Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

جمہوری دیگ

- Posted in Amaal Nama by with comments

اڑھائی سال سے عوامی آرزؤں اور امنگوں کی آنچ پر پکتی جمہوری دیگ کا نمک مرچ چکھ کر آپکو بتانے ہی لگا تھا کہ حضرت علیؓ یاد آگئے کہ ’’ کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ توقائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں‘‘ اور پھر یہ کہ’’ اقتدار ،اختیار اور دولت ملنے کے بعد انسان بدلتے نہیں بے نقاب ہو جاتے ہیں ‘‘۔ باقی آپکو بتانا یہ تھا کہ ملکی قرضہ 68ارب ڈالر ہوگیا ، نندی پور چھوڑیں اب تو 272ارب لاگت والا نیلم جہلم پراجیکٹ بھی 410ارب تک جا پہنچا،سب کے سامنے آئی پی پیز کو 190ارب زیادہ ادا کر دیئے گئے اور دن دیہاڑے 21ارب ڈالر زرِمبادلہ والے ملک میں 410ملین ڈالر کے سود پر 500ملین ڈالر قرض لے لیا گیا ۔ بتانا یہ بھی کہ ایک اہم سیاسی وکاروباری خاندان نے رشوت اور سفارش کا چکر چلا کر 200سو ملین قرضہ دو فیصد سود پر لے کر اگلے ہی دن 7فیصد سود پر دے کر اُس منافع بخش کاروبار کی بنیاد رکھ دی کہ جس کیلئے اب ہر بااثر شخص بھاگ دوڑکررہا ہے۔بتانا یہ بھی کہ جس ملک میں غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کو نکّو نک کر دیا ہو ، جہاں سکولوں کا یہ حال کہ اگر چھت ہے تو استاد نہیں اور اگر استاد ہے تو نصاب نہیں،جہاں ہسپتالوں کی حالت یہ کہ پہلے تو ڈاکٹر ہی نہ ملے اگر وہ مل جائے تو بیڈ نہ ملے اور اگر دونوں مل جائیں تو پھر دوائیاں غائب اور مشینری خراب، جہاں آخری سیلاب اور حالیہ زلزلے سے مرنے والوں کو تو رہنے دیں، ابھی تو وہ بھی رہتے ہیں جو 2005کے زلزلے میں سب کچھ گنوا چکے، جہاں 88جیلوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسان اس طرح ٹھونسے گئے کہ اکثر جیلوں میں اگر اپنی باری پر ایک قیدی سو ئے تو دوسرا اس لیئے کھڑا رہے کہ بیٹھنے کی بھی جگہ نہ ہواور جہاں پنشن لینے والے رُل گئے اور زکوٰۃ پر چلتے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ، وہاں اُسی ملک میں وہ پنجاب حکومت جو خادمِ اعلیٰ کیلئے 14گاڑیاں خریدنے کیلئے 5کروڑ 40لاکھ اور شریف خاندان کی حفاظتیں کرتے پولیس ملازمین کیلئے 2کروڑ 71 لاکھ دے چکی تھی ، اب اسی پنجاب حکومت نے پچھلے ہفتے رائے ونڈ محلات کی سکیورٹی کیلئے 36کروڑ 44لاکھ اور دیدیئے۔ بتانا یہ بھی کہ یہاں چھوٹوں کی چھوٹی حرکتوں پر پریشان جب آج اپنے دوچار بڑوں کا حال احوال سنیں گے تو آپکے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے،پہلے بات کرتے ہیں اُس بڑے صاحب کی جو بڑے عہدے کیلئے نامزد ہونے کے دوسرے ہی دن سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کراچی میں اپنے خاندان کے اتنے لوگوں کے ساتھ آ گئے تھے کہ جب جگہ کم پڑی تو پھر چند عزیزواقارب نے ان کوارٹروں میں بھی بستر لگا لیئے کہ جن میں پولیس اہلکار رہ رہے تھے، یہ وہی صاحب جنہوں نے کمبل تکیوں اور کھانے پینے پر نامطمئن رشتے داروں کے کہنے پر سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے نگران کو معطل کروادیا ، یہ وہی محترم