Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

Yadain...

- Posted in Images by with comments

enter image description here

Agr Haseena Wajid Tehrik e Insaaf se hoti, Column By Irshad Bhatti, Voice of Tahir Saddique!

lڈونلڈ ٹرمپ اپنے مخبر شکیل آفریدی کو نہ بھولے جبکہ ہمارے نواز شریف کو عافیہ صدیقی بھی یادنہیں اور امریکی صدر قاتل ریمنڈڈیوس کو چھڑا لے جبکہ ہمارے وزیراعظم بے گناہوں کو پھانسیاں دیتی حسینہ واجد سے احتجاج کرنے سے بھی قاصر ،ذرا سوچیئے اگر عافیہ صدیقی حکمران خاندان سے ہوتی اور حسینہ واجد کا تعلق تحریکِ انصاف سے ہوتا تو کیا حکومتی ردِ عمل یہی ہوتا ؟ پانامالیکس پررونے دھونے والو ہمیں تو کبھی بھی کسی نے سچ کی ہوا تک نہ لگنے دی! مجھے وہ دو پہر یاد کہ جب مشرف دور میں عوامی احتجاج اور میڈیا کے دباؤ پرعافیہ صدیقی پر ہوئے ایک خصوصی اجلاس کے بعد قوم کو کہانی یہ سنائی گئی کہ’’ وزیراعظم کی زیرِصدارت 3گھنٹوں کے غوروغوض کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ عافیہ پاکستان کی بیٹی اور اسکی رہائی کیلئے ہر سطح پر ہر ممکن کوشش ہوگی ‘‘ مگر اصل قصہ یہ تھا کہ اجلاس ہوا تو 3گھنٹوں کا ہی، مگروہ ایسے کہ پہلے 30منٹ ’’بڑے صاحبان ‘‘نے حال احوال میں گذاردیئے،اگلے 45منٹ اُن 3وزرا ء کی نذر ہوئے کہ جنہوں نے وزیراعظم کے 2 بیانات کو بنیاد بنا کر وزیراعظم کی خوب خوشامد کی ، یہ مصاحبین چپ ہوئے تو ایک سینئروزیر کو مشرف کی جمہوریت پسندی یاد آگئی اورپھر جب پرویز مشرف کی 30منٹ تعریفوں کے بعداس مصاحب کی زبان رُکی تو وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری کی زبان چل پڑی اور انہوں نے وزراء کے ترقیاتی فنڈ اور چندکورٹ کیسز پربریفنگ میں آدھا گھنٹہ لگا دیا،جب پرنسپل سیکرٹری کی زبان کو چین آیا تو چائے اور نماز کا وقفہ ہوگیااور آدھے گھنٹے بعد دوبارہ شروع ہوئے اجلاس میں جب خدا خدا کر کے عافیہ صدیقی کاذکر چھڑا تو2وزیروں کی بات سننے کے بعد وزیراعظم نے 15منٹ میں ہی یہ کہہ کر اجلاس برخاست کر دیا کہ ’’ امریکہ سے پاکستان کا تعلق عافیہ سے اہم،لہذا کوئی ایسی بات نہ کی جائے کہ پاک امریکہ تعلقات خراب ہوں اورپھر اُٹھتے اُٹھتے وزیراعظم نے پنجاب کے ایک وزیر کی یہ ڈیوٹی بھی لگادی کہ اس سے پہلے کہ ہمارے اس اجلاس اور پریس ریلیز سے کوئی غلط فہمی پیدا ہو آپ جا کر امریکی سفیر کو اصل کہانی سے آگاہ کر دیں ‘‘۔ مجھے وہ سہ پہر بھی نہیں بھولتی کہ اِدھر 2بندے مارکر ریمنڈ ڈیوس پکڑا گیا تواُدھر واشنگٹن سے ایک اہم شخصیت نے ہمارے ایک ’’طاقتور صاحب ‘‘ کوفون کیا ’’ ریمنڈ ڈیوس میرا آدمی، اس کاخاص خیال رکھیں اور جتنی جلدی ہو سکے مسئلے کاحل نکالیں ‘‘ ، ہمارے طاقتور صاحب بولے ’’ حضور حکم کی تعمیل ہوگی لیکن چونکہ اس وقت میڈیا اور سول سوسائٹی کا دباؤ بہت ہے لہذا معاملے کوذرا ٹھنڈا ہونے دیں ‘‘، اب ایک طرف قانون کی بالادستی ، ضابطے کی کاروائیاں اور حریت پسندانہ بیان بازیاں تھیں جبکہ دوسری طرف سب کچھ امریکی مرضی کے عین مطابق ہورہا تھا اور پھر ایک موقع پر جب امریکہ بہادر کولگا کہ سب کچھ انکی مرضی کے مطابق نہیں رہا تو پہلے واشنگٹن سے ایک سخت پیغام آیا ،پھر 3رکنی امریکی وفد نے خفیہ دورے کے دوران فائیو سٹار سہولتوں میں شہزادوں کی طرح رہتے ریمنڈ ڈیوس سمیت تمام متعلقہ افراد سے ملاقاتیں کرکے رپورٹ جب وائٹ ہاؤس پہنچائی تو سینیٹر جان کیری پاکستان آگئے ، اب امریکی دباؤ بڑھاتو سیاسی ، نظریاتی اور مفاداتی مطلب ہر طرح سے ایکدوسرے کے مخالف اور ایک ساتھ جنازے تک نہ پڑھنے والے ہمارے رہنما اسٹیبلشمنٹ کے پرچم کے سائے تلے محبت اور اتفاق سے تب تک ساتھ رہے کہ جب تک ریمنڈ ڈیوس رہا نہ ہوگیا۔لیکن یہاں ذرا ملاحظہ یہ فرمائیں کہ درجۂ چہارم کے امریکی اہلکار کی خاطر ایوانِ صدر اسلام آباد اور گورنر ہاؤس پنجاب میں 2کیمپ آفسز بنے ، ملکی تاریخ میں پہلی دفعہ 5بڑوں نے آپس میں ڈیوٹیاں تقسیم کیں اور پلان Aکی ناکامی کی صورت میں پہلے سے ہی پلان Bبھی بنالیا گیا اورپھر سب سے پہلے مقتولین کے گھر کون پہنچا، 3طویل نشستوں کے بعد مقتولین راضی ہوئے تو انہیں کس کی سربراہی میں بلٹ پروف گاڑیوں میں کس کے گھر لایاگیا ، 5 سیاستدانوں اور10صحافیوں کو ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ Manageکرنے کی ڈیوٹی کس کی لگی ، حکومتی خفیہ فنڈ سے کتنی رقم نکلی، کتنے ڈالرباہر سے آئے، لواحقین کو کیا مِلااور وہ 10 لوگ کون تھے کہ جنہوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے جیسے یہ ایک لمبی کہانی ویسے ہی یہ بھی اِک طویل داستان کہ 7اہم شخصیات کیلئے خصوصی موبائل سیٹ کہاں سے آئے ،3بڑوں کو وائر لیس سیٹوں کی ضرورت کیوں پڑی ، آخری دن مختلف جگہوں پر بیٹھے 3بڑوں