Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

! مذکر ،مؤنث اور وہ

- Posted in Amaal Nama by with comments

ایک مرتبہ جب خان عبدالغفار خان نے کہا ’’ ہمارا قوم بہت بہادر ہے ‘‘ توپاس بیٹھے صحافی نے ٹوکا ’’ خان صاحب قوم مؤنث ہوتی ہے مذکر نہیں ‘‘ خان صاحب بولے’’ اوئے تمہارا قوم مؤنث ہو گا ، ہمار ا تو مذکر ہوتی ہے‘‘ مرزا غالب سے کسی نے پوچھا جوتا مذکر ہوتا ہے یا مؤنث تو جواب مِلا ’’ اگر زور سے پڑے تو مذکر اور اگر آہستہ لگے تو مؤنث‘‘ خیر غالب تو بچپن سے ہی غالب تھے ۔ ایک بار محلے میں کھیل رہے تھے کہ ایک بچے نے کہا ’’ رکو رکو بزرگ کو گزرنے دو‘‘ غالب اس شخص کو دیکھ کر بولے ’’ یہ بزرگ تھوڑی ہے یہ تو بوڑھا ہے‘‘۔ ہمارے ایک محقق دوست جسے یہ جاننے کیلئے کہ کوٹ کی کس جیب میں گاڑی کی چابیاں ہیں باقاعدہ تحقیق کرنا پڑتی ہے ،جس کا تکیہ کلام ہے کہ ’’جتنا تمہارے پاس ٹوٹل دماغ ہے اتنا تو میرا خراب رہتا ہے ‘‘ جوچالاک اس سرائیکی نوجوان کی طرح جو سائیکل سے عین اپنی محبوبہ کے سامنے گرتے ہی بولا ’’ کملی اساں سائیکل توں لاندھے ای ایویں ہاں‘‘،جسے 15سالہ تحقیق کے بعد پتا چلا کہ ہماری پسماندگی کی وجہ یہی کہ ’’مذکروں کے پاس کچھ کرنے کی ہمت نہیں، مؤنثوں کو فرصت نہیں اوردرمیان والوں کو ضرورت نہیں‘‘ اورجس نے ایک بار جب بتایا کہ ماں دعا مانگا کرتی کہ میرا بیٹا تحقیق دان نہ بنے تو شیخو نے کہا ’’ آپ کی تحقیق دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ ماؤں کی دعائیں ردنہیں جاتیں‘‘ ہمارا یہی دوست جو اپنی مذکر باتوں اور مؤنث حرکتوں سے بڑے بڑوں کو کنفیوزکرچکا اسی کے منہ سے ایک دن جب یہ نکلا کہ ’’ میری پیدائش کے دنوں والدہ کی خواہش تھی کہ ’’ بیٹاہو ‘‘جبکہ والدچاہتے کہ ’’ بیٹی ہو ‘‘ تو شیخو بولا ’’ اللہ نے دونوں کی سُن لی‘‘۔ سیا نے یہ تو بتاچکے کہ مذکر کی چال سے معلوم پڑے کہ وہ کہاں جا رہا ہے جبکہ مؤنث کی چال بتائے کہ وہ کہاں سے آرہی ہے مگر کوئی سیانا یہ نہیں بتا سکا کہ دور سے پروین اورنزدیک سے پرویز جبکہ باہر سے نذیراں اور اندرسے نذیر کا کیسے پتا چلے گا کہ یہ کہاں سے آئے یا کہاں جار ہی ہیں۔ جی بالکل Maleاور نہ Femaleبلکہ بات ہورہی ہے Khyber Mail کی ،مطلب وہ مذکرجو اپنی محنت سے مؤنث بنے بیٹھے اور جنہیں یہاں ہیجڑ ے اور خواجہ سراء کہا جائے اور جن کا ایک نام خُسرے بھی اور بقول شیخویہ خُسرے اس لیے کہ ایک تو یہ جسمانی خسارے میں اور دوسرا جب خَسرے کی بیماری لگے تو بندے کی حالت خُسرے جیسی ہو جائے ،چونکہ مرد بنناانہیں پسند نہیں اور عورت انہیں کوئی مانتا نہیں لہذا گفتگو مردانہ اور انداز زنانہ،مطلب میڈونا کے گانے مہدی حسن کی آواز میں اور آواز بھی ایسی کہ سائلنسر کی گونج بھلی لگے ،یہ اس قدر بولیں