جو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے دوہفتوں بعد ہی سعودی عرب کے قومی دن پر مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جا کر ہاتھ ملاتے ہی سفیر سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’یار اس بار شاہی حج تو کروا دو‘‘ یہ وہی قبلہ جسے جب سفیر نے اپنے ملک سے اجازت لے کر شاہی حج کیلئے ہاں کی تو انہوں نے اپنے ساتھ 18پاسپورٹ رشتے داروں کے بھی بھجوا دیئے اور پھر اپنے ڈیڑھ درجن رشتے داروں کے ساتھ مفت حج کرتے ہوئے بقول ہمارے میڈیا کے ملکی سلامتی اور قومی خوشحالی کیلئے رو رو کر دعائیں مانگنے والے عزت مآب کی اپنی حکومت کی آڈٹ رپورٹ بتاتی ہے کہ انہوں نے بیرونی دوروں کے دوران ملک و قوم کے 60ہزار ڈالرنوکروں چاکروں کو ٹپ دے دی ۔ اب سنیئے دوسرے بڑے صاحب کی،یہ اڑھائی سال قبل عہدے کا حلف اٹھانے اور اپنے وسیع وعریض سرکاری گھر میں شفٹ ہونے سے دو دن پہلے گھرکا معائنہ فرمارہے تھے کہ یہ اپنے بیڈ روم کے باتھ روم کے دروازے پر آکر رکے اور پھر گھر کی دیکھ بھال کرتی سرکاری ٹیم کے انچارج کی طرف دیکھ کر بولے ’’اس باتھ روم میں بھی اتنا ہی بڑا شاور لگایا جائے جتنا بڑا شاور میرے لاہور والے گھر میں لگا ہوا ہے ‘‘معائنہ ختم ہوا تو اس افسر نے دفتر پہنچ کر پہلا کام یہی کیا کہ پہلے لاہور فون کر کے شاور کی لمبائی ، چوڑائی معلوم کی اور پھر اس سائز کا شاور لانے کیلئے راولپنڈی اسلام آباد کی مارکیٹوں میں بندے دوڑا دیئے ، لیکن اِدھر یہ بندے بازاروں میں پہنچے بھی نہیں ہوں گے کہ اُدھر بڑے صاحب کا فون آگیا،فرمانے لگے ’’شاور مِلا یا نہیں‘‘عرض کی گئی کہ ’’بندے اس وقت بازاروں میں ہیں‘‘لیکن پھر جب ایک لمبی تلاش کے بعد پتا یہ چلا کہ یہاں کیا اتنا بڑا شاور تو پورے ملک میں بھی نہیں مل سکتا تو سب سرجوڑ کر بیٹھے اور پھر حل یہ نکالا گیا کہ خصوصی آرڈر پر شاور بنوایا لیا جائے اور یوں اسلام آباد کی ایک باتھ روم کی چیزیں بنانے والی فیکٹری کو منہ مانگی قیمت پر یہ شاور بنانے کا آرڈر دے دیا گیا ،ابھی یہ سب ہوا ہی تھا کہ افسر کو بڑے صاحب کی پھر کال آئی اور ان کے پھر سے پوچھنے پر کہ ’’شاور کا کیا بنا‘‘ گوش گذار کیا گیا کہ ’’ حضور بازار سے چونکہ اس سائز کا شاور نہیں مِلا ،لہذا اب خصوصی طور پر شاور بنانے کا آرڈر دیدیا گیا ہے‘‘ ۔لیکن صاحب کے فون کے بعد یہ افسر کرسی سے ٹیک لگا کر ابھی چائے پینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور اس بار دوسری طرف بڑے صاحب کے اے ڈی سی تھے ،کہنے لگے ’’صاحب پوچھ رہے ہیں کہ شاور ملے گا کب‘‘ ، بتایا گیا 3دن بعد ، فون بند ہوا اور ا بھی اس افسر نے چائے کا پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ دوبارہ کال آگئی اور گو کہ اس بار بھی دوسری طرف اے ڈی سی ہی تھے مگر مکمل بدلے ہوئے لہجے کے ساتھ۔۔۔ تحکمانہ انداز میں بولے ’’ صاحب کہہ رہے ہیں کہ 3دن کی کہانی کسی اور کو سناؤ ،ا گلے 24گھنٹوں میں شاور باتھ روم میں لگ جانا چاہیے‘‘ ،یہ سن کر افسر کے ہوش اڑے اور وہ افراتفری میں دفتر سے سیدھا فیکٹری پہنچا اور پھر اس نے آدھے گھنٹے کی منتوں سماجتوں اور ڈبل قیمت کا لالچ دے کر آخر کار فیکٹری منیجر کو اگلے دن سہ پہر تک شاورتیار کرنے پر راضی کر ہی لیا۔