فلمی بلکہ ویری فلمی سیاسی نگری کے تذکرے سے پہلے ذکر اپنی اُن 3ہیروئنوں کا جو کبھی اُس فلم انڈسٹری پر راج کرتی تھیں جو فلم انڈسٹری بھری جوانی میں بیوہ ہو کراب بسترِمرگ پر ۔ پہلی ہیروئن مس سدا بہار اُس دور کی ہٹ ہیروئن تھی کہ جب فلم میں سین اگر غم کا ہوتا تو ہیروئن سسکی کے بعد لفظ ادا کرتی اور اگر سین خوشی کا ہوتا تو لفظ کے بعد سسکی، جب ہیروئنیں پردے پر بھی اگر کچھ کرتیں تو پردے میں کرتیں اور جب سکرین اتنی بلیک اینڈ وائٹ تھی کہ رنگین چیزیں بھی کبھی بلیک تو کبھی وائٹ نظرآتیں ،مس سدا بہار بڑی سکرین کی اتنی بڑی اداکارہ تھی کہ اگر اُن دنوں اوپر سے لاہور کو دیکھا جاتا تو پہلے یہ پھر لاہور نظر آتا ، ہنسنے سے ایک منٹ پہلے اس کا جسم ہلنے لگتا اور ہنسنے کے دو منٹ بعد تک ہلتا رہتا ، ایک بارایک بچہ کافی دیر سے اسے دیکھے جا رہا تھا آخر بچے کا باپ تنگ آکر بولا’’ بیٹا جتنی آج دیکھ سکتے ہو دیکھ لو باقی کل آکر دیکھ لینا‘‘ ،اسکی گفتگو ایسی کہ عورتوں کی شیخ رشید تھی، بندے کا منہ تھپڑ سے اتنا سرخ نہ ہوتاجتنا اسکی باتوں سے ہو جاتا ، اسکے ہمسائے اور کپڑے ہمیشہ تنگ رہے ،اتنی اچھی پرفارمر کہ فلم میں ولن سے بچاؤ کیلئے پکارتی تو ہیرو کے ساتھ فلم ساز بھی دوڑ پڑتا ۔ اس کا حافظہ ہمیشہ کمزوررہا،خود بتاتی کہ’’ مجھے تو یہ بھی یا د نہیں کہ بچپن میں جب میں اپنے دومنزلہ مکان کی چھت سے گری تھی تو زندہ بھی بچی تھی یا نہیں‘‘ ،یہ Sensitiveایسی تھی کہ ایکدن باقاعدہ آنسو بہا کر بولی ’’کل فلاں ہیرونے میری بڑی بے عزتی کی‘‘،پوچھا گیا کیسے،کہنے لگی ’’ میں نے اسے کہا کہ مجھے گھر چھوڑ دینا تو وہ سیدھا مجھے میرے گھر چھوڑ آیا‘‘۔ ہماری دوسری ہیروئن مس فتنہ اُس زمانے کی ہیروئن کہ جب اپنی فلم انڈسٹری نئی نئی جوان ہوئی تھی ،یہ اُس ہیرو کے ساتھ بے حساب فلموں میں آئی جو فلم میں کالج بوائے بن کر کالج میں گھومتا تو یوں لگتا کہ جیسے کوئی باپ بچوں کی فیس معاف کروانے آیا ہو،مس فتنہ بھی کئی فلموں میں کالج گرل بنی ،کیمرہ دور ہوتا تویہ کالج گرل ہی لگتی، کیمرہ کلوز ہوتا تو پورا کالج لگتی ،اسکا قد ویسے بھی لمبا تھامگر اسے سینڈلوں اور سکینڈلوں سے مزید اونچا رکھا ۔ عمر کے معاملے میں یہ ہمیشہ بخیل رہی ، ایک مرتبہ اس نے اپنی جو عمربتائی اس حساب سے وہ پہلی فلم میں ہیروئن تب آئی جب ابھی وہ3سال کی تھی ، اس کا جڑواں بھائی جب 55 کا تھا یہ تب بھی 30پر رکی ہوئی تھی ، یہ ایک عرصے تک سب کو بتایا کرتی کہ میرے والد دن بھر بھوکوں کو کھاناکھلایا کرتے تھے ،وہ تو بعد میں پتا چلا کہ والدِ محترم ایک ہوٹل پر ویٹرتھے ، وہ مس فتنہ جوآج کل اتنی پرانی ہو چکی کہ پچھلے مہینے جب یہ ایک انٹیک شوپر گئی تو چند رئیسوں نے اسے بھی خریدنے کی کوشش کی ،اسی مس فتنہ کو چند دن پہلے ایک