کہ صرف ’’نہ ‘‘ کہنے میں 3گھنٹے لگا دیں البتہ ’’ہاں ‘‘ ایک سکینڈ میں کردیں اور بولتے ہوئے ان کی زبان سے زیادہ ان کے ہاتھ اور آنکھیں بولیں ، عورتوں سے زیادہ یہ میک اپ اور مردوں سے زیادہ شیو کریں جبکہ عورتوں کی طرح ان کا کچھ نہ کچھ بھاری رہے جیسے کبھی سر تو کبھی پاؤں اور مردوں کی طرح ان کا کچھ نہ کچھ خراب رہے جیسے کبھی صحت تو کبھی صحبت ، انکے لباس ایسے کہ دیرسے شروع ہوکر جلد ختم ہو جائیں اور تنگ اتنے کہ نہ صرف پاس کھڑے شخص کا سانس لینا مشکل ہوجائے بلکہ پتا ہی نہ چلے کہ یہ لباس کے اندرہیں اور باہر نکلنا چاہتے ہیںیا لباس باہر ہے اور یہ اندر آنا چاہتی ہیں اور بقول شیخو کمزور نظر اور بری نیت والوں کو تو ان کے کپڑے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ ہیجڑوں کے چلتے ہوئے اتنے پاؤں نہیں چلتے جتنی کمر چلتی ہے اور ہر قدم پر جتنا یہ دائیں بائیں فاصلہ طے کریں اُس کا تین چوتھائی بھی آگے نہ بڑھ پائیں ،یہ وہ تالے جن کو ہر چابی لگ جائے ، انہیں آپ الٹا ہو کر دیکھیں تو یہ بڑے سیدھے لگیں اور ان میں طاقت مردوں سے زیادہ جبکہ نزاکت عورتوں سے ڈبل ۔ اپنے دیس کے خواجہ سراؤں کی زندگیاں بھی اپنی سیاست کی طرح ، جیسے ایک صوبے میں یہ اور ہماری سیاست ایسی کہ ’’ غنڈوں میں گھری رضیہ‘‘ جبکہ دوسرے صوبے میں ’’غنڈوں کے ساتھ انجوائے کرتی یہی رضیہ‘‘ اور تیسرے صوبے میں رضیہ ایسی باپردہ کہ غنڈے گائیں ’’ چولی کے پیچھے کیا ہے ، چنری کے نیچے کیا ہے ‘‘ جبکہ چوتھے صوبے میں خود رضیہ گاتی پھرے ’’مینو ں نوٹ وِکھامیرا موڈ بنے ‘‘ ۔پھر یہ اعزاز بھی ہمیں ہی حاصل کہ ’’دولے شاہ دے چوہے ‘‘ یہاں رہنما جبکہ ہیجڑے ہمارے پیر، میرا ایک دوست نجانے کب سے اُس ہٹے کٹے خواجہ سراء سے اپنی شادی کی دعائیں کروا رہا ہے کہ شادی کے نام پر جسکی اپنی رالیں بھی بہنے لگتی ہیں ، آ خری اطلاعات تک پیر مرید دونوں ہی کنوارے تھے ،پھر اپنا وہ محلے دار جو کئی سالوں سے خواجہ سراؤں سے اولادِ نرینہ کی دعائیں کرواتا رہا مگر اولاد تبھی ہوئی جب اس نے شادی کی ۔ اسی طرح ہمارے وہ پروفیسر صاحب جو حج کی دعائیں منگواتے منگواتے اتنے پیسے خُسروں پر لٹا چکے کہ ان میں سے آدھے پیسوں سے وہ بڑی آسانی سے حج کر سکتے تھے مگر یہاں یہ سب چلتا نہیں بلکہ دوڑتا ہے۔یہاں تو ان سے بھی دعائیں کروائی جاتی ہیں کہ جنہیں خود دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں دعائیں کرنے اور کروانے والوں کی دماغی حالت کیسی ہوتی ہے اس کی ایک جھلک حاضرِ خدمت ہے ۔ایک شخص کو بڑے خشو ع و خضوع سے با آوازِ بلند’’ خشک سالی‘‘سے نجات کی دعا ئیں ما نگتے سن کر اسکی بیوی غصے سے بولی ’’ شرم کرو ایک تو تم اپنی سالی کو خشک کہہ رہے ہو اور اوپر سے اس سے نجات کی دعائیں بھی مانگ رہے ہو ‘‘ ۔ ہمارے ہاں ہیجڑے سرِعام وہ کرلیں جو بندہ سرِعام سوچ بھی نہ سکے، انکی زبانیں ایسیں کہ انہیں لگام ڈالنا مطلب وزیراعظم مودی کو گائے کا گوشت کھِلانا یا پھر حسینہ واجد کے منہ سے پاکستان کے حق میں کچھ نکلوانا ۔ ابھی چند دن پہلے اُس پھوپھی عارف علی کا اخباری بیان نظر سے گذرا جو بچپن میں دولڑکیوں جتنی تھی جبکہ آج دو مردوں جتنی،جسے مٹر گوشت اور مٹر گشت پسند ، جسکی سادگی کا یہ عالم کہ لپ اسٹک لگائے بغیر فون پر بھی بات نہ کرے ، جس نے ایک بارجب کہا کہ ’’میاں نواز شریف دنیا کے خوبصورت ترین مرد ہیں‘‘ تو شیخو بولا’’ اس سے یہ پتا چلے یا نہ چلے کہ وہ خوبصورتی کو کیا سمجھتی ہیں لیکن یہ ضرور پتا چل جاتا ہے کہ وہ دنیا کو کیا سمجھتی ہیں‘‘ ۔ اسی موصوف نما موصوفہ کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان میں مرد اور عورت دونوں کی حکومتیں ناکام ہوچکیں ،لہذا اب ہمیں موقع ملنا چاہیے ۔ انہی کا فرمانا تھا کہ ناانصافی کی انتہا دیکھیئے کہ یہاں مردوں کیلئے مردانہ اور عورتوں کیلئے زنانہ تھانہ تو ہے مگر ہمارے لیئے ’’درمیانہ ‘‘ تھانہ نہیں مگر پھوپھی عارف علی نے جو پتے کی بات کی وہ یہ تھی کہ’’ ملک ہو یا بندہ اگر اس کی اپنی کوئی شناخت نہ ہوتو سب اسے تیسری دنیا ہی سمجھتے ہیں ‘‘۔ پھر پچھلے الیکشن کے دوران خواجہ سراؤں کے ایک گرونے جب یہ بیان داغا کہ میں اُس سے شادی کروں گی جوشہباز شریف کو ہرائے گا تو بے اختیار شمیم آراء یاد آئیں جنہوں نے ایک بار کہا تھا کہ میں اُس سے شادی کروں گی جو کشمیر فتح کرے گااور پھر جیسے شمیم آراء کو غور .سے دیکھنے کے بعد ابھی تک کشمیر فتح نہ ہونے کی وجہ معلوم ہو گئی ایسے ہی اس گرو جی کی ایک جھلک کے بعد شہباز شریف کے جیتنے کی وجہ بھی معلوم پڑ گئی۔ جیسے کبھی بھلے وقتوں میں لیبیاکے کرنل قذافی نے کہا تھا کہ اگر اقوام متحدہ کو چھوٹی قوم کے خلاف فیصلہ کرنا ہو تو یہ مذکر اور اگر فیصلہ بڑی قوم کے خلاف کرنا ہوتو یہ مؤنث ، ایسے ہی اپنے سب رستم وسہراب ہمیشہ اپنوں کیلئے مذکر اور غیروں کیلئے مؤنث اور صورتحال یہ کہ یہاں جو اپنے ماہانہ دیدار کیلئے اک زمانے کو ترسائیں اور جنہوں نے اپنے ناز نخروں کیلئے اک دنیا کو غلام بنایا ہوا ، یہی حضرات ولائیت میں داخلے کے وقت لائنوں میں لگے ہاتھ اُٹھائے تلاشیاں دیتے ہوئے جوتے تک اتار دیں جبکہ 10 ڈاؤننگ سٹریٹ اور وائٹ ہاؤس میں ایک انٹری کیلئے تو سب کچھ ہی اتار دیں ، زیادہ دور نہ جائیں آج وہ حکومت جو عمران خان کی کھانسی بھی برداشت نہیں کرپاتی وہی حکومت بنگلہ دیشی حسینہ اور بھارتی مودی کے پاگل پن پر مسلسل گونگی اور بہری، مگر قصور ان کا بھی نہیں کیونکہ ان کا واسطہ ہے قوم اور عوام سے اور یہ نہ صرف دونوں الفاظ مؤنث بلکہ ان کی ’’زندگی‘‘ بھی ایسی ہی ۔ ویسے سوچا جائے تو یہ بات بھی کسی پریشانی سے کم نہیں ہوتی کہ کوئی ہومذکر اور نظر آئے مؤنث مگر اصل پریشانی تب ہوتی ہے کہ وقت پڑنے پر مذکرہی مؤنث ہوجائے اور یقین جانیئ ہماری تاریخ تو ایسی پریشانیوں سے بھری پڑی ہے ۔