خیر خداخدا کر کے اگلے دن شام کو شاور لگا کر جب بڑے صاحب کو بتایا گیا تووہ ایک میٹنگ سے اٹھ کر بذاتِ خود معائنے کیلئے تشریف لائے اور پھر 15بیس منٹ تک شاور چلانے اور بند کرنے کے دوران مکمل بھیگ چکے افسر کوشکائیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے یہ کہہ کر چلتے بنے کہ ’’مزا نہیں آیا‘‘۔ اب آخر پر بتانا یہ بھی کہ ایک وزارت کو چلاتے دو بزرگوں کا ڈیڑھ سالہ باہمی حسد آجکل اس سطح پر پہنچ گیا کہ اب تو پوری وزارت مزے لیتی ہوئی۔ مثال کے طور پر ایک بزرگ کو جب وہ دفتر مِلا کہ جس کے ساتھ جڑا ہوا ایک چھوٹا سا Sitting Roomبھی تھا تو دوسرے بزرگ اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھے کہ جب تک اُنہوں نے ایک دیوارتوڑ کر اپنے دفتر کے ساتھ بھی Sitting Room نہ بنالیا ، جب ایک بزرگ کے دفتر میں اللہ کے ناموں والی پینٹنگ لگی تو دوسرے بزرگ کو تب تک سکون نہ آیا کہ جب تک اسی طرح کی پینٹنگ ان کے دفتر میں بھی نہ لگ گئی ، جب ایک بزرگ کو کالی گاڑی ملی تو دوسرے بزرگ نے اپنی سفید کار واپس کر کے کالی گاڑی منگوالی ، جب ایک بزرگ نے اپنی کار پر جھنڈا لگایا تو اگلے دن دوسرے بزرگ کی گاڑی پر بھی جھنڈا لہرا رہا تھااور جب ایک بزرگ ایک صبح پروٹوکول والی گاڑی کے ہمراہ دفتر پہنچے تو دوسرے بزرگ اس دن اُس وقت تک دفتر میں بیٹھے رہے جب تک ان کو بھی پروٹوکول کی گاڑی مہیا نہ کر دی گئی اور اب آخری اطلاعات آنے تک سوکنوں والی یہ رقابت کپڑے پہننے اور کھانے پینے تک پہنچ چکی تھی ۔ تو دوستو! اڑھائی سال سے عوامی آرزؤں اور امنگوں کی آنچ پر پکتی اس جمہوری دیگ کا نمک مرچ چکھنے کے بعد پھر سے حضرت علیؓ یاد آگئے کہ ’’ کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں ‘‘اور پھر یہ کہ’’ اقتدار ،اختیار اور دولت ملنے کے بعد انسان بدلتے نہیں بے نقاب ہو جاتے ہیں ‘‘۔

جمہوری دیگ

- Posted in Amaal Nama by with comments

اڑھائی سال سے عوامی آرزؤں اور امنگوں کی آنچ پر پکتی جمہوری دیگ کا نمک مرچ چکھ کر آپکو بتانے ہی لگا تھا کہ حضرت علیؓ یاد آگئے کہ ’’ کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ توقائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں‘‘ اور پھر یہ کہ’’ اقتدار ،اختیار اور دولت ملنے کے بعد انسان بدلتے نہیں بے نقاب ہو جاتے ہیں ‘‘۔ باقی آپکو بتانا یہ تھا کہ ملکی قرضہ 68ارب ڈالر ہوگیا ، نندی پور چھوڑیں اب تو 272ارب لاگت والا نیلم جہلم پراجیکٹ بھی 410ارب تک جا پہنچا،سب کے سامنے آئی پی پیز کو 190ارب زیادہ ادا کر دیئے گئے اور دن دیہاڑے 21ارب ڈالر زرِمبادلہ والے ملک میں 410ملین ڈالر کے سود پر 500ملین ڈالر قرض لے لیا گیا ۔ بتانا یہ بھی کہ ایک اہم سیاسی وکاروباری خاندان نے رشوت اور سفارش کا چکر چلا کر 200سو ملین قرضہ دو فیصد سود پر لے کر اگلے ہی دن 7فیصد سود پر دے کر اُس منافع بخش کاروبار کی بنیاد رکھ دی کہ جس کیلئے اب ہر بااثر شخص بھاگ دوڑکررہا ہے۔