Yellow Pages of Pakistan

Non Stop Infotainment By Cyber City Online!

Blog Home | About us | Yellow Pages of Pakistan | CCOL Host | CCOL Net | hussn e-Mag | Realestate Marketing | MBBS in China | Feedback us

enter image description here اچھا تم بتاؤ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے بڑا تحفہ کیا دیا تھا“ وہ مسکرائے اور میری طرف دیکھا‘ میں سوچ میں پڑ گیا‘ وہ اس دوران میری طرف دیکھتے رہے‘ میں نے تھوڑی دیر سوچا اور عرض کیا ” شعور“ انہوں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ میں نے عرض کیا ” عقل“ وہ فوراً بولے ” شعور اور عقل دونوں ایک ہی چیز ہیں“ میں نے مزید سوچا اور عرض کیا ” آکسیجن‘ سورج کی روشنی‘ پانی‘ خوراک اور جمالیاتی حس“ انہوں نے ناں میں گردن ہلا دی‘ میں نے عرض کیا ”تعمیر کا فن‘ انسان کائنات کی واحد مخلوق ہے جو پتھروں کو ہیرے کی شکل دے سکتی ہے‘ جو مٹی کا محل بنا سکتا ہے اور جو ریت کے ذروں کو شیشے میں ڈھال سکتا ہے“ وہ مسکرائے اور انکار میں سر ہلا دیا‘ میں نے اس کے بعد انسان کی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کا نام لینا شروع کردیا لیکن وہ انکار میں سر ہلاتے رہے یہاں تک کہ میں تھک گیا اور بے بسی سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ مسکرائے اور نرم آواز میں بولے ” آپ نے انسان کی جن خوبیوں اور صلاحیتوں کا ذکر کیا وہ تمام اللہ تعالیٰ کی دین ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہتا ہے یہ خوبیاں قائم اور دائم رہتی ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے تو انسان فرعون ہو یا نمرود یا بش اس کی خوبیاں اس کی خامیاں بن جاتی ہیں اور وہ دنیا میں زندہ لاش بن کر رہ جاتا ہے“ میں خاموشی سے سننے لگا‘ وہ بولے ” میں آپ کو اب اس سب سے بڑے تحفے کے بارے میں بتاتا ہوں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا“ میں ہمہ تن گوش ہوگیا‘ وہ بولے ” قدرت نے انسان کو اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے‘ دنیا کی کوئی دوسری مخلوق‘ کوئی خاکی یا نوری پیکر اس خوبی کی مالک نہیں“ میں نے حیرت سے پوچھا ” جناب میں آپ کی بات نہیں سمجھا “ وہ بولے ” مثلاً تم چاند کو لے لو‘ اللہ تعالیٰ نے جب کائنات بنائی تو اس نے چاند میں ایک پروگرام فیڈ کر دیا اور چاند اب اس پروگرام کے تحت چمک رہا ہے اور جب تک قدرت پروگرام نہیں بدلے گی یہ چاند اسی طرح چمکتا رہے گا‘ آپ سورج ‘ ستاروں اور سیاروں کولے لیجئے‘ زمین کی حرکت کو لیجئے‘ ہواﺅں‘ فضاﺅں ‘ندیوں اور نالوں کو لے لیجئے‘ دریاﺅں‘ سمندروں اور پہاڑوں کو لے لیجئے‘ زلزلوں‘ طوفانوں اور سیلابوں کو لے لیجئے‘ یہ تمام ایک پروگرام کے تحت چل رہے ہیں اور قدرت یہ پروگرام فیڈ کر کے ان سے لاتعلق ہو گئی“ وہ خاموش ہوگئے۔

میں نے عرض کیا ” جناب میں اب بھی آپ کا نقطہ نہیں سمجھ سکا“ وہ بولے ” دنیا کا کوئی پہاڑ‘ کوئی درخت‘ کوئی جانور‘ کوئی ستارہ اور کوئی سیارہ اللہ تعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتا لیکن انسان کو اللہ تعالیٰ نے اس خوبی سے نواز رکھا ہے کہ وہ اپنے رب کی خوشنودی حاصل کر سکتا ہے‘ وہ اسے راضی کر سکتا ہے“ میں نے عرض کیا ” جناب میں یہی تو آپ سے پوچھ رہا ہوں“ وہ مسکرائے اور بولے ” لیکن اس نقطے کو سمجھنے کےلئے مجھے پیچھے تاریخ میں جانا پڑے گا“ میں خاموشی سے سننے لگا‘ وہ بولے ” آپ شیطان اور حضرت آدم ؑ کا واقعہ دیکھئے‘ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو حکم دیا وہ انسان کو سجدہ کرے‘ شیطان نے حکم عدولی کی ‘ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوئے اور اسے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے راندئہ درگاہ کردیا‘ شیطان آسمانوں سے اترا اور کروڑوں سال سے زمین پر خوار ہو رہا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑ کو گندم کا دانہ چکھنے سے منع فرمایا‘ حضرت آدم ؑ نے بھی اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی‘ اللہ تعالیٰ ان سے بھی ناراض ہوئے اور انہیں بھی آسمان سے زمین پر بھیج دیا لیکن حضرت آدم ؑ کے رویئے اور شیطان کے رویئے میں بڑا فرق تھا“ وہ دم لینے کےلئے رکے اور دوبارہ گویا ہوئے ” شیطان زمین پر آنے کے باوجود اپنی بات پر اڑا رہا جبکہ حضرت آدم ؑ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے لگے‘ وہ سجدے میں پڑے رہتے تھے

