Non Stop Infotainment By Cyber City Online!
اسے توجہ سے پڑھیں گے تو کچھ پلے پڑے گا ! وہ جابر بن عبداللہؓ جو خود ڈیڑھ ہزارحدیثوں کے راوی ، انہیں جب پتاچلا کہ شام میں صحابئ رسول ؐ عبداللہ بن انیسؓ کے پاس ایک ایسی حدیث نبویؐ جو کسی اور کے پاس نہیں تو اگلے ہی دن اونٹ خریدااور پھر اس اونٹ پر ایک مہینے کے سفر کے بعد شام پہنچ کر عبداللہ بن انیسؓ سے ملے،وہ حدیث سنی اور اُسی دن واپس لوٹ آئے ، مدینہ میں نبی ؐ کے پہلے میزبان ابو ایوب انصاریؓ صرف ایک حدیث کی Confirmation کیلئے مدینہ سے 40دنوں کے سفر کے بعد عقبہ بن عامرؓ کے پاس مصر گئے ، حضرت عبداللہ بن عمروالعاصؓ کا درس سننے اپنے وقتوں کے مفتی اعظم ابن الدلمی ؒ فلسطین سے طائف آئے ، حسن بصری ؒ ،کعب بن عجرہؓ کے پاس بصرہ سے کوفہ صرف یہ معلوم کرنے آئے کہ نبی ؐ نے عمرہ کے دوران سر نہ منڈوانے کا کتنا فدیہ دینے کا کہا ، کعب بن عجرہؓنے بتایا کہ یہ فدیہ تھاایک بکری تو صرف ایک بکری مطلب دولفظوں کے اس جواب کیلئے حسن بصری ؒ نے ہزاروں میل کا سفرکیا ، استادوں کے استاد سعید بن مسیب ؒ ایک ایک حدیث کی خاطر ہفتوں پیدل چلتے ، اپنے وقتوں کے مانے ہوئے علماء علقمہؒ اور اسودؒ چار تابعین(جنہوں نے صحابہؓ سے سیکھا)سے نفل نماز کے حوالے سے چند سوالات پوچھنے عراق سے مدینہ آئے، ہزاروں کو سیکھانے والے ابو اسحاق ؒ کہا کرتے کہ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں ایک طرف سے کچھ سیکھ کر ابھی راستے میں ہی ہوتا اور مجھے کسی دوسرے خطے میں علمی خزانے کی اطلاع ملتی تو میں اُس طرف نکل جاتا، امام زُہری ؒ نے علم کی خاطر 45سال سفر میں گزارے،ابوحاتم رازیؒ نے علم کی تلاش میں مسلسل 7سال سفر کیا ،وہ 5ہزار میل تو پیدل چلے ۔ چھٹی صدی کے اک بڑے عالم ابو طاہر المقدسی ؒ کے پاس سردیوں میں گرم کپڑے نہ ہوتے اور وہ سخت گرمیوں میں پیٹھ پر کتابیں اٹھائے ننگے پاؤں ریگستانوں میں اتنا پیدل چلتے کہ کمزوری اور موسمی اثرات کی وجہ سے انہیں خون کے پیشاپ لگ جاتے ۔ اپنی بیوہ ماں کے واحد سہارا محمد بن ادریس المعروف امام شافعی ؒ نے 7سال کی عمر میں قرآن حفظ کرنے اور 13سال کی عمر میں مکہ کے تما م علماء سے فیضیاب ہو نے کے بعد مدینہ پہنچ کر امام مالک ؒ کی شاگردی میں ’’ موطا امام مالک ‘‘ حفظ کی ،پھر وہ24دنوں کے مسلسل سفر کے بعد امام ابو حنیفہؒ کے شاگردو ں امام ابو یوسف ؒ اور محمدؒ کے پاس کوفہ پہنچے اور یہاں سال سوا سال کی تعلیم کے بعد اپنے وقت کی ایک بڑی درسگاہ بغداد کی جامع مسجد میں آئے اور یہاں 3سال تک رہے ، اسی دوران ان کی ملاقات خلیفہ ہارون الرشید سے ہوئی جنہوں نے جب قاضی کے عہدے کی پیشکش کی تو انہوں نے یہ آفر بھی اسی لیئے ٹھکرا دی کہ’’ ابھی وہ مزید علم حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘‘ ۔ امام بخاریؒ جن کی کتاب ’’بخاری شریف ‘‘ کے بارے میں تمام علماء امت کا اتفاق کہ قرآن کے بعد یہ سب سے مستند کتاب ، یہ کتاب لکھنے سے پہلے امام بخاریؒ نے علم کے حصو ل کیلئے مکہ،مدینہ،بصرہ ،کوفہ ،بغداد،دمشق ،بلخ ،ہرات اورنیشا پور سمیت بیسوؤں شہروں کا سفر کیا ، جب علم کی پیاس کچھ بجھی تو انہوں نے مسجد نبوی ؐ میں بیٹھ کر بخاری شریف لکھناشروع کی اور ہر حدیث لکھنے سے پہلے دونفل پڑھنے اور استخارہ کرنے والے امام بخاری ؒ نے یہ کتاب 16سال میں مکمل کی۔ یہ تو چند مثالیں ہیں ایسی ہزاروں داستانیں اور بھی لیکن بات آگے بڑھانے سے پہلے یہاں یہ بتانا بہت ضروری کہ اس دور میں جہاز تھے، ریل تھی اور نہ ہی گاڑیاں اور اس زمانے میں یا تو سفر اونٹوں اور گھوڑوں پر ہوتا یاپھر پیدل لیکن ریگستانوں اور جنگلوں پر مشتمل ہر سفر ہی ایسا پرُخطر کہ ہرلمحے جان ہتھیلی پر ۔ لیکن ان مشکلات اور مصائب کے باوجود بھی اُس وقت علمی ماحول یہ تھا کہ حضرت ابو ہریرہؓ کے درسوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد 8سوسے 8ہزارتک ،امام ابن سیرین ؒ کوفہ گئے تو دیکھا کہ وہاں 4ہزارطالب علم تو صرف حدیث سیکھ رہے ہیں ،مدینہ میں ابو ذناطؒ کی ہمرکابی میں ہر وقت 3سو طلبہ ، مالک بن انس ؒ کے درسوں میں اتنے طالبعلم ہوتے کہ بیٹھنے کی جگہ نہ ہوتی ،علی بن عاصمؒ سے سیکھنے والے 30ہزار ،سیلمان بن حربؒ کے ہر بیان میں 40ہزار لوگ ، یزیدبن ہارونؒ سے مستفید ہونے والوں کی تعدا د 70ہزار سے بھی زیادہ اور عاصم بن علی بن عاصمؒ سے فیضیاب ہونے والے سوالاکھ افراد ، یہ تو تھے سیکھنے والے،اب سیکھانے والوں کا حال بھی سن لیں، صحابہ کرامؓ سے سیکھنے والے لقمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ ؒ نے 4ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا ،اپنے ہاتھوں سے ایک لاکھ حدیثیں لکھنے والے امام مالک ؒ نے 9سو علماء سے استفادہ کیا ،انہوں نے 95اساتذہ سے تو صرف فقہ پڑھی، یہ زمانہ طالبعلمی میں روزانہ رات کو سر کے نیچے اینٹ رکھ کر اس لیئے سویاکرتے کہ ایک مرتبہ نرم تکیے پر سر رکھ ایسی گہری نیند سوئے کہ مدرسے پہنچنے میں دیر ہوگئی ، امام بخاریؒ ایک ہزار استادوں سے فیضیاب ہوئے ، عبداللہ بن المبارکؒ 11سو، مالک بن انسؒ 9سو، عبداللہ بن ہشامؒ 17سو اور ابو نعیم اصفہانی ؒ نے 8سو اساتذہ سے پڑھا ، اسی طرح ثابت بن اسلمؒ 40سال امام مالکؒ کے در پر پڑے رہے، امام زہریؒ نے 20سال سعید بن مسیب ؒ کی چوکھٹ نہ چھوڑی ،ربیعہ بن عبدالرحمنؒ 10سال حسن بصری ؒ کے ساتھ رہے، امام غزالی ؒ نے 9سو اور علی بخش ہجویری ؒ ساڑھے چار سو اساتذہ سے فیضاب ہوئے ۔ یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ حثین بن جمیل ؒ علم کے حصول میں دومرتبہ ایسے کنگال ہو ئے کہ گھر میں پھوٹی کوڑی نہ رہی، امام زُہریؒ نے اپنا تمام مال علم کی طلب میں لٹا دیا ، امام ربیعہ ؒ نے علم کی خاطر گھر تک بیچ دیا ،ابن المبارک ؒ نے 40ہزار درہم علم کی راہ میں لگائے،یحییٰ بن معین ؒ نے 10لاکھ ،علی بن عاصم واسطی ؒ نے ایک لاکھ ، ابن رستم ؒ نے 3لاکھ اور عبداللہ بن ہشامؒ نے 7لاکھ درہم علم حاصل کرتے ہوئے خرچ ڈالے جبکہ اپنے وقتوں کے رئیس خطیب بغدادیؒ نے اپنا تمام مال علم کیلئے وقف کر دیا ۔ پتا ہے یہ سب ایسے کیوں تھے ا ور انکے کیلئے علم ہی سب کچھ کیوں تھا، وہ اس لیئے کہ انہیں اپنے رب کا یہ فرمان یاد تھا کہ ’’میرے ہاں ساری درجہ بندیاں علم کی وجہ سے ‘‘ ، انہیں نبی ؐ کا یہ قول بھی نہیں بھولا تھا کہ ’’ انبیاء کے وارث علماء اور طلبِ علم کیلئے نکلنا ایسے ہی جیسے جہاد کیلئے نکلنا ‘‘اور پھر انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اس مذہب کے پیروکار کہ جو یہ کہے ’’ ایک عالم کو عابد پر ایسے ہی فضیلت جیسے چودہویں کے چاند کو ستاروں پر اور طالبعلم کا درجہ یہ کہ رات کو دو چار گھنٹے علم حاصل کرنے والے کو ثواب ملے ساری رات کی عبادت کا اور دن میں چند گھنٹے علم سیکھنے والے کو ثواب ملے روزے دار جتنا‘‘ ، بلاشبہ یہ ہمارے انہی آباواجداد کی محنتیں ا ور قربانیاں ہی تھیں کہ کل تک نہ صرف آکسفورڈ اورکیمرج میں قرطبہ کا نصاب پڑھایا جاتا رہا بلکہ فلسفے کا باپ ڈیکارٹ عمر بھر امام غزالی ؒ کی نقالی کرتا رہا۔ مگر یہ تو تھا ہمارا کل ،اب ذرا اپنا آج ملاحظہ ہو ،آج ایک طرف باہم دست وگریباں 57مسلم ممالک کی کوئی ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں کہ جو دنیا کی ٹاپ 100یونیورسٹیوں میں آسکے، جبکہ دوسری طرف 100بہترین یونیورسٹیوں میں 59یونیورسٹیاں صرف امریکہ کی، آج ایک طرف ایکدوسرے کی گردنیں کاٹتے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی حالت یہ کہ 30لاکھ مسلمانوں کیلئے ایک یونیورسٹی جبکہ دوسری طرف صرف امریکہ میں 6ہزار افراد کیلئے ایک یونیورسٹی ، آج ایک طرف فرقوں او رذات پا ت میں بٹے مسلمانوں میں یونیورسٹیوں میں داخلے کاشرح تناسب 2فیصد جبکہ دوسری طرف مغرب میں یہی تناسب 50فیصد، آج ایک طرف مسلم ممالک کی اوسط شرح خواندگی 40فیصداور کوئی مسلم ملک ایسا نہیں کہ جس کی شرح خواندگی 100فیصد ہو جبکہ دوسری طرف عیسائی ممالک کی اوسط شرح خواندگی 90فیصد اور انکے 15ملک ایسے کہ جہاں شرح خواندگی 100فیصد ، آج ایک طرف 5لاکھ مسلمانوں میں صرف 100سائنسدان جبکہ دوسری طرف صرف 30ہزار امریکیوں میں100سائنسدان اور آج ایک طرف صرف پچھلی نیو ائیر نائٹ پر ایک ارب ڈالر لُٹانے والی مسلم امہّ تعلیم وتحقیق دونوں پر اپنی مجموعی پیداوار کا صرف 0.5فیصد خرچے جبکہ دوسری طرف تعلیم چھوڑیں صرف تحقیق پر مغرب اپنی پیداوار کا 5فیصد خرچتا ہوا ۔اب اس زوال کو ذہن میں رکھ کر جب یہ حدیثِ نبوی ؐ پڑھیں گے تو معلوم پڑجائے گا کہ ہمیں ہمارے کرتوتوں نے کہاں سے کہاں پہنچادیا، حضور ؐنے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ جن کیساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے انہیں علم اور سمجھ عطا کر دیتا ہے اور اللہ جن سے ناراض ہوتا ہے ان میں سے علم اور علماء کو اٹھا لیتا ہے‘‘ کیوں ۔۔۔کچھ پلے پڑا۔