بتانا یہ بھی کہ جس ملک میں غربت ،مہنگائی اور بے روزگاری نے لوگوں کو نکّو نک کر دیا ہو ، جہاں سکولوں کا یہ حال کہ اگر چھت ہے تو استاد نہیں اور اگر استاد ہے تو نصاب نہیں،جہاں ہسپتالوں کی حالت یہ کہ پہلے تو ڈاکٹر ہی نہ ملے اگر وہ مل جائے تو بیڈ نہ ملے اور اگر دونوں مل جائیں تو پھر دوائیاں غائب اور مشینری خراب، جہاں آخری سیلاب اور حالیہ زلزلے سے مرنے والوں کو تو رہنے دیں، ابھی تو وہ بھی رہتے ہیں جو 2005کے زلزلے میں سب کچھ گنوا چکے، جہاں 88جیلوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسان اس طرح ٹھونسے گئے کہ اکثر جیلوں میں اگر اپنی باری پر ایک قیدی سو ئے تو دوسرا اس لیئے کھڑا رہے کہ بیٹھنے کی بھی جگہ نہ ہواور جہاں پنشن لینے والے رُل گئے اور زکوٰۃ پر چلتے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ، وہاں اُسی ملک میں وہ پنجاب حکومت جو خادمِ اعلیٰ کیلئے 14گاڑیاں خریدنے کیلئے 5کروڑ 40لاکھ اور شریف خاندان کی حفاظتیں کرتے پولیس ملازمین کیلئے 2کروڑ 71 لاکھ دے چکی تھی ، اب اسی پنجاب حکومت نے پچھلے ہفتے رائے ونڈ محلات کی سکیورٹی کیلئے 36کروڑ 44لاکھ اور دیدیئے۔ بتانا یہ بھی کہ یہاں چھوٹوں کی چھوٹی حرکتوں پر پریشان جب آج اپنے دوچار بڑوں کا حال احوال سنیں گے تو آپکے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے،پہلے بات کرتے ہیں اُس بڑے صاحب کی جو بڑے عہدے کیلئے نامزد ہونے کے دوسرے ہی دن سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کراچی میں اپنے خاندان کے اتنے لوگوں کے ساتھ آ گئے تھے کہ جب جگہ کم پڑی تو پھر چند عزیزواقارب نے ان کوارٹروں میں بھی بستر لگا لیئے کہ جن میں پولیس اہلکار رہ رہے تھے، یہ وہی صاحب جنہوں نے کمبل تکیوں اور کھانے پینے پر نامطمئن رشتے داروں کے کہنے پر سٹیٹ گیسٹ ہاؤس کے نگران کو معطل کروادیا ، یہ وہی محترم جو اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے دوہفتوں بعد ہی سعودی عرب کے قومی دن پر مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے جا کر ہاتھ ملاتے ہی سفیر سے کہہ دیتے ہیں کہ ’’یار اس بار شاہی حج تو کروا دو‘‘ یہ وہی قبلہ جسے جب سفیر نے اپنے ملک سے اجازت لے کر شاہی حج کیلئے ہاں کی تو انہوں نے اپنے ساتھ 18پاسپورٹ رشتے داروں کے بھی بھجوا دیئے اور پھر اپنے ڈیڑھ درجن رشتے داروں کے ساتھ مفت حج کرتے ہوئے بقول ہمارے میڈیا کے ملکی سلامتی اور قومی خوشحالی کیلئے رو رو کر دعائیں مانگنے والے عزت مآب کی اپنی حکومت کی آڈٹ رپورٹ بتاتی ہے کہ انہوں نے بیرونی دوروں کے دوران ملک و قوم کے 60ہزار ڈالرنوکروں چاکروں کو ٹپ دے دی ۔ اب سنیئے دوسرے بڑے صاحب کی،یہ اڑھائی سال قبل عہدے کا حلف اٹھانے اور اپنے وسیع وعریض سرکاری گھر میں شفٹ ہونے سے دو دن پہلے گھرکا معائنہ فرمارہے تھے کہ یہ اپنے بیڈ روم کے باتھ روم کے دروازے پر آکر رکے اور پھر گھر کی دیکھ بھال کرتی سرکاری ٹیم کے انچارج کی طرف دیکھ کر بولے ’’اس باتھ روم میں بھی اتنا ہی بڑا شاور لگایا جائے جتنا بڑا شاور میرے لاہور والے گھر میں لگا ہوا ہے ‘‘معائنہ ختم ہوا تو اس افسر نے دفتر پہنچ کر پہلا کام یہی کیا کہ پہلے لاہور فون کر کے شاور کی لمبائی ، چوڑائی معلوم کی اور پھر اس سائز کا شاور لانے کیلئے راولپنڈی اسلام آباد کی مارکیٹوں میں بندے دوڑا دیئے ، لیکن اِدھر یہ بندے بازاروں میں پہنچے بھی نہیں ہوں گے کہ اُدھر بڑے صاحب کا فون آگیا،فرمانے لگے ’’شاور مِلا یا نہیں‘‘عرض کی گئی کہ ’’بندے اس وقت بازاروں میں ہیں‘‘لیکن پھر جب ایک لمبی تلاش کے بعد پتا یہ چلا کہ یہاں کیا اتنا بڑا شاور تو پورے ملک میں بھی نہیں مل سکتا تو سب سرجوڑ کر بیٹھے اور پھر حل یہ نکالا گیا کہ خصوصی آرڈر پر شاور بنوایا لیا جائے اور یوں اسلام آباد کی ایک باتھ روم کی چیزیں بنانے والی فیکٹری کو منہ مانگی قیمت پر یہ شاور بنانے کا آرڈر دے دیا گیا ،ابھی یہ سب ہوا ہی تھا کہ افسر کو بڑے صاحب کی پھر کال آئی اور ان کے پھر سے پوچھنے پر کہ ’’شاور کا کیا بنا‘‘ گوش گذار کیا گیا کہ ’’ حضور بازار سے چونکہ اس سائز کا شاور نہیں مِلا ،لہذا اب خصوصی طور پر شاور بنانے کا آرڈر دیدیا گیا ہے‘‘ ۔لیکن صاحب کے فون کے بعد یہ افسر کرسی سے ٹیک لگا کر ابھی چائے پینے کا سوچ ہی رہا تھا کہ فون کی گھنٹی بجی اور اس بار دوسری طرف بڑے صاحب کے اے ڈی سی تھے ،کہنے لگے ’’صاحب پوچھ رہے ہیں کہ شاور ملے گا کب‘‘ ، بتایا گیا 3دن بعد ، فون بند ہوا اور ا بھی اس افسر نے چائے کا پہلا گھونٹ ہی بھرا تھا کہ دوبارہ کال آگئی اور گو کہ اس بار بھی دوسری طرف اے ڈی سی ہی تھے مگر مکمل بدلے ہوئے لہجے کے ساتھ۔۔۔ تحکمانہ انداز میں بولے ’’ صاحب کہہ رہے ہیں کہ 3دن کی کہانی کسی اور کو سناؤ ،ا گلے 24گھنٹوں میں شاور باتھ روم میں لگ جانا چاہیے‘‘ ،یہ سن کر افسر کے ہوش اڑے اور وہ افراتفری میں دفتر سے سیدھا فیکٹری پہنچا اور پھر اس نے آدھے گھنٹے کی منتوں سماجتوں اور ڈبل قیمت کا لالچ دے کر آخر کار فیکٹری منیجر کو اگلے دن سہ پہر تک شاورتیار کرنے پر راضی کر ہی لیا۔خیر خداخدا کر کے اگلے دن شام کو شاور لگا کر جب بڑے صاحب کو بتایا گیا تووہ ایک میٹنگ سے اٹھ کر بذاتِ خود معائنے کیلئے تشریف لائے اور پھر 15بیس منٹ تک شاور چلانے اور بند کرنے کے دوران مکمل بھیگ چکے افسر کوشکائیتی نظروں سے دیکھتے ہوئے یہ کہہ کر چلتے بنے کہ ’’مزا نہیں آیا‘‘۔ اب آخر پر بتانا یہ بھی کہ ایک وزارت کو چلاتے دو بزرگوں کا ڈیڑھ سالہ باہمی حسد آجکل اس سطح پر پہنچ گیا کہ اب تو پوری وزارت مزے لیتی ہوئی۔ مثال کے طور پر ایک بزرگ کو جب وہ دفتر مِلا کہ جس کے ساتھ جڑا ہوا ایک چھوٹا سا Sitting Roomبھی تھا تو دوسرے بزرگ اُس وقت تک چین سے نہ بیٹھے کہ جب تک اُنہوں نے ایک دیوارتوڑ کر اپنے دفتر کے ساتھ بھی Sitting Room نہ بنالیا ، جب ایک بزرگ کے دفتر میں اللہ کے ناموں والی پینٹنگ لگی تو دوسرے بزرگ کو تب تک سکون نہ آیا کہ جب تک اسی طرح کی پینٹنگ ان کے دفتر میں بھی نہ لگ گئی ، جب ایک بزرگ کو کالی گاڑی ملی تو دوسرے بزرگ نے اپنی سفید کار واپس کر کے کالی گاڑی منگوالی ، جب ایک بزرگ نے اپنی کار پر جھنڈا لگایا تو اگلے دن دوسرے بزرگ کی گاڑی پر بھی جھنڈا لہرا رہا تھااور جب ایک بزرگ ایک صبح پروٹوکول والی گاڑی کے ہمراہ دفتر پہنچے تو دوسرے بزرگ اس دن اُس وقت تک دفتر میں بیٹھے رہے جب تک ان کو بھی پروٹوکول کی گاڑی مہیا نہ کر دی گئی اور اب آخری اطلاعات آنے تک سوکنوں والی یہ رقابت کپڑے پہننے اور کھانے پینے تک پہنچ چکی تھی ۔ تو دوستو! اڑھائی سال سے عوامی آرزؤں اور امنگوں کی آنچ پر پکتی اس جمہوری دیگ کا نمک مرچ چکھنے کے بعد پھر سے حضرت علیؓ یاد آگئے کہ ’’ کوئی معاشرہ کفر کے ساتھ تو قائم رہ سکتا ہے مگر ظلم اور نا انصافی کے ساتھ نہیں ‘‘اور پھر یہ کہ’’ اقتدار ،اختیار اور دولت ملنے کے بعد انسان بدلتے نہیں بے نقاب ہو جاتے ہیں ‘‘۔

Crossing Pakistan - three weeks of adventure on a KTM 640

!کوئی پاگل ہی ہوگ ا

- Posted in Amaal Nama by with comments

پورا واقعہ سنا کر اشتراوصاف نے عینک اتاری ،دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی بھیگی آنکھیں صاف کیں اور پھر رُندھی ہوئی آوا ز میں بولے ’’ جب انسان جانور بن جائے تو پھر ایسے ہی واقعات ہوتے ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں جانور بڑھتے اورانسان گھٹتے جا رہے ہیں ‘‘ یہ کہہ کر وہ بات کرتے کرتے رُکے ،عینک پہن کر گھڑی سے وقت دیکھا اور پھر خدا حافظ کہتے ہوئے اگلی میٹنگ کیلئے کمرے سے نکل گئے۔گزشتہ 20سالوں سے جیلوں اور قیدیوں کی بہتری کیلئے کام کرتے نامور قانون دان اشتراوصاف سے یہ واقعہ سن کر بلا شبہ بہت شرمندگی اور دکھ ہوا مگر جہاں تک ان کی یہ بات کہ ’’ہمارے ہاں جانور بڑھتے اور انسا ن گھٹتے جار ہے ہیں ‘‘ توجس دیس میں جانوروں کے مزے اور انسانوں کی مشکلیں بڑھتی ہی جارہی ہوں ،وہاں کون پاگل ہوگا جو پھر بھی انسان ہی رہے بلکہ اب تو 68سالوں سے راج کرتے 600خاندانوں اور انکے تابعدار کروڑوں افراد کے آپس کے تال میل نے نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ طبقہ اشرافیہ کوتو چھوڑیں اب تو اس طبقے کے جانور بھی انسانوں سے بہتر ۔ اگر یقین نہیں آرہا تو اشتراوصاف کاسنا یا ہوا واقعہ کچھ دیر بعد سہی پہلے چند نمونے ملاحظہ ہوں اپنے ملک کے شاہی جانوروں اور عام انسانوں کے ، مزا نہ آئے تو پیسے واپس ۔27اکتوبر 1958کی رات جب آرمی چیف ایوب خان کی فوجی ٹیم ایوانِ صدر کے ڈرائنگ روم میں صدر سکندر مرزا سے زبردستی استعفیٰ پر دستخط کروا رہی ہوتی ہے تو عین انہی لمحوں آنے والی بیگم ناہید مرزا جرنیلوں میں گھِرے اپنے بے بس خاوند کو دیکھتے ہی صورتحال بھانپتے ہوئے چیخ مار کر کہتی ہیں ’’ہائے میری بلِّیوں کا کیا بنے گا ‘‘ مطلب ملک باقاعدہ پہلے مارشل لاء اور قوم پہلے ڈکٹیٹر کے حوالے لیکن بیگم صاحبہ کو فکر اپنی بلِّیوں کی۔ ایک طرف سردار نامی وہ گھوڑا جسے صدر ایوب نے امریکی صدر کینڈی کی اہلیہ جیکولین کو تحفے میں دینا تھا،اسے 4ڈاکٹر روزانہ چیک کریں اور 10خدمتگار اسکے نخرے اٹھائیں لیکن دوسری طرف اسی گھوڑے کا ایک خدمتگار لیاقت علی وقت پڑنے پر اپنی حاملہ بیوی کیلئے ڈاکٹر لا سکا اور نہ ہی اسے اسپتا ل لے جاسکا لہذا اسکی بیوی محلے کی 2عورتوں کے ہاتھوں گھر پر بچہ پیدا کرتے مر گئی، ایک طرف میاں برادران کی جاتی عمرہ کی رہائش گاہ پر ایک جنگلی بلاِّ جب شاہی موروں