روتے جاتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنی کوتاہی‘ اپنی غلطی ‘ اپنے جرم اور اپنے گناہ کی معافی مانگتے جاتے تھے‘ حضرت آدم ؑ کی توبہ کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول نہ کرلی اور مشیت ایزدی ان سے راضی نہ ہوگئی“ وہ خاموش ہوگئے‘ ہمارے درمیان خاموشی کے بے شمار پل گزر گئے‘ جب یہ وقفہ طویل ہوگیا تو میں نے عرض کیا” جناب میں اب بھی آپ کی بات نہیں سمجھا“ وہ مسکرائے اور نرم آواز میں بولے ” اللہ تعالیٰ کا انسان کےلئے سب سے بڑا انعام توبہ ہے‘ انسان اس انعام ‘ اس تحفے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی ذات کو راضی کر سکتا ہے اور وہ اللہ جو اپنے بندے کی کسی خطا‘ کسی جرم‘ کسی کوتاہی اور کسی گناہ سے ناراض ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ بندے کی توبہ سے مان جاتا ہے اور اس بندے پر اپنے رحم‘ اپنے کرم اور اپنی محبت کے دروازے کھول دیتا ہے اور یوں انسان سکون میں چلا جاتا ہے“ ۔

وہ رکے اور دوبارہ بولے ” جب تک انسان کو اللہ کی محبت‘ کرم اور رحم نصیب نہیں ہوتا اس وقت تک انسان کو سکون‘ آرام‘ چین‘ خوشی اور مسرت حاصل نہیں ہو تی‘ خوشی ‘ خوشحالی اور سکون اللہ کی رضا مندی سے منسلک ہے اور جو شخص‘ جو قوم اور جو طبقہ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی سے محروم ہو جاتا ہے اس کا سکون‘ خوشی اور خوشحالی چھن جاتی ہے چنانچہ جب بھی انسان کا رزق تنگ ہو جائے‘ اس کا دل مسرت اور خوشی سے خالی ہو جائے‘ وہ چین اور سکون سے محروم ہو جائے اور اسے زندگی میں ایک تپش ‘ڈپریشن اور ٹینشن کا احساس ہو تو اسے چاہیے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے ‘وہ کثرت سے توبہ کرے اور وہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرے“ میں خاموش رہا‘ وہ بولے ” یہ سکون کا ایک نسخہ ہے‘ سکون کا دوسرا نسخہ معافی ہے‘ ہم لوگ دن میں اوسطاً سو سے تین سو تک غلطیاں کرتے ہیں‘

