بحرِ بیکراں
زاہد اکرام کے قلم سے
ساقی نامہ
اک حسیں رات ، بانٹ رہا
تھا شرابِ حیات وہ مہ جبیں ساقی
اک گنہگار رند ، پیاسوں کی قطار
میں کھڑا تھا عطا کے انتظار میں
ساقی نے بھرا ہر طالبِ صادق
کا جام، خالی رہ گئے باقی
سیاہ کار رند کی بھی ہوئی رسائی مھرباں
کی سرکار میں
جام ملتے ہی اس پہ ٹوٹ پڑے سب رندانِ مشتاقی
پھر کیا ہوا؟ قوتِ یزداں آگئی ہر بیمار میں
دفعتاً لب سے
چھوٹا ساغر جب جم میں پایا نورِ آفاقی
ہوش رند کے اڑ گئے ساقی کے
حسن جمالِ دیدار میں
اپنے ہی من میں ڈوب گیا وہ رفتارِ براقی
ہاتف اجل سے نہ نکلی جاں جو الجھی ہوئی تھی زلفِ تابدار میں
ہو عطا جامِ عشق و مستی اس گہنگار کو بھی اے ساقی
لے کے آیا ہوں
خالی پیمانہ تیری سرکار میں
اے ساقی پلادے مجھ کو ایسی مے و
مستی کا ساغر
کہ پینے سے جسکے ہو جا ے سکون دلِ بیکرار میں
جتنی پلاتے ہو اتنی
ہی بڑھتی ہے میری پیاس ساقی
نہیں یہ قیاس آرائی مری روح کاہے
احساس ساقی
ختم کر دو نفاذ ِلن
ترانی اب تو ہٹا دو حجاب ساقی
یہ تھوڑا تھوڑا نشہ دید نہیں ہے
زاہد کو راس ساقی