کو زخمی کرتا ہے تو نہ صرف 21پولیس اہلکار وں کوشو کاز نوٹس ملے بلکہ جرم ثابت ہونے پر 3اہلکار معطل ہوں اور پھر چند دنوں میں ہی ملزم اشتہاری بِلّے کو منطقی انجام تک پہنچا دیا گیا ، یہی نہیں اسی ہاؤس پر جب سکیورٹی اہلکاروں عابد اورسیف اللہ نے شاہی باغ سے چوری چھپے امردو توڑکر کھائے تو کیمرے کی آنکھ نے ان کی چوری پکڑی اور اگلے ہی دن انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ،لیکن دوسر ی طرف خضدار سے 10کلو میٹر کی دوری پر سٹرک کے کنارے اپنے جسم سے خود ہی کیڑے نکالتا بابا نصیب اس لیئے پاگل ہوا کہ جب اس نے اپنے سردارکے گھر نوکریاں کرتے اپنے پوتوں کوا سکول داخل کروایا تو اس جرم پر سردار نے پہلے 6ہفتے تک اسکے خاندان کو قید کیئے رکھا پھر معافی مانگنے کی بجائے تھانے جانے پر بابا نصیب کے خاندان کو وہاں پہنچا دیا گیا کہ جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا،اسی طرح شیخوپورہ کا وہ اصغر مصلّی جو اس لیئے پاگل خانے جا پہنچا کہ اس نے زیادہ تنخواہ ملنے پر جب ایک چوہدری کو چھوڑ کر دوسرے چوہدری کے ہاں نوکری کی تو اُ چیّ نک والے چوہدری نے اصغر مصلّی کی بیوی کو ننگا کر کے اپنی بھینسوں کے ساتھ باندھ دیا ، یہاں یہ یادر ہے کہ بابا نصیب اور اصغر مصلّی انصاف کو ترستے ترستے مر گئے مگر انہیں انصاف نہ مِلا اور ملتا بھی کیسے کیونکہ وہ انسان تھے شاہی مور نہیں اور پھر ایک طرف جہاں بلاول بھٹو کی بلِّیوں اور طوطوں ، عمران خان اور مشرف کے کتوں ، زرداری صاحب کے گھوڑے،بکریو ں ،اونٹنیوں اور میاں نواز شریف کی بھینسوں سمیت لاتعداد پالتو جانوروں کے ما حول ائیر کنڈیشنڈ، ان کا رہن سہن شاہانہ، ان کے کھانے ،ٹہلانے اور نہانے کا وقت مقر ر ، یہ ذرا سا سست پڑیں تو ڈاکٹروں کا پینل بیٹھ جائے اورانکی خالص دیسی اور ڈبہ بند ولائیتی خوراکیں جبکہ دوسری طرف سرکاری اسپتالوں میں درد کی ایک ایک گولی کیلئے رُلتی مخلوق دیکھ لیں یا تھرپارکر،عمر کوٹ اور سانگھڑ کے ان بچوں پر نظر مار لیں کہ جو کم خوراک اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے پر 100میں سے 50 اپنی پہلی سالگرہ سے پہلے ہی مرجائیں ،پھرکیٹی بند ر کا وہ گوٹھ جس کی مسلسل تیسری نسل اس لیئے ننگے پاؤں کہ انہیں علم ہی نہیں کہ جوتا بھی لباس کا حصہ ہوتا ہے اور گھارو کا وہ گاؤں کہ جس کے 90 فیصد لوگوں کی 90فیصد بینائی اس لیے چلی گئی کہ یہ خچروں اور گدھوں کا وہ گوبر ( لِد) جلا کر کھانا پکائیں کہ جس کا دھواں اتنا زہریلا کہ بالآخر انسان کو نابینا پن کے دروازے تک لے آئے ۔یہاں لاہور کی وہ ریشماں بھی یاد رہے کہ جو دو ہفتے قبل سارا دن ایک بیڈ کی آس میں اسپتا ل کی سیڑھیوں پر بیٹھی رہی اور پھر وہیں بچہ پیدا کر کے گھر چلی گئی ۔ گو کہ شاہی جانوروں اور عام انسانوں کے لاتعداد قصے اور بھی مگر مجھے یقین ہے کہ آپکی دماغ کشائی کیلئے یہ چند نمونے ہی کافی ہوں گے لہذا اب اشتراوصاف کا وہ واقعہ اس یاد دہانی کے ساتھ کہ قا نقاہ کے بازار میں جب ایک یہودی نے مسلمان عورت کا نقاب کھینچا تو اس یہودی کے قتل کے بعد بھی نبی ؐ کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور آپ ؐ نے یہودیوں کیخلاف اعلانِ جنگ کردیا لیکن اسی نبی ؐ کے اُمتیوں نے اپنی کلّمہ گو بہنوں ،بیٹیوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہوا تھا یہ اشتراوصاف کی زبانی سنیے ’’ یہ 1997کی بات ہے میں وزیراعظم نواز شریف کا انسانی حقوق کا مشیر تھا، ایک روز ڈسٹرکٹ جیل گوجرانوالہ کا معائنہ کرتے ہوئے اچانک میری نظر ایک ایسی بیرک پر پڑی کہ جس کے روشندان ،کھڑکیاں حتیٰ کہ سلاخوں والا دروازہ بھی ٹینکی چادر سے بند کیا ہوا تھا ، میں نے جیل حکام سے پوچھا ’’ کیا یہ بیرک خالی ہے‘‘ جواب مِلا’’ نہیں اس میں بھی قیدی ہیں ‘‘،میں نے حیران ہو کر کہا ’’تو پھر یہ اس طرح بند کیوں‘‘جواب دیا گیا ’’ اس لیے کہ اس بیرک میں خطرناک قید ی ہیں‘‘،میں نے کہا ’’کون سے خطرناک قیدی۔۔۔ ذرا مجھے اس بیرک کا رجسٹر تو لا کر دکھائیں ‘‘، جیل حکام آئیں بائیں شائیں کرنے لگے تو میں نے سختی سے کہا کہ’’ رجسٹر بھی لاؤاورمیرے سامنے ابھی دروازے سے ٹین کی چادر بھی ہٹاؤ ‘‘ خیر نہ رجسٹر تھا اور نہ لایا گیا البتہ کافی حیل وحجت کے بعد جب جیل حکام نے دروازے سے ٹین کی چادر ہٹائی تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ 50قیدیوں کی گنجائش والی اس بیرک میں 100سے زیادہ خواتین ننگے فرش پر انتہائی خستہ حالت میں ایکدوسرے کے ساتھ یوں جڑ کر بیٹھی تھیں کہ جیسے انہیں آپس میں گوند سے چپکا دیا گیا ہو چونکہ میں سب سے آگے تھا لہذا ٹین کی چادر ہٹتے ہی ایک قید ی عورت جسے سانس لینے میں بھی دشواری ہور ہی تھی اٹک اٹک کر بولی ’’صاحب میں جوان بھی ہوں اور خوبصورت بھی ،آج مجھے لے جاؤ‘‘، ایک اور قیدی خاتون پنجابی میں بولی ’’ وے باؤ چھڈ اینوں ،مینوں لے چل ، پھر تیسری آواز آئی’’ صاحب جو کہو گے کروں گی مگر خد ا کیلئے مجھے اس جہنم سے نکالو ‘‘ اور پھر چند لمحوں میں ہی پوری بیرک میں شور مچ گیا، ہر عورت چیخ چیخ کر کچھ نہ کچھ کہہ رہی تھی ۔ اشتر اوصاف بتاتے ہیں کہ پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہ آئی کہ ہو کیا رہا ہے لیکن پھر جیل حکام کے جھوٹ ، بیرک کو اس طرح بند کر کے عورتوں کو حبس اور گھٹن میں رکھنا اور دروازے سے ٹین کی چادرہٹتے ہی خواتین کا ردِعمل مطلب جب پوری کہانی سمجھ آئی تو اگلے ہی لمحے ایسے لگا کہ جیسے میرے جسم سے کسی نے جان نکال لی ہواور اس سے پہلے کہ میں گرجاتا میں بیرک کی سلاخوں کا سہارا لیکر وہیں زمین پر بیٹھ گیا، اسکے بعد کب آنسوبہے ،کب ہچکیاں شروع ہوئیں اور میں کب تک زمین پربیٹھ کر روتا رہامجھے کچھ یاد نہیں۔ پورا واقعہ سنا کر اشراوصاف نے عینک اتاری ،دائیں ہاتھ کی انگلیوں سے اپنی بھیگی آنکھیں صاف کیں اورپھر رُندھی ہوئی آواز میں بولے’’جب انسان جانور بن جائے تو پھر ایسے واقعات ہوتے ہیں اور دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے ہاں جانور بڑھتے اور انسان گھٹتے جا رہے ہیں‘‘لیکن دوستو! بات پھر وہی کہ جس دیس میں جانوروں کے مزے اور انسانوں کی مشکلیں بڑھتی جارہی ہوں وہاں کون پاگل ہوگا جو پھر بھی انسان ہی رہے۔

ISI most professional and discipline Intelligence agency