<

p>اگر ہم ہر غلطی پر معذرت کو اپنی روٹین بنالیں‘ ہم نے جلدبازی‘ بے پروائی‘ نفرت‘ غصے‘ تکبر اور ہٹ دھرمی میں جس شخص کا حق مارا‘ ہم نے جس کو نقصان پہنچایا اور ہم نے جس کو ڈسٹرب کیا‘ ہم اگر فوراً اس شخص سے معافی مانگ لیں تو بھی ہماری زندگی میں سکون ‘ آرام اور خوشی آسکتی ہے‘ ہمیں معافی مانگنے میں کبھی کوتاہی نہیں برتنی چاہیے کیونکہ معافی وہ چٹان ہے جس کے نیچے سکون‘ خوشی اور خوشحالی کے چشمے چھپے ہیں اور جب تک ہم یہ چٹان نہیں سرکائیں گے‘ ہم خوشی‘ خوشحالی اور سکون کا ٹھنڈا پانی نہیں پی سکیں گے“ وہ رکے اور دوبارہ بولے ” یاد رکھو دنیا میں صرف اور صرف شیطان توبہ اور معافی سے دور رہتا ہے جبکہ اللہ کے بندے ان دونوں چیزوں کو اپنی روٹین بنا لیتے ہیں‘ ہٹ دھرمی‘ تکبر‘ ظلم‘ ضد‘ نفرت اور غصہ شیطان کی خامیاں ہیں اور جن لوگوں کی ذات میں یہ ساری خامیاں اکٹھی ہو جاتی ہیں‘ تم کبھی ان کے منہ سے توبہ اور معافی کا لفظ نہیں سنو گے چنانچہ تم کبھی ان لوگوں کو پرسکون‘ خوش اور خوشحال نہیں پاﺅ گے‘ یہ دولت مند ہو سکتے ہیں لیکن یہ دولت انہیں خوشی اور سکون فراہم نہیں کرتی‘ تم ان لوگوں کا انجام بھی اچھا ہوتا نہیں دیکھو گے جبکہ معافی اور توبہ کرنے والے لوگوں میں تمہیں غصہ‘ نفرت‘ضد‘ ظلم‘ تکبر اور ہٹ دھرمی نہیں ملے گی اور تمہیں یہ لوگ کبھی پریشان‘ ڈپریس اور ٹینس نہیں ملیں گے چنانچہ ہر لمحہ لوگوں سے معافی مانگتے رہو اور اللہ سے توبہ کرتے رہو‘ تمہاری زندگی سے کبھی سکون‘ خوشی ا
ور خوشحالی کم نہیں ہوگی“ وہ خاموش ہوگئے‘ میں نے ان کے گھٹنے چھوئے اور باہر آگیا

Say no to VIP Culture in Pakistan Pakistani Qom Jaag Gai! Public stops road blockage for VIP route in Park Road Islamabad.

Futuristic bus that cars can drive through! Check out the straddling bus.

Mgr Main Ne Apna Kaam Ker Diya, A Column By Irshad Bhatti on Daily Jang on 26 May 2016, Voice of Tahir Saddique