ٹی وی چینل پر کچھ اس طرح کی باتیں کرتے دیکھا کہ* اگر کوئی دل کا دروازہ اندر سے بند کر لے تو تم باہر سے کنڈی لگالو * عمر لمبی کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وہ سب کچھ ہی چھوڑ دو جس کیلئے لمبی عمر چاہتے ہو*اگر دانتوں میں کیڑا لگ جائے تو اگلے 14دن کھانا پینا چھوڑ دیں کیڑے خود بخود ہی مرجائیں گے *وہ عوام جن کا ناس مار دیا جائے انہیں عوام الناس کہتے ہیں * مہنگائی کا رونا رونے والوں کو آئے روز سستا ہوتا روپیہ نظر کیوں نہیں آتا *کون کہتا ہے کہ ہم نے ترقی نہیں کی ہم نے تو اتنی ترقی کہ ایک پاکستان کے دو بنا دیئے اور نندی پور پاور پراجیکٹ میں تب تک پنگے رہیں گے جب تک اس میں لفظ ’’نند ‘‘رہے گا یہ کہہ کر جدید میک اپ میں کچھ زیادہ ہی قدیم دکھائی دیتی مس فتنہ نے پھر اپنی بدزبان نند کے بے شمار قصے سنائے ۔ اور اپنی تیسری ہیروئن مس شادی سپیشلسٹ ان وقتوں کی ہیروئن کہ جب فلم انڈسٹری اُس ’’ بھائی گنڈاسے ‘‘ کے گلے کے زور پر چل رہی تھی کہ جس کے چہر ے پر دیکھنے والوں نے ہمیشہ غصہ ہی غصہ اور جھریاں ہی جھریاں دیکھیں ، وہ فلم میں یوں بندے مارتا کہ فلم کے اختتام پر ہال سے نکلتے ہوئے لوگ شکر ادا کرتے کہ وہ بچ گئے، وہ اس وقت بھی ہیروآیا کرتا کہ جب اسکی وگ کی کنگھی بھی ضعیف ہو چکی تھی ، شوٹنگ کے وقفے میں جہاں کنگھا پھیر نا ہوتا وہاں یہ رومال پھیراکرتا ۔مس شادی سپیشلسٹ تمام عمر ملاوٹ کے خلاف رہی ،جس نے بھی پرپوز کیا ہاں کر دی ،کبھی کسی کی ہاں میں ناں نہیں ملائی ، اس نے شادیاں اور فلمیں ایسے کیں کہ کبھی پتا ہی نہ چلا کہ فلمیں زیادہ ناکام ہوئیں یا شادیاں، اس کی پہلی شادی تو ولیمے والی صبح ہی ٹوٹ گئی ، ہوا یوں کہ یہ میک اپ کے بغیر صبح سویرے اخبار پڑ ھ رہی تھی کہ اسکے جاگیردار خاوند نے اسے اپنی ساس سمجھ کر گفتگو شروع کردی ، پھر اس نے ایک فلم ساز کو شادی کی آفر کی تو فلمساز نے فوراً ہی شادی کر لی مگر اس سے نہیں کسی اور سے ۔اسکی دوسری شادی کی پہلی لڑائی کی صلح اُس مولوی نے کرائی جو نکاح پڑھانے آیا تھا ۔یہ ہمیشہ خود کو ’’ہم ‘‘کہا کرتی، تیسرے نکاح کے وقت سہیلیوں کے درمیان بیٹھی تھی کہ مولوی نے کہا کہ ’’فلاں بن فلاں قبول ہے ‘‘ شرما کر بولی ’’ ہمیں قبول ہے ‘‘ مولوی صاحب غصے سے بولے ’’محترمہ صرف اپنی بات کریں ‘‘ ۔ مس شادی سپیشلسٹ کبھی غالب کی غزل تھی اورکل تک اس غزل کے دائیں بائیں پھرنے والے آج دائیں بائیں ہوچکے۔ جہاں تک تعلق ہے اپنی فلمی بلکہ ویری فلمی سیاسی نگری کا ایک تو یہاں کوئی اداکار چھوٹا نہیں بلکہ کچھ تو دیکھتے ہی دیکھتے اتنے بڑے ہوگئے کہ ملک چھوٹا پڑ گیا اور پھر مجبوراً انہیں اپنی اولادیں اور جائیدادیں باہر شفٹ کرناپڑیں،دوسرا ہر 5سال بعد یہاں ولن ہیرو بنیں اور پھر یہی ہیرو ولن ہو جائیں،یہاں ہیر ،رانجھا اور کیدو سب کی نظر کرسی اور کرنسی پر اور یہاں ’’روٹی ،کپڑا اور مکان ‘‘ کے جمہوری ٹوٹے ہوں یا ’’عزیز ہم وطنو‘‘ کے مارشلائی ٹریلرز دونوں ہی جہالت کی بلیک اینڈ وائٹ سکرین پر ایسے ہٹ کہ اداکاروں سے سٹنٹ مینوں تک سب کروڑوں،اربوں کماگئے، جہاں تک بات ہے قوم کی تو یہ بھٹک سکتی ہی نہیں کیونکہ جنہیں پتا ہی نہ ہو کہ وہ جا کہاں رہے ہیں وہ بھلا بھٹک کیسے سکتے ہیں لیکن اپنی سیاسی نگری کی سب سے بڑی خوبی یہ کہ مجال ہے کہ یہاں کوئی اصل بات کی ہوابھی لگنے دے ، زیادہ دور نہ جائیں ، نریندر مودی کی رائے ونڈ یاترا کو ہی لے لیں ، اب ایک طرف پوری دنیا یہ کہتی ہوئی کہ’’ یہ ملاقات اچانک نہیں ہوئی بلکہ امریکہ،افغان صدر اور بھارتی بزنس ٹائیکون سجن جندل سب کا اس ملاقات میں اپنا اپنا کردار، لیکن دوسری طرف اپنے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے پورے ملک کو جو کہانی سنائی وہ کچھ یوں تھی کہ ’’اُدھر کابل کے شاہی محل میں دھوپ سینکتے مودی صاحب کے جذبات پگھلے تو انہیں اچانک نواز شریف یاد آگئے اور پھر اگلے ہی لمحے آؤٹ آف کنٹرول ہو کر انہوں نے میاں صاحب کو فون کھڑکادیا ، جبکہ اِدھر نریندر مودی کی آواز سن کر لمحوں میں جذباتی ہوچکے میاں صاحب نے رسمی علیک سلیک سے پہلے ہی رُندھی آواز میں کہہ دیا ’’ مودی بھائی میری birthday تو happy تب ہوگی کہ جب کیک کاٹ کر چائے ساتھ پیءں ‘‘ بس یہ جملہ سننے کی دیر تھی کہ مودی صاحب جنہیں پل بھر میں ریلوے اسٹیشن پر’’ چائے گرم چائے‘‘ کی آوازیں لگاتا اپنابچپن یاد آچکا تھا انہوں نے بھی بھرائے ہوئے لہجے میں کہہ دیا ’’ بس میاں صاحب بس،جب پیار کیا تو ڈرنا کیا ‘‘اور یوں مودی صاحب لاہور آ پہنچے ، یہی نہیں بلکہ عوام کو یہ بھی اعزا ز چوہدری نے ہی بتایا کہ’’دوپہر ساڑھے 11بجے فون پر بات ہونے ،سہ پہر ساڑھے 4بجے مودی صاحب کے لاہور پہنچنے اوررات ساڑھے 7بجے واپس جانے تک یہ 8گھنٹے اتنے کم تھے کہ نہ توسیکورٹی ایڈوائزر کو بلوایا جا سکا اور نہ اس ملاقات میں سرتاج عزیز اور طارق فاطمی شریک ہو سکے ‘‘۔ چلو اگر اعزاز چوہدری کی اس فلمی بلکہ ویری فلمی کہانی کو مان لیا جائے تو بھی وہ سیاسی نگری جو یہ تک بھلا چکی ہو کہ ’’ بھارت وہ ملک کہ جہاں مسلمانوں سے زیادہ محفوظ گائے ‘‘ جسے یہ بھی یاد نہ ہو کہ یہ وہی نریندر مودی جو چند ماہ پہلے بنگلہ دیش میں سرِعام کہہ رہا تھا کہ ’’ مجھے فخر ہے کہ میں نے پاکستان توڑنے میں عملی طور پر حصہ لیا‘‘ اور پھر یہ وہ نگری کہ جہاں بلاول بھٹو کا پروٹوکول 10ماہ کی بِسمہ کی زندگی سے بھی اہم اور جہاں رینجر محتاج ہوقائم علی شاہ کی تو یقین جا نیئے مجھے تو اس فلمی بلکہ ویری فلمی سیاسی نگری کا مستقبل بسترِ مرگ پر پڑی اپنی فلم انڈسٹری سے بھی گیا گذرا ہی دکھائی دیتا ہے۔