نے لائیو عدالتی کاروائی کیسے دیکھی ، ریمنڈ ڈیوس کو سرابرہ مملکت کے پروٹوکول میں پہلے سے تیار کھڑے خصوصی امریکی طیارے میں کس نے بٹھایا او رپھر جونہی طیارہ افغانستان کی جانب اڑا تو کس بڑے آدمی نے شکرانے کے نفل پڑھے ، کس اہم شخصیت نے اپنے دفتر میں مٹھائی تقسیم کی اور کون بڑا اتنا تھک چکا تھا کہ پھر وہ اگلے 16گھنٹے سویارہا ، مگر وہاں یہ سب بتانے کا کیا فائدہ کہ جہاں درجۂ چہارم کا گورا صاحب بھی آکر جو چاہے کر لے ،جہاں امریکی اثرورسوخ کا یہ عالم کہ ایک صدر بڑے فخر سے یہ بتائے کہ’’ میں نے ذاتی نگرانی میں امریکہ کو مطلوب پاکستانی پکڑوا ئے‘‘اور دوسرا صدر اپنی کتاب میں لکھے ’’ میں لوگ پکڑ پکڑ کر امریکہ کو دیتا رہا اور ڈالر لیتا رہا ‘‘ اور جہاں امریکہ کی خاطر افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کے ساتھ ا یسا سلوک ہو کہ اسکے بیوی بچوں کو رات سڑک پر گذارنی پڑے جبکہ سفیر ہوتے ہوئے ملا ضعیف کو پکڑ کر ان کے حوالے کر دیا جائے کہ جو حوالے کرنے والوں کے سامنے ہی اسے لاتوں اور ٹھڈوں سے مارنا شروع کر دیں ، یہی نہیں سونے پہ سہاگہ تو یہ کہ اس غلامانہ ذہنیت اور اس طوطا چشمی ماحول کے بعد یہاں پاناما لیکس میں پھنسی حکومت کا خارجی محاذاُس بزرگ کے ہاتھ میں کہ جوشروع سے ہی ایسا سچا کہ جب وہ صاحبزادہ یعقوب علی خان کا جونیئر تھا تب ایک دن اس نے صاحبزادہ صاحب کو جب یہ کہا کہ ’’ سرہم خوش نصیب کہ ہمیں آپکی صورت میں بیک وقت چرچل، ڈیگال اور ماؤزے تنگ ملے ‘‘ تو یہ سن کر بھلے مانس صاحبزادہ صاحب کا صبر جواب دے گیا اور وہ غصے سے بولے ’’ صاحب میرا معدہ ذرا کمزور ہے میری اتنی ہی خوشامد کریں جتنی میں ہضم کر سکوں ‘‘لیکن یہ جواب سننے اور باقی افراد کو زیرِ لب مسکراتے دیکھ کر بھی یہ سچا بولا ’’ سر یہ خوشامد نہیں ،یہ سچ ہے اورسر سچ بولنے سے مجھے آپ بھی نہیں روک سکتے ‘‘ اب ان حالات میں جب میں دیکھوں کہ ایک طرف عبدالقادرمولا، محمد قمرالزمان ، علی ا حسن مجاہد ، صلاح الدین قادر چوہدری اور مطیع الرحمان نظامی کو پاکستان سے محبت کے جرم میں حسینہ واجد تختہ دار پرچڑھا دے اور پاکستانی حکومت ٹس سے مس نہ ہو جبکہ دوسری طرف جب بات آئے اپنی ذات پر تو ملک کے سب سے بڑے گھرسمیت ہر محکمہ عمران مخالف سیل بن جائے اورصبح وشام 80فیصد وزراء عمران کا زہر نکالنے میں لگ جائیں ، ایک طرف جب میں دیکھو ں کہ اولاد کی محبت میں وزیراعظم ہرطعنے کا ترکی بہ ترکی جواب دیں اور پوری سرکاری مشینری حسن اور حسین کی وکیل ہو جبکہ دوسری طرف سالہا سال گذر جائیں مگر کوئی حکومتی کارندہ پلٹ کر خبر تک نہ لے کہ عافیہ صدیقی کس حال میں، تویہ سب دیکھ کر جہاں میں خوفزدہ ہوجاؤں کہ آج عمران خان کا سامنا نہ کرسکنے والے کل محشر کے دن مطیع الرحمان نظامی کا سامنا کیسے کریں گے وہاں میں یہ سب دیکھ کر اس لیئے بھی ڈروں کہ آج بچوں کے سُکھوں کا حساب نہ دے سکنے والے کل عافیہ صدیقی کے دکھوں کا حساب کیسے دیں گے اور پھر میرا دل تب تو بہت ہی دُکھے کہ جب یہ خیال آئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے مخبر شکیل آفریدی کو نہ بھولے جبکہ ہمارے نواز شریف کو عافیہ صدیقی بھی یادنہیں اور امریکی صدر قاتل ریمنڈڈیوس کو چھڑا لے جبکہ ہمارے وزیراعظم بے گناہوں کو پھانسیاں دیتی حسینہ واجد سے احتجاج کرنے سے بھی قاصر ،ذرا سوچیئے اگر عافیہ صدیقی حکمران خاندان سے ہوتی اور حسینہ واجد کا تعلق تحریکِ انصاف سے ہوتا تو کیا حکومتی ردِ عمل یہی ہوتا ؟

Need and Greed

- Posted in Audio/Video Posts by with comments

Need and Greed Column at Daily Jang by Irshad Bhatti, Voice of Tahir Saddique

جناب ہمیں یہ علم کہ جھوٹ بولنے کی2 وجوہات ایک خوف اوردوسرالالچ ،محترم ہمیں یہ پتا کہ خوف اورلالچ کی کشتی میں کوئی تبھی سوارہوجب NeedاورGreedکافرق مٹ جائے اور قبلہ ہمیں یہ تجربہ ہو چکا کہ NeedاورGreedکا فرق مٹنے سے انسان کیسے جانوربن جائے ۔ کبھی NeedاورGreedکایہ حال تھاکہ ایک طرف جس دن حضوؐ ر رحلت فرماتے ہیں اُس سے اگلی رات دیاجلانے کیلئے حضرت عائشہؓ پڑوسن سے تیل ادھارلیتی ہیں جبکہ دوسری طرف اِسی گھر میں حضورؐ کی7بہترین اورقیمتی تلواریں لٹکی ملتی ہیں کبھیNeedاورGreedکایہ حال تھا کہ قیصرو کسریٰ کو شکست دے چکے حضرت عمرؓ کی خلافت کازمانہ،جمعے کاوقت اورلوگوں سے کھچاکھچ بھری مسجدِ نبویؐ، اس سے پہلے کہ امیرالمومینین کے انتظارمیں بیٹھے لوگوں کی چہ مگوئیاں اونچی آوازوں میں بدلتیں،اس وقت کے سب سے بڑے حکمران حضرت عمر ؓ آئے اورسیدھے جا کر منبرپربیٹھ کربولے ’’سب سے معذرت کہ مجھے آنے میں دیرہوگئی مگر دیراس لئے ہوئی کہ میں نے جمعہ کیلئے اپنااکلوتاسوٹ دھویاتھااوراسے آج سوکھنے میں زیادہ وقت لگ گیا‘‘ خیریہ تولوگ ہی