بات کرتے کرتے ہاشوانی صاحب کا لہجہ بھرّا گیا ، وہ چپ ہوئے ، اُنہوں نے عینک اتار کر بھیگی آنکھوں کو ٹشو سے صاف کیا ، عینک دوبارہ پہنی اور چند لمبی لمبی سانسیں لے کر بولے ’’ مگر میں نے اپنا کام کر دیا ‘‘ ،لیکن ذرااِس کہانی سے پہلے کی باتیں بھی سن لیں۔ جب رات کا دوسرا پہر اختتامی لمحوں میں داخل ہو چکا ، جب کھانے اور میٹھے کے بعد قہوے کا دور چل چکا ، جب ایک ’’باخبر دوست‘‘ دو بڑوں کی ملاقات کی ریکارڈنگ دِکھا کر ایک بڑی خاتون کے چھوٹے پن کی کئی مثالیں دے چکا ، جب ایک ’’اندر کا آدمی‘‘ پانامالیکس میں پھنسے دیسی شہزادوں کو Rescueکرتے ولائیتی شہزادوں کی کہانی سنا چکا ، جب ایک مصاحب کے بھائی کے بینک فراڈ اور دوسرے درباری کے 6ارب کے پلازے کی بات ہوچکی ، جب یہ تذکرہ بھی ہوگیا کہ یہ تو ایسا ملک کہ ایک طرف 30ماہ میں غذائی قلت 13سو بچوں کو ماردے جبکہ دوسری طرف بے حساب وبے شمار مراعات لیتے انہی بچوں کے سینٹ اور قومی اسمبلی میں بیٹھے بڑے اپنی تنخواہوں میں 7کروڑ کا اضافہ کر کے بھی نا خوش ، جب سراج الحق یہ کہہ چکے کہ’’ ایک سٹیل مل سے اربوں منافع کمانے والے شریف خاندان کو میں تب مانوں جب وہ پاکستانیوں کی پاک سٹیل کو بھی منافع بخش بنادیں ‘‘ اور جب امیر جماعت اسلامی یہ بھی بتا چکے کہ ’’دنیا میں 2طرح کے طرزِ حکومت ، ایک حکومتِ عقلیہ یعنی انسانی فہم ودانش پر مبنی نظام اور دوسرا حکومتِ الہیہ مطلب اللہ تعالیٰ کے احکامات پر مبنی نظام مگر بدقسمتی سے جو طرزِحکومت ہمارے ہاں رائج وہ نہ عقلیہ اور نہ الہیہ بلکہ وہ حکومتِ حیوانیہ مطلب جنگل کا قانون ،جسکی لاٹھی اسکی بھینس اور جس کے پاس لاٹھی وہ بادشاہ اور بادشاہ کے منہ سے جو نکلے وہ حرفِ آخر ۔ اس رات جب یہ سب کچھ ہو چکا تب چپ چاپ سب کی سنتے ہوٹلنگ کنگ صدر الدین ہاشوانی بولے اور ایسا بولے کہ پھر وہی بولے ، مجھے اچھی طرح یاد کہ اُس رات ہاشوانی صاحب نے بات کچھ یوں شروع کی ’’ ہمارے 90فیصد مسائل کی وجہ ہماری لیڈر شپ کیونکہ ملک وقوم سے زیادہ اپنی آل اولاد سے محبتیں کرتی ہماری لیڈر شپ نے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دی ، بات سمجھانے کیلئے ایک کہانی سناتا ہوں بلکہ اسے کہانی کہنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ یہ تو ایک سچ یا میرے سینے میں چھپا وہ راز جو میں آج پہلی بار شیئر کررہا ہوں ، مشرف کا زمانہ تھا ، ایک شام شوکت عزیز کا فون آیا، وہ اس وقت وزیرِ خزانہ تھے ، سلام دعا کے بعد بولے ’’ایک فائل بھجوا رہا ہوں، سرمایہ کاری کا ایسا سنہری موقع ہے کہ عمر بھر یاد کرو گے ‘‘ میں نے پوچھا ’’ کس قسم کی سرمایہ کاری ‘‘جواب ملا ’’ چند دوستوں کو بلوچستان میں ریکوڈک نامی فیلڈ ایوارڈ ہوئی ہے ، انہیں 25فیصد شیئرز پر ایک پارٹنر چاہیے تم انہیں جوائن کرکے اربوں کماسکتے ہو ‘‘ یہ سن کر میں نے کہا ’’یہ مہربانی مجھ پر ہی کیوں ؟‘‘ شوکت عزیز قہقہہ ما ر کر بولے ’’ اس لیئے کہ ایک تو تم دوست، دوسرا آئل وگیس کا وسیع سیٹ اَپ ہونے کی وجہ سے تم اس کام کیلئے موزوں اور پھر تم بلوچ ہو اور بلوچوں کو جانتے ہو لہذا بلوچستان میں تم سے بہتر کوئی اور ہوہی نہیں سکتا ‘‘۔ اگلے دن شوکت عزیز نے فائل بھجوائی تو اس پرپہلی نظر ڈالتے ہی میں حیران رہ گیا کیونکہ اس فائل میں تو سونے اور تانبے کے ذخائر کی بات ہو رہی تھی، مجھے لگا کہ دال میں کچھ کالا ہے ، میں نے فوراً یہ فائل اپنی ٹیکنیکل ٹیم کو بھجوا کر ریکوڈک سے متعلق باخبر لوگوں سے پوچھنا شروع کردیا اور پھر ا گلی سہ پہر تک ٹیکنیکل ٹیم اور باخبر لوگوں کے فیڈ بیک سے جو کہانی بنی وہ کچھ یوں تھی ’’ افغانستان اور ایران کے بارڈر کے قریب اڑھائی لاکھ آبادی والے ضلع چاغی کے ایک پسماندہ گاؤں ریکوڈک میں دنیا کے پانچویں بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر نہ صرف بڑی خاموشی سے ایک غیر ملکی کمپنی اونے پونے داموں ہتھیا چکی بلکہ کچھ اپنے بڑے بھی اس سودے میں حصے داراور اس ڈیل کا فرنٹ مین مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والا ہمارا وہ بزنس مین جو کبھی بنگلہ دیشی حکومت کو بھی مطلوب تھا ، یہ سب جان کر مجھے اس نتیجے پر پہنچنے میں ذرا سی بھی دیر نہ لگی کہ یہ تو دن دیہاڑے ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے ۔ دو یا تین دن ہی گذرے ہوں گے کہ ایک شام شوکت عزیز بن بلائے میرے گھر آگئے ،علیک سلیک اور چند رسمی جملوں کے بعد اُنہوں نے بڑے رازدارانہ انداز میں پوچھا ’’فائل پڑھ لی ‘‘ میں نے کہا ’’ہاں پڑھ لی ‘‘ آہستگی سے بولے ’’ کیا فیصلہ کیا ‘‘ میں نے جواب دیا ’’یار میں اِس ڈیل کا حصہ نہیں بننا چاہتا ‘‘ یہ سنتے ہی شوکت عزیز کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا ، شدید حیرانگی میں وہ رُک رُک کر بولے ’’تمہیں ۔۔۔پتا ہے کہ ۔۔۔تم ۔۔۔ کروڑوں ڈالر ٹھکرا رہے ہو ‘‘ میں نے کہا ’’ہاں پتا ہے مگر کیا کروں میں کروڑوں ڈالروں کیلئے ملک تو نہیں لوٹ سکتا ‘‘یہ سن کر ماتھے پر تیوریاں چڑھا کر جب شوکت عزیز بولے تو انکے لہجے میں تلخی نمایاں تھی ’’ تمہارا مطلب ہے کہ ہم ملک لوٹ رہے ہیں ‘‘جب میں نے کہا ’’ہاں ‘‘ تو شوکت عزیز اُٹھے اور غصے سے پاؤں پٹختے کمرے سے نکل گئے ۔ شوکت عزیز کے جاتے ہی میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ ملکی اثاثہ لٹنے سے کیسے بچایا جائے اور پھراسی سوچ میں اگلے دن میں نے اپنے دوست قاضی حسین احمد کو فون کر کے انہیں پوری کہانی سنا ئی تو قاضی صاحب نے کہا ’’ یہ فائل ابھی مجھے بھجوادیں ‘‘، میں نے اُسی وقت ریکوڈک کی فائل اِنہیں بھجوا دی او رپھر 4پانچ روز بعد قاضی صاحب کا فون آگیا، کہنے لگے ’’ ہاشوانی بھائی واقعی دن دیہاڑے ملک لوٹنے کی تیاریاں ہیں ، اب بتائیں کرنا کیا ہے ‘‘ میں نے کہا ’’ قاضی صاحب میں سامنے نہیں آنا چاہتا ، فرنٹ پر مجھے آپکا ایک ایسا آدمی چاہیے جو ایماندار، نڈراور بکاؤ مال نہ ہو میں اس کے ذریعے ریکوڈک ڈیل کے خلاف عدالت میں جاؤں گا اور سارا خرچہ میرا ہوگا ‘‘ قاضی صاحب نے اگلے ہی دن مجھے ایک شخص کا نام بھجوادیااور میں نے ہفتے کے اندر اندر ایک نامور وکیل کرکے بلوچستان ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کردی ۔ صدر الدین ہاشوانی بات کرتے کرتے رُکے ، ٹھنڈے ہو چکے قہوے کا گھونٹ بھرااور سراج الحق کی طر ف دیکھ کر دوبارہ بولے ’’یہ کیس کیسے چلا ، ہائیکورٹ میں ہم کیوں ہارے ، ہمیں کیا دھمکیاں ملیں ، کیا آفرز ہوئیں ، ہم سپریم کورٹ میں کیسے آئے اور جسٹس چوہدری نے ملکی تاریخ کا سب سے بڑ اڈاکہ کیسے ناکام بنا دیا ، یہ ایک لمبی کہانی مگر میں یہاں یہ ضرور کہوں گا کہ اللہ قاضی صاحب کو جنت میں جگہ دے، اگر ان کا ساتھ نہ ہوتا تو میرے لیئے یہ سب کچھ کرنا بہت مشکل ہو جاتا ‘‘ ، مجھے یاد ہے کہ جب کیس حتمی مراحل میں تھا تب ایک سماعت کے بعد بیمار قاضی حسین احمد بڑی مشکل سے چھڑی کے سہارے چلتے ہوئے جسٹس چوہدری کے قریب جا کربولے ’’ چیف صاحب ہو سکتا ہے کہ میں زندہ نہ رہوں مگر آپکو وعدہ کرنا ہوگا کہ ملک کی محبت میں میری او رصدر الدین ہاشوانی کی اس لڑائی کو انجام تک پہنچا کر آپ ملک لٹنے سے بچائیں گے ‘‘ اور آپ ایک سچ اور بھی سن لیں کہ کروڑوں ڈالر کی پارٹنر شپ چھوڑ کر اس کیس پر اپنے پاس سے کروڑوں روپے لگا کر اور کیس سے علیحدہ ہونے پر 100ملین ڈالر کی پیشکش ٹھکرا کرمجھے کبھی ایک لمحے کیلئے بھی افسوس نہیں ہوا لیکن اب یہ دیکھ کر ہر لمحے افسو س ہو کہ قوم سوئی ہوئی اور مافیا ایک بار پھر ر یکوڈک ہتھیانے کی سازشوں میں لگا ہوا ، بات کرتے کرتے ہاشوانی صاحب کا لہجہ بھرّا گیا ، وہ چپ ہوئے ، اُنہوں نے عینک اتار کر بھیگی آنکھوں کو ٹشو سے صاف کیا ، عینک دوبارہ پہنی اور چند لمبی لمبی سانسیں لے کر بولے ’’ مگر میں نے اپنا کام کر دیا ‘‘ ۔