اسے توجہ سے پڑھیں گے تو کچھ پلے پڑے گا ! وہ جابر بن عبداللہؓ جو خود ڈیڑھ ہزارحدیثوں کے راوی ، انہیں جب پتاچلا کہ شام میں صحابئ رسول ؐ عبداللہ بن انیسؓ کے پاس ایک ایسی حدیث نبویؐ جو کسی اور کے پاس نہیں تو اگلے ہی دن اونٹ خریدااور پھر اس اونٹ پر ایک مہینے کے سفر کے بعد شام پہنچ کر عبداللہ بن انیسؓ سے ملے،وہ حدیث سنی اور اُسی دن واپس لوٹ آئے ، مدینہ میں نبی ؐ کے پہلے میزبان ابو ایوب انصاریؓ صرف ایک حدیث کی Confirmation کیلئے مدینہ سے 40دنوں کے سفر کے بعد عقبہ بن عامرؓ کے پاس مصر گئے ، حضرت عبداللہ بن عمروالعاصؓ کا درس سننے اپنے وقتوں کے مفتی اعظم ابن الدلمی ؒ فلسطین سے طائف آئے ، حسن بصری ؒ ،کعب بن عجرہؓ کے پاس بصرہ سے کوفہ صرف یہ معلوم کرنے آئے کہ نبی ؐ نے عمرہ کے دوران سر نہ منڈوانے کا کتنا فدیہ دینے کا کہا ، کعب بن عجرہؓنے بتایا کہ یہ فدیہ تھاایک بکری تو صرف ایک بکری مطلب دولفظوں کے اس جواب کیلئے حسن بصری ؒ نے ہزاروں میل کا سفرکیا ، استادوں کے استاد سعید بن مسیب ؒ ایک ایک حدیث کی خاطر ہفتوں پیدل چلتے ، اپنے وقتوں کے مانے ہوئے علماء علقمہؒ اور اسودؒ چار تابعین(جنہوں نے صحابہؓ سے سیکھا)سے نفل نماز کے حوالے سے چند سوالات پوچھنے عراق سے مدینہ آئے، ہزاروں کو سیکھانے والے ابو اسحاق ؒ کہا کرتے کہ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں ایک طرف سے کچھ سیکھ کر ابھی راستے میں ہی ہوتا اور مجھے کسی دوسرے خطے میں علمی خزانے کی اطلاع ملتی تو میں اُس طرف نکل جاتا، امام زُہری ؒ نے علم کی خاطر 45سال سفر میں گزارے،ابوحاتم رازیؒ نے علم کی تلاش میں مسلسل 7سال سفر کیا ،وہ 5ہزار میل تو پیدل چلے ۔ چھٹی صدی کے اک بڑے عالم ابو طاہر المقدسی ؒ کے پاس سردیوں میں گرم کپڑے نہ ہوتے اور وہ سخت گرمیوں میں پیٹھ پر کتابیں اٹھائے ننگے پاؤں ریگستانوں میں اتنا پیدل چلتے کہ کمزوری اور موسمی اثرات کی وجہ سے انہیں خون کے پیشاپ لگ جاتے ۔ اپنی بیوہ ماں کے واحد سہارا محمد بن ادریس المعروف امام شافعی ؒ نے 7سال کی عمر میں قرآن حفظ کرنے اور 13سال کی عمر میں مکہ کے تما م علماء سے فیضیاب ہو نے کے بعد مدینہ پہنچ کر امام مالک ؒ کی شاگردی میں ’’ موطا امام مالک ‘‘ حفظ کی ،پھر وہ24دنوں کے مسلسل سفر کے بعد امام ابو حنیفہؒ کے شاگردو ں امام ابو یوسف ؒ اور محمدؒ کے پاس کوفہ پہنچے اور یہاں سال سوا سال کی تعلیم کے بعد اپنے وقت کی ایک بڑی درسگاہ بغداد کی جامع مسجد میں آئے اور یہاں 3سال تک رہے ، اسی دوران ان کی ملاقات خلیفہ ہارون الرشید سے ہوئی جنہوں نے جب قاضی کے عہدے کی پیشکش کی تو انہوں نے یہ آفر بھی اسی لیئے ٹھکرا دی کہ’’ ابھی وہ مزید علم حاصل کرنا چاہتے ہیں ‘‘ ۔ امام بخاریؒ جن کی کتاب ’’بخاری شریف ‘‘ کے بارے میں تمام علماء امت کا اتفاق کہ قرآن کے بعد یہ سب سے مستند کتاب ، یہ کتاب لکھنے سے پہلے امام بخاریؒ نے علم کے حصو ل کیلئے مکہ،مدینہ،بصرہ ،کوفہ ،بغداد،دمشق ،بلخ ،ہرات اورنیشا پور سمیت بیسوؤں شہروں کا سفر کیا ، جب علم کی پیاس کچھ بجھی تو انہوں نے مسجد نبوی ؐ میں بیٹھ کر بخاری شریف لکھناشروع کی اور ہر حدیث لکھنے سے پہلے دونفل پڑھنے اور استخارہ کرنے والے امام بخاری ؒ نے یہ کتاب 16سال میں مکمل کی۔ یہ تو چند مثالیں ہیں ایسی ہزاروں داستانیں اور بھی لیکن بات آگے بڑھانے سے پہلے یہاں یہ بتانا بہت ضروری کہ اس دور میں جہاز تھے، ریل تھی اور نہ ہی گاڑیاں اور اس زمانے میں یا تو سفر اونٹوں اور گھوڑوں پر ہوتا یاپھر پیدل لیکن ریگستانوں اور جنگلوں پر مشتمل ہر سفر ہی ایسا پرُخطر کہ ہرلمحے جان ہتھیلی پر ۔ لیکن ان مشکلات اور مصائب کے باوجود بھی اُس وقت علمی ماحول یہ تھا کہ حضرت ابو ہریرہؓ کے درسوں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد 8سوسے 8ہزارتک ،امام ابن سیرین ؒ کوفہ گئے تو دیکھا کہ وہاں 4ہزارطالب علم تو صرف حدیث سیکھ رہے ہیں ،مدینہ میں ابو ذناطؒ کی ہمرکابی میں ہر وقت 3سو طلبہ ، مالک بن انس ؒ کے درسوں میں اتنے طالبعلم ہوتے کہ بیٹھنے کی جگہ نہ ہوتی ،علی بن عاصمؒ سے سیکھنے والے 30ہزار ،سیلمان بن حربؒ کے ہر بیان میں 40ہزار لوگ ، یزیدبن ہارونؒ سے مستفید ہونے والوں کی تعدا د 70ہزار سے بھی زیادہ اور عاصم بن علی بن عاصمؒ سے فیضیاب ہونے والے سوالاکھ افراد ، یہ تو تھے سیکھنے والے،اب سیکھانے والوں کا حال بھی سن لیں، صحابہ کرامؓ سے سیکھنے والے لقمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ ؒ نے 4ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا ،اپنے ہاتھوں سے ایک لاکھ حدیثیں لکھنے والے امام مالک ؒ نے 9سو علماء سے استفادہ کیا ،انہوں نے 95اساتذہ سے تو صرف فقہ پڑھی، یہ زمانہ طالبعلمی میں روزانہ رات کو سر کے نیچے اینٹ رکھ کر اس لیئے سویاکرتے کہ ایک مرتبہ نرم تکیے پر سر رکھ ایسی گہری نیند سوئے کہ مدرسے پہنچنے میں دیر ہوگئی ، امام بخاریؒ ایک ہزار استادوں سے فیضیاب ہوئے ، عبداللہ بن المبارکؒ 11سو، مالک بن انسؒ 9سو، عبداللہ بن ہشامؒ 17سو اور ابو نعیم اصفہانی ؒ نے 8سو اساتذہ سے پڑھا ، اسی طرح ثابت بن اسلمؒ 40سال امام مالکؒ کے در پر پڑے رہے، امام زہریؒ نے 20سال سعید بن مسیب ؒ کی چوکھٹ نہ چھوڑی ،ربیعہ بن عبدالرحمنؒ 10سال حسن بصری ؒ کے ساتھ رہے، امام غزالی ؒ نے 9سو اور علی بخش ہجویری ؒ ساڑھے چار سو اساتذہ سے فیضاب ہوئے ۔ یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ حثین بن جمیل ؒ علم کے حصول میں دومرتبہ ایسے کنگال ہو ئے کہ گھر میں پھوٹی کوڑی نہ رہی، امام زُہریؒ نے اپنا تمام مال علم کی طلب میں لٹا دیا ، امام ربیعہ ؒ نے علم کی خاطر گھر تک بیچ دیا ،ابن المبارک ؒ نے 40ہزار درہم علم کی راہ میں لگائے،یحییٰ بن معین ؒ نے 10لاکھ ،علی بن عاصم واسطی ؒ نے ایک لاکھ ، ابن رستم ؒ نے 3لاکھ اور عبداللہ بن ہشامؒ نے 7لاکھ درہم علم حاصل کرتے ہوئے خرچ ڈالے جبکہ اپنے وقتوں کے رئیس خطیب بغدادیؒ نے اپنا تمام مال علم کیلئے وقف کر دیا ۔ پتا ہے یہ سب ایسے کیوں تھے ا ور انکے کیلئے علم ہی سب کچھ کیوں تھا، وہ اس لیئے کہ انہیں اپنے رب کا یہ فرمان یاد تھا کہ ’’میرے ہاں ساری درجہ بندیاں علم کی وجہ سے ‘‘ ، انہیں نبی ؐ کا یہ قول بھی نہیں بھولا تھا کہ ’’ انبیاء کے وارث علماء اور طلبِ علم کیلئے نکلنا ایسے ہی جیسے جہاد کیلئے نکلنا ‘‘اور پھر انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اس مذہب کے پیروکار کہ جو یہ کہے ’’ ایک عالم کو عابد پر ایسے ہی فضیلت جیسے چودہویں کے چاند کو ستاروں پر اور طالبعلم کا درجہ یہ کہ رات کو دو چار گھنٹے علم حاصل کرنے والے کو ثواب ملے ساری رات کی عبادت کا اور دن میں چند گھنٹے علم سیکھنے والے کو ثواب ملے روزے دار جتنا‘‘ ، بلاشبہ یہ ہمارے انہی آباواجداد کی محنتیں ا ور قربانیاں ہی تھیں کہ کل تک نہ صرف آکسفورڈ اورکیمرج میں قرطبہ کا نصاب پڑھایا جاتا رہا بلکہ فلسفے کا باپ ڈیکارٹ عمر بھر امام غزالی ؒ کی نقالی کرتا رہا۔ مگر یہ تو تھا ہمارا کل ،اب ذرا اپنا آج ملاحظہ ہو ،آج ایک طرف باہم دست وگریباں 57مسلم ممالک کی کوئی ایک یونیورسٹی بھی ایسی نہیں کہ جو دنیا کی ٹاپ 100یونیورسٹیوں میں آسکے، جبکہ دوسری طرف 100بہترین یونیورسٹیوں میں 59یونیورسٹیاں صرف امریکہ کی، آج ایک طرف ایکدوسرے کی گردنیں کاٹتے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی حالت یہ کہ 30لاکھ مسلمانوں کیلئے ایک یونیورسٹی جبکہ دوسری طرف صرف امریکہ میں 6ہزار افراد کیلئے ایک یونیورسٹی ، آج ایک طرف فرقوں او رذات پا ت میں بٹے مسلمانوں میں یونیورسٹیوں میں داخلے کاشرح تناسب 2فیصد جبکہ دوسری طرف مغرب میں یہی تناسب 50فیصد، آج ایک طرف مسلم ممالک کی اوسط شرح خواندگی 40فیصداور کوئی مسلم ملک ایسا نہیں کہ جس کی شرح خواندگی 100فیصد ہو جبکہ دوسری طرف عیسائی ممالک کی اوسط شرح خواندگی 90فیصد اور انکے 15ملک ایسے کہ جہاں شرح خواندگی 100فیصد ، آج ایک طرف 5لاکھ مسلمانوں میں صرف 100سائنسدان جبکہ دوسری طرف صرف 30ہزار امریکیوں میں100سائنسدان اور آج ایک طرف صرف پچھلی نیو ائیر نائٹ پر ایک ارب ڈالر لُٹانے والی مسلم امہّ تعلیم وتحقیق دونوں پر اپنی مجموعی پیداوار کا صرف 0.5فیصد خرچے جبکہ دوسری طرف تعلیم چھوڑیں صرف تحقیق پر مغرب اپنی پیداوار کا 5فیصد خرچتا ہوا ۔اب اس زوال کو ذہن میں رکھ کر جب یہ حدیثِ نبوی ؐ پڑھیں گے تو معلوم پڑجائے گا کہ ہمیں ہمارے کرتوتوں نے کہاں سے کہاں پہنچادیا، حضور ؐنے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ جن کیساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے انہیں علم اور سمجھ عطا کر دیتا ہے اور اللہ جن سے ناراض ہوتا ہے ان میں سے علم اور علماء کو اٹھا لیتا ہے‘‘ کیوں ۔۔۔کچھ پلے پڑا۔