اورتھے، ان کی مثال کیادینی ،آپ سکندرِاعظم کولے لیں اپنی بادشاہت کے لئے 10لاکھ افرادقتل کرنے والے الیگزینڈر دی گریٹ کو بالآخر بسترِ مرگ پر جب آ خری لمحوں میں NeedاورGreed کافرق محسوس ہوا توبے اختیار کہہ اُٹھا’’میراتابوت میرے طبیب اٹھائیں تاکہ سب کوپتاچلے کہ کوئی طبیب موت سے نہیں بچاسکتا ،میراتابوت جہاں جہاں سے گزرے وہاں وہاں ہیرے اور جواہرات پھینکے جائیں تاکہ سب کومعلوم ہو کہ انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آئے کہ جب دنیاوی دولت کی کوئی حیثیت نہ رہ جائے اورپھر میرے دونو ں ہاتھ تابوت سے باہرنکال دیئے جائیں تاکہ ہرکوئی یہ دیکھ لے کہ جاتے وقت سکندرِاعظم کے بھی ہاتھ خالی تھے‘‘ ایک ہنری فورڈ تھا ، اپنے وقتوں کا امیر ترین شخص، دنیاکی کونسی ایسی سڑک ہوگی کہ جہاں اس کی کمپنی فورڈکی گاڑی نہ چلی ہو،یہ بیمارہوااوربیمار بھی ایساکہ حلق سے لقمہ اُترنامشکل ،وہ دنیا کے بہترین اسپتال میں داخل ہوا،ٹیسٹ ہوئے ،رپورٹیں بنیں اورپھردنیا کے بہترین ڈاکٹروں نے مل کراس کا علاج شروع کیا ، مگرہرنسخہ اورہرحربہ یوں ناکام ہوا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ہنری فورڈ کے حلق سے پانی کے سوا کچھ نیچے نہ اترا،ابھی علاج جاری ہی تھا کہ ایک رات انتہائی مایوسی کے عالم میں اس نے خود کشی کر لی،یہاں بتانے والی بات یہ کہ ہنری کی لاش کے پاس اس کے اپنے ہاتھوں سے لکھا ایک خط ملا ، جس کا ایک جملہ یہ تھا کہ ’’ جب میری ساری دولت میرے حلق سے ایک لقمہ نیچے نہ اتار سکی تب مجھے پتاچلاکہ NeedاورGreedمیں کیافرق ہوتاہے ‘‘۔ چندسال پہلے سردیوں کی ایک رات میں اس وقت کے بڑے صاحب کے ساتھ ان کے بڑے گھرمیں بیٹھاکافی پی رہاتھاکہ اچانک ان کے سینے میں درداٹھااورپھردیکھتے ہی دیکھتے ان کاحلق خشک ،چہرہ سفیداورسرایک طرف ڈھلک گیااوراس سے پہلے کہ وہ کرسی سمیت گرجاتے میں نے آگے بڑھ کرایک ہاتھ سے ا ن کی کرسی کو تھاما اوردوسرے ہاتھ سے ان کے سامنے پڑی ان کی شاہی گھنٹی بجائی ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب تک ان کا سٹاف اور ڈاکٹرپہنچا تب تک میں بڑے صاحب کا سراپنے ہاتھوں میں لئے مسلسل دروداورآیت الکرسی پڑھتارہا،خیرہنگامی طبی امدادکے بعد جب ان کی طبیعت قدرے سنبھلی تو پھرانہیں خفیہ طورپراسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال لے جایاگیاجہاں 25تیس ٹیسٹ کروانے اوراوپرنیچے 5ٹیکے لگوانے کے بعداسپتال کے وی آئی پی روم میں لیٹے صاحب نے اچانک میراہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کربڑے جذباتی اندازمیں کہا ’’آج کے جھٹکے نے تو Need اورGreed کافرق سمجھادیا،یاراللہ نے آج مجھے نئی زندگی دی‘‘لیکن میں آج بھی یہ سوچوں تو یقین نہ آئے کہ اس رات بہتے آنسوؤں اوربھرائی آوازمیں عمر بھرکارِخیر کاعزم کرنے والے یہ صاحب کیسے بعد میں بھی اقتدارسے چمٹے رہے ،کیسے بعد میں بھی انہوں نے پیسوں کی خاطر ہربراکام کیااور کیسے جاتے جاتے وہ یتیموں اور مسکینوں کا فنڈ بھی کھاگئے۔ مگرپھر سوچتا ہوں کہ بونوں میں گھرے اب خود بھی اچھے خاصے بونے ہو چکے اس صاحب کا کیا قصور، ہمیں تو 69سالوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہ ملا کہ موقع ملنے پر جسے Needاور Greedکافرق یاد رہا ہو، پرانی کہانیاں اور Outdatedقصوں کو چھوڑیں 28جنوری اور 4مارچ 2009کی گفتگوہو یا15فروری2010اور 5مئی 2012کے خطابات ،تب اپنی Needاور Greedکے عین مطابق میاں نواز شریف کہاکرتے تھے ’’زرداری صاحب سوئس بینکوں میں پڑا پیسہ آپ کا نہیں ملک و قوم کا ہے ،زرداری صاحب قوم نے جب مجھے مینڈیٹ دیا تب میں سوئس بینکوں میں پڑے آپ کے ملین ڈالر زواپس لانے میں ایک لمحے کی دیربھی نہیں لگاؤں گا ‘‘ مگر جب میاں صاحب کی Needیا Greedبدلی تو قومی مینڈیٹ ملنے سے لے کر اب تک انہوں نے سوئس بینکوں کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا۔ یہ بھی Needیا Greedہی تھی کہ بھاٹی گیٹ لاہورمیں جوشِ خطابت کے زور پر مائیک گراتے ہوئے میاں شہبازشریف نے للکارا ’’زرداری صاحب ہم ڈینگی مارسکتے ہیں تو آپ سے بھی نمٹ سکتے ہیں ‘‘، اورپھر چھوٹے میاں صاحب کے اس جملے نے تو مقبولیت کاہرریکارڈتوڑڈالا ’’ اگرمیں نے علی باباچالیس چوروں کو سڑکوں پرنہ گھسیٹاتو میرانام شہبازشریف نہیں ‘‘،لیکن جب ان کی Need یا Greed بدلی تونہ گھسیٹاگھسیٹی ہوئی اورنہ میاں صاحب نے نام بدلااورپھریہ بھیNeedیاGreed ہی تھی کہچند سال پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں اسحاق ڈاراورنویدقمرکے ساتھ بیٹھے دانیال عزیزنے میاں برادران پرایسے چڑھائی کی کہ ہکے بکے اسحاق ڈارکو پہلے توکچھ سجھائی اورسمجھائی ہی نہ دیااورپھرجب ڈار صاحب نے کچھ کہنے کی کوشش کی تودانیال عزیزنے انہیں ایک لفظ ادا کرنے کا موقع تک نہ دیا ، اسی پروگرام میں دانیال عزیز ایک موقع پرڈارصاحب کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں’’گو کہ ڈارصاحب ماشاء اللہ ایسےAccountantکہ جنہیں نمبرزکے ہیرپھیرمیں کمال حاصل، مگرپھربھی ان کے پاس یقیناًمیری اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگاکہ فتح پورسیکری میں مغلیہ طرزکے بنے وزیراعظم ہاؤس پرجتنے پیسے خرچ ہوئے اتنے پیسوں سے غریب عوام کیلئے کتنے اسکول اورکتنے اسپتال بن سکتے تھے ،ڈارصاحب تو یہ بھی نہیں بتا نہیں سکتے کہ ان کے قائدین نے پیلی ٹیکسی سکیم میں بینکوں کے کتنے پیسے ڈبودیئے او ر 500سے 600روپے سالانہ ٹیکس دینے والے ڈارصاحب کے لیڈروں کے اگر صرف رائیونڈمحلات کے شاہی اخراجات کاہی حساب کتاب ہوجائے تو ہر چوری کابھانڈہ پھوٹ جائے‘‘لیکن پھرجب NeedیاGreed بدلی تووہی دانیال عزیزاب اسحاق ڈارسے بھی زیادہ میاں برادران کے وفادار۔ان کوبھی چھوڑٰیں ذراNeedاورGreedکی یہ روشن مثال ملاحظہ فرمائیں کہ والدنثارمیمن صدرپرویزمشرف کے وزیرجبکہ بیٹی ماروی میمن میاں نوازشریف کی ٹیم میں اوراوپر سے سربراہ بھی بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کی۔مگر دوستو ہمارے ملک میں سب کچھ ممکن، یہی ملک کہ جہاں آکسفورڈیونیورسٹی میں خانساماں اورڈرائیورساتھ لے جانے اورزندگی میں کبھی ایک لباس دوسری مرتبہ نہ پہننے والے لیاقت علی خان جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنتے ہیں تو وہ یہ کہہ کراپنانواب پن چھوڑدیتے ہیں کہ ’’غریب ملک کے وزیراعظم کویہ سب زیب نہیں دیتا‘‘یہی نہیں پھٹی بنیان اورسوراخوں والی جرابیں پہنے جب خان صاحب قتل ہوتے ہیں توان کے بینک اکاؤ نٹ میں اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ کفن دفن کاانتظام ہوسکے بلکہ الٹا وہ اپنے درزی حمیدکے مقروض ‘لیکن اب اسی ملک کے اٹھارہویں وزیراعظم نوا ز شریف کی بھی سن لیں ، یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے، میاں صاحب کو روہڑی بائی پاس پر سکھرملتان موٹر وے کا افتتاح کرنا ہوتا ہے ، مگر وزیر اعظم کے آنے سے 5 دن پہلے مقررہ جگہ پر اڑھائی سومزدورپہنچ کر جنگل کومنگل بنانے میں لگ جاتے ہیں ،پھر وزیراعظم کے آنے سے 2دن پہلے پانچ اضلاع کی پولیس آکرپورے علاقے کوگھیرے میں لے لیتی ہے ،اسی دوران جب ایک طرف دو ہزار افراد کیلئے پنڈال سج سنور رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف کراچی سے اسپیشل خیمہ آیا اورپھر اس خیمے کو ٹھنڈاٹھاررکھنے کیلئے 10ہیوی ائرکنڈیشنرزاور10جنریٹر بھی آگئے ،اور پھرافتتاح والے دن جونہی 2ہزارافرادکیلئے انواع و اقسام کے کھانے پک چکے تب 45گاڑیوں کے حصارمیں میاں نوازشریف آئے اور دوگھنٹوں میں سب کچھ بھگتا کر چلتے بنے ،یہاں سنانے والی بات یہ کہ ان دوگھنٹوں کی تقریب پر خرچہ ہوا دو کروڑ،مطلب بھوکی ننگی قوم کوپانامہ لیکس میں گھرے وزیراعظم کاایک منٹ پڑاایک لاکھ 65ہزار روپے میں ،مگر دوستو جیسے پہلے کہا کہ یہاں سب کچھ ممکن، یہاں مارشل لائی ڈگڈیوں سے جمہوری تماشوں تک ،فوجی جرنیلوں سے عوامی ڈکٹیڑوں تک ،سیاستدانوں سے بیوروکریسی تک ،مذہب سے سیاست تک اورشکل مومناں سے کرتوت کافراں تک جیسے سب کی Needہی ان کیGreed ویسے ہی یہاں ترک خاتون اول کے ہارچرانے سے قومی مینڈیٹ چرانے تک ، 67کروڑ گھر میں چھپانے والے سیکرٍٍٍٍٍٍٍٍٍٹری خزانہ بلوچستان سے آف شور کمپنیوں میں 7ارب چھپانے والوں تک اورکراچی میں دُکھی روحی بانو کے پلاٹ پرقبضے سے اسلام آبادمیں معذورمریضہ سے زیادتی تک یہاں سب کی Greedہی ان کی Need،گو کہ یہاں اب اپنے مطلب کے علاوہ نہ کوئی کسی سے کچھ کہتا ہے اور نہ کوئی کسی کی سنتا ہے ،مگر پھر بھی دل یہی کہے کہ جان کی امان پا کر رینٹل پاورسیکنڈل سے پانامہ لیکس تک اپنے تمامNeedyاورGreedyجھوٹ کے پیغمبروں سے یہ ضرور کہوں کہ جناب ہمیں یہ علم کہ جھوٹ بولنے کی2 وجوہات ایک خوف اوردوسرالالچ ،محترم ہمیں یہ پتا کہ خوف اورلالچ کی کشتی میں کوئی تبھی سوارہوجب NeedاورGreedکافرق مٹ جائے اور قبلہ ہمیں یہ تجربہ ہو چکا کہ NeedاورGreedکا فرق مٹنے سے انسان کیسے جانوربن جائے ۔

Need and Greed

- Posted in Amaal Nama by with comments