غرض کے کتے

- Posted in Infotainment by with comments

enter image description here

بادشاہ کا موڈ اچھا تھا‘ وہ نوجوان وزیر کی طرف مڑا اور مسکرا کر پوچھا ”تمہاری زندگی کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے“ وزیر شرما گیا‘ اس نے منہ نیچے کر لیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”تم گھبراﺅ مت‘ بس اپنی زندگی کی سب سے بڑی خواہش بتاﺅ“ وزیر گھٹنوں پر جھکا اور عاجزی سے بولا ”حضور آپ دنیا کی خوبصورت ترین سلطنت کے مالک ہیں‘ میں جب بھی یہ سلطنت دیکھتا ہوں تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے اگر اس کا دسواں حصہ میرا ہوتا تو میں دنیا کا خوش نصیب ترین شخص ہوتا“ وزیر خاموش ہو گیا‘ بادشاہ نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میں اگر تمہیں اپنی آدھی سلطنت دے دوں تو؟“ وزیر نے گھبرا کر اوپر دیکھا اور عاجزی سے بولا ”بادشاہ سلامت یہ کیسے ممکن ہے‘ میں اتنا خوش قسمت کیسے ہو سکتا ہوں“ بادشاہ نے فوراً سیکرٹری کو بلایا اور اسے دو احکامات لکھنے کا حکم دیا‘ بادشاہ نے پہلے حکم کے ذریعے اپنی آدھی سلطنت نوجوان وزیر کے حوالے کرنے کا فرمان جاری کر دیا‘ دوسرے حکم میں بادشاہ نے وزیر کا سر قلم کرنے کا آرڈر دے دیا‘ وزیر دونوں احکامات پر حیران رہ گیا‘ بادشاہ نے احکامات پر مہر لگائی اور وزیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا ”تمہارے پاس تیس دن ہیں‘ تم نے ان 30 دنوں میں صرف تین سوالوں کے جواب تلاش کرنا ہیں‘ تم کامیاب ہو گئے تو میرا دوسرا حکم منسوخ ہو جائے گا اور تمہیں آدھی سلطنت مل جائے گی اور اگر تم ناکام ہو گئے تو پہلا حکم خارج سمجھا جائے گا اور دوسرے حکم کے مطابق تمہارا سر اتار دیا جائے گا“ وزیر کی حیرت پریشانی میں بدل گئی‘ بادشاہ نے اس کے بعد فرمایا ”میرے تین سوال لکھ لو“ وزیر نے لکھنا شروع کر دیا‘ بادشاہ نے کہا ”انسان کی زندگی کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟“ وہ رکا اور بولا ”دوسرا سوال‘ انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے“ وہ رکا اور پھر بولا ”تیسرا سوال‘ انسان کی زندگی کی سب سے بڑی کمزوری کیا ہے“ بادشاہ نے اس کے بعد نقارے پر چوٹ لگوائی اور بآواز بلند فرمایا ”تمہارا وقت شروع ہوتا ہے اب“۔
وزیر نے دونوں پروانے اٹھائے اور دربار سے دوڑ لگا دی‘ اس نے اس شام ملک بھر کے دانشور‘ ادیب‘ مفکر اور ذہین لوگ جمع کئے اور سوال ان کے سامنے رکھ دیئے‘ ملک بھر کے دانشور ساری رات بحث کرتے رہے لیکن وہ پہلے سوال پر ہی کوئی کانسینسس ڈویلپ نہ کر سکے‘ وزیر نے دوسرے دن دانشور بڑھا دیئے لیکن نتیجہ وہی نکلا‘ وہ آنے والے دنوں میں لوگ بڑھاتا رہا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا یہاں تک کہ وہ مایوس ہو کر دارالحکومت سے باہر نکل گیا‘ وہ سوال اٹھا کر پورے ملک میں پھرا مگر اسے کوئی تسلی بخش جواب نہ مل سکا‘ وہ مارا مارا پھرتا رہا‘ شہر شہر‘ گاﺅں گاﺅں کی خاک چھانتا رہا‘ شاہی لباس پھٹ گیا‘ پگڑی ڈھیلی ہو کر گردن میں لٹک گئی‘ جوتے پھٹ گئے اور پاﺅں میں چھالے پڑ گئے‘ یہاں تک کہ شرط کا آخری دن آ گیا‘ اگلے دن اس نے دربار میں پیش ہونا تھا‘ وزیر کو یقین تھا یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے‘ کل اس کی گردن کاٹ دی جائے گی اور جسم شہر کے مرکزی پُل پر لٹکا دیا جائے گا‘ وہ مایوسی کے عالم میں دارالحکومت کی کچی آبادی میں پہنچ گیا‘ آبادی کے سرے پر ایک فقیر کی جھونپڑی تھی‘ وہ گرتا پڑتا اس کٹیا تک پہنچ گیا‘ فقیر سوکھی روٹی پانی میں ڈبو کر کھا رہا تھا‘ ساتھ ہی دودھ کا پیالہ پڑا تھا اور فقیر کا کتا شڑاپ شڑاپ کی آوازوں کے ساتھ دودھ پی رہا تھا‘ فقیر نے وزیر کی حالت دیکھی‘ قہقہہ لگایا اور بولا ”جناب عالی! آپ صحیح جگہ پہنچے ہیں‘ آپ کے تینوں سوالوں کے جواب میرے پاس ہیں“ وزیر نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا ”آپ نے کیسے اندازہ لگا لیا‘ میں کون ہوں اور میرا مسئلہ کیا ہے“ فقیر نے سوکھی روٹی کے ٹکڑے چھابے میں رکھے‘ مسکرایا‘ اپنا بوریا اٹھایا اور وزیر سے کہا ”یہ دیکھئے‘ آپ کو بات سمجھ آ جائے گی“ وزیر نے جھک کر دیکھا‘ بوریئے کے نیچے شاہی خلعت بچھی تھی‘ یہ وہ لباس تھا جو بادشاہ اپنے قریب ترین وزراءکو عنایت کرتا تھا‘ فقیر نے کہا ”جناب عالی میں بھی اس سلطنت کا وزیر ہوتا تھا‘ میں نے بھی ایک بار آپ کی طرح بادشاہ سے شرط لگانے کی غلطی کر لی تھی‘نتیجہ آپ خود دیکھ لیجئے“ فقیر نے اس کے بعد سوکھی روٹی کا ٹکڑا اٹھایا اور دوبارہ پانی میں ڈبو کر کھانے لگا‘ وزیر نے دکھی دل سے پوچھا ”کیا آپ بھی جواب تلاش نہیں کر سکے تھے“ فقیر نے قہقہہ لگایا اور جواب دیا ”میرا کیس آپ سے مختلف تھا‘ میں نے جواب ڈھونڈ لئے تھے‘ میں نے بادشاہ کو جواب بتائے‘ آدھی سلطنت کا پروانہ پھاڑا‘ بادشاہ کو سلام کیا اور اس کٹیا میں آ کر بیٹھ گیا‘ میں اور میرا کتا دونوں مطمئن زندگی گزار رہے ہیں“ وزیر کی حیرت بڑھ گئی لیکن یہ سابق وزیر کی حماقت کے تجزیئے کا وقت نہیں تھا‘ جواب معلوم کرنے کی گھڑی تھی چنانچہ وزیر اینکر پرسن بننے کی بجائے فریادی بن گیا اور اس نے فقیر سے پوچھا ”کیا آپ مجھے سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں“ فقیر نے ہاں میں گردن ہلا کر جواب دیا ”میں پہلے دو سوالوں کا جواب مفت دوں گا لیکن تیسرے جواب کےلئے تمہیں قیمت ادا کرنا ہو گی“ وزیر کے پاس شرط ماننے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا‘ اس نے فوراً ہاں میں گردن ہلا دی‘فقیر بولا ”دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے‘ انسان کوئی بھی ہو‘ کچھ بھی ہو‘ وہ اس سچائی سے نہیں بچ سکتا“ وہ رکا اور بولا ”انسان کی زندگی کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے‘ ہم میں سے ہر شخص زندگی کو دائمی سمجھ کر اس کے دھوکے میں آ جاتا ہے“ فقیر کے دونوں جواب ناقابل تردید تھے‘ وزیر سرشار ہو گیا‘ اس نے اب تیسرے جواب کےلئے فقیر سے شرط پوچھی‘ فقیر نے قہقہہ لگایا‘ کتے کے سامنے سے دودھ کا پیالہ اٹھایا‘ وزیر کے ہاتھ میں دیا اور کہا ”میں آپ کو تیسرے سوال کا جواب اس وقت تک نہیں دوں گا جب تک آپ یہ دودھ نہیں پیتے“ وزیر کے ماتھے پر پسینہ آ گیا ‘ اس نے نفرت سے پیالہ زمین پر رکھ دیا‘ وہ کسی قیمت پر کتے کا جوٹھا دودھ نہیں پینا چاہتا تھا‘ فقیر نے کندھے اچکائے اور کہا ”اوکے تمہارے پاس اب دو راستے ہیں‘ تم انکار کر دو اور شاہی جلاد کل تمہارا سر اتار دے یا پھر تم یہ آدھ پاﺅ دودھ پی