Pak China Military training

- Posted in Government by with comments

Pak China Military training

’’تیل مافیا ‘‘

- Posted in Amaal Nama by with comments

ہنری کسنجر کی کتاب ’’ ورلڈ آرڈر ‘‘ کونڈو لیزا رائس کی آپ بیتی ، وکی لیکس کے اِنکشافات اورامریکہ کے اوپن کیے گئے ریکارڈ کے مطابق افغانستان کی یہ ’’ تیل کہانی‘‘چونکہ بہت لمبی ہے لہٰذا حاضر ہے اِس کہانی کا خلاصہ مگراسے پڑھتے ہوئے اگر عراق ، لیبیا اور شام کا ماضی اور حال ذہن میں ہو تو پھر یہ خلاصہ ہی کافی ہے ۔ قصہ یہ تھا کہ سپر پاورکو ہر صورت چاہیے تھاروسی کنٹرول سے آزاد مگرکٹھ پُتلی افغانستان اوراس پر ایک عرصے سے کام بھی ہو رہا تھالیکن جیسے ہی لوہا گرم ہو اتو مذہب اور وطن کو بنیاد بناکر پاکستان کے کندھوں پر افغانستان میں ایسا جہاد شروع کرایا گیاکہ روس کو الٹے پاؤں بھاگنا پڑا لیکن روس کے جاتے ہی سپر پاور کچھ اِس طرح آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکی کہ وہ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اور اپنے اپنے علاقوں میں بادشاہ بنے افغان کمانڈروں کے ہتھے چڑھی مطلب پہلے ایک حکومت اور اب درجنوں حکومتیں۔ ابھی اِس نئی صورتحال پر سوچ بچار جاری ہی تھی کہ ایک دن طالبان نے ایسی اُڑان بھری کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ افغانستان پر چھا گئے ۔ اب مغربی اسٹیبلشمنٹ اور طالبان کی محبتیں شروع ہوئیں اورپھر مشرق و مغرب افغانستان میں ایسے یکجا ہوئے کہ نہ صرف 1998 کے وسط تک طالبان حکومت کا 80 فیصد خرچہ باہر سے آیا کرتا بلکہ کئی’’Under Cover‘‘ لوگ کابل اور قندھار میں بیٹھ کر طالبان کو حکومت سازی کے گُر بھی سکھایاکرتے لیکن پھر حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ چند ماہ میں ہی سپر پاور کی نظر میں طالبان شرپسند ہوئے اور طالبان کے کاغذوں میں سپر پاورشیطان ٹھہری۔یہاں دو سوال بڑے اہم ایک تو یہ کہ سپرپاور کو کٹھ پتلی افغانستان کیوں چاہیے تھا ، دوسرا اسکی طالبان سے محبتوں کی وجہ کیا تھی اور ان محبتوں کو ریورس گئیر کیوں لگا تو اِن سوالوں کا جواب یہ ہے کہ سعودی عرب سے بھی زیادہ تیل و گیس والے ’’ Caspian Sea‘‘ سے تیل نکالنے کا ہر راستہ چونکہ افغانستان سے گزرتا تھا اورسپر پاور کی ایک سپر تیل کمپنی اِن سمندری ذخائر کیلئے ایک بڑی رقم مختص کرکے وہ سروے بھی مکمل کر چکی تھی کہ جس کے تحت ایک ہزار میل لمبی پائپ لائن بچھنی تھی لہٰذا روس سے جان چھوٹنے اور ملاعمر