جناب ہمیں یہ علم کہ جھوٹ بولنے کی2 وجوہات ایک خوف اوردوسرالالچ ،محترم ہمیں یہ پتا کہ خوف اورلالچ کی کشتی میں کوئی تبھی سوارہوجب NeedاورGreedکافرق مٹ جائے اور قبلہ ہمیں یہ تجربہ ہو چکا کہ NeedاورGreedکا فرق مٹنے سے انسان کیسے جانوربن جائے ۔ کبھی NeedاورGreedکایہ حال تھاکہ ایک طرف جس دن حضوؐ ر رحلت فرماتے ہیں اُس سے اگلی رات دیاجلانے کیلئے حضرت عائشہؓ پڑوسن سے تیل ادھارلیتی ہیں جبکہ دوسری طرف اِسی گھر میں حضورؐ کی7بہترین اورقیمتی تلواریں لٹکی ملتی ہیں کبھیNeedاورGreedکایہ حال تھا کہ قیصرو کسریٰ کو شکست دے چکے حضرت عمرؓ کی خلافت کازمانہ،جمعے کاوقت اورلوگوں سے کھچاکھچ بھری مسجدِ نبویؐ، اس سے پہلے کہ امیرالمومینین کے انتظارمیں بیٹھے لوگوں کی چہ مگوئیاں اونچی آوازوں میں بدلتیں،اس وقت کے سب سے بڑے حکمران حضرت عمر ؓ آئے اورسیدھے جا کر منبرپربیٹھ کربولے ’’سب سے معذرت کہ مجھے آنے میں دیرہوگئی مگر دیراس لئے ہوئی کہ میں نے جمعہ کیلئے اپنااکلوتاسوٹ دھویاتھااوراسے آج سوکھنے میں زیادہ وقت لگ گیا‘‘ خیریہ تولوگ ہی اورتھے، ان کی مثال کیادینی ،آپ سکندرِاعظم کولے لیں اپنی بادشاہت کے لئے 10لاکھ افرادقتل کرنے والے الیگزینڈر دی گریٹ کو بالآخر بسترِ مرگ پر جب آ خری لمحوں میں NeedاورGreed کافرق محسوس ہوا توبے اختیار کہہ اُٹھا’’میراتابوت میرے طبیب اٹھائیں تاکہ سب کوپتاچلے کہ کوئی طبیب موت سے نہیں بچاسکتا ،میراتابوت جہاں جہاں سے گزرے وہاں وہاں ہیرے اور جواہرات پھینکے جائیں تاکہ سب کومعلوم ہو کہ انسان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آئے کہ جب دنیاوی دولت کی کوئی حیثیت نہ رہ جائے اورپھر میرے دونو ں ہاتھ تابوت سے باہرنکال دیئے جائیں تاکہ ہرکوئی یہ دیکھ لے کہ جاتے وقت سکندرِاعظم کے بھی ہاتھ خالی تھے‘‘ ایک ہنری فورڈ تھا ، اپنے وقتوں کا امیر ترین شخص، دنیاکی کونسی ایسی سڑک ہوگی کہ جہاں اس کی کمپنی فورڈکی گاڑی نہ چلی ہو،یہ بیمارہوااوربیمار بھی ایساکہ حلق سے لقمہ اُترنامشکل ،وہ دنیا کے بہترین اسپتال میں داخل ہوا،ٹیسٹ ہوئے ،رپورٹیں بنیں اورپھردنیا کے بہترین ڈاکٹروں نے مل کراس کا علاج شروع کیا ، مگرہرنسخہ اورہرحربہ یوں ناکام ہوا کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ہنری فورڈ کے حلق سے پانی کے سوا کچھ نیچے نہ اترا،ابھی علاج جاری ہی تھا کہ ایک رات انتہائی مایوسی کے عالم میں اس نے خود کشی کر لی،یہاں بتانے والی بات یہ کہ ہنری کی لاش کے پاس اس کے اپنے ہاتھوں سے لکھا ایک خط ملا ، جس کا ایک جملہ یہ تھا کہ ’’ جب میری ساری دولت میرے حلق سے ایک لقمہ نیچے نہ اتار سکی تب مجھے پتاچلاکہ NeedاورGreedمیں کیافرق ہوتاہے ‘‘۔ چندسال پہلے سردیوں کی ایک رات میں اس وقت کے بڑے صاحب کے ساتھ ان کے بڑے گھرمیں بیٹھاکافی پی رہاتھاکہ اچانک ان کے سینے میں درداٹھااورپھردیکھتے ہی دیکھتے ان کاحلق خشک ،چہرہ سفیداورسرایک طرف ڈھلک گیااوراس سے پہلے کہ وہ کرسی سمیت گرجاتے میں نے آگے بڑھ کرایک ہاتھ سے ا ن کی کرسی کو تھاما اوردوسرے ہاتھ سے ان کے سامنے پڑی ان کی شاہی گھنٹی بجائی ،مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب تک ان کا سٹاف اور ڈاکٹرپہنچا تب تک میں بڑے صاحب کا سراپنے ہاتھوں میں لئے مسلسل دروداورآیت الکرسی پڑھتارہا،خیرہنگامی طبی امدادکے بعد جب ان کی طبیعت قدرے سنبھلی تو پھرانہیں خفیہ طورپراسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال لے جایاگیاجہاں 25تیس ٹیسٹ کروانے اوراوپرنیچے 5ٹیکے لگوانے کے بعداسپتال کے وی آئی پی روم میں لیٹے صاحب نے اچانک میراہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کربڑے جذباتی اندازمیں کہا ’’آج کے جھٹکے نے تو Need اورGreed کافرق سمجھادیا،یاراللہ نے آج مجھے نئی زندگی دی‘‘لیکن میں آج بھی یہ سوچوں تو یقین نہ آئے کہ اس رات بہتے آنسوؤں اوربھرائی آوازمیں عمر بھرکارِخیر کاعزم کرنے والے یہ صاحب کیسے بعد میں بھی اقتدارسے چمٹے رہے ،کیسے بعد میں بھی انہوں نے پیسوں کی خاطر ہربراکام کیااور کیسے جاتے جاتے وہ یتیموں اور مسکینوں کا فنڈ بھی کھاگئے۔ مگرپھر سوچتا ہوں کہ بونوں میں گھرے اب خود بھی اچھے خاصے بونے ہو چکے اس صاحب کا کیا قصور، ہمیں تو 69سالوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہ ملا کہ موقع ملنے پر جسے Needاور Greedکافرق یاد رہا ہو، پرانی کہانیاں اور Outdatedقصوں کو چھوڑیں 28جنوری اور 4مارچ 2009کی گفتگوہو یا15فروری2010اور 5مئی 2012کے خطابات ،تب اپنی Needاور Greedکے عین مطابق میاں نواز شریف کہاکرتے تھے ’’زرداری صاحب سوئس بینکوں میں پڑا پیسہ آپ کا نہیں ملک و قوم کا ہے ،زرداری صاحب قوم نے جب مجھے مینڈیٹ دیا تب میں سوئس بینکوں میں پڑے آپ کے ملین ڈالر زواپس لانے میں ایک لمحے کی دیربھی نہیں لگاؤں گا ‘‘ مگر جب میاں صاحب کی Needیا Greedبدلی تو قومی مینڈیٹ ملنے سے لے کر اب تک انہوں نے سوئس بینکوں کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا۔ یہ بھی Needیا Greedہی تھی کہ بھاٹی گیٹ لاہورمیں جوشِ خطابت کے زور پر مائیک گراتے ہوئے میاں شہبازشریف نے للکارا ’’زرداری صاحب ہم ڈینگی مارسکتے ہیں تو آپ سے بھی نمٹ سکتے ہیں ‘‘، اورپھر چھوٹے میاں صاحب کے اس جملے نے تو مقبولیت کاہرریکارڈتوڑڈالا ’’ اگرمیں نے علی باباچالیس چوروں کو سڑکوں پرنہ گھسیٹاتو میرانام شہبازشریف نہیں ‘‘،لیکن جب ان کی Need یا Greed بدلی تونہ گھسیٹاگھسیٹی ہوئی اورنہ میاں صاحب نے نام بدلااورپھریہ بھیNeedیاGreed ہی تھی کہچند سال پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں اسحاق ڈاراورنویدقمرکے ساتھ بیٹھے دانیال عزیزنے میاں برادران پرایسے چڑھائی کی کہ ہکے بکے اسحاق ڈارکو پہلے توکچھ سجھائی اورسمجھائی ہی نہ دیااورپھرجب ڈار صاحب نے کچھ کہنے کی کوشش کی تودانیال عزیزنے انہیں ایک لفظ ادا کرنے کا موقع تک نہ دیا ، اسی پروگرام میں دانیال عزیز ایک موقع پرڈارصاحب کی طرف اشارہ کرکے فرماتے ہیں’’گو کہ ڈارصاحب ماشاء اللہ ایسےAccountantکہ جنہیں نمبرزکے ہیرپھیرمیں کمال حاصل، مگرپھربھی ان کے پاس یقیناًمیری اس بات کا کوئی جواب نہیں ہوگاکہ فتح پورسیکری میں مغلیہ طرزکے بنے وزیراعظم ہاؤس پرجتنے پیسے خرچ ہوئے اتنے پیسوں سے غریب عوام کیلئے کتنے اسکول اورکتنے اسپتال بن سکتے تھے ،ڈارصاحب تو یہ بھی نہیں بتا نہیں سکتے کہ ان کے قائدین نے پیلی ٹیکسی سکیم میں بینکوں کے کتنے پیسے ڈبودیئے او ر 500سے 600روپے سالانہ ٹیکس دینے والے ڈارصاحب کے لیڈروں کے اگر صرف رائیونڈمحلات کے شاہی اخراجات کاہی حساب کتاب ہوجائے تو ہر چوری کابھانڈہ پھوٹ جائے‘‘لیکن پھرجب NeedیاGreed بدلی تووہی دانیال عزیزاب اسحاق ڈارسے بھی زیادہ میاں برادران کے وفادار۔ان کوبھی چھوڑٰیں ذراNeedاورGreedکی یہ روشن مثال ملاحظہ فرمائیں کہ والدنثارمیمن صدرپرویزمشرف کے وزیرجبکہ بیٹی ماروی میمن میاں نوازشریف کی ٹیم میں اوراوپر سے سربراہ بھی بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کی۔مگر دوستو ہمارے ملک میں سب کچھ ممکن، یہی ملک کہ جہاں آکسفورڈیونیورسٹی میں خانساماں اورڈرائیورساتھ لے جانے اورزندگی میں کبھی ایک لباس دوسری مرتبہ نہ پہننے والے لیاقت علی خان جب پاکستان کے پہلے وزیراعظم بنتے ہیں تو وہ یہ کہہ کراپنانواب پن چھوڑدیتے ہیں کہ ’’غریب ملک کے وزیراعظم کویہ سب زیب نہیں دیتا‘‘یہی نہیں پھٹی بنیان اورسوراخوں والی جرابیں پہنے جب خان صاحب قتل ہوتے ہیں توان کے بینک اکاؤ نٹ میں اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے کہ کفن دفن کاانتظام ہوسکے بلکہ الٹا وہ اپنے درزی حمیدکے مقروض ‘لیکن اب اسی ملک کے اٹھارہویں وزیراعظم نوا ز شریف کی بھی سن لیں ، یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے، میاں صاحب کو روہڑی بائی پاس پر سکھرملتان موٹر وے کا افتتاح کرنا ہوتا ہے ، مگر وزیر اعظم کے آنے سے 5 دن پہلے مقررہ جگہ پر اڑھائی سومزدورپہنچ کر جنگل کومنگل بنانے میں لگ جاتے ہیں ،پھر وزیراعظم کے آنے سے 2دن پہلے پانچ اضلاع کی پولیس آکرپورے علاقے کوگھیرے میں لے لیتی ہے ،اسی دوران جب ایک طرف دو ہزار افراد کیلئے پنڈال سج سنور رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف کراچی سے اسپیشل خیمہ آیا اورپھر اس خیمے کو ٹھنڈاٹھاررکھنے کیلئے 10ہیوی ائرکنڈیشنرزاور10جنریٹر بھی آگئے ،اور پھرافتتاح والے دن جونہی 2ہزارافرادکیلئے انواع و اقسام کے کھانے پک چکے تب 45گاڑیوں کے حصارمیں میاں نوازشریف آئے اور دوگھنٹوں میں سب کچھ بھگتا کر چلتے بنے ،یہاں سنانے والی بات یہ کہ ان دوگھنٹوں کی تقریب پر خرچہ ہوا دو کروڑ،مطلب بھوکی ننگی قوم کوپانامہ لیکس میں گھرے وزیراعظم کاایک منٹ پڑاایک لاکھ 65ہزار روپے میں ،مگر دوستو جیسے پہلے کہا کہ یہاں سب کچھ ممکن، یہاں مارشل لائی ڈگڈیوں سے جمہوری تماشوں تک ،فوجی جرنیلوں سے عوامی ڈکٹیڑوں تک ،سیاستدانوں سے بیوروکریسی تک ،مذہب سے سیاست تک اورشکل مومناں سے کرتوت کافراں تک جیسے سب کی Needہی ان کیGreed ویسے ہی یہاں ترک خاتون اول کے ہارچرانے سے قومی مینڈیٹ چرانے تک ، 67کروڑ گھر میں چھپانے والے سیکرٍٍٍٍٍٍٍٍٍٹری خزانہ بلوچستان سے آف شور کمپنیوں میں 7ارب چھپانے والوں تک اورکراچی میں دُکھی روحی بانو کے پلاٹ پرقبضے سے اسلام آبادمیں معذورمریضہ سے زیادتی تک یہاں سب کی Greedہی ان کی Need،گو کہ یہاں اب اپنے مطلب کے علاوہ نہ کوئی کسی سے کچھ کہتا ہے اور نہ کوئی کسی کی سنتا ہے ،مگر پھر بھی دل یہی کہے کہ جان کی امان پا کر رینٹل پاورسیکنڈل سے پانامہ لیکس تک اپنے تمامNeedyاورGreedyجھوٹ کے پیغمبروں سے یہ ضرور کہوں کہ جناب ہمیں یہ علم کہ جھوٹ بولنے کی2 وجوہات ایک خوف اوردوسرالالچ ،محترم ہمیں یہ پتا کہ خوف اورلالچ کی کشتی میں کوئی تبھی سوارہوجب NeedاورGreedکافرق مٹ جائے اور قبلہ ہمیں یہ تجربہ ہو چکا کہ NeedاورGreedکا فرق مٹنے سے انسان کیسے جانوربن جائے ۔

Internet Se Brain Net Tak, Column By Irshad Bhatti on Daily Jang on 5 May 2016, Voice of Tahir Saddique.