جاﺅ اور تمہاری جان بھی بچ جائے اور تم آدھی سلطنت کے مالک بھی بن جاﺅ‘ فیصلہ بہرحال تم نے کرنا ہے“ وزیر مخمصے میں پھنس گیا‘ ایک طرف زندگی اور آدھی سلطنت تھی اور دوسری طرف کتے کا جوٹھا دودھ تھا‘ وہ سوچتا رہا‘ سوچتا رہا یہاں تک کہ جان اور مال جیت گیا اور سیلف ریسپیکٹ ہار گئی‘ وزیر نے پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں دودھ پی گیا‘ فقیر نے قہقہہ لگایا اور بولا ”میرے بچے‘ انسان کی سب سے بڑی کمزوری غرض ہوتی ہے‘ یہ اسے کتے کا جوٹھا دودھ تک پینے پر مجبور کر دیتی ہے اور یہ وہ سچ ہے جس نے مجھے سلطنت کا پروانہ پھاڑ کر اس کٹیا میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا تھا‘ میں جان گیا تھا‘ میں جوں جوں زندگی کے دھوکے میں آﺅں گا‘ میں موت کی سچائی کو فراموش کرتا جاﺅں گا اور میں موت کو جتنا فراموش کرتا رہوں گا‘ میں اتنا ہی غرض کی دلدل میں دھنستا جاﺅں گا اور مجھے روز اس دلدل میں سانس لینے کےلئے غرض کا غلیظ دودھ پینا پڑے گا لہٰذا میرا مشورہ ہے‘ زندگی کی ان تینوں حقیقتوں کو جان لو‘ تمہاری زندگی اچھی گزرے گی“ وزیر خجالت‘ شرمندگی اور خودترسی کا تحفہ لے کر فقیر کی کٹیا سے نکلا اور محل کی طرف چل پڑا‘ وہ جوں جوں محل کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے احساس شرمندگی میں اضافہ ہو رہا تھا‘ اس کے اندر ذلت کا احساس بڑھ رہا تھا‘ وہ اس احساس کے ساتھ محل کے دروازے پر پہنچا‘ اس کے سینے میں خوفناک ٹیس اٹھی‘ وہ گھوڑے سے گرا‘ لمبی ہچکی لی اور اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
کل پانامہ لیکس نے مزید 400 پاکستانیوں کے نام اگل دیئے‘ یہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل کی دوسری قسط تھی‘ پہلی قسط میں اڑھائی سو لوگوں کا نام آیا‘ دوسری نے 400 پردہ نشینوں کے نام آشکار کر دیئے اور تیسری‘ چوتھی اور پانچویں قسطوں میں مزید دو تین ہزار لوگ سامنے آ جائیں گے‘ پانامہ کے ساتھ ساتھ پاکستان لیکس بھی شروع ہو چکی ہیں‘ بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر سے 65 کروڑ روپے برآمد ہو ئے‘ یہ 40 ارب روپے کی کرپشن کی پہلی قسط ہے‘ مشتاق رئیسانی کو میر حاصل بزنجو کی سفارش پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سیکرٹری خزانہ تعینات کیا تھا‘ یہ دونوں بھی تحقیقات کے دائرے میں آ رہے ہیں‘ مشتاق رئیسانی کے انکشافات پورے صوبے کو ہلا کر رکھ دیں گے‘ پاکستانی لیکس اس کے بعد کے پی کے میں آئیں گی اور یہاں سے پنجاب جائیں گی‘ حکومت ان ملکی اور غیر ملکی لیکس سے بچنے کےلئے اپوزیشن کے ساتھ مل کر ٹی او آرز کے کھیل کو اگست تک کھینچنا چاہتی ہے‘ یہ ہو جائے گا‘ یہ لوگ بچ بھی جائیں گے لیکن ان لوگوں کو کسی دن کسی ٹھنڈی جگہ پر بیٹھ کر زندگی کے ان بنیادی سوالوں پر ضرور غور کرناچاہیے‘ انہیں یہ سوچنا چاہیے ہم لوگ کہیں زندگی کے دھوکے میں آ کر غرض کے پیچھے تو نہیں بھاگ رہے‘ ہم لوگ کہیں موت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے‘ ہم کہیں اس کہانی کے وزیر تو نہیں بن گئے ‘ مجھے یقین ہے ان لوگوں نے جس دن یہ سوچ لیا اس دن کے بعد کوئی پانامہ ہو گا اور نہ ہی لیکس‘ اس دن یہ لوگ غرض کے ان غلیظ پیالوں سے بالاتر ہو جائیں گے۔