرپشن ‘‘ میں شرکت کیلئے ملائشیاجاتے ہیں مگر یہاں مشہور یہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ سابق چیف جسٹس کے خوف سے باہر چلے گئے۔ واپس جاتے ہوئے مجھے یہ خیال بھی آ رہا تھا کہ یا تو ہم سب ہی صحافی ہو گئے مطلب جس کی جب بھی نظر پڑی کسی بری چیز پر ہی پڑی یا پھرہم سب وہ مکھیاں کہ جوپورا جسم چھوڑ کر زخم پر ہی بیٹھیں کیونکہ کتنی عجیب بات ہے کہ اگر نیب کسی کو پکڑ لے تو شور مچے ، کسی کو نہ پکڑے تو واویلا ، کسی سے کچھ نکلوایا اگلوا نہ سکے تو پراپیگنڈا اورتو اور اگرنیب کسی ’’بڑے پیٹ‘‘ کو چیر کر کچھ نکالنے میں کامیاب ہو جائے تو بھی یہ شکایت کہ ’’ لوجی چند کروڑ لے کر کلین چٹ دے دی گئی ‘‘۔ یقین جانئے مجھے تواب اپنا حال دیکھ کر اکثر وہ خاوند یاد آجاتا ہے کہ جس نے ایک دن بیوی کو انڈا بناکر لانے کو کہا ،جب بیگم انڈا لے کر آئی تو خوب ڈانٹ ڈپٹ کے بعدخاوند نے کہا ’’ میں آملیٹ کھانا چاہتا تھا اور تم فرائی انڈا لے آئی ہو ‘‘۔ تھوڑی دیر بعدبیگم آملیٹ لے آئی توانتہائی غصے میں خاوند بولا’ ’ جب میں آملیٹ کھانا چاہتا تھا ، تم فرائی لے آئی اور جب میں نے فرائی انڈے کا موڈ بنایا تو تم آملیٹ اٹھا لائی ہو ، پتا نہیں کب سدھروگی ۔ پھر آدھے گھنٹے بعدجب ڈری ہوئی بیگم فرائی اور آملیٹ دونوں طرح کے انڈے بنا کر حاضر ہوئی تو لمحہ بھر کیلئے انڈوں کو دیکھنے کے بعد خاوند چیخا ’’ پاگل عورت جس انڈے کو فرائی کرنا تھا اس کا تم نے آملیٹ بنا دیا اور جس کا آملیٹ بنانا تھا اسے تم نے فرائی کر دیا ، تمہاراواقعی کچھ نہیں ہو سکتا ‘‘۔