راج قائم ہونے کے بعد خانہ جنگی میں گھرے افغانستان کے حالات بہتر ہوئے تو اس تیل کمپنی کی چھتری تلے سپر پاوراور طالبان رہنماؤں میں بات چیت شروع ہوئی اور لاتعداد صبر آزما مرحلوں کے بعدآخرکار جب 90 فیصد طالبان قیادت اِس پراجیکٹ کی حامی ہوئی جب دونوں طرف رابطہ دفاتر بن گئے اورمنصوبے کی مکمل حفاظت کا ذمہ بھی طالبان نے اپنے سر لے لیا تو پھر سپر پاور اور طالبان کی محبتیں بھی عروج پر پہنچ گئیں لیکن اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی ان محبتوں کوریورس گئیر یوں لگا کہ ایک دن اچانک ملا عمر کی سربراہی میں طالبان سپریم کونسل کے اجلاس میں نہ صرف سپرپاور کی سپرتیل کمپنی کا منصوبہ مسترد کر دیا گیا، نہ صرف کمپنی کے تمام لوگوں کو افغانستان چھوڑنے کا حکم دے دیا گیا بلکہ یہ پراجیکٹ ارجنٹائن کی اُس آئل کمپنی کو دے دیا گیا کہ جس میں 80 فیصد پیسہ روسی سرمایہ کاروں نے لگا رکھا تھا ۔ پہلے تو سکتے اور سوگ کے ماحول میں طالبان کے اس یوٹرن کی کسی کو سمجھ ہی نہ آئی مگر پھر پتا یہ چلا کہ ملا عمر سے یہ سب کروانے والے کوئی اور نہیں اسامہ بن لادن ہیں ۔خیر اِدھر یہ سب ہوا اور اُدھر یہ تیل کمپنی’’ سپر دربار‘‘ میں جب اس یک نکاتی ایجنڈے کے ساتھ پہنچی کہ ’’ جب تک طالبان حکومت ختم کر کے افغانستان میں اپنی حکومت نہیں لائی جاتی تب تک یہ منصوبہ مکمل نہیں ہو سکتا ‘‘اب سب بڑے سر جوڑ کر بیٹھے اورپہلے پلان ’’اے ‘‘ کے تحت طالبان حکومت کو لالچ بھرے پیغامات بھجوانے ، مشترکہ دوستوں کو درمیان میں ڈالنے اور ڈرانے دھمکانے کے باوجود جب بات نہ بنی تو پھر’’ امن کے دشمن طالبان‘‘ کی آڑ میں ’’پلان بی ‘‘پر کام شروع ہوا ۔ اب ایک طرف سپر پاور اور اس کے اتحادی تھے جبکہ دوسری طرف سفارتکاری سے عاری ، تنہا اور بے لچک طالبان حکومت لہٰذا وہی ہوا جو ہونا تھا اور جو ہوا اُس کی تفصیل میں کیا جانا کیونکہ یہ سب تو سب کوہی معلوم ۔ لیکن یہاں آپ یہ ضرور سوچ رہے ہونگے کہ ایک تیل کمپنی بھلااِتنی طاقتور کیسے ہوسکتی ہے کہ وہ حکومت ہی ختم کرا دے یا صرف ایک منصوبے کی خاطرافغانستان پر بھلا کوئی کیوں چڑھائی کرے گا ، تو ا س کا جواب یہ ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا تھا تیل کیلئے اور کر رہا تھا وہ تیل مافیاکہ جس کی طاقت کا عالم ان دنوں یہ تھا کہ نہ صرف عراق کی اُلٹی گنتی شروع کروا نے والے سپر پاور کے سابقہ سپر مین اس وقت تیل و گیس کے ایک بڑے گروپ کے مشیر تھے ، نہ صرف سپر پاور کے اُس وقت کے موجودہ سپر مین کے دوست احباب کا پیسہ تیل کمپنیوں میں لگا ہوا تھا ، نہ صرف اُس وقت کے نائب سپر مین بھی ایک تیل کمپنی کے سربراہ رہ چکے تھے، نہ صرف سپر پاور کے دفاعی اور خارجی دونوں سپرمین بھی تیل کمپنیوں کے حصہ دار تھے اور