بحرِ بیکراں
زاہد اکرام کے قلم سے
شراب حیات
لا
ساقیا لا پلا دے شراب
من کو دے جو رعشہ سیماب
جام گردش میں ہے تو تھام لے اسے
بڑھا
ہی جاتا ہے اور میرا اضطراب
پلا دے تو ایسی مے عشق
و مستی
چھیڑ دے جو ساز زندگی کا مضراب
پلا وہی جام دیدار جو یوم الست بخشا تھا
ختم ہو نفاذ لن ترانی اٹھا ساقیا حجاب
مے عشق نے ہے ماری عقل میری
اب تو ہی
سیکھا مجھے بندگی کے آداب
پلاے جا ساقی مجھے شراب حیات
زاہد کے
پیمانے کا نہ لے تو حساب