کالے سوٹ پر سرخ ٹائی لگائے لمبے سفید بالوں والا پروفسیر میچیو کاکو بول رہا تھا اور لوگوں سے کھچا کھچ بھرے دبئی کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے مین ہال میں ایسا سناٹا تھا کہ سانس لینے کی آوازتک سنائی نہیں دے رہی تھی ، دنیائے فزکس کا یہ ماہر جس کی 90فیصد سائنسی پیشن گوئیاں سچ ثابت ہو چکیںآج آنے والی دنیا کی ایسی جھلک دِکھا رہا تھا کہ 100ممالک کے 2ہزار بزنس ٹائیکونز مبہوت دم سادھے اس "Physics Futurist"کو سن رہے تھے اور بھلا کسی کے سانس لینے کی آواز سنائی بھی کیسے دیتی کہ جب درجن بھر کتابوں کا یہ مصنف بتا چکا ہو کہ ’’ برین نیٹ ، انٹرنیٹ کی جگہ لینے والا ، کمپیوٹرز غائب ہو جائیں گے اور دنیا میں صرفs Chipرہ جائیں گی اور وہ بھی اتنی سستی Chips کہ 2020ء تک ایک Chipکی قیمت ایک Pennyہوگی ، جو یہ سنا چکا ہو کہ’’ سر میں دماغ کے قریب Chipلگنے سے ہرشخص ہر لمحہ سٹیلائٹ سے آن لائن رابطے میں ہوگا ، عینکوں میں کیمروں کا لگنا تو پر انی بات ہوچکی اب تو عینک میں انٹرنیٹ ہوگا اورجو عینک نہیں پہنے گا اسکی آنکھوں میں ’’ انٹرنیٹ لینزز‘‘ لگیں گے اور عینک پہن کر یا لینز لگا کر جب آپ کسی کو دیکھیں گے تو اسکی بائیوگرافی سمیت تمام بنیادی معلومات بھی آپکی آنکھوں کے سامنے ہوں گی مطلب کسی کو دیکھتے ہی یہ معلوم ہو جائے گا کہ جس سے بات ہو رہی ہے ، وہ اصل میں ہے کون،یہی نہیں اگر کوئی آپ سے کسی غیر ملکی زبان میں بات کرے گا تو نہ صرف اسکی گفتگو کا ترجمہ خود بخود آپکی زبان میں ہو رہا ہوگا بلکہ سٹیلائٹ کی مدد سے آپ اس سے اس کی زبان میں بات بھی کر رہے ہوں گے مطلب زبان کا مسئلہ بھی حل‘‘ اور جواس وقت یہ کہہ رہا ہو کہ’’ آنے والا زمانہ Clickکا نہیں Blinkکا ہوگا یعنی آنکھ Blink کرتی جائے گی اور آپ بات کرنے سے کسی جگہ جانے اور کچھ خریدنے سے ڈیمانڈ اینڈ سپلائی، چیزوں کی اصل قیمت اور اصل منافع تک سب کچھ جان رہے ہوں گے یعنی کوئی آپکو دھوکہ نہیں دے سکے گا‘‘ اور آنکھوں کے ذریعے سب کچھ کرنا مطلب یہ Blink Systemکام کیسے کرتا ہے یہ آپ سائنس فکشن فلم ٹرمینیٹر میں دیکھ سکتے ہیں بلکہ اب تو امریکی فوجیوں کے ہیلمٹ میں انٹرنیٹ اور کیمرہ یوں لگ چکا کہ جب فوجیوں کی نظر کسی پر پڑے تو اگلے ہی لمحے انہیں پتا چل جائے کہ سامنے دوست ہے یا دشمن ۔ اتنا کہہ کر امریکی باپ اور جاپانی ماں کے گھر پیدا ہونے والےPopularizerآف سائنس پروفیسر میچیو نے رک کر بے حس وحرکت آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر خودکو دیکھتے حاضرین کی آنکھوں میں لمحہ بھر کیلئے جھانک کر دوبارہ بولنا شروع کیا ’’وہ وقت بھی آنے والا کہ جب ہماری پوری زندگی ڈ یجیٹلائز ہوجائے گی ، آج آپ پیسوں یا بنک کارڈ سے خریداری کرتے ہیں، مستقبل میں یہ سب بھی آپ اپنی آنکھ Blinkکرکے خریدلیں گے، پھرقانونی رائے لینے سے کسی بیماری کے حوالے سے جاننے تک 99فیصد سوالوں کے جواب آپکو گھر بیٹھے بٹھائے ملا کریں گے اور میڈیکل سائنس کے حوالے سے تو آنے والی دنیا ایسی انقلابی ہوگی کہ آج جیسے گلی گلی محلے محلے میں مشینوں کے پرزے اور خوب صورت ماربل بن رہے ہیں، مستقبل میں نہ صرف ایسے انسانی اعضاء بن رہے ہوں گے، نہ صرف ایسے مصنوعی کان اور ناک بنیں گے کہ جو ایک خاص وقت کے بعد خود بخود انسانی جسم کا حصہ بن جائیں گے اور نہ صرف جلد ، خون ، دل کی شریانیں ،جگر اور لبلبہ تک بنا ئے جارہے ہوں گے بلکہ Chipاور ٹی وی کیمرہ گولی کی صورت میں نگلنے کے بعد پھر اس Chipاور کیمرے کے ذریعے انسان کے اندر یوں مانیٹرنگ ہو گی کہ چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بیماری کا بیماری سے پہلے ہی پتا چل جائے گا ۔ یہاں پہنچ کر دنیائے فزکس کے اس اپنی طرز کے اکلوتے سائنسدان پروفیسر کاکو نے ڈائس پر پڑا پانی کا گلاس اُٹھاکر اسے ایک سانس میں پینے اور ٹشو منہ پر رکھ کر ہلکی آواز میں کھنکھارکر گلا صاف کرنے کے بعد اپنی بات پھر سے شروع کی ’’ آجکل مشینیں یہ تو بتا رہی ہیں کہ سامنے بیٹھا شخص سچ بول رہا ہے یا جھوٹ لیکن آنے والے وقتوں میں ٹیلی پیتھی کے ذریعے نہ صرف دماغی علاج ہوگا، انسانی جذبات واحساسات معلوم ہو سکیں گے نہ صرف انسانی یاداشت کو Chipپر محفوظ کر کے اسے بوقتِ ضرورت چند سکینڈز میں Recall بھی کیا جا سکے گابلکہ فوت ہوچکے لوگوں سے گفتگو بھی ممکن ہو گی‘‘ اور ہا ں اس وقت دنیا کی سب سے چھوٹی MRIمشین بریف کیس جتنی لیکن مستقبل میں MRIمشین موبائل فون جتنی ہو گی اور آج تو ہم اپنے موبائل فون پر Typingکرتے ہیں لیکن مستقبل میں ہمارا سب کچھ E-Paper ہوگا ، اسی کو چھوٹا کرکے میز پر لگا کر آفس کاکام،بڑا کرکے کمرے کی دیوار پر لگا کر ٹی وی اور فولڈ کر کے موبائل فون اور آخری بات جو میں ضرور بتانا چاہوں گا وہ یہ کہ آج کی دنیا کا ایک بڑا مسئلہ Electricityلیکن مستقبل میں Electricityنہ صرف ہماری زند گیوں بلکہ یہ لفظ English Languageسے ہی نکل جائے گا ، یہ کیسے ۔۔اس کیلئے آپکو انتظار کرنا ہو گا ۔۔اور سچی بات یہ کہ مجھے یہ پتا تو نہیں کہ یہ سب کچھ آپکی زندگی میں ہو پاتا ہے یانہیں لیکن مجھے یہ یقین ضرور کہ یہ سب کچھ آپکے بچوں کی زندگیوں میں لازمی ہوگا ۔ مستقبل میں سائنس کے گھوڑے دوڑانے والے اور’’ فزکس آف دی امپاسیبل ،فزکس آف دی فیوچر اور دی فیوچر آف دی مائنڈ ‘‘جیسی تہلکہ خیز کتابوں کے مصنف پروفیسر میچیو کا اِدھر لیکچر ختم ہوا تو اُدھر میرا دماغ چل پڑااور پہلا خیال یہی آیا کہ دنیا کہاں سے کہاں جا پہنچی اورہم کہاں سے کہاں آن پہنچے ، کیا وقت تھا کہ جب آٹھویں صدی عیسوی سے گیارہویں صدی عیسوی تک علم ، تحقیق ،ایجاد، فلسفے اور دانش میں مسلمان چھائے ہوئے تھے جبکہ مغرب تاریکی میں ڈوبا ہوااور دنیا کا پہلا کیمرہ متعارف کروانے والا ابن الہیشم ہو یا کششِ ثقل کی درست پیمائش اور کیلنڈر ایجاد کرنے والا عمر خیام ، آنکھ پر روشنی کے مضراثرات اور آپریشن سے پہلے بے ہوش کرنے کا طریقہ بتانے والا زکریا الرازی ہو یا الجبرے کا باپ موسیٰ الخوارزمی، بابائے ارضیات ابنِ سینا ہو یا دانتوں کا پہلا باقاعدہ ڈاکٹر اور آنکھ ،کان اور پتے کی سرجری میں استعمال ہونے والے 3اہم آلات کا بانی ابوالقاسم الزہراوی ہو ، علمِ اعداد اور جدید ریاضی کا ماہر اور مریضوں کو دی جانے والی ادویات کی درست مقدار بتا نے والا یعقوب الکندی ہو یا دنیا کو روشنی کی رفتار کا آواز کی رفتار سے تیز ہونے کا بتانے والا اور زمین ،چاند ، ستاروں اور سیاروں کی حرکات اور خصوصیات سے آگاہ کرنے والا البیرونی ہو ، یہ سب مسلمان اور یہ تو صرف چند نام، اسکے علاوہ سائنس کے بیسوؤں مسلمان ماہر اور بھی، لیکن یہاں تک تو سب کو معلوم مگر یہ بہت کم لوگوں کے علم میں کہ مسلم سائنس کی ٹانگیں تب کٹیں جب امام غزالی ؒ نے نمبروں کے ساتھ کھیلنے مطلب Mathematicsکو شیطانی کام قرار دیدیا گو کہ اقتدار کی جنگوں ، آپس کی چپقلشو ں اور عیاشوں سمیت کئی اور وجوہات بھی ضرور تھیں کہ جن کی بناء پر مسلم دنیا سائنسی علوم سے دور ہوتی گئی مگر امام غزالیؒ کے اس اقدام کے بعد جہاں پڑھا لکھا طبقہ منتشر خیالی کا شکا رہوا وہاں پھر وہ طبقہ سائنس پر حاوی ہوگیا کہ جو نہ صرف خود سائنس کی ترویج کا مخالف تھا بلکہ اس نے مذہب کی آڑ میں تحقیق اور ایجاد کو یوں لپیٹا کہ مسلم سائنس کا باب ہی بند ہو گیا ،ذرا اس طبقے کی چالا کی تو دیکھیئے کہ جب پرنٹنگ پریس آئی تو شیخ الاسلام سے اسے ایسے حرام قرار دلوایا کہ پھر پرنٹنگ پریس مسلمانو ں کیلئے 235سال تک حرام رہی ، جہاز اس وجہ سے حرام ٹھہرا کہ اتنی اونچائی پر جانا تو قدرت کو للکارنے کے مترادف ،ریڈیو اور ٹی وی اس لیے حرام ہوئے کہ یہ شیطانی آلے ، کیمرے پر فتوے لگے ، انجکشن پر اعتراض ہو ااور کل کو چھوڑیں آج بھی یہی طبقہ کبھی خون کی منتقلی پر اعتراض کر ے تو کبھی جنیٹک انجینئرنگ اور بالوں کی پیوند کاری کو ناجائز قرار دے ، یہی وجہ کہ مسلمانوں کی تحقیق اور ایجادات کو بنیاد بناکر گذشتہ 100 سالوں میں ڈیڑھ کروڑ آبادی والے یہودی تو سائنس میں 25نوبل پرائز لے لیں مگر سائنس کے چمپئن مسلمان اس طرح نااہلیوں ، نالائقیوں ، کمزوریوں اورفتوؤں میں الجھیں کہ ڈیڑھ ارب ہو کر بھی گذشتہ 100سالوں میں صرف 2 نوبل پرائز لے سکیں ، دوستو ڈیڑھ ماہ پہلے پروفیسر میچیو کے لیکچر سے اب تک میں مسلسل یہی سوچ رہا ہوں کہ ماڈرن سائنس میں ایک بھی Contributionنہ کرنے والے ہم مسلمانوں کے بچے جب پروفسیر میچیو کی سائنس اور ٹیکنالوجی والی دنیا میں جائیں گے تو پھر احساسِ کمتری میں مبتلا ہو کر وہ ہم نااہل اورنالائق فتوہ بازوں کی کارکردگی پر کیا فتویٰ دیں گے۔۔۔ آپ بھی سوچیئے گا !