نہ صرف افغانستان میں کام کرنے کی خواہشمند تیل کمپنی میں 25فیصد سرمایہ کاری’’سپر اسٹیبلشمنٹ‘‘کی تھی، بلکہ 15 فیصد پیسہ بھی ان 20 سپر لوگوں کاتھا کہ جو پچھلے 3دہائیوں سے اقتداری راہداریوں کے مسافر تھے ،لہذا جیسے ہی طالبان سے جان چھوٹی تو اسی تیل مافیا نے حامد کرزئی سمیت نئی افغان حکومت کے 10 اعلیٰ عہدیدار بھی وہ چُنے جو تیل کمپنیوں میں ہی کام کر رہے تھے اور یہی نہیں بلکہ افغانستان کی تعمیروترقی کیلئے جسے نمائندہ خصوصی بنا کر بھیجا وہ بھی اسی تیل کمپنی کا سابق چیف کنسلٹنٹ تھا جو "Caspian Sea" سے تیل و گیس کے ذخائر نکالنے کیلئے دن رات ایک کئے بیٹھی تھی ۔ تو قصہ مختصر جب ’’تیل ‘‘ سیدھی انگلی سے نہ نکلا توتیل ٹیڑھی انگلی سے نکالا گیا ۔ اب افغان تیل کہانی کے اس خلاصے کے بعد لیبیا ، عراق اور شام پر اِک سرسری نظر ڈال کر رتی بھر عقل والا انسان بھی یہ سمجھ سکتا ہے کہ قذافی کو کیوں مروایا گیا ، صدام حسین کو کیوں لٹکایا گیا ، تیونس کے بن علی کو کیوں بھگایا گیا ، حسنی مبارک اور محمد مرسی کو کیوں ہٹایا گیا ، شام اور لبنان کو کیوں کھنڈر بنایا گیا اور بدامنی اور افراتفری کو سعودی عرب کی سرحدوں تک کیوں پہنچایا گیا ۔بلاشبہ جھوٹ، مفافقت ، گروہوں اور فرقوں میں تتربتر مسلم امہ کی چھترول اور دنیا کے ہر نشے میں ’’میں میں ‘‘ کرتی نشئی مسلم قیادت کے زوال کی کچھ وجوہات اور بھی ہوں گی مگر طالبان کی انتہا پسندی سے "Arab Spring"تک پورے کھیل کا اصل مقصد تھاقدرتی ذخائر سے مالا مال اس خطے کو نچوڑنا اور یہ ’’نچوڑوپروگرام‘‘ آج بھی جاری ہے۔کتنی حیرت کی بات ہے کہ لیبیا سے یمن تک جہاں جہاں بھی ’’عوامی انقلاب‘‘آیا ،وہاں وہاں عوام کو کچھ نہ مِلا، کتنی حیرت کی بات ہے کہ نائن الیون سے 2 ماہ قبل ہی یہ پتا چل گیا کہ اکتوبر میں افغانستان پر حملہ ہوجائے گا اور کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس نائن الیون کو جواز بنا کر افغانستان پر چڑھائی کی گئی اُس نائن الیون کے کسی ہائی جیکر کا تعلق افغانستان سے نہیں تھا اور پھر یہی دستاویزی شواہد بتائیں کہ اُسامہ کو افغانستان سے نکلوانے سے اسے انصاف کے کٹہرے تک لانے سمیت سب مطالبوں کے پیچھے بھی یہی تیل مافیا تھا کیونکہ اُسامہ کی قسمت کا فیصلہ تو اُسی دن ہی ہو گیاتھا کہ جس دن اُس نے تیل مافیا کی مخالفت مول لے لی تھی ۔لہٰذا یہ دیکھتے ہوئے کہ تیل کی خاطر کس کس کا تیل نکلا اللہ کا شکر ادا کریں کہ ہمارے ہاں ’’تیل و گیس فلم‘‘ کی بجائے صرف ’’اُسامہ ڈرامہ‘‘ فلمایا گیا ۔اگر ہم بھی ’’تیل و گیس فلم‘‘ کا حصہ ہوتے تو پھر باتوں کے دھنی ہم چاہیں جتنی باتیں کر لیں لیکن حقیقت یہی کہ ہم نے تو فلم کے پہلے سین میں ہی بُھگت جانا تھا۔

Concerns Grow About Pakistan's Economy