ایک مرتبہ جب خان عبدالغفار خان نے کہا ’’ ہمارا قوم بہت بہادر ہے ‘‘ توپاس بیٹھے صحافی نے ٹوکا ’’ خان صاحب قوم مؤنث ہوتی ہے مذکر نہیں ‘‘ خان صاحب بولے’’ اوئے تمہارا قوم مؤنث ہو گا ، ہمار ا تو مذکر ہوتی ہے‘‘ مرزا غالب سے کسی نے پوچھا جوتا مذکر ہوتا ہے یا مؤنث تو جواب مِلا ’’ اگر زور سے پڑے تو مذکر اور اگر آہستہ لگے تو مؤنث‘‘ خیر غالب تو بچپن سے ہی غالب تھے ۔ ایک بار محلے میں کھیل رہے تھے کہ ایک بچے نے کہا ’’ رکو رکو بزرگ کو گزرنے دو‘‘ غالب اس شخص کو دیکھ کر بولے ’’ یہ بزرگ تھوڑی ہے یہ تو بوڑھا ہے‘‘۔ ہمارے ایک محقق دوست جسے یہ جاننے کیلئے کہ کوٹ کی کس جیب میں گاڑی کی چابیاں ہیں باقاعدہ تحقیق کرنا پڑتی ہے ،جس کا تکیہ کلام ہے کہ ’’جتنا تمہارے پاس ٹوٹل دماغ ہے اتنا تو میرا خراب رہتا ہے ‘‘ جوچالاک اس سرائیکی نوجوان کی طرح جو سائیکل سے عین اپنی محبوبہ کے سامنے گرتے ہی بولا ’’ کملی اساں سائیکل توں لاندھے ای ایویں ہاں‘‘،جسے 15سالہ تحقیق کے بعد پتا چلا کہ ہماری پسماندگی کی وجہ یہی کہ ’’مذکروں کے پاس کچھ کرنے کی ہمت نہیں، مؤنثوں کو فرصت نہیں اوردرمیان والوں کو ضرورت نہیں‘‘ اورجس نے ایک بار جب بتایا کہ ماں دعا مانگا کرتی کہ میرا بیٹا تحقیق دان نہ بنے تو شیخو نے کہا ’’ آپ کی تحقیق دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ ماؤں کی دعائیں ردنہیں جاتیں‘‘ ہمارا یہی دوست جو اپنی مذکر باتوں اور مؤنث حرکتوں سے بڑے بڑوں کو کنفیوزکرچکا اسی کے منہ سے ایک دن جب یہ نکلا کہ ’’ میری پیدائش کے دنوں والدہ کی خواہش تھی کہ ’’ بیٹاہو ‘‘جبکہ والدچاہتے کہ ’’ بیٹی ہو ‘‘ تو شیخو بولا ’’ اللہ نے دونوں کی سُن لی‘‘۔ سیا نے یہ تو بتاچکے کہ مذکر کی چال سے معلوم پڑے کہ وہ کہاں جا رہا ہے جبکہ مؤنث کی چال بتائے کہ وہ کہاں سے آرہی ہے مگر کوئی سیانا یہ نہیں بتا سکا کہ دور سے پروین اورنزدیک سے پرویز جبکہ باہر سے نذیراں اور اندرسے نذیر کا کیسے پتا چلے گا کہ یہ کہاں سے آئے یا کہاں جار ہی ہیں۔ جی بالکل Maleاور نہ Femaleبلکہ بات ہورہی ہے Khyber Mail کی ،مطلب وہ مذکرجو اپنی محنت سے مؤنث بنے بیٹھے اور جنہیں یہاں ہیجڑ ے اور خواجہ سراء کہا جائے اور جن کا ایک نام خُسرے بھی اور بقول شیخویہ خُسرے اس لیے کہ ایک تو یہ جسمانی خسارے میں اور دوسرا جب خَسرے کی بیماری لگے تو بندے کی حالت خُسرے جیسی ہو جائے ،چونکہ مرد بنناانہیں پسند نہیں اور عورت انہیں کوئی مانتا نہیں لہذا گفتگو مردانہ اور انداز زنانہ،مطلب میڈونا کے گانے مہدی حسن کی آواز میں اور آواز بھی ایسی کہ سائلنسر کی گونج بھلی لگے ،یہ اس قدر بولیں کہ صرف ’’نہ ‘‘ کہنے میں 3گھنٹے لگا دیں البتہ ’’ہاں ‘‘ ایک سکینڈ میں کردیں اور بولتے ہوئے ان کی زبان سے زیادہ ان کے ہاتھ اور آنکھیں بولیں ، عورتوں سے زیادہ یہ میک اپ اور مردوں سے زیادہ شیو کریں جبکہ عورتوں کی طرح ان کا کچھ نہ کچھ بھاری رہے جیسے کبھی سر تو کبھی پاؤں اور مردوں کی طرح ان کا کچھ نہ کچھ خراب رہے جیسے کبھی صحت تو کبھی صحبت ، انکے لباس ایسے کہ دیرسے شروع ہوکر جلد ختم ہو جائیں اور تنگ اتنے کہ نہ صرف پاس کھڑے شخص کا سانس لینا مشکل ہوجائے بلکہ پتا ہی نہ چلے کہ یہ لباس کے اندرہیں اور باہر نکلنا چاہتے ہیںیا لباس باہر ہے اور یہ اندر آنا چاہتی ہیں اور بقول شیخو کمزور نظر اور بری نیت والوں کو تو ان کے کپڑے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ ہیجڑوں کے چلتے ہوئے اتنے پاؤں نہیں چلتے جتنی کمر چلتی ہے اور ہر قدم پر جتنا یہ دائیں بائیں فاصلہ طے کریں اُس کا تین چوتھائی بھی آگے نہ بڑھ پائیں ،یہ وہ تالے جن کو ہر چابی لگ جائے ، انہیں آپ الٹا ہو کر دیکھیں تو یہ بڑے سیدھے لگیں اور ان میں طاقت مردوں سے زیادہ جبکہ نزاکت عورتوں سے ڈبل ۔ اپنے دیس کے خواجہ سراؤں کی زندگیاں بھی اپنی سیاست کی طرح ، جیسے ایک صوبے میں یہ اور ہماری سیاست ایسی کہ ’’ غنڈوں میں گھری رضیہ‘‘ جبکہ دوسرے صوبے میں ’’غنڈوں کے ساتھ انجوائے کرتی یہی رضیہ‘‘ اور تیسرے صوبے میں رضیہ ایسی باپردہ کہ غنڈے گائیں ’’ چولی کے پیچھے کیا ہے ، چنری کے نیچے کیا ہے ‘‘ جبکہ چوتھے صوبے میں خود رضیہ گاتی پھرے ’’مینو ں نوٹ وِکھامیرا موڈ بنے ‘‘ ۔پھر یہ اعزاز بھی ہمیں ہی حاصل کہ ’’دولے شاہ دے چوہے ‘‘ یہاں رہنما جبکہ ہیجڑے ہمارے پیر، میرا ایک دوست نجانے کب سے اُس ہٹے کٹے خواجہ سراء سے اپنی شادی کی دعائیں کروا رہا ہے کہ شادی کے نام پر جسکی اپنی رالیں بھی بہنے لگتی ہیں ، آ خری اطلاعات تک پیر مرید دونوں ہی کنوارے تھے ،پھر اپنا وہ محلے دار جو کئی سالوں سے خواجہ سراؤں سے اولادِ نرینہ کی دعائیں کرواتا رہا مگر اولاد تبھی ہوئی جب اس نے شادی کی ۔ اسی طرح ہمارے وہ پروفیسر صاحب جو حج کی دعائیں منگواتے منگواتے اتنے پیسے خُسروں پر لٹا چکے کہ ان میں سے آدھے پیسوں سے وہ بڑی آسانی سے حج کر سکتے تھے مگر یہاں یہ سب چلتا نہیں بلکہ دوڑتا ہے۔یہاں تو ان سے بھی دعائیں کروائی جاتی ہیں کہ جنہیں خود دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں دعائیں کرنے اور کروانے والوں کی دماغی حالت کیسی ہوتی ہے اس کی ایک جھلک حاضرِ خدمت ہے ۔ایک شخص کو بڑے خشو ع و خضوع سے با آوازِ بلند’’ خشک سالی‘‘سے نجات کی دعا ئیں ما نگتے سن کر اسکی بیوی غصے سے بولی ’’ شرم کرو ایک تو تم اپنی سالی کو خشک کہہ رہے ہو اور اوپر سے اس سے نجات کی دعائیں بھی مانگ رہے ہو ‘‘ ۔ ہمارے ہاں ہیجڑے سرِعام وہ کرلیں جو بندہ سرِعام سوچ بھی نہ سکے، انکی زبانیں ایسیں کہ انہیں لگام ڈالنا مطلب وزیراعظم مودی کو گائے کا گوشت کھِلانا یا پھر حسینہ واجد کے منہ سے پاکستان کے حق میں کچھ نکلوانا ۔ ابھی چند دن پہلے اُس پھوپھی عارف علی کا اخباری بیان نظر سے گذرا جو بچپن میں دولڑکیوں جتنی تھی جبکہ آج دو مردوں جتنی،جسے مٹر گوشت اور مٹر گشت پسند ، جسکی سادگی کا یہ عالم کہ لپ اسٹک لگائے بغیر فون پر بھی بات نہ کرے ، جس نے ایک بارجب کہا کہ ’’میاں نواز شریف دنیا کے خوبصورت ترین مرد ہیں‘‘ تو شیخو بولا’’ اس سے یہ پتا چلے یا نہ چلے کہ وہ خوبصورتی کو کیا سمجھتی ہیں لیکن یہ ضرور پتا چل جاتا ہے کہ وہ دنیا کو کیا سمجھتی ہیں‘‘ ۔ اسی موصوف نما موصوفہ کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان میں مرد اور عورت دونوں کی حکومتیں ناکام ہوچکیں ،لہذا اب ہمیں موقع ملنا چاہیے ۔ انہی کا فرمانا تھا کہ ناانصافی کی انتہا دیکھیئے کہ یہاں مردوں کیلئے مردانہ اور عورتوں کیلئے زنانہ تھانہ تو ہے مگر ہمارے لیئے ’’درمیانہ ‘‘ تھانہ نہیں مگر پھوپھی عارف علی نے جو پتے کی بات کی وہ یہ تھی کہ’’ ملک ہو یا بندہ اگر اس کی اپنی کوئی شناخت نہ ہوتو سب اسے تیسری دنیا ہی سمجھتے ہیں ‘‘۔ پھر پچھلے الیکشن کے دوران خواجہ سراؤں کے ایک گرونے جب یہ بیان داغا کہ میں اُس سے شادی کروں گی جوشہباز شریف کو ہرائے گا تو بے اختیار شمیم آراء یاد آئیں جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ میں اُس سے شادی کروں گی جو کشمیر فتح کرے گااور پھر جیسے شمیم آراء کو غور .سے دیکھنے کے بعد ابھی تک کشمیر فتح نہ ہونے کی وجہ معلوم ہو گئی ایسے ہی اس گرو جی کی ایک جھلک کے بعد شہباز شریف کے جیتنے کی وجہ بھی معلوم پڑ گئی۔ جیسے کبھی بھلے وقتوں میں لیبیاکے کرنل قذافی نے کہا تھا کہ اگر اقوام متحدہ کو چھوٹی قوم کے خلاف فیصلہ کرنا ہو تو یہ مذکر اور اگر فیصلہ بڑی قوم کے خلاف کرنا ہوتو یہ مؤنث ، ایسے ہی اپنے سب رستم وسہراب ہمیشہ اپنوں کیلئے مذکر اور غیروں کیلئے مؤنث اور صورتحال یہ کہ یہاں جو اپنے ماہانہ دیدار کیلئے اک زمانے کو ترسائیں اور جنہوں نے اپنے ناز نخروں کیلئے اک دنیا کو غلام بنایا ہوا ، یہی حضرات ولائیت میں داخلے کے وقت لائنوں میں لگے ہاتھ اُٹھائے تلاشیاں دیتے ہوئے جوتے تک اتار دیں جبکہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ اور وائٹ ہاؤس میں ایک انٹری کیلئے تو سب کچھ ہی اتار دیں ، زیادہ دور نہ جائیں آج وہ حکومت جو عمران خان کی کھانسی بھی برداشت نہیں کرپاتی وہی حکومت بنگلہ دیشی حسینہ اور بھارتی مودی کے پاگل پن پر مسلسل گونگی اور بہری، مگر قصور ان کا بھی نہیں کیونکہ ان کا واسطہ ہے قوم اور عوام سے اور یہ نہ صرف دونوں الفاظ مؤنث بلکہ ان کی ’’زندگی‘‘ بھی ایسی ہی ۔ ویسے سوچا جائے تو یہ بات بھی کسی پریشانی سے کم نہیں ہوتی کہ کوئی ہومذکر اور نظر آئے مؤنث مگر اصل پریشانی تب ہوتی ہے کہ وقت پڑنے پر مذکرہی مؤنث ہوجائے اور یقین جانیئ ہماری تاریخ تو ایسی پریشانیوں سے بھری پڑی ہے ۔